حضرت مریم علیہا السلام
(Mian Abdullah Dilbar, Faisalabad)
(آل عمران ۳ آیات ۳۵ تا ۳۷)
ترجمہ: (وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے) جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے
پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا
کے کاموں سے آزاد رکھوں گی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما تو تو سننے والا
(اور) جاننے والا ہے ۔جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا
ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار! میرے تو لڑکی ہوئی
ہے اور (نذر کے لیے) لڑکا (موزوں تھا کہ وہ) لڑکی کی طرح (نا تواں) نہیں
ہوتا اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو
شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔ تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے
ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا اور ز کریا کو اس کا متکفل
بنایا ز کریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانا
پاتے (یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن مریم سے) پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا
تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے وہ بولیں خدا کے ہاں سے (آتا ہے) بیشک خدا جسے
چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے
تفصیل و وضاحت
حضرت مریم کی والدہ نے جو منت مانی تھی وہ اس توقع سے مانی تھی کہ ان کے
ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔ کیونکہ اس عہد میں لڑکے تو اللہ کی عبادت کے لیے وقف
کئے جاتے تھے۔ مگر لڑکیوں کو وقف کرنے کا رواج نہ تھا۔ مگر ہوا یہ کہ لڑکے
کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی تو انہیں اس بات پر افسوس ہونا ایک فطری امر تھا۔
یہود میں دستور تھا کہ وہ اس طرح کے منت مانے ہوئے وقف شدہ بچوں کو بیت
المقدس یا ہیکل سلیمانی میں چھوڑ جاتے اور انہیں ہیکل سلیمانی یا عبادت
خانہ کے منتظمین جنہیں وہ اپنی زبان میں کاہن کہتے تھے، کے سپرد کر آتے
تھے۔
حضرت مریم کی والدہ کی منت کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور حضرت
مریم کی جسمانی اور روحانی تربیت خوب اچھی طرح فرمائی۔ جب وہ سن شعور کو
پہنچ گئیں اور مسجد (عبادت خانہ) میں جانے کے قابل ہوگئیں تو سوال یہ پیدا
ہوا کہ ان کا کفیل اور نگران کون ہو؟ کیونکہ ہیکل سلیمانی میں بہت سے کاہن
تھے جن میں ایک حضرت زکریا بھی تھے۔ بالآخر یہ سعادت حضرت زکریا علیہ
السلام کے حصہ میں آئی۔ کیونکہ ان کی بیوی حضرت مریم کی حقیقی خالہ تھیں
اور یہ قصہ تفصیل سے آگے بیان ہو رہا ہے۔
ہیکل میں محراب ان بالا خانوں کو کہا جاتا تھا جو مسجد کے خادم، مجاورین
اور ایسے ہی اللہ کی عبادت کے لیے وقف شدہ لوگوں کے لیے مسجد کے متصل بنائے
جاتے تھے۔ انہیں کمروں میں ایک کمرہ حضرت مریم کو دیا گیا تھا۔ جس میں وہ
مصروف عبادت رہا کرتیں۔ اس کمرہ میں حضرت زکریا کے علاوہ سب کا داخلہ ممنوع
تھا۔ حضرت مریم علیہ السلام کے لیے سامان خورد و نوش بھی حضرت زکریا ہی
