اللہ کا انصاف

 ایک شخص تھا تو غریب لیکن انتہائی خوش بخت تھا۔ اس کا گھرانہ ایک بیوی، پانچ بچوں، دو بہنوں اور بوڑھی والدہ پر مشتمل تھا۔ اس شخص کی ایک پسماندہ علاقے میں سبزی کی دکان تھی۔ نہ تو اس کے پاس مال تھا کہ کسی اچھی جگہ دکان لے سکتا، نہ اتنے وسائل تھے کہ اس سے بہتر سامان رکھتا۔

اس کا گھر بھی بوسیدہ اور ٹوٹا پھوٹا تھا۔ مجازی طور پر ہی اسے گھر کہا جا رہا ہے ورنہ صرف ایک کمرہ اور چھوٹا سا صحن تھا۔ سارا گھرانہ اسی ایک کمرے میں سوتا، بلکہ کچن نہ ہونے کے باعث وہ کھانا بھی اسی کمرے میں پکاتے تھے۔ جب وہ شخص شام کو گھر لوٹتا، اس کے ہاتھ میں سبزی، گوشت اور روٹیاں ہوتیں۔ اس کے گھر والے خوشدلی اور خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرتے۔ اس کے ہاتھ سے سامان پکڑتے اور کھانا تیار کرنے میں لگ جاتے۔ ہر روز انہیں گوشت میسر نہیں آتا تھا۔ جب سیل اچھی ہوتی تو وہ گوشت خریدتے ورنہ سبزیوں پر ہی گزارا کرتے۔ ان کے پڑوس میں اعلیٰ عدلیہ کے ایک قاضی صاحب رہائش پذیر تھے۔ وہ اس خاندان سے بہت متاثر تھے کہ یہ لوگ غربت اور تنگی کے باوجود انتہائی صابر و شاکر تھے۔

قاضی صاحب اکثر ان لوگوں کی مثال دیتے کہ میں نے زندگی میں ان سے زیادہ سعادت مند گھرانہ نہیں دیکھا۔ جب شام کو صاحب خانہ دکان سے لوٹتے ہیں تو سب گھر والے پر جوش انداز میں ان کا استقبال کرتے ہیں۔ اس موقع پر اکثر ان کے گھر سے حمد و ثناء کے کلمات کی آوازیں آتی ہیں۔ میری یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں اس خوشنما منظر سے محظوظ ہو سکوں۔ پھر یہ لوگ کھانا تیار کرتے ہیں اور بڑے برتن میں ڈال کر سب مل کر کھاتے ہیں۔ ان کے کھانے کا اختتام بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور مسنون دعائوں پر ہوتا ہے۔ آخر میں یہ اپنے بوسیدہ لیکن صاف ستھرے بستروں پر بڑی خوشی اور قناعت کے ساتھ آرام کرتے ہیں۔ یہ کسی بڑے دنیاوی مال و متاع کی تمنا نہیں رکھتے تھے۔ ان کی صرف یہی خواہش تھی کہ صحت و عافیت کے ساتھ ان کی زندگی گزرتی رہے اور انہیں کسی انسان کا محتاج نہ ہونا پڑے۔

موسم خزاں کی ایک شام تھی۔ یہ لوگ حسب معمول اپنے سربراہ خانہ کے منتظر تھے۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ ان لوگوں نے دروازہ کھولا تو سامنے تین چار پولیس والے کھڑے تھے۔ ان کے ساتھ ایک ایمبولینس بھی تھی۔ پولیس والوں نے انہیں یہ افسوسناک خبر دی کہ صاحب خانہ ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ اس شخص نے شام کے وقت اپنی دکان بند کی، پڑوس میں قصاب کی دکان سے گوشت خریدا، نانبائی سے روٹیاں لیں اور سبزیوں کا تھیلا، گوشت اور روٹیاں لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔ سڑک عبور کرتے ہوئے ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے کچل دیا اور یہ بیچارا موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔

