قاضی حسین احمد ۔۔۔۔۔اتحاد امت کی علامت
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
پانچ جولائی 1977کو جب ضیاالحق
صاحب برسراقتدار آئے تو اس وقت فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ان کی طویل
حکمرانی کے منصوبے میں دو بڑی رکاوٹیں حائل تھیں ایک پاکستان پیپلز پارٹی
دوسری پاکستان قومی اتحاد،بظاہر تو 90دن میں انتخابات کرانے کی بات کی
گئی،لیکن عملاَارادے کچھ اور تھے ،پہلے تو ضیاء صاحب نے جیل میں بھٹو سے
ملاقات کرکے مفاہمت کی کوئی راہ نکالنے کی کوشش کی لیکن بھٹو صاحب کا غصہ
اور عزائم دیکھ کر نئے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا ۔انھیں خطرہ محسوس ہوا
کہ اگر اس چالاک سیاستدان کو چھوڑدیا گیا تویہ ہمارے لیے ایک ڈینجر مین
ثابت ہو سکتا ہے ۔چنانچہ پہلے احتساب پھر انتخاب کی آوازیں سنائی دینے
لگیں۔قومی اتحاد کو اقتدار میں شریک کرلیا گیا بھٹو کے خلاف ان ہی کے دور
کی ایک مردہ ایف آئی آ ر کو زندہ کیا گیا تا کہ بھٹو کی سیاست کو مردہ نہ
بھی کیا جاسکے تو کم از کم نیم جان ضرور کردیا جائے ۔پھر یہ جملہ مشہور ہوا
کہ قبر ایک ہے اور لاشیں دوایک طرف بھٹو کے خلاف عدالتی کارروائی کا سلسلہ
شروع ہوادوسری طرف قومی اتحاد کی حکومت میں شمولیت کی وجہ سے اس کا جوش
جذبہ ماند پڑنا شروع ہوگیا نو ماہ کی اقتدار میں شرکت کے بعد پی این اے ٹوٹ
پھوٹ کا شکار ہو گیا ۔پی این اے کی طرف جو عظیم الشان تحریک نظام مصطفیٰﷺ
چلائی گئی اس کا فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا اور یہ
نتیجہ اخذکیا اصلاَیہ تحریک دینی جماعتوں کی مرہون منت تھی ۔بلخصوص جماعت
اسلامی اپنے تنظیمی نیٹ ورک کی بنیاد پر پوری تحریک کو لیڈ کررہی تھی پہلے
نورانی میاں اصغر خان کے ساتھ نکلے پھر اور جماعتیں الگ ہوئیں اتحاد کا
شیرازہ بکھرنے کے بعد ضیاء صاحب کا اگلا وار دینی جماعتوں کو توڑنا تھا جے
یو آئی دو حصوں میں تقسیم ہوئی ،جے یو پی کے دوگروپ ہو گئے ،مسلم لیگ
اقتدار کی لونڈی بن گئی ۔جماعت اسلامی کی نظریاتی اور تنظیمی بنیادیں مضبوط
تھیں اس لیے اس میں گروپنگ کرنا تو مشکل تھا لیکن کچھ دوسرے اقدامات رو بہ
عمل لائے گئے ۔ایک طرف تو ضیاء صاحب نے امیر جماعت پاکستان میاں طفیل محمد
کے ساتھ محبت اور عقیدت کے رشتے استوار کیے دوسری طرف وہ جماعت اسلامی کی
بنیادوں پر تیشہ چلاتے رہے پورے ملک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی
جمعیت طلبا نے طلبہ یونینوں کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہوئی تھی
۔طلبا تنظیموں پر پابندی عائد کر کے جماعت کی قوت کو کمزور کیا گیا ۔اسی
طرح ملک کے بڑے بڑے اداروں کی مزدور یونیےں این ایل ایف کے پاس تھیں ۔ضیاء
صاحب نے تمام مزدور تنظیموں پر پابندی لگادیاس دوسرے وار کے بعد جماعت کی
تیسری اہم قوت کراچی میں اس کا اثر و رسوخ تھا اور پچھلے آٹھ سال سے بلدیہ
کراچی جماعت کے پاس تھی پہلے بلدیہ کو توڑا گیا پھر لسانی تنظیموں کو دودھ
پلا کر کراچی ان کے حوالے کردیا گیا ۔اس ساری صورتحال سے جماعت اسلامی کے
کارکنان بد دل ہورہے تھے کارکنان کی بے چینی اس وقت اور بڑھ جاتی جب وہ
اپنے امیر کی زبانی یہ بات سنتا کہ تھکے ہوے شیر کو ہٹاکر تازہ دم شیر کو
لانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔جماعت اسلامی کا اصل سرمایہ اس کا لٹریچر ہے
اس میں تو کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا ۔لیکن اس زمانے میں کچھ صحافی اور
