امریکی ائیر پورٹس پر اَب سب کا
سب نظر آئے گا....؟
ایک عظیم مسلم شخصیت کا یہ قول ہے کہ ”بدبخت ہے وہ شخص جو خود تو مرجائے
مگر اِس کا گناہ نہ مرے یعنی وہ کوئی ایسا بُرا کام شروع کر جائے جو اِس کے
مرنے پر بھی جاری رہے“۔تو آج اِ س قول کی رو سے اگر دیکھا جائے تو مسلم
دنیا کا ہر فرد یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ امریکا اور برطانیہ سمیت اور بہت
سے یورپی ممالک کے سربراہاں کتنے بدبخت ہوں گے کہ جن کے مرنے کے بعد بھی
اِن کے گناہ جاری رہیں گے یعنی یہ کہ جنہوں نے اپنے ملک کی حفاظت کے تحت
اپنے ائیر پورٹس پر مسافروں (بالخصوص مسلمانوں)کی جامہ تلاشی کے لئے ایسے
باڈی اسکینرز نصب کرادیئے ہیں کہ جن سے گزر کاہر مسافر (مسلم مرد و عورت )کے
تمام باطنی عضاﺀ(بشمول شرم گاہیں) غیر محفوظ ہوجائیں گی اور یوں اِن مختلف
ممالک کے سربراہانِ کا گناہ کا شروع کرایا گیا بُرائی کا یہ کام اِن کے
مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا جس سے بنی نوع انسان خاص طور پر مسلم مرد و
عورت جب جب اِس گناہ آلود عمل سے گزریں گے تو اِس دوران وہ کتنی اذیتیں
اٹھاتے رہیں گے اور دل ہی دل میں یہ کام شروع کرانے کے احکامات جاری کرنے
والوں بددعائیں اور کو کوستے رہیں گے اِس کا اندازہ شائد اِن لوگوں کو تو
ابھی نہ ہوسکے مگر جب بعد میں اِنہیں اپنی اِس غلطی کا احساس ہوگا تو پانی
سر سے بہت اُونچا ہوچکا ہوگا اور پھر تب سوائے ندامت اور کفِ افسوس کے اُن
ممالک کے ہاتھ کچھ نہ آئے جنہوں نے اپنے یہاں مسلم ممالک سے آنے اور جانے
والے مسلمان مسافروں کی باڈی اسکینرز کے لئے ایسے اسکینرز نصب کرا دیئے ہیں
جس سے بالخصوص مسلم مسافروں کی تضحیک کی جارہی ہے۔
بہرحال! دنیا کے امیر ترین امریکا، برطانیہ اور بہت سے یورپی ممالک جن سے
متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں دولت کی ریل پیل ہے اور اِن ممالک میں جہاں
ہر فرد کو ہر قسم کی جدید آسائشیں زندگی میسر ہے مگر اِس کے ساتھ ہی اِن کے
معاشرے کے لوگوں کی حالات زندگی دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِن امیر
ترین ممالک کے لوگ کسی دنیا کے غریب ترین ملک کے باشندوں سے بھی گئے گزرے
ہیں کہ اِن ممالک میں اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی اِن کے یہاں کے مرد و زن
کا بغیر لباس رہنا اور اِن کا کپڑوں سے یکدم آزاد جسم کے ساتھ ننگا ہو کر
اور اِسی حالت میں آزادی سے گھومنا پھرنا بھی کوئی عیب تصور نہیں کیا جاتا
ہے۔ بلکہ اِن ممالک کے مرد اور عورت خود ننگا رکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں
اور اپنے اِس عمل سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اِن کا اِس طرح سے رہنا اِن کے
ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوئی رُکاوٹ نہیں ہے بلکہ اِن لوگوں نے خود
کو اِس طرح رکھ کر اپنے ملک کی معاشی اور اقتصادی ترقی میں صدیوں سے ایک
اہم کردار ادا کیا ہے اور اِن کی نظر میں جن مسلم ممالک کے لوگوں کے اپنے
جسموں کو لباس سے آزاد نہیں کیا وہ ممالک آج بھی اِس 21ویںصدی میں اپنی
ترقی اور عوام کی خوشحالی سے قطعاََ محروم ہیں۔
