کیا فوجی عدالتوں کے قیام سے ملکی حالات سدھر سکتے ہیں؟؟؟

زندگی غم و خوشی کے حسین امتزاج کا نام ہے ۔رواں سال اختتام پذیر ہو رہا ہے ان گنت ستارے اپنی اپنی چھب دکھا کر ڈوب گئے ،کئی سورج زوال پزیر ہوگئے اور کئی ہمارے پیارے ہمیں داغِ مفارقت دے گئے اور بے شمار اندوہناک سانحات اور المناک لرزہ خیز حادثات دل و دماغ پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے ۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ رواں سال امت مسلمہ کے لیے آزمائش کا سال تھا ۔دل لہو لہو ہیں اور آنکھیں نوحہ کناں ہیں ،مگر ۔۔آج سوال یہ ہے کہ ہم نے ان واقعات ،حادثات اور سانحات سے کیا سبق سیکھا ؟؟؟

کیا صرف آنسو بہانے اور ماتم کرنے سے بگڑے حالات سدھر جائیں گے ؟یہ دوڑ دھوپ کیا حوصلہ افزا نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوگی ؟کیا ارباب اختیار کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے تحفظ کی بھی یقین دہانی کروائی جائے گی ؟یا یہ اقدامات اور ارادے برف پر لکھے فیصلے ثابت ہونگے ۔۔!!!کیونکہ اس سے تو سبھی آگاہ ہیں کہ ہماری یاداشت بہت کمزور ہے ،درد و غم چاہے کتنا بھی سنگین کیوں نہ ہو ہم اسے جلد فراموش کر دیتے ہیں اور ہنگامۂ زندگی میں کھو جاتے ہیں۔ا گر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم پے در پے غموں سے بر سر پیکار نہ ہوتے،واہگہ باڈر کے لرزہ خیز سانحے کے بعد سانحہ پشاور پیش نہ آتا ۔

حیف صد حیف ہمارے سیاستدانوں کے ذاتی خلفشار اور اتحادملت کے انتشار نے سیکیورٹی اداروں کو بھی مصروف کر دیا اور اس آپسی جنگ نے حالات کو اس قدر گھمبیر کیا کہ حریف جال بچھانے میں کامیاب ہو گیا اور حکمران یہ بھی بھول گئے کہ وقت کس چیز کا متقاضی ہے اورحالات کی سنگینی سے سب باخبر تھے کہ دہشت گردی کا زہر اس ملک کے استخوانوں میں بولتا ہے ۔مگر مست مئے پندار رہے اورچوہدری نثار نے ۹ ماہ پہلے عوام سے جو وعدہ کیا تھا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایک طاقتور اور جامع حکمت عملی اختیار کی جائے گی اور دہشت و خونریزی کے بادل جو اس ملک پر چھائے ہوئے ہیں ان کا جل از جلد قلع قمع کر دیا جائے گا، یہ وعدہ بھی مفادات کی ٹیبل تک محدود ہو گیا اور ملکی سالمیت کو سیاسی اختلافات اور حرص و طمع کے دیمک نے چاٹنا شروع کر دیا ۔نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ آج ملکی قیادت مسلسل اس فکر میں مبتلا ہے کہ ملک کیسے چلے گا ۔

