آزادی کی جدوجہد پر اعتراض کیوں
(Yousuf Ali Nashad, Gilgit)
اگر ہم دنیا کے پرانے نقشہ پر
نظر دوڑائیں تو ہم حیرت میں پڑ جائیں گے،وہ اس لئے کہ دنیا کے اس پرانے
نقشے میں جو ممالک موجود تھے وہ انگلیوں پر ہی گنے جاسکتے ہیں،دنیا کا ایک
چوتھائی حصہ تاج برطانیہ،بر صغیر،اور روس نے ہی لپیٹ رکھا تھا۔ جبکہ ہم آج
کے نقشے کو دیکھیں تو اور بھی حیرت ہوتی ہے شائد اب تک کسی کو ان تمام
ممالک کا نام یاد ہو جو اس دور کے نقشہ میں موجود ہیں ڈھائی سو سے زیادہ
ممالک موجود ہیں۔کہاں گئی اُن چند ممالک کی اجارہ داری،اور کیسے وجود میں
آئے اتنے سارے ممالک،اتنی سلطنتیں۔اب یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ کیا نئے
وجود میں آنے والے ممالک یا ان میں بسنے والی اقوام ان سب نے غداری کی ہے
کیایہ سب غدار ہیں؟ایسا ہرگز نہیں یہ ایک فطری عمل ہے اس دنیا کو وسیع ہونا
ہے۔
بلکہ مذید اتنا وسیع ہوگا کہ موجودہ نقشہ ایک عرصے بعد آپ کوپرانے نقشے کی
مانند نظر آئیگا سینکڑوں اور چھوٹے چھوٹے ممالک نے جنم لینا ہے آزاد ہونا
ہے آزادی کا یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا یہ تو چلتا ہی رہے گا۔آج کے اس جدید
دور میں بھی کچھ کا یہ کہنا ہے کہ فلاں علاقہ فلاں ملک کا حصہ ہے اگر ان کی
بات فرض کریں مان بھی جائیں تو وہ فلاں ملک ایک اور فلاں کا حصہ تھا کیا یہ
گنجائش ہے کہ ہم پھر سے سکڑ کر پرانے نقشے میں مل جائیں ۔یہ کوئیُ تُک کی
بات نہیں یہ محض منفی سوچ رکھنے والوں کی ذہنی بیماری کے علاوہ اور کچھ
نہیں،اب نہ ماضی کا وہ تاج برطانیہ نظر آتا ہے نہ برصغیر اور نہ روس البتہ
اب چین نظر ضرور آتا ہے۔امریکہ نے خود برطانیہ سے آزادی حاصل کی،چیکو اور
سلواکیہ اب دو ممالک بن گئے ہیں ہندوستان سے پاکستان نے جنم لیا اور روس سے
بہت سارے تان باہر آئے۔کیا یہ سب مجرم ہیں کیا ان سب پر غداری کا مقدمہ
دائر کیا جائیگا یہ ایک خام خیال اور مہمل سوچ ہے۔ہماے ہاں ایک کہاوت ہے کہ
اچھے اور سمجھدار والدین اپنی اولاد کو جوان ہوتے ہی الگ کر دیتے ہیں تا کہ
وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے پیروں پر خود کھڑے ہونے کے قابل
ہوجائیں،مگر آج ترقی یافتہ ممالک میں یہ رواج عام ہے جبکہ یہاں یہ سلسلہ
معدوم ہوچکا ہے ۔اس لئے ہم والدین کی طرف دیکھتے ہیں اور مفت لقمہ کھا کھا
کر کسی کام کے نہیں رہیں ہیں۔اپنے پریوار کے ساتھ الگ ٹھکانہ بنانا،اپنی
زمین کا خود مالک بن کر رکھوالی کرنا،اپنی چار دیواری کو مظبوط بنانا یہ
ایک فطری عمل ہے اور ہر انسان کا بنیادی حق بھی ہے۔جبکہ وہ علاقے جو صدیوں
سے آزاد چلے آرہے ہیں وہ نہ کسی ملک کا باقائدہ نہ حصہ ہیں اور نہ کسی نے
ان کی آزادی میں کوئی حصہ لیا ہے۔انہیں تو چاہئے کہ جلد از جلد اپنی شناخت
کا اعلان کریں اور اپنا سٹیٹ بنا کر دنیا کے نقشہ میں ایک اور ملک کا اضافہ
کریں۔یہی صورت حال گلگت بلتستان کا بھی ہے یہ بہت ہی نیک نیت اور اسلام کے
نام پر محبت اور مر مٹنے والے لوگ ہیں اسی لئے اب تک یہ مرتے بھی ہیں مٹتے
بھی ہیں،ان کی اچھی خصلت کا ناجائز فائدہ اُٹھایا گیا ہے۔یہاں تک کہ جس ملک
