عید میلاد النبیؐ اور ہم
(Syed Arif Saeed Bukhari, )
ماہ ربیع الاوّل ہر سال دنیا بھر
کے مسلمانوں کیلئے مسرتوں کا پیغام لے کر آتا ہے ، دنیا بھر کے مسلمان اپنے
اپنے انداز میں اس ماہ مقدس کی برکتوں اور فضیلتوں کے حصول کیلئے مصروف عمل
ہو جاتے ہیں ۔مسلم اُمہ اس ماہ کی عظمتوں اور برکتوں سے واقف ہے ، بیشک !
اس کی آمد کے ساتھ ہی نبی کریم ؐ سے عشق و محبت کے دعویداروں میں اضافہ ہو
جاتا ہے ۔ یوں تو اس ماہ مقدس کے آغاز کے ساتھ ہی محافل میلادؐ اور ذکر
مصطفی ؐکا سلسلہ گلی گلی ، محلے محلے شروع ہوجاتا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے
کہ ہر مسلمان حقیقی معنوں میں عشق رسولؐ میں ڈوبا ہوا ہے ۔اور شاہد ہم لوگ
بحیثیت مسلمان اور سچے عاشق رسولؐ ہونے کے ناطے اپنی زندگیوں کو قرانی
تعلیمات اور اور اپنے پیارے نبی کریمؐ کے اسوہ ء حسنہ ؐکے مطابق بسر کرنے
کا عمل شروع کر دیں گے ۔۔لیکن ہمیشہ کی طرح ہم اس ماہ کے 12روز اپنے آقا
نبی کریم ؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری کا جشن دھوم دھام سے مناتے ہیں ۔ اور
خاص طور پر 12ربیع الاوّل کوبڑے اہتمام کے ساتھ ’’جلوس عید میلاد النبیؐ
نکالتے اور ولادت نبی کریم ؐکا دن پورے مذہبی جوش و ضبزے سے مناتے ہیں ۔
شہر بھر میں حتیٰ کے اپنی دکانوں اور گھروں کو بھی خوبصورت قمقموں اور
روشنیوں سے منور کر دیتے ہیں ۔ جو فی الواقع ہماری نبی کریم ؐ کے عشق کا
اظہار ہے ۔ہم میں سے ہر شخص اس ایک روز دوسروں پر سبقت لے جانے کیلئے اپنے
تمام تر وسائل بروئے کار لاتا ہے تاکہ وہ دوسروں کی نظر میں نمایاں نظر آئے
، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد نے ہمیں اپنی اصل منزل سے
بھٹکا دیا ہے ، یوں تو ہم ایک خُدا اور ایک رسولؐ کے ماننے والے ہیں ۔مگر
اس کے باوجود ہم نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے ۔نبی کریم ؐ
نے فرمایا کہ ’’فتنوں کے زمانے میں کامیاب وہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ ؓ
کے طریقوں پر چلے ‘‘
آئیے،دیکھیں کہ حضور نبی کریم ؐ کا اُسوہ حسنہ کیا ہے ؟ اور اس کا سب سے
نمایاں پہلو کیا ہے کہ جس کی بدولت اُمت مُسلمہ کو موجودہ ذلّت و رسوائی سے
نجات مل سکتی ہے؟نبی آخرالزماں کے بارے میں خود رب کائنات کا ارشاد ہے کہ
’’اﷲ تعالیٰ وہ ذات ہے کہ جس نے رسول اکرم ؐ کو ہدایت اور دین ِحق کے ساتھ
معبوث فرمایا ، تاکہ غالب کر دیں اس دین کو دوسرے ادیان پر‘‘دوسری جگہ
ارشاد ہے کہ ’’اے نبیؐ آپ مسلمانوں کو جہاد پر اُبھاریئے ‘‘ ایک اور جگہ
ارشاد خدا وندی ہے کہ’’قتال کرتے رہیں یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے اور
تمام جگہوں پر اﷲ کا دین غالب آجائے ‘‘ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ
کے راستے پر جہاد کیجئے جیسا کہ جیسا کے جہاد کا حق ہے ‘‘ قرآن پاک میں تو
جگہ جگہ ’’جہاد ‘‘کا تذکرہ موجود ہے ۔سورہ بقرہ میں تو جہادکے ثمرات کا
نقشہ کھینچا گیا ہے۔ کفر توہمیشہ اسلام کو مٹانے کیلئے برسر پیکار رہا لیکن
اﷲ تعالیٰ دین اسلام کے نور کو پوری دنیا میں چمکارہا ہے ۔
ایک نظرحضور ؐ کی عملی زندگی کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو آپ ؐ عطائے
بنوتؐ کے 17برس تک مکّہ میں رہے اور 10سال مدینہ منورہ میں گذارے ، مکّہ کی
زندگی جہادی زندگی کی تربیت تھی جس طرح کمانڈر کو تربیت کے ہر مرحلے سے
