بےترتیب خیالات
(Ali Imran, Fateh jang ,Attock)
اگر ہم اپنی ڈیلی روٹین ورک پہ
غور کریں تو بہت سے خوشگوارنا خوشگوار واقعات رونماہوتے ہیں ،جو ھم پہلے سے
ایکسپکٹ کر رہے ہوتے ہیں ، نا خوشگوار واقعات کا تعلق ھمارے اندر موجود ڈر
سے ہوتا ہے۔
اک مثل مشہور ہے ،جیسے انسان بوتا ہے ویساہی کاٹتا ہے ۔ اچھا حاصل کرنے
کےلیے ضروری ہے انسان اچھا کرے اور اچھا کرنے کے لیے اچھی سو چ کا ہونا بھت
ضروری ہے ۔
ھمارے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں 90 فیصد ھمارا اپنا ہاتھ ہوتاہے اور 10
فیصد قدرت یا تقدیر کا ، جیسا کہ میں نے اوپر تحریر کیا ،ھمارے ساتھ اکثر
رونما ہونے والے واقعات کو ھم پہلے سے ہی ایکسپکٹ کر رہے ہوتے ہیں ، اسے ھم
چھٹی ہس کانام دیتے ۔
ڈر یا خوف جس کو ھم دل سے منسوب کرتے ہیں در حقیقت اس کا تعلق ھمارے دماغ
سے ہوتا ہے اور دماغ کا تعلق ھماری سوچ سے ، اگر ھماری سوچ مثبت اور تعمیری
ہوگی تو ھمیں رزلٹ بھی اچھا ملے گا ، یوگا کرنے والے جب پاتھی مار کے
بیتٹھے ہوتے ہیں وہ اپنی سانس کو باہر یا اندر کھینچ کہ اک خیال کو یا نقطہ
کو اپنی سوچ کا مرکز بناتے ہیں اسلیے وہ کہی کہی منٹ اپنی سانس روک لیتے
ہیں۔
یہاں پہ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا پازیٹو سوچنے سے پازیٹو نتائج ملتیے
ہیں ؟
جناب جب کوئی بھی کام پازیٹو ایٹیوڈ کے ساتھ ناکامی کا خوف دل سے نکال کر
کریں تو ھم ضرور اچھے نتائخ حاصل ہوتے ہیں ، اسکے برعکس اگر ھم پہلے ہی
دماغ میں یہ بٹھالیں کہ میں انٹرویو میں فیل ہوجاوں گا ، میں کبھی بھی کرکٹ
کھیلتے ہوئے چھکا نہیں لگا سکتا ، میں کبھی بھی کھانا اچھا نہیں بنا سکتی ،
مرچیں یا نمک تیز نہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ یہ تمام سوچیں نیگٹو ایٹیوڈ کا
باعث بنتی ہیں ۔
جب کوئی یہ سوچ کے انٹرویومیں جائے گا کہ اسے جاب نہیں ملنی ،تو وہ کیا خاک
انٹرویو میں جوابات دے گا ؟ اگر کوئی پہلے ہی یہ سوچ رہا ہو ہائےبال بہت
تیز آ رہی ہے کہی لگ نہ جائے ، تو وہ کیا خاک چھکا لگائے گا ؟اگر کوئی پہلے
کنفیوژن کا شکار ہو کہ شاہد کھانے میں مرچیں کم ڈالی ہے مما سے ڈانٹ پڑے گی
،لو اک چمچ اور ڈال دیتی ہوں ،بھائی جب دو مرتبہ مرچیں ڈالی جائیں گی تو
کھانا خراب ہی ہونا ہے نا !
