الوداع سالِ گزشتہ الوداع

؁۲۰۱۴ کو الوداع کہتے ہوئے لوگ اس سال کا سب سے اہم واقعہ تلاش کررہے تھے کہ اچانک اس صدی کا اہم ترین واقعہ رونما ہو گیا ۔ ۲۸ سمبر کوامریکہ اور 'نیٹو' نے ۱۳سالہ افغانی جنگ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کردیا۔ طالبان کے حملے سے خوفزدہ اتحادی فوج کے سربراہ جنرل جان کیمپبل نے یہ اعلان ایک خفیہ تقریب میں کیا اور کہا کہ ہمارے سامنے عظیم چیلنج ہے مگر ہم اس میں کامیاب ہوں گے ۔ یہ اپنے آپ میں بلاواسطہاعتراف ہے کہیہ مہم ہنوز کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی ہے ۔ اس موقع پر بین الاقوامی اتحادی لشکر کا پرچم اتارنے کے بعد افغان فوج کےسربراہ جنرل شیر محمد کریمی نےغیر ملکی فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئے بڑےرنج سے کہا کہ ہم آپ کی اورآپ کے ذریعہ فراہم کردہ وسائل کی کمی محسوس کریں گے ۔ ایساف کے پاس سب کچھ تھا جبکہ ہمارے وسائل محدودہیں اس کے باوجود ہم اچھا کاکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ کسی درخت کے سوکھ جانے پر اس پر پلنے والےطفیلی بیل بوٹے جس کرب و الم میں مبتلا ہوجاتے ہیں وہی فی الحال جنرل شیر محمد کاوہی حال ہے۔ان کوامریکیوں کی غلط صحبت نے بلی بنا دیا ہے۔

شیر محمد کے بیان کا تقابل اگر اللہ کے بھروسے اپنی جان کی بازی لگانے والےطالبان کے ترجمان ذبیح اللہ کے اعلان سے کیا جائے تو جیت اور ہار کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ ذبیح اللہ نے فون پر بتایا’’ یہ تقریب اس بات کی مظہر ہے کہ امریکہ اور ناٹو کی مہم پوری طرح ناکام ہو چکی ہے ۔ وہ لوگ افغانستان سے راہِ فرار اختیار کررہے ۔ افغانی مجاہدین کو شکست دینے کے اپنے مقصد کو وہ حاصل نہیں کرسکے ہیں ‘‘۔ اس امر کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اگر امریکہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گیا ہوتا تو یہ تقریب ڈھکے چھپے انداز میں نہیں ہوتی بلکہ اس کا کھلے عام جشن منایا جاتا ۔ ناٹو اتحادیوں کو جب یقین ہو گیا کہ وہ اپنے مقاصد کو کسی صورت حاصل نہیں کرسکتےتب جاکر انہوں نے بے آبرو ہو کربھاگ کھڑےہونے کا فیصلہ کیا۔
اس شکست کے آثار ؁۲۰۱۱ سے نمایاں ہونے لگے تھے۔ دو سال قبل طالبان نے سوویت فوج کی واپسی کی ۲۳ ویں سالگرہ منائی تھی اور یہ بیان جاری کیا تھا کہ ’’خودغرض امریکیوں کوروس کی ہار سے عبرت پکڑنا چاہئے اور جیالے افغانیوں سے یہ بے معنیٰ لڑائی ختم کر کے جلدازجلد اپنی جارح فوج کو لے جانا چاہئے۔ آج قابض امریکی اور اس کے ہمنوابعینہ اسی مستقبل کی جانب گامزن ہیں جو ماضی میں روس کو درپیش تھیں‘‘۔طالبان کی پیشن گوئی حرف بحرف درست ثابت ہوئی اس کے باوجود امریکی صدر اوبامہ نے بڑی ڈھٹائی سے اپنی رسوائی کو ایک سنگ میل قراردیا ۔ یہ سنگ میل بلکہ وہ سنگ راہ ہے جس سےٹھوکر کھا کر امریکہ اپنے حواریوں سمیت منہ کے بل گر پڑا ہے ۔