وہاں پہنچایا کرتے تھے۔ پھر بارہا ایسا بھی ہوا کہ حضرت زکریا خوراک دینے
کے لیے اس کمرہ میں داخل ہوئے تو حضرت مریم کے پاس پہلے ہی سے سامان خورد و
نوش پڑا دیکھا۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ جب میرے بغیر یہاں کوئی داخل
نہیں ہوسکتا تو یہ کھانا اسے کون دے جاتا ہے؟ حضرت مریم سے پوچھا تو انہوں
نے بلاتکلف کہہ دیا۔ اللہ کے ہاں سے ہی مجھے یہ رزق مل جاتا ہے۔ اس سے
زیادہ میں کچھ نہیں جانتی۔
سیدہ مریمؑ بیت المقدس کے مشرقی جانب کے ایک حجرہ میں گوشہ نشین ہو کر اللہ
کی عبادت میں مشغول رہا کرتیں۔ پھر اس کمرہ میں بھی ایک پردہ ڈال لیا تاکہ
دوسرے لوگوں سے بھی الگ تھلگ رہ کر پوری یکسوئی سے ذکر و فکر میں مشغول رہ
سکیں۔ ان دنوں فرشتے ان سے ہمکلام ہوا کرتے تھے۔ فرشتوں ہی نے حضرت مریم کو
اطلاع دی کہ اس کا پروردگار اس پر کس قدر مہربان ہے اور اس نے حضرت مریم کو
سارے جہان کی عورتوں پر فضیلت اور ترجیح دی ہے۔
ایک دن سیدنا جبریل ایک نوجوان اور خوبصورت مرد کی شکل میں اسی پردہ کے
مقام پر انسانی شکل میں نمودار ہوگئے۔
یہ صورت حال دیکھ کر سیدہ مریمؑ سخت خوفزدہ ہوگئیں اور ان کے لئے یہ
انتہائی نازک وقت تھا۔ خود بھی نوجوان تھیں، سامنے نوجوان اور خوش شکل مرد
کھڑا تھا۔ تنہائی تھی، کوئی دوسرا پاس موجود بھی نہ تھا۔ نووارد کا نورانی
چہرہ دیکھ کر اندازہ کیا کہ آدمی تو کوئی پرہیز گار ہی معلوم ہوتا ہے۔ لہذا
اسے اللہ کا واسطہ دے کر کہا کہ میں تیری طرف سے رحمن کی پناہ میں آتی ہوں۔
یعنی اس بات سے کہ تو مجھ پر کسی قسم کی دست درازی کرے۔ فرشتے نے جواب دیا۔
گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اگر میرے متعلق کوئی برا خیال آیا ہے تو اسے
نکال دو۔ میں آدمی نہیں بلکہ تمہارے پروردگار کا فرستادہ فرشتہ ہوں اور اس
لئے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطاکروں۔ اس
وضاحت پر سیدہ مریم کا پہلا خوف تو دور ہوگیا کہ یہ کوئی بدکار آدمی نہیں
بلکہ اللہ کا فرستادہ فرشتہ ہے ۔اب حیرت اس بات پر تھی کہ لڑکا ہو کیسے
سکتا ہے؟ جب تک کسی مرد سے صحبت نہ ہو خواہ یہ بالجبر کی صورت میں ہو یا
بالرضا کی صورت میں؟ اور یہ دونوں باتیں یہاں مفقود تھیں۔
چنانچہ سیدنا جبریل نے سیدہ مریم میں روح پھونکی ۔جس سے آپ حاملہ ہوگئیں۔
جب آپ حاملہ ہوگئیں تو آپ بیت المقدس کا حجرہ چھوڑ کر دور کسی مقام پر چلی
گئیں۔ کہتے ہیں کہ یہ مقام بیت اللحم تھا جو وہاں سے تقریبا آٹھ میل دور
ہے۔ زچگی کے درد سے بے تاب ہو کر اٹھیں اور ایک کھجور کے تنے کا سہارا لیا۔
کیفیت یہ تھی ایک تو درد زہ کی شدت کی تکلیف، دوسرے تنہائی و بیکسی، تیسرے
اشیائے خوردنی اور دیگر ضروریات کا فقدان۔ حتی ٰ کہ پانی تک موجود نہ تھا
اور سب سے زیادہ پریشان کن بات آئندہ بدنامی اور رسوائی کا تصور تھا۔ اب سب
باتوں سے آپ اس قدر پریشان ہوئیں کہ بے اختیار منہ سے یہ الفاظ نکل گئے۔
کاش میں آج سے پہلے ہی مرچکی ہوتی اور لوگوں کے حافظہ سے بھی اتر چکی
ہوتی۔اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد کی اور آپ کو تسکین عطا فرمائی ۔
دوسرا یہ کہ ایک چشمہ جاری کرکے آپ کے پانی اور کھجور کے درخت کے ذریعے آپ