مگر آج یہ خوش آئند ہے کہ پشاور خونریزی نے جہاں عقل و فہم کی قوت صلب کر لی وہاں اتنا تو ہوا کہ آرمی چیف ،جنرل راحیل شریف کی دہشت گردی کے خلاف عزم و ہمت کو دیکھتے ہوئے تمام سیاسی قائدین کو آمادۂ عمل ہونا پڑا ،ایسے میں تمام سیکیورٹی ادارے بھی کسی حد تک حرکت میں آچکے ہیں اور قانون کے نفاز کو یقینی بنانے کے لیے سبھی کوشاں ہیں ،مگر یہ مقام حیرت ہے کہ آج جبکہ پوری قوم دہشت گردی کے خلاف ایک صف میں کھڑی ہوچکی ہے اور افواج پاکستان اور حکومت ظلم کا خاتمہ کرنے اور انصاف کو پروان چڑھانے کا تہیہ کر چکے ہیں ،ایسے میں یورپی یونین اور وہ اقوام، جو دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ بولتے رہے ،آج انسانی ہمدردی کا نام دیکر پاکستان میں پھانسی کی سزا کو بربریت اور غیر انسانی فعل قراردے رہے ہیں ۔جبکہ ان ممالک کی کئی ریاستوں اور کئی دیگر ممالک میں آج بھی سزائے موت کا قانون موجود ہے ۔اور جو اس کے خلاف پراپیگنڈا کر رہے ہیں جب وہ ڈرون حملوں میں ہزاروں بے گناہوں کو خاک کرتے ہیں ،انھیں اس وقت انسانی حقوق یاد کیوں نہیں آتے ۔اوران کی عدالتی سزاؤں اور عقوبت خانوں میں جو سلوک کیا جاتا ہے کیا وہ کسی انسان کے بنیادی آزادی کے حقوق میں آتا ہے جبکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے ۔جہاں کے قوانین میں اسلامی رنگ موجود ہے ،تو ایسے جرائم کے خلاف پروپیگنڈا کرنا خدا کے احکام کی نافرمانی پر آمادہ و تیار کرنے کے مترادف ہے ۔سزا میں بہت سے پہلو کارفرما ہوتے ہیں ،جس میں اصلاح معاشرہ ،عبرت عامہ اور فریقین کے جزبۂ انتقام کی تسکین شامل ہے ۔اور جس نے انسان کو زندگی دی ہے اس نے انسانوں کو عزت اور آزادی سے اپنی جان و مال کو محفوظ رکھنے کا حق بھی دیا ہے ۔اسی وجہ سے خدائے بزرگ و برتر نے بھی جو سزائیں مقرر کی ہیں وہ ایسی حدیں ہیں کہ ان کو توڑنے سے معاشرے میں بد امنی ،بے چینی ،استحصال ،وحشت و بربریت اور دہشت گردی جیسی لعنتیں وجود میں آتی ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی اور قانونی حلقے سزائے موت پر عمل درآمد کے حق میں ہیں ،جن کا مؤقف ہے کہ سزا کے تصور کے بغیر کوئی معاشرہ فلاح و ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکتا ،اگر سزا کا خوف نہ رہے تو جرائم عام ہوتے ہیں اور یہی ہوا جب سے سزاؤں میں ترمیم کی گئی کہ جرائم عام ہو گئے ، سزائیں مذاق بن گئیں اور معاشرہ جنگل کی صورت اختیار کر گیا لیکن اب اس پر سنجیدگی سے سوچنے اور عملدر آمد کی ضرورت ہے، اورایسے میں یہ بات قابل ستائش ہے کہ وزیر اعظم پاکستان ،میاں نواز شریف نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑیں گے اور اس کے منطقی انجام تک پہنچا کرہی دم لیں گے اور امن عامہ اورملکی فلاح و بہبود کو یقینی بنائیں گے ۔مگر ۔۔

یہاں یہ بات بھی قابل فکر ہے کہ ہماری سول قیادت ،مسلسل فوجی قیادت کی زیر نگرانی انتظامات کی خواہاں نظر آتی ہے ۔اوراب فوجی عدالتوں کے قیام پر غور و فکر جاری ہے جبکہ آئینی ماہرین نے فوجی افسران پر مشتمل خصوصی عدالتوں کی تشکیل کو خلاف آئین قرار دیا ہے ۔کیونکہ ملک میں پہلے ہی سے آئین و قانون کے تحت تشکیل کردہ عدالتی نظام موجود ہے ،جس میں انسداد دہشت گردی کے قوانین اور تقاضوں کے تحت خصوصی عدالتیں موجود ہیں جو اپنی ذمہ داریاں بھی نبھا رہی ہیں ۔اس لیے بھی یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ایک عدالتی مؤثر اور رائج نظام کی موجودگی میں فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کے قیام سے ، دوہرے نظام کی قباحتیں بھی پیدا ہو سکتی ہیں ۔یہ فیصلہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ عدالتیں اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے اور پولیس مناسب حفاظتی انتظامات کرنے سے قاصر ہیں ۔کیونکہ تعلیمی ادارے بھی غیر معینی مدت کے لیے بند ہونے کے امکانات بھی نظر آرہے ہیں ۔