ھمارےہاں بہت سے لوگ بروقت فیصلہ نہیں کرپاتے ، ہرگز یہ بات نہیں ہوتی کہ
ان کے پاس فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ وہ عدم اعتمادی کا شکار
ہوتے ہیں ان میں خود اعتمادی کی بہت کمی ہوتی ہے وہ اک انجانے خوف میں
مبتلا ہوتے ہیں ، ناکامی کا خوف، امی کا خوف ، ابو کی ڈانٹ کاخوف ، لوگ کیا
کہے گے لوگوں کا خوف ، دوستوں کا خوف ، جناب جب اتنے سارے لوگوں کا خوف دل
میں لیے بیٹھے ہیں تو خاک کوئی فیصلہ کر پائیں گئے ۔
خود اعتمادی حاصل کرنے کیلیئے آپ اپنی خوبیاں اور خامیوں کا حساب لگائیں
،جن چیزوں میں آپ سمجھتے ہیں کے آپ بہتر ہیں ان پرفوکس کریں اور خامیوں کو
آہستہ آہستہ دور کرنے کی کوشش کریں، غلطیوں سے سیکھیں اور یہ بات ذہن میں
رھکییں کہ کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا ۔ اسطرح آپ میں اعتمادکا اضافہ ہوگا ۔
اکثر ھمارے ہاں بہت سے لوگ ڈپریشن کاشکار رہتے ہیں ،وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں
جو اپنی امیدکھو چکے ہوتے ہیں ، انکو کسی پل بھی چین نہیں آتا ، وہ چین و
سکون کے لیے کبھی ادھر کھبی ادھر بٹھکتے رہتے ہیں اور یہ پرابلم جب بڑھنے
لگتی ہے تو ان میں چڑچڑا پن پیدا ہوجاتا ہے ، انھیں ہر طرف سے ناکامی کا
سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ اک ھستی ایسی بھی ہے جو کبھی
اپنے بندے کو مایوس نہیں لوٹاتی۔
جب بھی انسان کو کسی کومدد کی تلاش ہوتو آللہ سے رجوع کرنا چاہیے ،
خدا وندعالم کا ارشاد ہے:< وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ>”صبر
اور نماز کے ذریعہ مددمانگو۔“ صبر اور نماز کے ذریعہ مددمانگنی چائیں بیشک
خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اللہ کی ذات کبھی اپنے بندے کو مایوس نہیں
کرتی۔
ھم لوگ سکون کےلیے نیند کی گولیوں ،موسیقی اور طرح طرح کی چیزوں پر انحصار
کرتےہیں جبکہ القران میں ارشاد ہے:
<الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا
بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ>
جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں (ان کو) اور سن
رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں۔
آج کل ھمارے ہاں اک اور بیماری ، محبت کی بیماریبھت زور پکڑ رہی ہے خیر جسے
میں محبت سے زیادہ اڈکشن یا ایفکشن کا نام دوں گا، یہ اک فطری سی بات جب
بھی آپ کسی معاملے میں دن رات انواول ہونگے تو اک سٹیج پہ آپ اس سے اکتا
جائے گے ، بس یہ ہی وجہ ہے کہ ھمارے ہاں کی آجکل کی محبتیں بس تھوڑے دنوں
ہی کی مہمان ہوتی ہیں ۔
اسلام تو ھمیں اجازت دیتا ہے کہ آپ کو اگر کوئی پسند ہو تو اس کو اپنا
پرپوزل بھیجا جائے ،اگر لڑکی اور اس کے ماتاپتا راضی ہوجائیں تو شادی کر لی
جائے ،نہیں تو آگے دیکھا جائے ، ویسے بھی محبت ہوتی وہی ہے جو شادی کے بعد
ہوتی ہے ۔۔(آی مین اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ) ،ویسے بھی شادی سے پہلے
نامحرم سے محبت زیادہ تردکھ ہی دیتی ہے۔
آخر میں میرے عشاق دوستوں کے نام فیض صاحب کے چند اشعار:
رات یوں دل میں تری بھولی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
اگر ہم اپنی ڈیلی روٹین ورک پہ غور کریں تو بہت سے خوشگوارنا خوشگوار
واقعات رونماہوتے ہیں ،جو ھم پہلے سے ایکسپکٹ کر رہے ہوتے ہیں ، نا خوشگوار
واقعات کا تعلق ھمارے اندر مجود ڈر سے ہوتا ہے۔
اک مثل مشہور ہے ،جیسے انسان بوتا ہے ویساہی کاٹتا ہے ۔ اچھا حاصل کرنے
کےلیے ضروری ہے انسان اچھا کرے اور اچھا کرنے کے لیے اچھی سو چ کا ہونا بھت
ضروری ہے ۔
ھمارے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں 90 فیصد ھمارا اپنا ہاتھ ہوتاہے اور 10
فیصد قدرت یا تقدیر کا ، جیسا کہ میں نے اوپر تحریر کیا ،ھمارے ساتھ اکثر
رونما ہونے والے واقعات کو ھم پہلے سے ہی ایکسپکٹ کر رہے ہوتے ہیں ، اسے ھم
چھٹی ہس کانام دیتے ۔
ڈر یا خوف جس کو ھم دل سے منسوب کرتے ہیں در حقیقت اس کا تعلق ھمارے دماغ
سے ہوتا ہے اور دماغ کا تعلق ھماری سوچ سے ، اگر ھماری سوچ مثبت اور تعمیری
ہوگی تو ھمیں رزلٹ بھی اچھا ملے گا ، یوگا کرنے والے جب پاتھی مار کے
بیتٹھے ہوتے ہیں وہ اپنی سانس کو باہر یا اندر کھینچ کہ اک خیال کو یا نقطہ
کو اپنی سوچ کا مرکز بناتے ہیں اسلیے وہ کہی کہی منٹ اپنی سانس روک لیتے
ہیں۔
یہاں پہ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا پازیٹو سوچنے سے پازیٹو نتائج ملتیے
ہیں ؟
جناب جب کوئی بھی کام پازیٹو ایٹیوڈ کے ساتھ ناکامی کا خوف دل سے نکال کر
کریں تو ھم ضرور اچھے نتائخ حاصل ہوتے ہیں ، اسکے برعکس اگر ھم پہلے ہی
دماغ میں یہ بٹھالیں کہ میں انٹرویو میں فیل ہوجاوں گا ، میں کبھی بھی کرکٹ
کھیلتے ہوئے چھکا نہیں لگا سکتا ، میں کبھی بھی کھانا اچھا نہیں بنا سکتی ،
مرچیں یا نمک تیز نہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ یہ تمام سوچیں نیگٹو ایٹیوڈ کا
باعث بنتی ہیں ۔
جب کوئی یہ سوچ کے انٹرویومیں جائے گا کہ اسے جاب نہیں ملنی ،تو وہ کیا خاک
انٹرویو میں جوابات دے گا ؟ اگر کوئی پہلے ہی یہ سوچ رہا ہو ہائےبال بہت
تیز آ رہی ہے کہی لگ نہ جائے ، تو وہ کیا خاک چھکا لگائے گا ؟اگر کوئی پہلے
کنفیوژن کا شکار ہو کہ شاہد کھانے میں مرچیں کم ڈالی ہے مما سے ڈانٹ پڑے گی
،لو اک چمچ اور ڈال دیتی ہوں ،بھائی جب دو مرتبہ مرچیں ڈالی جائیں گی تو
کھانا خراب ہی ہونا ہے نا !
