نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ
ہوا کرتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جوش، ہمت، طاقت ، لگن اور کچھ کر جانے کا جذبہ
رکھتا ہے۔ اگر انکی صحیح رہنمائی نہ کی جائے تو یہ جوش و جذبہ کسی اور کام
میں استمال ہو سکتا ہے ۔ جو بسا اوقات ملک و قوم کو تنزلی اور بربادی کی
طرف لے جاتا ہے۔ اسی لئے ہر دور میں دنیا کے ہر گوشے میں نوجوانوں کی تعلیم
و تربیت پر خصوصی دی جاتی رہی ہے۔ پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ یہاں
بہت سسے قابل، ہو نہار اور نامور نوجوانوں کی کثرت ہے جنہوں نے مختلف شعبہ
ہائے زندگی میں پاکستان کا نام خوب روشن کیا ۔ ہمارے ہاں آبادی کا بڑا حصہ
نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ مختلف تنظیمات اور ادارے اپنے طور پر انکی تربیت اور
درس و تدریس کے لئے اپنی خدمات دیتے ہوئے سیمنارز اور کانفرنسز منعقد
کرواتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد پریس کلب میں انجمن طلباء اسلام (ATI) کے زیرِ
اہتمام ـ"بین الااقوامی اتحادِ مسلمہ کانفرنس"کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں
ناظمِ سٹی برادر شہیر سیالوی اور انکے معاونین جو کے طلباء ہی کی صورت میں
تھے اس کانفرنس کے انعقاد میں پیش پیش رہے۔انکی کوششوں سے ـ"مسئلہ کشمیر و
فلسطین" کے حوالے سے اس کانفرنس کا خصوصی انتظام کیا گیا جس میں ملکی و غیر
ملکی سطح کی معروف شخصیات نے با شمول سابق مرکزی صدر انجمن طلباء اسلام
جناب حمزہ مصطفائی صاحب، مرکزی جوائنٹ سیکرٹری جناب جہانزیب ستھی صاحب،
سابق ناظم راولپنڈی فیاض حُسین مصطفائی صاحب، خیبر پختونخواہ سے برادر
عمران شریف صاحب ، گوجرانوالہ سے برادر سیّد حسنین نوری صاحب ، APMLکے
مرکزی رہنما احمد رضا قصوری صاحب، کشمیری ریپریزینٹو جناب احمد قریشی صاحب،
سابق MPA جناب چوہدری طاہر ہندلی صاحب ، مشال ملک صاحبہ و پاکستان بھر سے
سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔
کانفرنس میں مختلف یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے بھی شرکت
کی جو اس بات کے غمازی تھے کہ آ ج کے نوجوان اس مسئلے کے حوالے سے سنجیدہ
رویہ رکھتے ہیں اور اپنے فلسطینی و کشمیری بھائیوں کے غم میں برابر کے شریک
ہیں۔ کانفرنس کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو مسئلہ کشمیر و فلسطین ، اس کے حل
کے لئے کی گئی کوششوں، حل میں درپیش مسائل رکاوٹوں اور ان کے سدِ باب سے
متعلق آگاہی فراہم کرنا تھا۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ UNO اور OICاس مسئلے
کے حوالے سے صحیح طور پر اپنا کردار ادا نہیں کر رہے اس لئے اب ضرورت اس
امر کی ہے کہ نوجوانانِ مسلم اور تمام مسلم امہ اس مسئلے کے حل کے لئے اپنے
تمام تر اختلافات بھُلا کر یکجان ہوجائیں ۔ کیوں کہ جب تک مسلم امہ ایک
نہیں ہو گی اپنے مسائل کو حل نہیں کر پائے گی۔ آ ج پھر اُسی جذبے کی ضرورت
ہے س کا احساس شاعرِ مشرق نے کچھ یوں دیا تھا کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر
رسول اﷲ ﷺ نے مسلم امہ کو ایک جسم سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب جسم
کا کے ایک حصے میں درد اُٹھتا ہے تو اسے سارا جسم محسوس کرتا ہے اور انسان
بے چین رہتا ہے۔ یہ تعلق تو ایسا تعلق تھا کہ اگر ایک مسلمان کو تکلیف ہو