اس دلخراش سانحہ کی وجہ سے قرب و جوار کے لوگ بھی جمع ہوگئے۔ انہوں نے متوفی کی تجہیز و تکفین کا بندوبست کیا۔ اگلے دن صبح کے وقت اس کی نماز جنازہ ادا کر کے اسے دفن کر دیا گیا۔ سارے گھر کی کفالت کا انحصار اس اکیلے شخص کی آمدنی پر تھا۔ اب سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ گھر کیسے چلایا جائے؟ اس شخص کے سب سے بڑے بیٹے کی عمر پندرہ سال تھی۔ یہ ہائی اسکول میں زیرتعلیم تھا۔ اس نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا اور اپنے باپ کی دکان کھول لی۔ زندگی پھر اسی روٹین سے گزرنے لگی۔ لیکن اب ان کی مسکراہٹیں غائب ہو چکی تھیں۔ سب لوگ افسردہ افسردہ رہتے، کھانا کھاتے وقت بھی اکثر ان کی آنکھیں بھیگی رہتیں۔ اس گھر کی سعادت اس گھر کے محبوب کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھی۔

یہ انتہائی مشکل دن سست روی سے گزرتے رہے یہاں تک کہ تین سال گزر گئے اور بڑے بیٹے کی عمر 18 برس ہوگئی۔ ایک دن اچانک اسے حکومت کی طرف سے فوجی خدمات کے لیے طلب کر لیا گیا۔ والد کے بعد گھر کا سارا انحصار اسی لڑکے پر تھا۔ گھر والے پھر بہت پریشان ہوئے کہ اب کیا کرنا چاہئے؟ وہ سب سوچ بچار کرنے لگے: کیا دوسرے بیٹے کو سکول چھڑوا کر دکان پر بٹھا دیا جائے؟ ایسی صورت میں اس کی تعلیم کا کیا بنے گا۔ اگر وہ اپنی تعلیم جاری رکھتا ہے تو گھر والوں کا گزارا کیسے چلے گا۔ بہت زیادہ سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں یہ گھر فروخت کر دینا چاہئے تا کہ اپنے بڑے بیٹے کی جبری فوجی خدمت کے عوض میں پیسے جمع کروائے جاسکیں۔

قارئین کرام! یہ لوگ عراق میں رہائش پذیر تھے وہاں یہ قانون تھا کہ ہر گھر سے ایک نوجوان کو حکومت زبردستی فوج میں بھرتی کرلیتی اور اس پر معاوضہ بھی کچھ نہ دیتی تھی۔ ہاں اگر کوئی اس جبری مشقت سے بچنا چاہتا تو اس کے لیے لازم تھا کہ وہ سرکاری خزانے میں چار ہزار دینار جمع کروائے۔ چنانچہ اس رقم کی فراہمی کے لیے گھر والوں نے مکان فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ اس فیصلے میں بھی ان کی کیفیت اس بکری کی سی تھی جس کے بارے میں سوچا جا رہا ہو کہ اسے ذبح کر کے اس کی کھال اتاری جائے یا ویسے ہی کھینچ لی جائے۔

فوجی خدمات کے لیے دھر لیے جانے والے بیٹے کو ایک قریبی شہر میں تربیت کے لیے ایک عسکری ادارے میں بھیج دیا گیا۔ وہ بادل نخواستہ ہی ادھر آیا تھا۔ اسلحہ کی تربیت میں اس کا دل بالکل نہیں لگتا تھا۔ انسٹرکٹر بولتے رہتے مگر یہ اپنے خیالوں میں گم رہتا۔ اس کے ذہن میں اپنے گھریلو حالات گھومتے رہتے۔ اساتذہ نے کئی مرتبہ اس کی توجہ دلائی، وارننگز دیں لیکن اس کا جسم تو یہاں تھا، ذہن کہیں اور اٹکا ہوا تھا۔

ایک دن استاذ نے اسے بٹھا کر اس کا اصل مسئلہ پوچھا تو اس نے جواب میں اپنی ساری بپتا کہہ سنائی۔ اب استاذ نے اصرار کرنا چھوڑ دیا اور اس کا مسئلہ اپنے آفیسر کے سامنے پیش کیا۔ آفیسر نے اس کے مسئلے کا کوئی حل نکالنے کی بجائے اس کی ڈیوٹی کچن میں لگا دی۔ اب وہ یہاں برتن دھوتا، گوشت کاٹتا، آگ جلاتا اور کھانا تقسیم کرتا۔ شب و روز اس کی یہی مصروفیات تھیں۔