نے اب تک ہمیں اپنے انڈر یا قبضے میں رکھا ہے اس ملک کے شہروں میں آنے جانے
کے لئے بھی راستے میں قربانیاں دینی پڑتی ہے جان و مال سلامت نہیں ہے کتنے
بھولے ہیں یہ جی بی کے لوگ جوظالموں سے اس حد تک محبت کرتے ہیں،کیا دنیا
میں ایسی کوئی مثال ہے جو کسی سے ملنے کسی سے دوستی کرنے کی غرض سے اپناخون
بہایا جائے ،تلوے چاٹے جائیں یہ ہمارا ہی مقدر ہے ہم ہر آنے والوں کے لئے
قالین کی طرح بچھ جایا کرتے ہیں۔آئیں زرا دنیا میں نہ ہونے والی مزے کی بات
سنیں۔جی بی میں جب یہ تحریک چلی کہ ہمیں پاکستانی کیوں نہیں بنایا جارہا ہے
ہمیں پاکستانی بنایا جائے یہاں کے سیاسی رہنماؤں نے پاکستانی بننے کے لئے
جدوجہد کی تو انہیں شاباش ملنے کی بجائے ان پر تشدد کیا گیا انہیں قیدی بنا
کر کر جیل میں ڈالا گیا۔جب یہاں کے عوام پاکستانی بننے کے لئے جدوجہد کرتے
ہیں تو ان پر مقدہ دائر کیا جاتا ہے،اپنے حقوق کے لئے باہر نکلتے ہیں تو
بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔آخر میں مایوس ہونے کے بعد اپنی آزادی کے
لئے جدوجہد کرتے ہیں تو ان پر بے پناہ تشدد کر کے انہیں جیل کی ہوا کھلائی
جاتی ہے اور بیس بیس سال سے یہ بچارے مقدمات کا سامنا کرتے ہیں۔اب آپ فیصلہ
کریں ہمارے پاس کونسا راستہ بچا ہے ؟ہمارے اجداد نے از خود آزادی حاصل کی
ہے کسی غیر کا ناخن بھی نہیں کٹا ہے اور نہ ہم کسی ملک کے آئینی دائرہ میں
شامل ہے اس کے باوجود ہماری آزادی کی جدوجہد پر اعتراض کیوں کیا جارہا
ہے؟ہمارا پورا پورا حق بنتا ہے کہ ہم آزادی کی جدوجہد کریں اور کرنا بھی
چاہئے۔ہم اپنے مشترکہ قومی مفادات پر مبنی فیصلے کریں،اپنے مستقبل کو
درخشاں بنانے کیلئے جو بہتر ہوگا وہی کرنے کا ہم حق رکھتے ہیں ،اور نہ
ہماری جدوجہد پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق ہے۔بلکہ ہمیں سابقہ مقدمات
کو عالمی عدالت میں چیلنج کرنا ہوگا تاکہ آئندہ اس طرح ظلم کرنے سے اہل
ظالم باز رہیں۔47سے تا ایندم ہمارے ساتھ جو کھیل کھیلا جاچکا ہے اب مذید
بیوقوف بننے کی گنجائش ندارد، اب بہت ہوچکا ہے۔ایک طرف ہمارے وسائل کو
بیدریغ لوٹا جارہا ہے اور اس کے اوپر ہم پر احسان بھی قوم مل کر ایک بار
فیصلہ کر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ کون کس کے لئے زیادہ اہم ہے، کون کس کے
بغیر نہیں جی سکتا ہے ذرا اس بات کا بھی احساس ہوجائیگا۔دنیا کے تغیر پزیر
حالات اور گلگت بلتستان کی سیاسی،معاشی،جغرافیائی حالات کو مد نظر رکھا
جائے تو اس خطے کو ایک خود مختار سٹیٹ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔اگر
روکے بھی تو اس نے الگ ریاست بننا ہے۔دوسری بات اس کے الگ ریاست بننے سے
یقینا, کشمیرکا مسلہ بھی حل ہوتا نظر آتا ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں جس طرح دوسری
جنگ عظیم میں سوئزرلینڈ میں ایک گولی بھی نہیں چلی متعدد ممالک نے لکھ کر
دیا تھا یہ پرامن رہے گا اور واقعی پرامن رہا ہم اس طرح کا ایک پر امن خطہ
بنا کر دنیا میں ایک ماڈل بننا چاہتے ہیں اس میں کونسی برائی ہے۔ ہم اپنے