میں تکرار کی عادی نہیں مگر مجھے آپ کی تغافل کیشی کے پیش نظر بار بار یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری قوم کی یاداشت کمزور ہے اور سیاست دانوں کے وعدے اور ارادے پانی پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح ہیں مگر وقت متقاضی ہے کہ ہم آج یہ ارادہ کر لیں کہ ہم ایک قوم ہیں وہ قوم جس کی بنیاد ترتیب ،جغرافیہ اور نسل و رنگ کی ادنیٰ تفریقات سے بالا تر ہے بلاشبہ ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اتحاد و یگانگت کا عملی مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارا حریف اپنے ارادوں اور مضموم مقاصد کے حصول کے لیے پرعزم دکھا ئی دیتا ہے ۔آج ہمیں اس بات کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیئے کہ واضح اور غیر مبہم اقدامات اور ارادے ہی ہمیں ممکنہ نقصانات سے بچا سکتے ہیں اور اخلاص پر مبنی حکمت عملیاں ہی ہماری بقا کی ضامن ہونگی ۔ آج اگر ملک میں ہمارے قائدین نے فوجی عدالتوں کے قیام کے بارے میں کوئی ارادہ کیا ہے تو سب کو چاہیئے جو اس کے بارے تحفظات رکھتے ہیں ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کھل کر بات کریں اور اگر عدالتوں کا قیام ناگزیر ہے، تو پھر اس کے لیے ایسے قوانین اور حدیں مقرر کی جائیں کہ جس سے موجودہ حکومت یا کوئی ادارہ اپنے ذاتی یا انتقامی اہداف حاصل نہ کر سکے ۔ہاں اگر واقعتا کسی بڑے سے بڑے نامور اور زور دار فرد یا جماعت کے اوپر کسی سنگین واردات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ ماضی میں رائج عدالتی نظام پر اثر انداز ہو کر کیفر کردار تک پہنچنے سے بچتے رہے ہیں تو آج بلا شبہ ان کو اپنے کئے ہوئے کی اگر مناسب اور فوری سزا فوجی عدالتیں دے سکتی ہیں یا اسی طرح کے دیگر معروف جرائم پیشہ افراد کو نتھ ڈالی جا سکتی ہے تو پھر کسی بھی قسم کے ایسے مؤثر پروگرام کو جاری کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارارائج عدالتی نظام اور مختلف سطح کی عدالتیں لاتعداد قومی جرائم کرنے والے ، قومی مجرموں کو بری کرنے میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کرتی آ رہی ہیں ،اور انصاف کی فراہمی کا بھی فقدان ہے اگررائج عدالتی نظام میں بے شمار نقائص نہ ہوتے تو فوجی عدالتوں کی کبھی بات نہ ہوتی ۔آج جو لوگ بھی ایسی عدالتوں کے خلاف شک و شبہہ کا اظہار کر رہے ہیں وہ ناجانے کس طرح کے خدشات کی فکر میں مبتلا ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کے انتظامی اور سیاسی اداروں کی اکثریت ہی حمام میں ننگے ہونے کے مترادف ہے ،ایسے حالات میں ہماری افواج جو ملکی سلامتی اور بقا کی ضامن ہیں اگر ان سے بھی کسی طرح سے یا کسی حد تک بھی کسی کٹھ پتلی کا کردار ادا ہوا تو اس سے اس مقدس ادارے کی عزت خطرے میں پڑنے کا امکان پیدا ہوجائے گا ۔جو کہ بہت خطرناک ہو گا ۔اس لیے آج تمام ذمہ داران کو ملکی سلامتی اور بقا کے لیے مل بیٹھ کر سوچنا چاہیئے کہ کیا فوجی عدالتوں کے قیام اورفوجی مداخلت سے حالات سدھر سکتے ہیں اور اگر اس چیز پر اتفاق رائے ہو جائے گا تو پھر اختلاف رائے ختم کر دینا چاہیئے ۔

Ruqquya Ghazal
About the Author: Ruqquya Ghazal Read More Articles by Ruqquya Ghazal: 50 Articles with 37748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.