ادھر اس کی ماں کی بھی یہی کیفیت تھی۔ وہ بظاہر تو چلتی پھرتی، کھاتی پیتی اور سوتی جاگتی تھی لیکن اس کا ذہن کسی اور ہی دنیا میں گم رہتا تھا۔ اس نے اپنے گھر کی رجسٹری گروی رکھ کر ایک پراپرٹی ڈیلر سے کچھ رقم گھریلو اخراجات کے لیے ادھار لی اور اپنا مکان فروخت ہونے کے لیے لگا دیا۔ مختلف خریدار ان کا مکان دیکھنے کے لیے آتے رہے، آخر بیس دن کے بعد ان کا مکان چار ہزار دینار میں فروخت ہو گیا۔ پھر مزید نو دن کاغذی کارروائی میں لگ گئے۔ صرف ایک دن باقی بچا تھا۔ ان کے ہاں یہ ضابطہ تھا کہ تیس دن کے اندر اندر اس جبری فوجی خدمت کے عوض میں چار ہزار دینار جمع کروائے جا سکتے تھے۔ تیس دن گزرنے کے بعد یہ معاوضہ بھی قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ اس خاتون نے یہ معاوضہ جمع کروانے کے لیے اس شہر جانا تھا جس میں اس کا بیٹا تھا۔ یہ شہر 240 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ جب وہ بس سٹاپ پر پہنچی تو اس شہر جانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور مسافر نہیں تھا۔ اس نے کافی دیر تک سواریوں کا انتظار کیا، لیکن کسی کو آنا تھا نہ آیا۔ وہ ہر پل انگاروں پر لوٹ رہی تھی۔ اس کے سارے خاندان کی زندگی اور ناموس دائو پر لگی ہوئی تھی۔ اس نے بس والے سے کہا: تم گاڑی لے کر چلو میں ساری بس کا کرایہ ادا کروں گی۔ ڈرائیور اس اکیلی خاتون کو لے کر چل پڑا۔ راستے میں باتوں باتوں میں اس نے سادہ لوح خاتون سے یہ معلوم کر لیا کہ اس کے پاس چار ہزار درہم ہیں۔ ڈرائیور کی نیت بدل گئی۔ راستے میں ایک ویران جگہ پر جا کر ڈرائیور نے گاڑی کھڑی کر لی اور خنجر کی نوک پر اس خاتون سے نیچے اترنے کے لیے کہا۔ اس نے خاتون پر پے در پے وار کیے اور اسے نیم مردہ حالت میں چھوڑ کر چلا گیا۔ اس نے خاتون کا بیگ اپنے قبضے میں لے لیا۔ پھر وہ واپس آنے کی بجائے اسی شہر کی طرف روانہ ہو گیا جدھر جا رہا تھا تا کہ شک کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ وہ گاڑی لے کر بس اسٹینڈ پر پہنچ گیا۔ اس کے ساتھیوں نے سمجھا شاید اس بس میں آنے والی سواریاں راستے میں اتر گئی ہیں۔ ایسا ہوتا رہتا تھا اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ واپسی پر ڈرائیور اسی راستے سے گزرا۔ جب وہ اس جگہ کے قریب پہنچا جہاں اس نے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ ایک مرتبہ اس عورت کی لاش پر نظر ڈال لوں۔ اس نے مسافروں سے بہانہ لگایا، میں قضائے حاجت کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ چند منٹ بعد واپس آتا ہوں۔ وہ اس وادی کی طرف گیا اسے کراہنے کی ایک نحیف سی آواز سنائی دی۔ یہ دیکھ کر وہ غصے سے کہنے لگا: اے ملعون عورت! تم ابھی تک زندہ ہو۔۔ پھر وہ ایک بڑے پتھر کی طرف جھکا تا کہ اس کے ذریعہ اس خاتون کا سرکچل دے۔ جب اس نے پتھر اٹھایا تو پتھر کے نیچے سے ایک زہریلے سانپ نے اسے ڈس لیا۔ اس کے منہ سے ایک دلخراش چیخ نکلی اور اس نے تڑپنا شروع کر دیا۔ مسافر اس کی آواز سن کر بھاگے بھاگے وہاں آئے۔ انہیں دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ وہاں ایک جاں بلب خاتون بھی تھی۔ خاتون صرف اتنا ہی کہہ سکی: اس ڈرائیور سے میرا سامان واپس لو۔ وہ ڈرائیور اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ زیادہ مزاحمت کر سکتا، اس نے بتا دیا کہ اس خاتون کا بیگ میں نے گاڑی میں فلاں جگہ پر چھپایا ہوا ہے۔ وہ بیگ وصول کر کے خاتون کے حوالے کر دیا گیا۔ پھر مسافروں نے دوسری طرف سے آنے والی ایک بس کو روکا جو اسی شہر کو جا رہی تھی جہاں خاتون جانا چاہتی تھی۔ انہوں نے اس گاڑی کے ڈرائیور سے درخواست کی کہ اس خاتون اور ڈرائیور کو ہسپتال پہنچا دے۔ ڈرائیور خوشدلی سے اس کام کے لیے آمادہ ہو گیا۔ وہ مجرم ڈرائیور تو جسم میں زہر پھیلنے کی وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ گیا۔