تو پھر گو کہ اِن کی اِسی بات اور سوچ پر مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ آج اِن
کے اِس ہی عمل ِبے حیائی اور ننگے پن کی وجہ سے دنیا کے بیشتر مسلم ممالک
اِن ملکوں کو سیکس فری زون کا درجہ دیتے ہیں اور اِن کے معاشرے کو کسی
حیوانی اصطبل سے تعبیر کرتے ہیں جہاں جانوروں کی طرح جنسی فعل کے کرنے کا
کوئی قانون قاعدہ ہے اور نہ ہی کوئی ٹائم ہے بلکل اِسی طرح امریکا، برطانیہ
اور یورپ کے ممالک میں بھی ایسا ہی ہے کہ جب جس مرد کا جی چاہئے وہ کسی بھی
عورت کے ساتھ اور جس عورت کا جب جی چاہئے وہ کسی بھی مرد کے ساتھ کہیں بھی
اپنی جنسی تسکین حاصل کرسکتے ہیں۔
اور اَب اِن ممالک امریکا اور برطانیہ نے تو حد ہی کردی ہے کہ اُنہوں نے
اپنے یہاں آنے والے پاکستان، سعودی عرب، اور نائجیریا سمیت14 مسلم ممالک جن
میں ایران، سوڈان، شام، الجزئر، لبنان، لیبیا، عراق، صومالیہ اور یمن شامل
ہیں اِن ممالک کے ہر شہری کو دہشت گرد اور دہشت گردی کا حامی قرار دے کر
اپنے ائیرپورٹس پر اِس کی غیر معمولی اسکینگ کے ساتھ جامہ تلاشی سمیت سخت
چیکنگ کے عمل سے ہر صورت میں گزرنے کا ایک ایسا نظام بھی نصب کردیا ہے کہ
جس سے متعلق مسلم ممالک میں شدید بے چینی کے ساتھ ساتھ تحفظات اور خدشات
بھی پیدا ہو رہے ہیں تو وہیں مسلم دنیا سے شدید ردِعمل بھی سامنے آرہے ہیں۔
جبکہ اِس کے بلکل برعکس امریکا اور برطانیہ کا اپنے اِس سسٹم سے متعلق یہ
مؤقف ہے کہ وہ سیکورٹی مقاصد کے تحت اپنے یہاں ایسا کررہے ہیں اوروہ اپنے
ائیر پورٹس پر نصب کئے گئے اِس نظام سے خصوصی ہول باڈی اسکینرز کے دوران
مسافروں کے مکمل جسم کا باآسانی معائنہ کرسکیں گے تو وہیں وہ یہ بھی دیکھ
کر مطمئین ہوپائیں گے کہ بھارت اور دیگر ممالک کے علاوہ بالخصوص مندرجہ
بالا مسلم ممالک کا کوئی مسافر اِن کے ملک میں آتے، جاتے وقت کوئی پوشیدہ
دھماکہ خیز مواد یا اسلحہ تو اپنی باڈی کے ساتھ نہیں لے جارہا ہے کہ جس سے
دہشت گردی کا پھر کوئی نائن الیون جیسا نیا واقعہ رونما ہوجائے اور دہشت
گرد اپنے عزائم میں کامیاب ہوجائیں۔
اگرچہ یہ امریکا اور یورپ جیسے بے حیا اور ننگے معاشرے کے لئے سیکورٹی کی
آڑ میں مسافروں کا خصوصی اسکینرز سے ننگا دیکھنا کوئی عیب نہ ہو جہاں پہلے
ہی مدر پدر آزاد ماحول میں عورت و مرد اپنی شرم گاہوں کی کھولے عام نمائش
کراتے اور اپنی جنسی ہوس مٹاتے نظر آتے ہیں مرد و زن کو کسی ایسی مشین سے
دیکھیں کہ وہ اِن کی شرم گاہیں تک دیکھ لیں تو کوئی عیب نہیں مگر دنیا کے
وہ مسلم ممالک جہاں مرد و زن کو اپنا ستر چھپانا اور ڈھانپنا مذہبی فریضہ
سمجھا جاتا اُن مسلم ممالک کے شہری (جو مرد اور عورت دونوں ہی ہوں گے ) جب
وہ امریکا اور یورپ جیسے ممالک کا رخ کریں گے تو اِنہیں اِن ممالک کے ائیر
پورٹس پر نصب سیکورٹی کی آڑ میں اِن کے ننگے معاشرے کی عکاسی کرتے اِن کے
بنائے ہوئے ننگے سسٹم سے ضرور گزرنا ہوگا جس سے امریکا اور یور پ آنے والے
مسلم ممالک کے شہریوں کو شدید ذہنی اور جسمانی اذیتیں اٹھانی پڑیں گیں تو
وہیں اِن کی عزتِ نفس بھی مجروح ہوگی جو حقوق انسانی کے ضابطہ اخلاق کی بھی
کھلی خلاف وزری کے مترادف ہے۔
