بولوں اگر میں جھوٹ تو مرجائے گا ضمیر

سانحہ پشاور پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، اہل قلم اپنے اپنے درد اگل رہے ہیں، ہر آنکھ اشکبار ہے دل لہو لہو ہے، سینے پھٹ رہے ہیں، خاص کر شہید بچوں کی مائیں جن کے دکھ کا مداوا اب کوئی نہیں کرسکتا، کچھ زخم تو وقت کے ساتھ ساتھ بھر جاتے ہیں، مگر کچھ زخم ایسے رہے جاتے ہیں جو وقت گزرنے کے باوجود بھی نہیں بھرتے ہرے ہی رہتے ہیں، ذہن پر چھائے گہرے نقص مٹائے نہیں مٹتے، یادوں کے گہرے سائے چھائے رہتے ہیں، اب قلم دانوں کے پاس نوحے لکھنے کے علاوہ کچھ نہیں رہا، یہ قلم دان ہی حالات کی سنگینی کو کاغذ پر نقش کرتے ہیں، درد دل رکھتے ہیں، یہ حیوان نما درندے دہشت گرد تو ہمارے ملک میں کئی سالوں سے خوف اور دہشت کی علامات بنے بیھٹے ہیں، جہاں چاہتے ہیں خون و آگ کا کھیل کھیلتے ہیں، قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیتے ہیں،

کہیں سر بازار لاشیں گرا دیں، کہیں مسجد و مزارات کو شہید کردیا جاتا ہے، اب تدریس گاہوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ان ظالمانوں کے کئی گروپ بن چکے ہیں، یہ کئی ناموں سے خون و آگ کا کھیل کھیل رہے ہیں، ان کا کوئی مذہب نہیں کوئی ملک نہیں یہ مذہب کا برقعہ اوڑ کر ظلم و بربریت کی انتہا کررہے ہیں، یہ شیطانی درندے مختلف ناموں اور چہروں سے اسلامی ملکوں پر حملے کررہے ہیں، سوائے یورپی یونین کے، چین کے صوبے کاشغر میں بھی دہشت گردی کرچکے ہیں، ہم بے حس قوم ہیں، چین بھی اس دہشت گردی کو برداشت نہیں کرسکا، اگر پاکستان کے علاوہ کوئی اور ملک ہوتا تو ازبکستان اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا، سانحہ پشاور میں مارے جانے والے دہشت گرد بھی ازبک تھے،

سانحہ پشاور پر عوام چلا اٹھی ہیں، سراپا احتجاج ہے، ظالمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے، معصوم شہیدوں کا خون نہ سوکھ رہا ہے اور نہ اپنا رنگ چھوڑ رہا ہے، معصوم شہیدوں کے خون میں انکی مائوں کے آنسو شامل ہوچکے ہیں، شہیدوں کے لہو اور مائوں کے آنسوئوں نے زمیں کو تر کیا ہوا ہے، اس دیس کی ہر ماں خون کے آنسو رو رہی ہے، ہر ماں نوحہ بین کررہی ہیں، انسانیت آدمیت جدا ہوچکی ہیں، عوام محو حیرت ہے کہ جب کراچی ائر پورٹ پر ان ظالمانوں نے حملہ کیا تو عوام سراپا سوال تھی کہ حفاظت کرنے والے کہاں گئے؟ یہ ظالمان خونی ہتھیار سمیت اندر کیسے آگئے، قابل غور بات ہے کہ ظالمان پشاور آرمی اسول میں کیسے داخل ہوگئے، اس پر ہزاروں سوالات جنم لے رہے ہیں، سانحہ پشاور کے بعد اے پی سی ہوئی ہوچکی ہے، اہم فیصلے بھی ہوچکے ہیں، ایکشن پلان کمیٹی کے تحت ملٹری کورٹس کے قیام پر غور کیا جارہا ہے، ملٹری کورٹس کے قیام پر حکومت کو مخالفت کا سامنا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو اجلاس کے اندر ملٹری کورٹس کے قیام کی ہاں کر دیتے ہیں، پھر میڈیا پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ہم نے تو ملٹری کورٹس کی حمایت کڑوے گھونٹ پی کر کیں ہیں، کیا یہ منافقانہ طرز عمل نہیں ہے،
بولوں اگر میں جھوٹ تو مرجائے گا ضمیر
کہہ دوں اگر میں سچ تو مجھے مار دینگے لوگ