افغانستا ن پر پہلی فوج کشی برطانوی سامراج نے ؁۱۸۳۹ تا ؁۱۸۴۲ کے دوران کی تھی اور اسی طرح منہ کی کھائی تھی ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کابل میں برطانوی سفیر سر مارٹن ایوان نے اپنی کتاب افغانستان سے ایک نئی تاریخ میں لکھا تھا ’’یہ بات ناقابل ِ فہم ہے کہ برطانیہ نے یہ کیوں سوچ لیا کہ افغان سکھوں کی جارحیت کو تسلیم کرلیں گے اور ایک ایسے کٹھ پتلی اقتدار کے زیر نگیں ہو جائیں گے جن کے ایک سے زیادہ مرتبہ ملک بدر کیا جاچکا ہے ۔اکیسویں صدی میں انگریزوں نے پھر ایک بار اپنی تاریخ کو فراموش کرکے ایک اور مرتبہ جانبازافغانیوں کو اپنی تابناک تاریخ رقم کرنے کا موقع عطا کردیا۔
افغان جنگ کا آغاز ۱۱ ستمبر ؁۲۰۰۱ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کے چند ہفتوں بعد افغانستان پر امریکی حملے سے ہوا تھا۔اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے اوراق کو الٹ کر امریکی صدر جارج بش کی اس تقریر پر نظر ڈالی جائے جو اس نے فوج کشی سے قبل ۷ اکتوبر کوقصر ابیض میں بیٹھ کر کی تھی۔ اس جنگ کی ہمہ گیری کو بیان کرتے ہوئے جارج بش نے کہا تھا ’’اس مہم میں ہمارے ساتھ برطانیہ ،کناڈا،آسٹریلیا ، جرمنی اور فرانس ہے۔ یوروپ، مشرق وسطیٰ ، افریقہ اورایشیا کے ۴۰ سے زیادہ ممالک نے ہمیں اپنی فضا کو استعمال کرنے کے اور ان کی سرزمین پر اترنے کے حقوق عطا کردئیے ہیں اور کئی لوگوں نے معلومات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ ہمارے ساتھ ساری دنیا کی اجتماعی قوت ارادی ہے۔ اس کے برخلاف ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر مسلم حکمرانوں کو تک افغانی مجاہدین کے خلاف کردیا گیا تھا ۔دنیا کے۵۰ ملکوں سےتعلق رکھنے والے'نیٹو' کے ایک لاکھ ۴۰ ہزار فوجیوں پر مشتمل لشکرِ جرارکو دیکھ کر جوہری طاقت سے لیس پرویز مشرف بھی گھبرا گیا۔ اس نے طالوت کےان نافرمان ساتھیوں کا سا رویہ اختیار کرنے میں اپنی عافیت سمجھی جنہوں نے کہا تھا ’’ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے ‘‘

اس کے برعکس بے سروسامان مٹھی بھر افغان باطل کے آگے سینہ پر ہو گئے اور انہوں نےطالوت کےجاں نثارہمنواوں کی یاد تازہ کردی جن کی بابت ارشاد ربانی ہے ’’لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انہوں نے کہا: "بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے"۔ اسی کے ساتھ حق و باطل ایک نئی عالمی جنگ چھڑ گئیجس میں مجاہدین اسلام اللہ کے بھروسے ساری دنیا سے ٹکرا گئے تھے۔ اس کانتیجہ یہنکلا کہ امریکہ کو اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنی پڑی ۔ اس جنگ میں نام نہاد سپر پاور نے ویتنام سے بھی زیادہ وقت خراب کیا اور اس سےبڑی ذلت اٹھائی اس لئے کہ افغانیوں کوویتنامیوں کی مانندسوویت یونین اور چین کی حمایت حاصل نہیں تھی۔

تیرہ سال طویل اس جنگ کے دوران امریکہ نے لگ بھگ ۳۵۰۰ غیر ملکی فوجیوں کی موت کا اعتراف کیا ہے جن میں اکثریت ۲۲۰۰ کا تعلق امریکہ سے ہے۔ ایسےسنگین معاشی بحران کےدوران جبکہ امریکی معیشت چرمرا رہی تھی امریکی استعمار نے اس جنگ پر ایک ٹریلین سے زیادہ پھونک دئیے اس کے باوجودذلت آمیزشکست فاش کو ٹال نہ سکا۔جہاں تک طالبان حکومت کا سوال ہے اس کا خاتمہ تو ۵ ہفتہ کے اندر ہوگیا تھا اور افغانستان کی تباہی کا تعلق ہے اسے تو سوویت نے برباد کرہی دیا تھا ۔ اتحادی افواج تو۱۳سال تک طالبان کی قوت جہاد کو توڑنے میں لگی رہیں اور تین لاکھ پچاس ہزار نفری پر مشتمل افغانی دستہ بھی تیار کرلیا اس کے باوجوددارالخلافہ کابل تک کوپوری طرح قابو میں نہیں کرسکیں ۔ اس ایک سال میں امریکہ کی تربیت یافتہ افغانی فوج کے ۴۶۰۰ فوجی امریکہ کی ناقص حکمت عملی کا شکار ہوئے۔امریکی فوج کے اعلیٰ ترین افسر میجر جنرل ہیرالڈ گرین کو بھی اسی سال اگست میں موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ۔ اب اس کے باوجود بھی اگر امریکی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے افغانستان کو محفوظ تر بنا دیا ہے تو ان کی عقل پر ماتم کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے ؟ زمینی صورتحال تو یہ ہے کہ افغانستان کے طول و عرض پراب بھیطالبان کا سکہ چلتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانی صدر اشرف غنی ان کو مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں ۔