اس خاتون کو البتہ ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ خبر ملنے پر پولیس والے بھی پہنچ گئے۔ عورت مسلسل بے ہوش تھی۔ اس کے سامان میں پولیس والوں کو اس خاتون کے بیٹے کا ایڈریس مل گیا۔ پولیس نے بیٹے کو خبر دی، وہ بھی فوراً ہسپتال پہنچ گیا۔ ڈاکٹر اس خاتون کو ہوش میں لانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے کیونکہ زیادہ دیر بے ہوش رہنا اس کے لیے جان لیوا ہو سکتا تھا۔ اگلے دن اسے ہوش آیا اس نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں۔ بیٹے پر نظر پڑی تو ماں کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ اس نے اپنے بیٹے سے صرف اتنا کہا: بیٹا! میں رقم لے آئی ہوں۔ جبری فوجی خدمات کا معاوضہ ادا کر کے فوری رخصت حاصل کرلو۔ پھر اس پر غنودگی سی طاری ہوگئی۔ لڑکے نے وہ رقم جمع کروا دی اور اسے اجازت مل گئی۔ اس خاتون کی حالت آہستہ آہستہ سنبھلنے لگی۔ ایک دن آیا کہ وہ ہسپتال سے مکمل صحت یاب ہو کر فارغ ہو گئی۔

اس واقعہ کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کئی مظاہر تھے۔ ڈرائیور پہلی مرتبہ اسے نیم مردہ حالت میں چھوڑ گیا۔ واپسی پر اگر ڈرائیور وہاں نہ رکتا تو شاید کسی کو اس خاتون کے بارے میں بالکل پتا نہ چلتا کیونکہ اس وادی کی طرف کوئی جاتا ہی نہ تھا۔ زہریلے اور موذی جانوروں کی وجہ سے چرواہے بھی ادھر کا رخ نہیں کرتے تھے۔ اس عورت کی آواز اتنی نحیف تھی کہ کسی کو سنائی نہ دیتی۔ اگر ڈرائیور سانپ کے ڈسنے سے اتنی زور سے نہ چیختا تو کوئی اس عورت تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اگر اس عورت کو اسی شہر میں جو اس کی منزل تھی نہ پہنچایا جاتا تو وہ اپنے بیٹے تک نہ پہنچ پاتی۔ اگر اسے چند لمحوں کے لیے ہوش نہ آتا تو وہ اپنے بیٹے کو یہ نہ بتا پاتی کہ رقم کا انتظام ہو گیا ہے۔ نتیجتاً اس کے بیٹے کو جبری فوجی خدمات سے رہائی نہ ملتی۔ یہ سب اس علیم و قدیر ذات کی تدبیریں تھیں کہ ہر گتھی سلجھتی چلی گئی۔

جب اس قصے کا چرچا ہوا تو یہ بات ان کے سابقہ پڑوسی جج صاحب تک بھی پہنچ گئی۔ انہوں نے اپنے دوست و احباب اور محلہ داروں سے کہا کہ ضرورت اور آزمائش کی اس گھڑی میں ان لوگوں کی مدد کرنی چاہئے۔ ان لوگوں نے پیسے اکٹھے کر کے ان کا مکان خریدنے والے شخص سے رابطہ کیا۔ اس تک بھی یہ واقعہ پہنچ چکا تھا وہ بھی خوشی خوشی یہ مکان واپس کرنے پر تیار ہوگیا۔ رقم اتنی جمع ہو چکی تھی کہ چار ہزار دینار جمع کروانے کے باوجود تین ہزار دینار بچ گئے۔ اس رقم کے ذریعے مکان کی حالت کو بہتر بنایا گیا۔