دانشور حضرات کی تحریریں جماعت کے کارکنان بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے
۔ان حضرات میں صلاح الدین صاحب ،متین الرحمن مرتضیٰ صاحب،مجیب الرحمن شامی
صاحباور الطاف حسین قریشی صاحب وغیرہ شامل تھے ۔ان تمام صاحبان قلم کو ضیاء
صاحب نے اپنی دوستی کے جال میں ایسا پھانس رکھا تھا کہ یہ حضرات اپنا اصلی
گھر ہی بھول گئے ۔تفہیم القران،تحریکی لٹریچر اور جسارت کے اداریےجماعت کے
کارکنان کے مستقل مطالعہ کا حصہ تھے ۔1984میں جب صلاح الدین صاحب نے جسارت
سے استغفیٰ دیا تو چونکہ جماعت کے کارکنان ان کی تحریریں بڑی عقیدت اور
محبت سے پڑھتے تھے ،جماعت کے اندر ایک ارتعاش سا پیدا ہوا پھر ان حضرات کی
جماعت کی پالیسیوں پر تنقیدی تحریروں سے سیاسی محاز پر فکری انتشار کا آغاز
ہوا ملکی سیاست میں غفور صاحب ،محمود اعظم فاروقی صاحب منور صاحب کی رائے
کچھ اور ہوتی جب کہ منصورہ کی رائے کچھ اور ہوتی کڑوا نیم چڑھا کے مصداق
مذکورہ اہل قلم حضرات کی تحریریں جلتی پر تیل کا کام دے رہی تھیں ۔اسی
زمانے میں ایک منظم طریقے سے سینہ بہ سینہ یہ بات بھی پھیلائی گئی جماعت
اسلامی کراچی گروپ اور منصورہ گروپ الگ الگ کام کررہے ہیں ۔یہ سب اس وجہ سے
تھا کہ جن کی تحریروں کو ہم مولانا مودودی کے بعد تقدس کا درجہ دیے ہوئے
تھے اس سے اکثریت کے ذہن متاثر تھے ۔صلاح الدین صاحب کو کارکنان جماعت کا
ترجمان سمجھتے تھے جب کہ وہ خود اپنے آپ کو جماعت کا وکیل کہتے تھے ۔وکیل
کا پروفیشن ہی یہ کہ جدھر سے اچھی آفر ملے اسی کی وکالت کرنے لگے ۔بہرحال
1983سے1987تک کا دور اسی طرح کی کشمکش میں گزرا ۔1985کے انتخابات میں جماعت
اہلسنت کے نام ایک گروپ جماعت کے مقابلے پر لایا گیا جماعت کو صرف دو
نشستیں ملیں 1987میں بلدیہ کراچی توڑدی گئی۔ایسے حالات میں جب جماعت کی
طلبہ تنظیم پر مزدور تنظیموں پر پابندی لگ چکی ہو بلدیہ بھی ختم ہوگئی ہو
۔کبھی جماعت کے حق میں زور وشور سے لکھنے والے دانشوروں کے قلم بھی تنقید
کی آگ اگلنے لگیں تو فطری طور پر کارکنان مایوسی،جھنجھلاہٹ اور فکری انتشار
کا شکارکار ہو جاتے ہیں۔ایسے میں محترم قاضی حسین احمد صاحب جماعت کے امیر
منتخب ہوجاتے ہیں۔1987میں جماعت اسلامی کی امارت کے لیے شیڈول کے مطابق
انتخاب سے قبل میاں طفیل محمد صاحب نے اپنی بیماری اور صحت کی بنیاد پر
شوریٰ سے معذرت کی کہ وہ اب مزید ذمہ داری نہیں اٹھاسکتے اس لیے آئندہ کے
لیے ان کی معذرت قبول کی جائے ۔شوریٰ نے ان کی یہ معذرت قبول کرلی ۔اس سے
قبل قاضی صاحب میاں صاحب کے ساتھ قیم تھے اس لیے تنظیمی صورتحال سے وہ بھی
اچھی طرح واقف تھے ۔کارکنوں کے اندر فکری بے چینی سے وہ آگاہ تھے۔قاضی صاحب
کے سامنے اصل مسئلہ کارکنوں کو فکری طور پر متحد کرنا ،اضمحلال کی کیفیت کو
ختم کرنااور انھیں متحرک کرنا تھا ۔پہلے تو قاضی صاحب ملکی سیاست کے حوالے
سے ایسے اقدامات اٹھائے اور ایسے بیانات دیے جس سے ایک طرف یہ تاثر زائل
ہونا شروع ہوا کہ جماعت اسلامی فوج کے ساتھ ہے ۔دوسری طرف انھوں نے وقت کی
حکومت کے خلاف شدید تنقید تو کی لیکن کسی قسم کی تحریک چلانے سے گریز کیا
۔کارکنوں کی فکری یکسوئی کے لیے،انھیں متحرک کرنے اور عوام تک اپنی بات
پہنچانے کے لیے انھوں نے 1988میں "کاروان دعوت و محبت "کے نام سے ایک
کارواں شروع کیا جس میں 313شرکاء مستقل ساتھ تھے ۔ پشاور سے شروع ہنے
والاقاضی صاحب کی قیادت میں یہ دعوت و محبت کا کارواں ایک ماہ تک ملک کے