امریکی انتظامیہ اگر۱۳ سال قبل دھونس دھمکی کے بجائے مصالحت پر آمادہ ہوتا تو اس کی یہ درگت نہیں ہوتی مگر اس وقت تو بش کے دماغ میں ہوا بھری ہوئی تھی اس نے کہا تھا ہمارے مطالبات صاف ہیں ۔ تمام دہشت گردی کے کیمپ بند کردئیے جائیں ۔ اس طویل جنگ کے نتیجے میں طالبان کا کوئی کیمپ بند تو نہیں ہوا ہاں امریکیوں سے لڑنے کیلئے انہیں کئی نئے کیمپ ضرور قائم کرنے پڑے۔ القائدہ کے رہنماوں کو ہمارے حوالے کیا جائے۔ (ورنہ ہم زندہ یا مردہ انہیں ملا عمر سمیت اٹھا لے جائیں گے)۔ اس بابت یہ ہوا کہ اسامہ بن لادن تو خیر انتقال کر گئے لیکن امریکیوں نے نہ جانے ان کے کس ہم شکل کو مار کر سمندر میں پھینک دیا۔ اگر وہ واقعی اسامہ کو شہید کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو ان کی لاش ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش ہوتی اور ڈی این اے کے ذریعہ ثابت کیا جاتا کہ دنیا کے سب سے بڑے نام نہاد دہشت گرد کو ہلاک کردیا گیا ہے لیکن چونکہ یہ ممکن نہیں تھا اس لئے ایک ڈرامہ کرکے فائل بند کردی گئی۔ ڈاکرا ایمن ظواہری کو مارنے کی ساری کوششیں ناکام ہوچکی ہیں اور ملا عمر کی گرفتاری سے امریکہ خود تائب ہوگیا۔

جارج بش نے یہ بھی کہا تھاہم امن پسند قوم ہیں اس کے باوجود ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ اچانک رونما ہونے والی دہشت گردی کے سبب دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا ۔ ان ۱۳ سالوں کے دوران افغانستان کے مظالم اور عراق پر بلاجواز فوج کشی نے ثابت کردیا کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد کوئی اور نہیں بلکہ امریکی سامراج ہی ہے۔ اس نے اپنے کرم فرما پاکستان کے شہریوں کو بھی ڈرون حملوں کا شکار کرکے اپنی نمک حرامی ظاہر کردی۔ اسرائیل کے ساتھ سانٹھ گانٹھ امریکی امن پسندی کی نقاب تارتار کرتی ہے ۔ بش کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ’’ان سارے غیرملکی شہریوں کو رہا کردیا جائے جن غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے‘‘ ۔

قیدیوں کی بابت تو افغانیوں نے اپنی اخلاقی برتری کا لوہا ساری دنیا سے منوالیا۔ کئی امریکی فوجی ان کےحسنِ اخلاق سےمتاثرہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔معروف صحافی ایوان ریڈلی جومجاہدین کی حراست میں تھی آزاد ہونے کے بعد اسلام کے آغوش رحمت میں آگئیں اور آج کل اپنے قلم سے مغرب کی نقاب کشائی کررہی ہیں ۔اس کے برعکس امریکیوں کی بربریت پہلے تو ابوغریب میں سامنے آئی ۔ اس کے بعد گونٹے نامو کے مظالم خود امریکی سینٹ میں پیش ہونے والی رپورٹ میں شائع ہو گئے۔ اس رپورٹ کو دیکھنے کے بعد بھی اگر کوئی مغرب کو مہذب کہتا ہے تو اس کی نظروں سے مرعوبیت کا پردہ کوئی نہیں اٹھا سکتا۔ اس ماہ بدنام زمانہ امریکی قید خانہ سے جو ۴ افغانی قیدی رہا ہوئے ان کےخلاف فردِ جرم داخل کرنے کی زحمت نہیں کی گئی ۔ الزام لگاتے بھی تو کیا جبکہ ان کا کوئی جرم ہی نہیں تھا ۔ ان کو تو بس افغانی مسلمان ہونے کی سزا دی گئی۔ ان بے قصوروں کو اپنی عمر عزیز کے۱۰ سال بلاوجہ قیدو بند میں گزارنے پڑے اور طرح طرح کی تعذیب سے گزرنا پڑا۔ کیا عدل و انصاف کے بلند بانگ دعووں کی یہی حقیقت ہے جس کا دن رات رونا رویا جاتا ہے۔ اس جنگ نے امریکہ کے حوالے سے یہ صرف یہ غلط فہمی بھی دور کردی کہ وہ اپنے تمام حواریوں سمیت ناقابلِ تسخیر ہے۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھ لیا کہ جاپان یا جرمنی کومیدان جنگ میں ہرانا تو ممکن ہے مگر ویتنام یا افغانستان کے جیالوں کو شکست فاش دیناممکن نہیں ہے۔