لڑکے نے دوبارہ والد کی دکان سنبھال لی۔ اب صورت حال بدل چکی تھی۔ اس کے پاس دور دراز سے گاہک آنے لگے تھے۔ ہر وقت خریداروں کا تانتا بندھا رہتا۔ کچھ عرصے بعد اس نے اپنی دکان نسبتاً بہتر جگہ پر منتقل کرلی۔ اس کا کاروبار خوب چل نکلا۔ اب زندگی بڑی آسودگی سے گزر رہی تھی۔ عسرت و تنگی میں بھی وہ لوگ اللہ کے ذکر اور شکر کو نہیں بھولے تھے۔ اب آہستہ آہستہ فراخی آ رہی تھی تو اب بھی وہ سپاس گزاری کے جذبے سے سرشار رہتے تھے۔ کئی سال گزر گئے۔ ان کے بچے یکے بعد دیگرے تعلیم سے فارغ ہونے لگے۔ ایک بیٹا انجینئر بن گیا، دوسرا ڈاکٹر اور تیسرا آرمی آفیسر بن گیا۔ اب ان کا کھانا صرف چائے روٹی یا روٹی اور سبزی نہیں ہوتی۔ حالات اب ایسے نہیں رہے کہ انہیں کبھی کبھار گوشت میسر آتا ہو۔ ان کے دستر خوان پر انواع و اقسام کے کھانے ہوتے ہیں۔ یہ خاندان لوگوں کے لیے بہترین مثال ہے کہ یہ لوگ تنگی اور فراخی کسی حال میں بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولے۔

1385ء ہجری میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ خاندان دجلہ کے کنارے بغداد کے بڑے پل کے قریب ایک بہت بڑے محل نما گھر میں منتقل ہوگیا۔ اب یہ خاندان چار خاندان بن چکے ہیں۔ تینوں بڑے بیٹوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد کی نعمت سے بھی نواز رکھا ہے۔ اب بھی اس گھر کے سب افراد محبت اور احترام کے اٹوٹ رشتے میں جڑے ہوئے ہیں۔ کبھی انہیں ایک دوسرے سے شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ والد کی وفات سے لے کر ان کی والدہ ہی گھر کی سربراہ ہیں۔ گھر کا ہر فرد ان کی رائے کا بے حد احترام کرتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس واقعہ کو ختم کریں اس کے سب سے اہم نقطے کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ اس خاتون سے پوچھا گیا: جب ڈرائیور نے خنجر کے پے در پے وار کر کے آپ کو ایک ویران بیابان میں پھینک دیا تھا۔ اس وقت آپ کی کیفیت کیا تھی۔ اتنا زیادہ خون بہہ جانے اور اتنے گہرے گھائو لگنے کے باوجود آپ کس طرح زندہ رہیں؟ خاتون نے بتایا: اس ساری مدت کے دوران میری زبان پر بس یہی الفاظ تھے:

’’اے آسمان و زمین کے مالک! تو میری حالت کو جانتا ہے۔ اپنی قدرت سے میرے لیے بیٹے کی جبری فوجی خدمت کا معاوضہ صحیح وقت پر پہنچانے کے اسباب مہیا فرما دے تاکہ وہ گھر واپس آ سکے اور اپنے گھر والوں کی کفالت کی ذمہ داری نبھا سکے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس خاتون کی دعا قبول فرمالی۔ اس کا مال و اولاد دونوں اسے دوبارہ مل گئے۔ مالک حقیقی نے اس کے دشمن سے انتقام بھی لے لیا اور ان کی تنگی و عسرت بھی فارغ البالی اور آسودگی میں بدل گئی۔ سچ فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے: ((اتق دعوۃ المظلوم، فانہ لیس بینھا وبین اللہ حجاب)) ’’مظلوم کی بددعا سے بچ کر رہو کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔‘‘

(عدالۃ السمائ، للواء الرکن محمود شیت خطاب، قصص واقعیۃ مؤثرۃ، ص:۶۴-۷۴)
 
Mian Abdullah Dilbar
About the Author: Mian Abdullah Dilbar Read More Articles by Mian Abdullah Dilbar: 8 Articles with 6516 views ایک ادنیٰ سا اسلام کا مجاہد.. View More