فوجی عدالتیں اور مجرموں کو سزائیں

ربیع الاول کے مہینہ میں سیرت آقائے دوجہاں ﷺ کے سوا کچھ لکھنے کا اداردہ تو نہ تھا اس حوالے سے دو تفصیلی کالم ارسال کر چکا ہوں مگر ملکی حالات کے پیش نظر چند سطور لکھی ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں2014 کا سال گزر گیا مگر قوم کو نہ بھولنے والے صدمے دے گیا سال گذر گیا مگرہر طرف مسائل وآلام ہیں کہیں ہمارا ازلی دشمن بھارت ہماری سرحدوں پر حملے کرکے ہمارے فوجی اور عام پاکستانی شہریوں کو شہید کردیتا ہے کہیں پاکستان کے اندر اس کی دہشت گردی کی باز گشت سنی جارہی ہے014 2میں چالیس بار یہ سرحدوں کی خلاف ورزی کرچکا، جسمیں اس ازلی دشمن نے چالیس ہزار مارٹر گولے ،تیس ہزار گولیاں برسائیں جس کے نتیجے میں چودہ فوجیوں سمیت عام پاکستانی شہری شہید ہوچکے ہیں لیکن پاکستان کے حکمران اپنی روایتی بزدلی،آلو پیاز ،ٹماٹر کی تجارت اور امریکی رعب اور دبدبے سے باہر نہیں نکل رہے ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی بھارتی نمائندوں کو بلوا کر احتجاج کیا جارہا ہے کوئی ان حکمرانوں کو سمجھائے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ،بھارت کا قبلہ درست کرنے کے لئے جہاد کی طاقت استعمال کرنا ہوگی۔

ملک میں آرمی سکول پشاور حملے کے بعد انتہائی اقدام کرنے کے لئے غیر معمولی اقدام کئے جارہے ہیں جن میں سر فہرست فوجی عدالتوں کا قیام ہے حکمران طبقہ اور اس کے اتحادی اس پر رضا مند نظر آرہے ہیں جبکہ بعض سیاستدانوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ان میں سے بعض نے تو ان عدالتوں کو کڑوی گولی قرار دیا ہے عدلیہ کے موجودہ اور سابقہ سنیئر ترین،بااثر کثیر قانون دانوں اورسابق چیف جسٹس افتخار چوہدری ان عدالتوں کے حق میں قطعا نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتیں آئین کی کھلی خلاف ورزی ہیں اگر فوجی عدالتیں لگانی ہیں تو عدلیہ کو بند کرکے ملک بھر میں فوجی عدالتوں کا قیام ہی کر دیا جائے گذشتہ روز ایک ٹی وی چینل کے مذاکرے میں سنیئر اینکر پرسن کے پروگرام میں ایک سابق فوجی عدالت کے جج نے بھی اس بات کا کھلا اعتراف کیا کہ ماضی کی فوجی عدالتوں نے غلط فیصلے کئے ۔ جبکہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف کا کہنا ہے کہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدام انتہائی ضروری ہیں فوجی عدالتوں سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا اور پشاور سکول کے شہدائے کے خون کا بدلہ لے سکیں گے جبکہ دوسری طرف اس موقف کے مخالفین کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں آئین کی حدود میں کام کرنے والی عدالتوں پر ہی انحصار کیا جائے تو یہ پاکستان کے لئے بہتر ہوگا ۔برکیف ماضی میں فوجی عدالتوں کا کردار مبصرین کی نظر میں شاندار اورقابل تعریف نہیں البتہ حالیہ فوجی عدالتوں کے کیا نتائج نکلیں گے اس کے لئے قوم کو مزید انتظار کرنا ہوگا ۔فوجی عدالتوں کے حوالے سے ایک سیاسی جماعت کی طرف سے بڑی شدومد سے یہ کہا جارہا ہے کہ ان عدالتوں کا دائرہ کار صرف دہشت گردوں تک ہی محدود رکھا جائے یعنی جو کالعدم گروہ کام کر رہے ہیں صرف ان کے لئے ہی یہ عدالتیں کام کریں دیگر کو اس میں شامل نہ کیا جائے تو اس پر ہماری گذارش ہے کہ وہ گروہ جو جمہوریت کی کشتی میں سوار ہوکر اپنے ہولڈ یافتہ شہروں میں سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں اپنی ایجاداری قائم رکھنے کے لئے بوری بند لاشوں ،بھتہ خوری،جگا ٹیکس ،مسلح گروپوں کے سر پرست بن کرا قدام قتل جیسے بے شمار جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں کیا وہ دہشت گردنہیں ہیں؟ہاں یہ بھی دہشت گرد ہیں بلکہ بدترین دہشت گرد ہیں ایسے مجرموں کے کیسز کی سماعت بھی انہی فوجی عدالتوں میں ہونی چاہیے کیونکہ کالعدم گروہوں کی طرح یہ بھی عدلیہ کے ججز کے لئے سیکیورٹی رسک بنے بیٹھے ہیں یہ جمہوریت کی کشتی پر سوار ہوکر جرائم کرنے والے بدترین مجرمین بھی ججز پر منفی طریقوں سے اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ ان کی بدمعاشی تو اس قدر ہے کہ شہر قائد میں چیف جسٹس آف پاکستان کو داخل نہ ہونے دیناچاہیں تو اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحب داخل نہیں ہو سکتے تو ایسے خوف ناک مجرمین جن کے بارے میں عام شہری لب کشائی کرنے سے گھبراتے ہیں کا شکنجہ فوجی عدالتوں میں تیار کیا جانا چاہیے تاکہ ایسے لیڈروں کے روپ میں دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب ہو سکیں ۔