کی غذا کا انتظام کردیا۔اور لوگوں کی الزام تراشی سے بچنے کے لئے چپ کا
روزہ رکھنے کی ہدایت کی۔ یعنی جن تین پہلوؤں سے سیدہ مریم اذیت میں مبتلا
تھیں وہ تینوں مشکلات اللہ نے آسان کردیں۔
جب حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوگئی تو سیدہ مریم انہیں اٹھائے ہوئے
اپنی قوم کے لوگوں میں واپس آگئیں۔ جب وہ اپنے لوگوں کے پاس بچہ کو اٹھائے
ہوئے پہنچیں تو انہوں نے بچہ کو دیکھ کر بغیر کچھ پوچھے ہی طعن و ملامت
شروع کردی اور آسمان سر پر اٹھا لیا اور کہا کہ ہارون جیسے پاکیزہ خاندان
کی اولاد ہوتے ہوئے یہ تو نے کیا گل کھلا دیا تم نے ہمارے پورے خاندان کی
ناک کٹوا دی اور ہماری عزت خاک میں ملا دی۔ غرض بھانت بھانت کی بولیاں بولی
جارہی تھیں۔ کسی نے کہا کہ تمہاری ماں (عمران کی بیوی) بھی ایک پاک بازاور
عفیفہ عورت تھی اور باپ (عمران) بھی بڑا شریف آدمی تھا۔ پھر تجھ میں یہ بری
خصلت کہاں سے آگئی؟ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی رہیں اور سیدہ مریم
خاموشی اور تحمل سے یہ باتیں سنتی رہیں اور یہ باتیں کچھ غیر متوقع بھی نہ
تھیں۔ سیدہ مریم نے فرشتہ کی ہدایت کے مطابق ان کی کڑوی کسیلی باتوں میں سے
کسی کا جواب نہ دیا بلکہ اس نومولود بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ خود جواب
دے گا۔ اس بات پر لوگ اور زیادہ برہم ہوئے اور کہنے لگے ایک تو خود مجرم ہو
دوسرے ہمارا مذاق اڑاتی ہو۔ یہ بچہ جو ابھی پیدا ہوا ہے بھلا ان باتوں کا
کیا جواب دے سکتا ہے؟ تب اس نومولود بچے کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے قوت
گویائی عطا فرمائی اور پہلی بات جو اس نے کی وہ یہ تھی کہ ''میں اللہ کا
بندہ ہوں'' بالفاظ دیگر میں نہ اللہ ہوں اور نہ ابن اللہ ہوں اور یہ ایسی
بنیادی بات تھی جو بعد میں اس کے پیروکاروں میں ہی متنازعہ فیہ بن گئی۔ کسی
نے انھیں اللہ ہی کہہ دیا اور کسی نے اللہ کا بیٹا۔ آپ نے اپنے اس معجزانہ
کلام کے آغاز میں ہی اس کی تردید فرما دی تھی۔ نیز یہ بھی بتایا کہ ''اللہ
نے مجھے کتاب دی ہے اور اپنا نبی بھی بنایا ہے'' اس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک
یہ کہ اللہ نے مجھے کتاب تورات کا علم عطا فرمایا اور دوسرا یہ کہ اللہ
مجھے کتاب انجیل بھی عطا فرمانے والا ہے اور نبوت بھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ
السلام کا یہ کلام دراصل ان کی سب بہتان تراشیوں کا مکمل جواب تھا اور اس
کلام میں ان کی والدہ سیدہ مریم کی مکمل بریّت کا اظہار مقصود تھا یعنی اگر
ایک نومولود بول سکتا ہے اور ایسا مبنی برحقیقت کلام کرسکتا ہے تو یہ بھی
عین ممکن ہے کہ وہ پیدا بھی معجزانہ طور پر بن باپ کے ہوا ہو۔ بالفاظ دیگر
اسی عمر میں ایسے کلام کرنے کے معجزہ سے معجزانہ پیدائش کی توثیق مقصود
تھی۔
اس واضح معجزے کے باوجود یہود حضرت عیسی پر بہتان تراشیاں کرتے رہے اور
پیٹھ پیچھے آپ کو نعوذباللہ ولدالحرام کہتے تھے لیکن سامنے کسی کو کہنے کی
جرت نہ تھی۔
اس عبادت گذاری، تقوی اور صبر و استقامت کے باعث حضرت مریم کا رتبہ بہت
بلند ہے اور اس کی گواہی خود اللہ نے قرآن میں دی۔
|
|