امریکہ سے شائع ہونے والاٹائم نامی جریدہ ؁۱۹۲۷ سےہر سال ’’ٹائم مین آف دی أیر‘‘ کا خطاب تقسیم کرتا ہے ۔ یہ خطاب ایسے شخص یا گروہ کو دیا جاتا ہے جو سال بھرکی خبروں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا ہو۔ اس کیلئے پہلے قارئین سے رائے لی جاتی اور اس کے بعد ماہرین کی ایک ٹیم اپنا حتمی فیصلہ سناتی ہے۔ اس سال جب یہ رائے دہندگی کا سلسلہ ختم ہوا تو اس میں وزیراعظم نریندر مودی سب سے آگے تھے۔ اس لئے کہ سب سے زیادہ ووٹ امریکہ اور ہندوستان سے پڑے تھے ۔ اب ان رائے دہندگان میں سے کتنے ٹائم پڑھتے یا سمجھتے ہیں یہ ایک الگ تحقیق کا موضوع ہےلیکن بہرحال اس دوڑ میں مودی جی نے بازی مارلی اور اب معاملہ کمیت سے کیفیت کی جانب بڑھا جہاں مودی جی کا ماہرین سے سابقہ پیش آیا۔ اس مرحلہ میں ماہرین نےجن ۸ افراد یا ادروں مختصر فہرست مرتب کی اس میں روس اور عراق کے صدور تو موجود تھے لیکن امریکی صدر یا ہندوستانی وزیراعظم ندادرد تھے۔ بالآخر ایبولا فائٹرس کو ’’ٹائم مین آف دی أیر ‘‘ کیلئےمنتخب کیا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ ایبولا فائیٹرس نے ان سیاستدانوں کی بہ نسبت بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے لیکن عدل کا تقاضہ یہ تھا کہ اس سال افغانی مجاہدین کو اس خطاب سے نوازہ جاتا۔ ویسے مغرب سے اس طرح کی کشادہ دلی کی توقع ہی فضول ہے۔

خیر جیسے تیسے ؁۲۰۱۴ نے ہم سے رخصت لی اور ؁۲۰۱۵ ہمارا منتظر ہے۔ یہ سال فلسطین کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کرسکتا ہے اس لئے گزشتہ سال غزہ کے لوگ ایک بہت بڑی آزمائش سے گزرے لیکن انہوں نے شدید ترین حالات میں کمال صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا۔بڑی پامردی اور عزم و استقلال کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا ۔اس کے نتیجہ میں حماس اور فتح کے درمیان غیر معمولی اتحاد واتفاق کی فضا وجود میں آئی اور ایک متفقہ حکومت کا قیام بھی عمل میں آیا۔ عالمی رائے عامہ میں تبدیلیاں نمایا ں ہو نےلگیں ۔ یوروپ میں فلسطین کے تئیں ہمدردی اور اسرائیل کے خلاف غم وغصہ کی ایک لہر نظر آئی ۔ اس پیش رفت سے اسرائیلی سیاستداں بوکھلا گئے ہیں اور انہوں نے اسرائیل کو ایک نسلی امتیاز پر منحصریہودی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش تیز کردی ہے ۔جس کی حیثیت حقیقت حالکے اعتراف سے زیادہ نہیں ہے اس کے باوجود اسرائیل کے حامیوں کیلئے اب اس کی حمایت کو جاری رکھنا مشکل تر ضرور ہو جائیگا۔ مغربی کنارے میں پہلی بار انتفاضہ کے آثار نظر آئے ہیں اور خالد مشعل نے سال کے اختتام پر ترکی کا دورہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دلیل صبح روشن ہو ا چاہتی ہے اور قرآن کریم کی بشارت ’’ دل شکستہ نہ ہو غم نہ کروتم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو‘‘ کی تکمیل کا لمحہ قریب آلگا ہے۔ علی سردار جعفری نے اس طرح کی نئی صبح کی منظر کشی اس طرح کی تھی ؎
شفق کے نور سے روشن ہیں محرابیں فضاؤں کی
ثریا کی جبیں زہرہ کا عارض تمتاتاہے
پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھا ئیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے
زمیں نے پھر نئے سر سے نیا رٖخت سفر باندھا
خوشی میں ہر قدم پر آفتاب آنکھیں بچھاتا ہے
ہزاروں خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں سینے میں
جہانِآرزو کا ذرہ ذرہ گنگناتا ہے
مسرت کے جواں ملاح کشتی لے کے نکلے ہیں
غموں کے ناخداوں کا سفینہ ڈوبا جاتا ہے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449696 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.