قومی مستقبل اور اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر ایک ایسی ریاست کے خواہاں
ہیں جو سب سے اچھے تعلقات رکھے اور دنیا بھر کے سیاح بلا خوف وخطر یہاں
آسکیں۔ہم اپنے قدرتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے یہاں کے پسے ہوئے غریب
لوگوں کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو کہ ان لوگوں نے اب تک ایسا سوچا بھی
نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں ہمارے پڑے لکھے نوجوان باہر ممالک جاکر جدید تعلیم
سے آراستہ ہوں تا کہ ہم بلا کسی محتاج کے خود ترقی کے شاہراہ پر گامزن رہ
سکیں۔ ایسا پر امن سیاحتی خطہ ہو دنیا اس کی مثال پیش کرے اور سوئیزرلینڈ
کی طرح یہاں پر بھی امن کا راج ہو۔ننانوے فیصد وسائل کو چھوڑ کر ہم فقط
پانی سے ہی خوشحال ریاست بنا سکتے ہیں۔اس ریاست کے بننے پر نہ پاکستان کو
کوئی نقصان ہوگا اور نہ انڈیا کوکو ئی اعتراض۔ ہماری خوشحالی اور مظبوطی نہ
صرف یہ دو ممالک بلکہ پورے ایشاء کے لئے ایک امن کا پیغام ہوگا۔ ہم چاہتے
ہیں کہ دہشت گردی کے نام سے بھی ہماری آنے والی نسل آشنا نہ ہو۔اس جدید دور
میں حکمرانی بھی جدید ہوگی اور اس کے لئے جدید تعلیم کی ضرورت ہوگی اور
جدید تعلیم آزادی کے ساتھ ہی حاصل کر سکتے ہیں۔دل بے رحم مال بیگانہ کی طرح
اس دھرتی کو استعمال کیا گیا ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ہمارے اجداد نے جو
علاقہ آزاد کرایا تھا،بے سروسامانی کی حاالت میں آج وہ پورا رقبہ کہاں چلا
گیا۔ ایک حکمران نے یہ کہ کر چین کو تحفے میں دیا کہ یہاں تو گھاس بھی نہیں
اُگتی ہے۔ پھر انڈیا اور پاکستان کی ہماری سرزمین پر جب بھی کشتی ہوئی اس
کشتی کے باعث ہمارا جغرافیہ سکڑتا سمیٹتا گیا ۔ہمیں جغرافیائی طور پر بھی
بہت نقصان پہنچا ہے۔ یہ ہے ہماری حفاظت۔یہاں کے لوگوں کی آپس کی محبت ان سے
برداشت نہیں ہوئی تو گلگت بلتستان کا تاریخی بدترین سانحہ کن کے ایماء پر
ہوا1988 میں جو لشکر کشی کروائی گئی،دہشتگردوں کو مسلح کر کے اسلامی مجاہد
بنا کر یہاں کا پر امن اور بھائی چارے کے ماحول کو تہہو بالا کر دیا۔ وہ
دہشت گرد بذریعہ شاہراہ قراقرم ہی آئے تھے کوئی اڑن تشتری میں آئے تھے
راستے میں جتنے چیک پوسٹ تھے عوامی محافظ موجود تھے کیا وہ سب اتنے بے خبر
تھے کہ ہزاروں کا لشکر نعرے لگاتے ہوئے گزرے اور انہیں خبر تک نہ ہو۔اس بات
سے یہ آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری وجود یا ہماری زندگی کی
کوئی اہمیت نہیں،اگر اہمیت ہے تو اس سر زمین کی اس اہم خطے کی ، ہمارے لئے
کسی کی بھی نیت ٹھیک نہیں سب کی نظریں ہمارے وسائل پرمرکوز ہیں۔ ہمیں تو
محض مچھروں کا چھتہ سمجھا جارہا ہے کہ انہیں اُکھاڑ پھکنا ہے ۔ اب وہ وقت
جا چکا ہے یہاں کے دونوں فریق اس بات کو سمجھ چکے ہیں۔ اب ہم ایک ایسی اور
لشکر کشی کے حامل نہیں ہوسکتے ہیں۔ ہماری آزادی کی سوچ کے پیچھے ان گنت
عوامل کارفرما ہیں اور ہماری بقا ہی اسی میں مضمر ہے۔ نہ ہماری کسی سے کوئی
ذاتی عناد ہے نہ دشمنی ہم خود کو مظبوط بنا کر قومی مفاد پر حامل سب کے