گذرنا پڑتا ہے اسی طرح حضورؐ اور آپؐ کے اصحاب ؓ کو مکّہ میں مصائب وآلام
اور ایزاؤں کی زندگی گذارنا پڑی ۔اس تمام عرصے میں آپؐ کا صبر و استقامت
اپنی مثال آپ ہے ۔آپؐ نے ان تکالیف پر خود بھی صبر کیا اور اپنے اصحاب کو
بھی صبر کی تلقین کی ۔ غلبہ ء اسلام کیلئے مسلمانوں نے ہمیشہ علم جہاد بلند
کیا لیکن بدقسمتی سے آج مسلمان اور مسلمانوں کے حکمرانوں نے نبی کریم ؐ کی
اس سنت کو یکسر فراموش کر دیا ہے ۔ اب توہم اپنے غیرملکی آقاؤں کی خوشنودی
کیلئے ’’جہاد ‘‘کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔یہاں تک کہ اب ’’جہاد‘‘ کو بھی دہشت
گردی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی طرح انہی اسلام دشمن قوتوں کے ایجنٹ بن کر
ہماری صفوں میں ایسے لوگ شامل ہو چکے ہیں کہ جو اسلام کے نام پر ’’بدلے ‘‘
کی آگ میں بے گناہ اور نہتے لوگوں حتیٰ کہ معصوموں بچوں تک کے خون سے ہولی
کھیل رہے ہیں جبکہ نبی کریم ؐ نے دوران جنگ بے گناہ اور نہتے لوگوں، خواتین
اور بچوں سمیت ان لوگوں کے قتال سے منع فرمایا ہے کہ جنہوں نے ہتھیار نہ
اٹھا رکھے ہوں ۔ آج امریکہ اور اس کے حواری پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف
برسر پیکار ہیں یہ سپر طاقتیں مسلمانوں کے جذبہ ء جہاد سے اس قدرخوف زدہ
ہیں کہ انہیں ہر طرف اپنی موت نظر آتی ہے ، یہ لوگ پہلے افغانستان پر چڑھ
دوڑے ، پھر عراق پر چڑھائی کر دی ۔ ان تمام کارروائیوں کا مقصدصرف اور صرف
مسلمانوں کی عسکری طاقت کوختمکرنا اور ان کے وسائل پر قبضہ ہے ۔ کاش! ہم
خواب ِغفلت سے بیدار ہو جائیں اور یہود و نصاریٰ کی اسلام اور مسلمانوں کے
خلاف سازشوں کو سمجھ سکیں ۔ آج ہماری نا اتفاقیوں اور اسلام سے دوری کے
باعث ہی ہم پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ایک لمحہ وہ لوگ جو اسلام
دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر وطن عزیز کی تباہی و بربادی کی تاریخ رقم کر
رہے ہیں ۔وہ بھی اس مقدس دن اپنا احتساب خود کریں اور غور کریں کہ وہ
معصوموں کے خون سے ہولی کھیل کر اسلام کی کون سی خدمت کر رہے ہیں تو اس سے
سب کچھ واضح ہو جائے گا۔عید میلاد النبیؐ کا یہ مقدس دن ہم سے تقاضا کرتا
ہے کہ ہم صدق دل سے اپنی لعرزشوں اور کوتاہیوں پر اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر
معافی مانگیں اور اس عزم کا اعادہ کریں کہ ہم اپنی زندگیوں کو نبی کریم ؐ
کی تعلیمات کی روشنی میں ڈھالیں گے اور غلبہ ء اسلام کیلئے جہاں کہیں بھی
کفار کے خلاف جہاد کی ضرورت ہوئی تو کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔
مجھے پختہ یقین ہے کہ جب ہم نے اپنی بقاء اور سلامتی کیلئے اسلامی تعلیمات
کی روشنی میں اپنے ذہنوں کو منور کر لیا تو دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کے
خلاف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرا ء ت نہیں کر سکتی ۔ اسی صورت میں ہم
قوموں کی برادری میں ایک خود دار اور باوقار قوم کی طرح زندہ رہ سکتے ہیں ۔
آج کے دن ہمیں امر کا عہد بھی کرنا ہوگا کہ ہم اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں
کا بھی خیال رکھیں گے ۔ اور اپنی زندگیوں کو نبی کریم ؐ کے اسوہ حسنہ کے
عین مطابق ڈھالنے کی بھرپور کوشش کریں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|