اور جو مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے اورنہ صرف یہ بلکہ یہاں سوچنے کی ایک
بات تو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں نائن الیون کے بعد سے آج تک امریکیوں کی
طرح ہر دوسرا مسلمان بھی برائیوں کا رونا رو رہا ہے لیکن اُس برائی کو
روکنے کے لئے جس کی وجہ سے امریکا میں ہولناک تباہی کا یہ کھیل کھیلا گیا
اِس کھیل کو سمجھنے کی کوئی مسلمان یہ کوشش ہی نہیں کررہا کہ نائن الیون کو
امریکی عمارتوں کی تباہی کے پیچھے جو سازش کارفرما رہی اِس میں خود امریکی
اور اسرائیلی شامل تھے جنہوں نے اُس روز اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی کا ایک
ایسا نقشہ دنیا کے سامنے بنا کر اچھوتے انداز سے پیش کیا کہ اِس سارے
معاملے میں وہ بڑی صفائی سے خود تو نکل گئے مگر اپنی اُس ساری تباہی کا
ملبہ مسلمانوں کے کاندھوں پر ڈال کر امت مسلمہ کو اپنی تباہی اور بر بادی
میں ملوث کر گئے۔ یہ ہے وہ سمجھنے کی بات جِسے اگر اُمت مسلمہ سمجھ جائے تو
اِس کی ساری مشکلیں حل ہوجائیں اور امریکا کی ساری بہادری اور رعب خاک میں
مل جائے۔ اور اُمت مسلمہ امریکا سے اپنا بدلہ لینے کے لئے اٹھ کھڑی ہو۔
اور اِس کے ساتھ ہی آخر میں اپنے کالم کے اختتام پر میں یہ کہنا چاہوں گا
کہ اور اگر امریکیوں اور برطانیہ والوں نے اپنی یہ روش نہ بدلی تو پھر اِن
کی اِس ہٹ دھرمی کے خلاف دنیا بھر میں مسلم ممالک احتجاجی مظاہروں اور
ریلیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیں گے۔ جس سے امریکا، برطانیہ
اور بعض اُن یورپی ممالک کے خلاف بھی مسلم اُمہ میں نفرت کا لاوا اُبل پڑے
گا جنہوں نے اپنے یہاں دنیا بھر سے آنے والے مسلمانوں کو روکنے کے لئے
خصوصی ہول باڈی اسکینرز نصب کردیئے ہیں۔
مگر آج مجھے انتہائی افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ امریکیوں اور
اسرائیلیوں کی اِس ناپاک سازش کو امت مسلمہ شائد سمجھنے سے اَب تک قاصر نظر
آرہی ہے تب ہی تو آج بھی یہ خصیلی اور انتہائی گرم مزاج مسلمہ اُمہ یہود و
نصاری کا یہ اِلزام اپنے سر لئے خاموشی سے بیٹھی ہے کہ بقول امریکیوں کے
نائن الیون کو امریکی ٹریڈ سینٹر اور دیگر مقامات کی تباہ کاری میں مسلمان
ملوث ہیں حالانکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہے جس کا امریکا اور
اِس کے حواری ممالک کئی سالوں سے ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور دنیا بھر کے
مسلمانوں کو دہشت گرد تصور کرانے کا پروپیگنڈہ جاری رکھ کر مسلمانوں کی
تعلیم و ترقی اور اِن کی خوشحالی کو روکنے کے لئے اَب اُنہوں نے اپنے یہاں
مسلمانوں کو آنے کی پابند کا یہ حربہ استعمال کیا ہے کہ اِن سب نے اپنے
ائیرپورٹس پر ایسے باڈی اسکینرز نصب کروا دیئے ہیں کہ جس سے مسلم ممالک سے
آنے والے مسلمان مسافروں ائیر پورٹس پر نصب باڈی اسکینرز سے گزر کے عمل کے
دوران ہی اِن کی شرمگاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی اور اِس طرح دنیا کے کسی
بھی کونے سے امریکا اور برطانیہ آنے والا مسلمان اسکینرز کے اِس عمل کو
معیوب سمجھے گا اِس بنا پر مسلمان امریکا اور اِس جیسے دیگر ممالک کا رخ
بھی نہیں کرپائیں گے۔ |