ریزرویشن:مسلم دشمنی اور تعصب کا شکار

ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری اور سیکولرملک کہلاتاہے،کروڑوں سے زائد مسلمان اور دیگر اقلیتوں کا جو حال ہے، وہ بھارت کے اس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے جہاں پر دیگر مذا ہب کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو جن کی دشمنی ہندو کٹر پنتھیوں (بھگوا تنظیم) کی نس نس میں بھری ہوئی ہے میں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت میں جمہوری حکومتیں اور جمہوری ادارے کثیر تعداد میں ہونے کے ساتھ ساتھ کہیں زیادہ مضبوط بھی ہیں۔لیکن اقلیتوں کے ساتھ مذہبی رواداری ، بھائی چارہ، اخوت و محبت ، عدل و انصاف بالکل ہی نا پید ہے۔۔ اگر ہم گزشتہ کچھ مہینوں کی صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ بھارت میں جہاں پہلے بھی اقلیتوں کے جان و مال محفوظ نہ تھے، نریندر مودی کی حکومت کے آنے کے بعد سے حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ موجودہ کٹر ہندو پرست ، انتہا پسند مودی حکومت کے آنے کے بعد سے جہاں ایک طرف ہندوؤں کا حوصلہ مسلمانوں پر ظلم و ستم لعن طعن ،زبان درازی کے سلسلے میں بڑھتا جا رہا ہے، وہاں دوسری جانب مسلمان بھی اب ہندوؤں سے آزادی حاصل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں مسلم نوجوان جیلوں میں قید وبند کی صعوبتوں کو جھیل رہے ہیں ۔یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ’’آر ایس ایس‘‘ نامی انتہا پسند ہندو تنظیم نے اپنے قیام سے لے کر آج تک اس موقف کو کبھی راز نہیں رکھا کہ اس کا ہدف برِصغیر جنوبی ایشیاء کو اکھنڈ بھارت میں تبدیل کرنا اور یہاں رام راجیہ قائم کرنا ہے۔اور ’’آر ایس ایس‘‘ کے سیاسی ونگ ’’بی جے پی‘‘ نے بھی خود کو کبھی ہندو انتہا پسندی کے نظریات سے لا تعلق قرار نہیں دیا ۔یہی وجہ رہی ہے کہ ہندو انتہا پسندی کا فروغ روز افزوں بڑھتا رہا۔’’بی جے پی‘‘ اور ’’آر ایس ایس‘‘ کے بعض حلقے تو اول وقت ہی سے کہتے رہے ہیں کہ حکومت ملنے کی صورت میں غیر ہندوؤں کے سامنے دو ہی راستے ہوں گے یا تو وہ ہندو بن کر رہنا قبول کریں ،دوسری صورت میں پاکستان یا بنگلہ دیش کی طرف کوچ کر جائیں۔ لوک سبھا الیکشن یعنی سولہویں عام انتخابات میں بھی اپریل ۲۰۱۴ کو ’’بی جے پی‘‘ نے اپنا انتخابی منشور جاری کرتے ہوئے دیگر باتوں کے علاوہ درج ذیل تین نکات کو اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا تھا۔

( ۱) ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد (جسے ۶دسمبر ۲۹۹۱کو مسمار کر دیا گیا تھا) کی جگہ پر رام مندر تعمیر کیا جائے گا۔( ۲) مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے الگ پرسنل لاء ختم کر کے پورے بھارت میں مشترکہ سول کوڈ نافذ کیا جائے گا یعنی مسلمانوں کے شادی بیاہ اور وراثتی معاملات سے متعلق اسلامی روایات اور قوانین کو ختم کر کے اکثریتی طبقے کے یعنی ہندو قوانین نافذ کیے جائیں گے۔ان سب منشور پر تو عمل منصوبہ بند طریقے پر کب کا شروع ہوچکا ہے فی الحال ۵ فیصد مسلم ریزرویشن بل کا معاملہ بھی تعصب کا شکار ہوگیا،ریاست کی فرنویس حکومت نے مسلمانوں کے تعلق سے تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف مراٹھوں کا ریزرویشن بل بحال کر دیا اور مسلمانوں کے ساتھ مکمل خاموشی اختیار کر لی۔بی جے پی کی حکومت نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے ،اس ریزر ویشن پر دوغلی پالیسی اختیار کرنے کے ساتھ ہی زعفرانی پارٹی کے دعوے کھوکھلے اور جھوٹے ثابت ہو گئے ہیں۔آبادی کے تناسب سے ریزرویشن کو مذاق بنایا گیا ہے۔ریاستی سرکار کھلے طور پر مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کر رہی ہے،ریاستی وزیر اعلیٰ فرنویس بھی بی جے پی کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں جس کا نمونہ ناگپور اسمبلی اجلاس سے ظاہر ہوتا ہے،جہاں مراٹھا ریزرویشن کو فوراً منظور کر لیا گیا لیکن مسلمانوں کو ایک بار پھر فرقہ پرست نظریات رکھنے والوں نے مایوس کردیا۔جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ آبادی کے تناسب سے تمام مذاہب اور ذاتوں کو ریزرویشن دیا جاتا،مسلم سماج کی معاشی ،تعلیمی اور سماجی صورتحال کا جائزہ لینے کی خاطر گوپال کمیشن،رنگناتھن مشرا کمیشن،سچر کمیٹی،محمود رحمن کمیٹی،کا قیام عمل میں لایا گیا تھا مگر یہ بھی سیاسی تعطل کا شکار یا ووٹ بینک کی نظر ہوگیا۔جبکہ دستور ہند میں کسی بھی پسماندہ سماج کی بہتری کیلئے خصوصی انتظام سے متعلق خلاصہ کیا گیا ہے۔مراٹھا سماج کا ۱۶ فیصدریزر ویشن منظور ہونا اور مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ بی جے پی کی سرکار میں مسلمانوں کا کوئی بھی کام سرکار کی جانب سے نہیں کیا جائے۔اس موقع پر نریندر مودی بھی چپ سادھے ہوئے ہے مودی مشکل میں ہیں، قوم کی دشمنی بھی اچھی نہیں اور آرایس ایس کو بھی ناراض کرناممکن نہیں جو اکھنڈ بھارت کی علمبردار ہے اور مودی جس کے کارکن رہے ہیں۔

Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 226 Articles with 276945 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More