ہماری گذشتہ تحریر کے بعد اکثرمذہبی حلقوں نے لال مسجد سمیت ملک بھر کی مسجدوں ،مدارس ،علماء کرام کے تقدس کے لئے پر اثر بیانات دئیے ہیں جن کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں پاکستان جیسے اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک میں ایسے گھٹیا رویوں کا تدارک از حد لازم ہے وہ تمام قائدین جنھوں نے مساجد،مدارس،علمائے کرام کی کرادر کشی کرنے والوں کا نوٹس لیا خراج تحسین کے مستحق ہیں قوم ماضی میں بھی ان سے ایسے ہی ردعمل کی خواہش مند ہے ۔

ایک اہم ترین مسلہ جو راقم کی نظر میں ہے جس کا اظہار ایک تحریر میں پہلے بھی کیا گیا مگر اس پر اعلیٰ مذہبی قیادت نے نوٹس نہیں لیا کی طرف توجہ مبذول کروانا لازم سمجھتا ہوں کہ اس وقت اسلام کا اہم ترین قانون سزائے موت کا اجراء ہو چکا ہے تمام مذہبی،سیاسی ،سماجی،معاشرتی، فلاحی ،سول سو سائٹی کی طرف سے اس کاخیر مقد کیا گیا ایسا ہی ہونا چاہیے اسلام کا قانون ہے کہ قتل کا بدلہ قتل ہے قصاص میں زندگی ہے، وفاقی حکومت نے مغرب ویورپ کے دباؤ ،مطالبے کاباوجود اس قانون پر عمل کرنے کا عزم صمیم کر رکھا ہے جو کہ مبارکباد کا مستحق عمل ہے اگر پہلے پھانسیوں پر سے پابندی اٹھ جاتی تو حالات ایسے نہ ہوتے ۔ان پھانسیوں کے عمل کے اجراء کے وقت یہ بھی کہا گیا کہ قانون ایک طبقہ یا گروہ کے لئے نہیں ہونا چاہیے سب کے لئے بیک وقت لاگو کیا جائے سب کے لئے کے الفاظ میں ایک ا یسا طبقہ بھی شامل ہے جنھیں دہشت گردوں کی طرح نمایاں کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ گستاخان رسول جن کو عدالتوں نے مجرم قرار دے کر تختہ ٔ دار پر لٹکانے کا حکم دے رکھا ہے ان کو بھی بلا تمیز،بغیر کسی بیرونی دباؤ کے پھانسیوں پر لٹکایا جائے ان کو پھانسی دینے کے مناظر بھی بالکل اسی طرح قوم کو دکھائے جائیں جیسے دیگر مجرموں کو دکھایا جارہا ہے تا کہ گستاخوں کو پیغام ملے کہ اگر ہم نے اﷲ کے رسول ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی تو ہمارا حشر بھی ایسا ہی ہوگا پھر دیکھتے ہیں کون بد بخت اﷲ کے آخری رسول ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتا ہے؟ لیکن ابھی تک اس طرح کاباضابطہ مطالبہ نہیں کیا گیا جو کہ المحہ فکریہ ہے کیونکہ قوم اس پرصدق دل سے ایمان رکھتی ہے کہ اﷲ کے رسول حضرت محمد ﷺ کا گستاخ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے اسے جیلوں میں مہمان بنا کر نہ رکھا جائے اسلام کے قانون سزائے موت کا اطلاق ان پر سب سے پہلے کیا جائے ،راقم ساری قوم سے درد مندانہ اپیل کرتا ہے کہ اے نبی آخرالزماں کے عاشقو! "گستاخا ن رسول کو بھی پھانسی دو "کے پرزور مطالبہ کی صدا ملک کے کونے کونے،گلی ،گلی سے آنی چاہیے ۔ اے پاکستانی مسلمانو،سیاستدانو،حکمرانو،مذہبی لیڈران کرام!اگر قیامت کے دن آقا ئے دوجہاں ﷺ نے تم سے سوال کرلیا کہ پاکستان میں سزائے موت کے قانون پر عمل ہورہاتھا تم نے میرے گستاخوں کو سزا دلوانے کے لئے کیا ،کتنا حصہ ڈالا تو کیا جواب دو گے ؟ ایسے وقت سے پہلے ہمیں بحیثیت قوم عمل کی طرف بڑھ جانا چاہیے ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269557 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.