ھمارےہاں بہت سے لوگ بروقت فیصلہ نہیں کرپاتے ، ہرگز یہ بات نہیں ہوتی کہ
ان کے پاس فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ وہ عدم اعتمادی کا شکار
ہوتے ہیں ان میں خود اعتمادی کی بہت کمی ہوتی ہے وہ اک انجانے خوف میں
مبتلا ہوتے ہیں ، ناکامی کا خوف، امی کا خوف ، ابو کی ڈانٹ کاخوف ، لوگ کیا
کہے گے لوگوں کا خوف ، دوستوں کا خوف ، جناب جب اتنے سارے لوگوں کا خوف دل
میں لیے بیٹھے ہیں تو خاک کوئی فیصلہ کر پائیں گئے ۔
خود اعتمادی حاصل کرنے کیلیئے آپ اپنی خوبیاں اور خامیوں کا حساب لگائیں
،جن چیزوں میں آپ سمجھتے ہیں کے آپ بہتر ہیں ان پرفوکس کریں اور خامیوں کو
آہستہ آہستہ دور کرنے کی کوشش کریں، غلطیوں سے سیکھیں اور یہ بات ذہن میں
رھکییں کہ کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا ۔ اسطرح آپ میں اعتمادکا اضافہ ہوگا ۔
اکثر ھمارے ہاں بہت سے لوگ ڈپریشن کاشکار رہتے ہیں ،وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں
جو اپنی امیدکھو چکے ہوتے ہیں ، انکو کسی پل بھی چین نہیں آتا ، وہ چین و
سکون کے لیے کبھی ادھر کھبی ادھر بٹھکتے رہتے ہیں اور یہ پرابلم جب برھنے
لگتی ہے تو ان میں چیڑچہڑا پن پیدا ہوجاتا ہے ، انھیں ہر طرف سے ناکامی کا
سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ اک ھستی ایسی بھی ہے جو کبھی
اپنے بندے کو مایوس نہیں لوٹاتی۔
جب بھی انسان کو کسی کومدد کی تلاش ہوتو آللہ سے رجوع کرنا چاہیے ،
خدا وندعالم کا ارشاد ہے:< وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ>”صبر
اور نماز کے ذریعہ مددمانگو۔“ صبر اور نماز کے ذریعہ مددمانگنی چائیں بیشک
خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اللہ کی ذات کبھی اپنے بندے کو مایوس نہیں
کرتی۔
ھم لوگ سکون کےلیے نیند کی گولیوں ،موسیقی اور طرح طرح کی چیزوں پر انحصار
کرتےہیں جبکہ القران میں ارشاد ہے:
<الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا
بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ>
جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں (ان کو) اور سن
رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں۔
آج کل ھمارے ہاں اک اور بیماری ، محبت کی بیماریبھت زور پکڑ رہی ہے خیر جسے
میں محبت سے زیادہ اڈکشن یا ایفکشن کا نام دوں گا، یہ اک فطری سی بات جب
بھی آپ کسی معاملے میں دن رات انواول ہونگے تو اک سٹیج پہ آپ اس سے اکتا
جائے گے ، بس یہ ہی وجہ ہے کہ ھمارے ہاں کی آجکل کی محبتیں بس تھوڑے دنوں
ہی کی مہمان ہوتی ہیں ۔
اسلام تو ھمیں اجازت دیتا ہے کہ آپ کو اگر کوئی پسند ہو تو اس کو اپنا
پرپوزل بھیجا جائے ،اگر لڑکی اور اس کے ماتاپتا راضی ہوجائیں تو شادی کر لی
جائے ،نہیں تو آگے دیکھا جائے ، ویسے بھی محبت ہوتی وہی ہے جو شادی کے بعد
ہوتی ہے ۔۔(آی مین اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ) ،ویسے بھی شادی سے پہلے
نامحرم سے محبت زیادہ تردکھ ہی دیتی ہے۔
آخر میں میرے عشاق دوستوں کے نام فیض صاحب کے چند اشعار:
رات یوں دل میں تری بھولی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے |
|