ہم کیسے مسلمان ہیں جو غیر
مسلموں کی نقل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔پاکستان کا قومی لباس
شلوار قمیض ہے مگر ہم پینٹ شرٹ پہننے کو ترجیح دیتے ہیں۔قومی کھیل ہاکی ہے
اور ہم کرکٹ پر جان دیتے ہیں۔ حکومت چلانے کے لیے اسلامی قوانین موجود ہیں
مگر ہم غیر مسلموں کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ آج پھر پوری دنیا میں
ایک ہی آواز بلند ہے ’’ہیپی نیو ائیر‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کسی غیر مسلموں کو مسلمانوں کے تہوار اس جوش و جذبہ
سے مناتے دیکھا ہے؟اب پھر نئے سال کی آمد آمد ہے اور ہرکوئی جشن کا ماحول
بنا رہا ہے۔ساری دنیا میں لوگ اس موقعے کو اپنے اپنے انداز سے منانے کی
تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس تیاری میں اربوں کی فضول خرچی ہوگی۔ اگر ان فضول
اخراجات کوجوڑا جائے تو اس سے کسی ایک ملک کی غریبی دور کی جاسکتی ہے۔ لیکن
تاریخ میں ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہی اس کا امکان ہے۔ اس نئے سال کے
جشن کے ماحول میں کوئی بھی انسانی مجبوریوں کونہیں سمجھتا ہے اورنہ کسی کو
فکر ہے؟
جہاں تک نئے سال کے جشن کی بات ہے تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ نئے سال کے
جشن کا کیا مطلب ہے۔ یہ تو محض ہم نے اپنے دنوں کو سمجھنے اور اس کے شمار
کے لیے بنایا ہے۔ پھر ان دنوں میں ایسی کون سی خاص بات ہے جو ہم انہیں جشن
میں تبدیل کر دیں؟ اگر جشن منانا ضروری ہے تو سب سے پہلے تو ہم مسلمان ہیں
اور ہمارا اسلامی سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے ۔مسلما ن ہونے کے ناطے
ہمیں اپنا نیا سال جب منانا چاہیے تھا مگر اس وقت تو ہمیں سانپ سونگھ جاتا
ہے جب تو ہم جلدی سے کسی کوہیپی نیو ائیر کا ایس ایم ایس بھی نہیں کرتے۔ اب
ہرمنٹ بعد اپنی پچھلے سال کی غلطیوں کی معافی کے لیے ایس ایم ایس بھیج رہے
ہیں تو کوئی نئے آنے والے سال کی مبارکباد دے رہا ۔ ان کو یہ تو معلوم ہے
کہ 2015 شروع ہورہا ہے اور2014ختم ہونے والا ہے مگر ایسے مسلمانوں سے
پوچھاجائے کہ ان کو معلوم ہے کہ یہ کونسا ہجری سال ہے تو اکثر لوگوں کا
جواب نا میں ہوگا۔
جس وقت 2014شروع ہوا تھا تو اس بار بھی اسی طرح ہیپی نیو اائیر کے نعرے
بلند ہورہے تھے مگر اب اس گزرے ہوئے سال کی طرف مڑ کردیکھیں تو اس سال میں
ہم نے خوشیاں کم اور غم زیادہ اٹھائے ہیں۔ ایسی کونسی سی قوم ہے جو غم میں
بھی جشن مناتی ہے؟ ہمیں تو دسمبر ہی ایسا رُلا گیاکہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔
معصوم سے پھولوں کو کس نے مسلا؟ کیا انہیں معلوم تھا کہ یہ سال ان کے لیے
آخری سال ہوگا؟ کیا 2014 میں ہونے والی دہشت گردی، ڈرون حملے، ایکسیڈنٹ اور
حالات سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کو معلوم تھا کہ یہ سال ان کی زندگی کا
آخری سال ہوگا؟ زندگی کے ایک پل کا نہیں پتا اور ہم سالوں کی باتیں کرتے
ہیں۔
اگراب ہم بات 2015کی کریں اور بقول ایسے متوالے لوگوں کے جو ہیپی نیو ائیر
منا رہے ہیں تو اس سال میں ہم نے ایسا کیا پا لیا جس کے لیے ہم جشن منائیں
یا پھر ہم کو ایسی ایڈوانس کیا خوشخبری مل گئی جو ہم آنے والے سال کا جشن
منائیں؟دہشت گردی ، بجلی اور گیس سے محروم عوام، بیروزگاری سے تنگ آکر
خودکشی کرنے والے لوگ ظلم و جبر کے اس ماحول میں بھلا جشن کیسے منائیں
گے؟اس نئے سال میں کس چیز کا جشن منایا جائے؟ جشن اور خوشی کا ماحول تو اسی
وقت بنتا ہے جب ہر طرف خوشحالی اور امن و امان ہو۔ لیکن یہاں تو بد حالی
اور کرپشن نے لوگوں کو خودکشی پر مجبور کررکھا ہے۔ دہشت گرد چیونٹیوں کی
طرح انسان کو مار رہے ہیں۔سیاستدان اپنی کرسی بچانے یا اپنی کرسی بنانے کے
چکر میں عوام کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں۔ بھلا کیسے ہم نئے سال کا جشن
منا سکتے ہیں جبکہ مسلمان اقتصادی، سماجی اور تعلیم اعتبار سے کمزروسے
کمزور ہوتے جارہے ہیں۔دہشت گردی کی چکی میں آج پوری دنیا میں مسلمان پس رہے
ہیں۔ کسی کونے میں دہشت گردی ہوتو سب سے پہلے میلی نظر سے مسلمانوں کو
دیکھا جاتا ہے ۔ ہم کشمیرکو آج تک آزاد نہ کرا سکے اور جو آزاد ملک ہیں ان
پر غیر مسلموں کو مسلط کروا رہے ہیں ۔
مسلمانوں اب بیدار ہوجاؤ۔ کب تک غیر مسلموں کی غلامی میں رہو گے؟ مسلمان
ایک دلیر قوم ہے جس کو ہم نے اب بزدل بنا دیا ہے۔ تاریخ پڑھ لیں جتنے بھی
ملک آزاد کرائے وہ مسلمانوں نے کرائے ہیں۔ لیکن آج ہم ان کے متضاد چل رہے
ہیں بجائے اسکے کہ ہم اپنے اسلامی ملکوں کو آزادی دلائیں بلکہ جو آزاد ہیں
ان پر بھی غیر مسلموں حکمرانی کا موقع دے رہے ہیں۔ہمارے پیارے نبی حضرت
محمد ﷺ پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی سنت کو
پورا کرتے ہوئے مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تہوار منانے کے بجائے اپنے
اسلامی تہوار وں کو منانے چاہیے ۔ |