گی تو تمام مسلم امہ اسکا درد محسوس کرے گی۔ یہ ایک بڑی دلخراش حقیقت ہے کہ
آ ج ہم جس دور میں جی رہے ہیں یہ مسلمانوں کے زوال کا دورہے، عروج زوال میں
دل گئے ہیں، بلندیاں پستیوں کی جانب گامزن ہیں اور زلت و رسوائی ہمارا مقدر
بنی ہوئی ہے۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ مُردہ دلوں میں پھر سے ایمان کی شمع
روشن کی جائے تا کہ اپنا کھویا ہوا وقار پھر سے حاصل کر سکیں۔ ہم اپنے
اختلافات میں ایسے گم ہوئے کہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، جسم ریزہ ریزہ ہوا اور اُمت
کا شیرازہ بکھر گیا۔جب بکھرے تو غیر غالب آ گے اورہم زنجیروں میں بندھ گئے۔
کچھ زنجیریں ہم توڑ چکے ہیں اور بہت سے اب بھی باقی ہیں۔ کشمیر اور فلسطین
بھی ہمارا وہ حصہ ہیں جن پر زنجیریں صال کر غیروں نے اسے جگھڑ رکھا ہے۔
وہاں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں، مسلمان کا قتل ایک کھیل
سمجھا جا رہا ہے،ماؤں اور بہنوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے، مسلم نسلوں کو
نابود کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں لیکن تا قیامت وہ اپنے مضموم مقاصد
میں کامیاب نہیں ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔ انشاء اﷲ
آج پھر ضرورت ہے کہ ہم مسلمان ایک ہو جائیں اور ہر قسم کے اختلافات کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک اﷲ کی عبادت کرنے والے بن جائیں ، اُس کے نام
لیواؤں کی حفاظت و آزادی لے لئے متحد ہو جائیں۔ اسکے لئے نوجوانوں کو آگے
ہونا ہوگا ، ایک جذبے کی لہر دوڑانی ہو گی جس سے وہ دوسروں کے درد کو اپنا
درد سمجھیں اور اُسی طرح محسوس کریں جیسا کہ اپنا دکھ ہو، اُن کے حق کے
حصول کے لئے اپنی آواز بلند کریں ، اُس کے حصول کے لئے لڑ سکیں، منزل تک
پہنچنے کی طاقت اور ولولہ انگیز ہمت رکھتے ہوں تا کہ اُن کے قدم لڑکھڑائیں
نا، درپیش مسائل سے لڑنے لے لئے خود کو فکری اور ذہنی طور پر مسلح رکھیں۔
بے شک یہ جنگ نظریات و فکریات کی جنگ ہے ، جس میں تلوار سے زیاہ قلم،زبان
اور دماغ کااستمال زیادہ ہے
مقررین نے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیرو فلسطین کی نوعیت اور اسکے حل کے لئے
مختلف ترجیحات پیش کیں تا کہ مستقبل قریب میں بہترین حکمتِ عملی اپناتے
ہوئے اپنے ہدف کی طرف بڑھا جا سکے۔ طلباء کی اس حوالے سے تربیت بہت ضروری
ہے کیوں کہ آ جکا طالبعلم کل کا مستقبل ہو گا۔ قوم کا یہ طبقہ جب اپنی آواز
بلند کرے گا تو یقناََایک مثبت تبدیلی کا موجب ہو گا۔ ریاستی اداروں تک
انکی آواز پہنچے گی تو حکومتِ وقت کو بھی احساسِ زمہ داری ہو گی ۔ وہ بھی
مزید بہتر اور ٹھوس بنیادوں پر فیصلے کرنے پر مجبور ہوں گے ۔ علاوہ ازیں
بین الااقوامی سطح پر خصوصاََ UNO اورOIC تک ایک مثبت پیغام جائے گا اور وہ
اپنے رویئے میں لچک پیدا کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ورنہ انشاء اﷲ مسلم ممالک
میں نوجوانوں کی ایسی کھیپ تیار ہو گی جو مستقبل قریب میں اس کیس کو بہہتر
طریقے سے لڑیں گے اور اپنے موقف کو بہتریں طریقے سے پیش کر کہ ان دونوں
مقبوضہ علاقوں کی آزادی کا پروانہ لڑ سکیں گے۔ لیکن یہ سب تبھی ممکن ہو گا
جب تمام ُامتِ مسلمہ اپنے تمام اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اس بڑھے مسئلے
کے حل کے لئے متحد ہو ں گے- |