ساتھ تعلقات کے خواہاں ہیں۔اگر ہم اپنے وسائل کا ایک چوتھائی حصہ بھی بروئے
کار لانے میں کامیاب ہوئے تووثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان میں ایک
بھی بیروزگار نہیں رہے گا،یہاں پر پرائیوٹ اتنی انڈسٹریز ہونگئی کہ لوگ
دیگر ممالک سے روزگار کے لئے یہاں کا رخ کریں گے۔ یہ کوئی سپنا نہیں بلکہ
یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ دنیا میں تہتر ممالک ایسے جن میں کچھ رقبے کے حوالے
سے اور کچھ آبادی کے حوالے سے گلگت بلتستان سے بھی کم ہیں۔جبکہ وسائل کے
حوالے سے دنیا میں پہلا نمبر پر گلگت بلتستان شمار ہوتا ہے۔سونے کے ذخائر
کی مثال۔ معدنیات ،پانی، ہم میں کس کس کا ذکر کریں۔ اس وقت ہماری مثال اس
شخص کی مانند ہے جو سونے کی کان پر ٹاٹ بچھا کر بھوکا سو رہا ہو۔کیا کوئی
غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر کچھ کر گزرنے کے قابل ہوتا ہے سب یہیں کہیں
گے ہر گز نہیں ۔ پھر تو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے لئے اسے غلامی کی
زنجیروں کو توڑ ڈالنا ہوگا اور ہم امید رکھتے ہیں کہ جی بی کا جوان طبقہ ہی
قوم کو اس غلامی سے آزادی دلا سکتا ہے ساتھ ہم سب نے مل کر جدوجہد کرنا
ہوگا اپنے لئے نہیں تو اپنی موجود اور آنے والی نسلوں کیلئے کچھ کرکے جانا
ہوگا اگر ہمارا شمار زندوں میں ہے تو؟۔ایک بات کا خاص خیال رہے ہماری آزادی
کی جدوجہد کسی ٹھیکے پر مبنی نہیں ہونی چاہئے اور نہ کسی کے اشارے پر اور
نہ کسی طاقت کی ایماء پر خدا نخواستہ اگر ایسا ہوا تو موجودہ پاکستان سے
کہیں زیادہ ہمارا بھی برا حشر ہوسکتا ہے۔ ہماری جدوجہد ہماری آزادی خالص
ہونی چاہئے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ہم عالمی انصاف کے کٹہرے میں اپنا
مقدمہ درج کرائیں اور وہ وجوہات بتائیں کہ ان عوامل کی وجہ سے اب ہم آزاد
ہونا چاہتے ہیں۔گلگت بلتستان میں دیگر ممالک کی میڈیا کو بھی یہاں اپنا
صحافتی کرداار ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہئے تاکہ ہم اپنی قومی مفادات اور
اصل مسلے سے اہل دنیا کو آگاہ کر سکیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور ہم نے کتنا
طویل عرصہ اس ظلم کو برداشت کیسے کیا۔جو کچھ ذکر ہوا یہ کام بغیر قربانی سے
نہیں ہوسکتا ہے اس کے لئے وقت دینا ہوگا ایک دوسرے کا ذہن بنانا ہوگا اور
سب سے بڑی بات آپس کی نفرتوں کو جلداز جلد ختم کرنا اہوگا تاکہ سینتالیس کی
طرح ایک آواز ایک سوچ کو لے کر ہم آگے بڑھ سکیں۔اگر ہم بیدار ہو کر
دانشمندی سے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوئے تو پر امن طریقے سے بھی ہم
سرخرو ہوسکتے ہیں۔ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی دھرتی کو بچائیں ان قدرتی
خزینوں کی حفاظت کریں ، اور ایسا کرنے کے لئے ایک پر امن خود مختار ریاست
کا وجود لازمی ہوتا ہے اس کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا عین مردانگی ہے۔ دنیا
میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی۔۔۔جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا۔ |
|