سیاسی جماعتوں سمیت پی ٹی آئی اور پیپزپارٹی بھی ملٹری کورٹس کے قیام کی مخالفت کرچکی ہے، کیا ملٹری کورٹس کا قیام واقعی دہشت گردی کی انسداد کے لیے ہوگا، یہ ایسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا؟ سانحہ پشاور کے فوری بعد سزائے موت پر پابندی کا خاتمہ ہوا، ساتھ دہشت گردوں کو فوری پھانسی دینے کے بعد یہ عمل ست روی کا شکار ہوچکا ہے، جس سے بہت سے شکوک و شبھات جنم لے رہے ہیں، ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کو فوری پھانسی دیئے جانے پر غور ہورہا ہے، افغانیوں کی واپسی پر بھی غور کیا جارہا ہے، حکمرانوں کا کام صرف اجلاس کرنے ہیں، باقی عوام کا کام ماتم کرنا ہے، ہمیشہ ہی سے اجلاس ہوتے آئے ہیں، اب تو اجلاس کے بجائے فوری عمل ہونا چاہیے، پاکستان میں پھانسی کا عمل شروع ہوتے ہی عالمی برادری پورپی یونین اور اقوام متحدہ نے پاکستان پر دبائو ڈالا کہ دہشت گردوں کو پھانسی نہ ہوں،

کیا ہی اچھا ہوتا کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون دہشت گردوں پر دبائو ڈالتے کہ پاکستان میں معصوم جانوں کا خون بہانے سے گریز کیا جائے، بان کی مون نے وزیراعظم نواز شریف کو فون کرکے پھانسیوں پر عملدرامد روکنے پر زور دیا، وزیراعظم عالمی دبائوں کو مسترد کرکے ظالمانوں کو انجام تک پہنچائے، اور ملک میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف بھی سخت ایکشن لیا جائے، عوام کے پر زور مسلسل احتجاج اور دھرنوں پر تنگ آکر پولیس نے لال مسجد کے سربراہ مولانا عبدالعزیز عرف عزیزہ باجی کے خلاف ایف آئی آر تو درج کرلی مگر گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کرسکی، یہی وجہ ہے کہ آج ملت کا ہر فرد سوچنے پر مجبور ہیں کہ ظالمان ہر جگہ اپنے لوگ کیسے شامل کرلیتے ہیں، ارے بھائی انکے ہمدرد سپورٹر اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں،

انہوں نے اپنے قانون خود بنائے ہوئے ہیں، انہوں نے برقعہ اور مذہب کو ڈھال بنا رکھا ہے، یہ درندے فتنہ پرست حیوان ہمیں اور ہمارے بچوں کو مار رہے ہیں یہ ظالمان بھیس بدل کر ہمارے قومی اداروں میں شامل ہوچکے ہیں، ان درندوں کو نکالنے کا حوصلہ پاک فوج اور ہم میں ہے، سوال یہ ہے کہ ساری ذمہ داری فوج پر عائد نہیں ہوتی، فوج اپنے فرا‏ئض بخوبی سر انجام دے رہی ہیں، ان کے خلاف محاذ پر ڈٹی ہوئی ہیں، پاک فوج انکا قیمہ بنا رہی ہیں، مگر کیا ہم اپنی ذمہ داری فرض ادا کررہے ہیں، نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں کھڑا ہونا ہوگا، گھروں سے باہر نکلنا ہوگا، آواز حق بلند کرنا ہوگی، اپنے شہروں گلی محلوں چپے چپے پر کڑی نظر رکھنا ہوگی، کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی ہمیں پھر سانحے پشاور جیسے حادثے سے دو چار کردیں گی۔ تمام میڈیا کے چینلز کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا، میڈیا کو دہشت گردوں کی تشہیر کرنے سے گریز کرنا چاہیے، وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم سب کو ان درندوں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا، ورنہ یہ درندے اسی طرح ہمارے سینے چاک کرتے رہے گے،

2014 ہمیں گہرے دکھ زخم دے کر رخصت ہوچکا ہے، 2015 کا آغاز ہوچکا ہے، 2014 بہت سے انمٹ نقوش چھوڑ کر گیا ہے، گزرے ہوئے برس میں وطن عزیز کی عوام کو خوشیوں سے زیادہ غم ملے عوام مشکلات ظلم و ستم کا شکار رہی، ملک بھی بد ترین سیاسی بحرانوں کا شکار رہا، 2014 کے آخری ماہ دسمبر میں سانحہ پشاور میں 134 بچوں سمیت 150 افراد شہید ہوچکے ہیں، دہشت گردی کے کل واقعات میں 882 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، 327 سکیورٹی فورسز کے جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں، آپریشن ضرب عضب سمیت دیگر سکیورٹی اداروں کے ساتھ جھڑپوں میں 2841 شر پسندوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ رب کریم سے دعا ہے کہ یہ نیا سال 2015 وطن عزیز کے لیے امن محبت سلامتی اور خوشحالی کا سال ثابت ہوں، اس سال کسی کی بھی حیات جرم نہ ہوں، زندگی وبال نہ ہوں،
خدا کریں میری عرض پاک پر اترے
وہ فضل گل جیسے اندیشہ زوال نہ ہوں

Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 61146 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More