چاروں صوبوں کے شہروں ،قصبات ،گاؤں اور دیہاتوں میں دین کی دعوت اور محبت و
اخوت کی خوشبو بکھیرتے ہوئے پشاور میں ہی اختتام پذیر ہوا ۔کراچی میں یہ
کارواں 6اگست کو لانڈھی قائد آباد کے راستے سے داخل ہوا ،قائد آباد میں
کراچی کے لاکھوں عوام نے اس کااستقبال کیا ۔تین دن تک شہر کے مختلف حصوں سے
ہوتا ہو ا یہ قافلہ 8 اگست کو کوئٹہ روانہ ہو گیا ۔اس کاروں کے اتنے ہمہ
گیر اثرات تھے کہ پنجاب ، سندھ،کے پی کے اور بلوچستان کے کونے کونے میں نہ
صرف اپنوں بلکہ جماعت کے مخالفین نے بھی اس کی شاندار استقبال کیا اس کاروں
کے ذریعے ہر گلی ،ہر کوچے،اور ہر گھر میں دین کی دعوت پہنچائی گئی اس زمانے
میں چینلز وغیرہ تو تھے نہیں لیکن پرنٹ میڈیا نے اس کی بھر پور کوریج کی
۔کراچی میں ایم کیو ایم ایک طوفا ن اور سیلاب کی طرح چھائی ہوئی تھی کراچی
کے کارکنوں کو اس پروگرام سے ایک نیا حوصلہ ملا جماعت کے اندر یگانگت اور
یکسوئی کی فضاء پیدا ہوئی ۔اس کے بعد قاضی صاحب نے ملکی سطح پر اتحاد کی
آواز بلند کی اور بالخصوص دینی جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے ۔قارئین کو
یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں قاضی صاحبؓ کے یہ بیانات بہت آتے تھے کہ ملک میں
جماعت اسلامی،جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام کا اتحادہونا
چاہیے ۔ابتداء میں تو یہ آواز ایسے تھی کہ جیسے کوئی صحراؤں میں آذانیں دے
رہا ہو۔جب ملک میں سیاسی حکومتیں قائم تھیں اور اس دور میں فرقہ ورانہ
جذبات کو ایک بین الاقوامی سازش کے تحت ہوا دی جانے لگی تو ملک میں خیر کی
قوتوں نے قاضی صاحب کی قیادت میں اپنا کام شروع کیا ،دینی جماعتوں کا سیاسی
اتحاد بننے میں تو بے شمار رکاوٹیں تھیں لیکن فرقہ واریت کے خلاف ایک غیر
سیاسی اتحاد قاضی صاحب کی کوششوں سے "ملی یکجہتی کونسل"کے نام سے وجود میں
آیا ۔اس کے صدر مولانا شاہ احمد نورانی اور جنرل سکریٹری قاضی حسین احمد
تھے ۔کونسل نے ملک فرقہ ورانہ کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔جب
مشرف صاحب کے دور میں 2002میں عام انتخابات ہوئے تو قاضی صاحب کی کوششوں سے
چھ جماعتوں پر مشتمل ایک سیاسی اتحا د ـ " ـمتحدہ مجلس عملـ" کے نام سے
وجود میں آیا جس نے اس انتخاب میں 65نشستیں حاصل کیں ۔ملک کے لادینی طبقات
اس کامیابی پر حیران و پریشان تھے ۔یہ قاضی صاحب ہی کا کارنامہ ہے کہ پہلے
جماعت اسلامی کے اندر فکری یکسوئی اور یکجہتی پیدا کی پھر ملک کے اندر فرقہ
واریت کے خلاف تمام دینی جماعتوں کا اتحاد بنایاپھر سیاست کے میدان میں
انھوں نے دینی جماعتوں کا اتحاد بناکر سیکولر طبقوں کو لرزہ براندام کردیا
۔اس کے ساتھ ساتھ قاضی کی نظریں بین الاسلامی حالات اور معاملات پر بھی
تھیں ۔انھوں نے ملک کے باہر مختلف دینی تنظیموں کے اتحاد کے لیے دورے کیے
سوڈان کے حکمرانوں میں اختلافات شروع ہوئے تو وہاں جاکر ان کی آپس کی غلط
فہمیاں دور کیں اور انھیں ایک لڑی میں پرو دیا۔دنیا کی تمام اسلامی تحریکوں
سے اپنے روابط مستحکم کیے ۔ ہر تنظیم چاہے وہ حماس ہو ،اخوان المسلمین ہو
یا دیگر اسلامی تنظیمیں اپنے پروگراموں میں قاضی صاحب کو بلاتی تھیں قاضی
صاحب کی طلسماتی شخصیت ہی ایسی تھی ہر کوئی ان سے بڑی محبت اور احترام سے
ملتا تھا ۔قاضی صاحب اپنی زندگی کی آخری سانس تک امت کے اتحاد کے لیے
جدوجہد کرتے رہے وہ دل سے یہ چاہتے تھے کہ متحدہ مجلس عمل دوبارہ فعال ہو
جائے لیکن جے یو آئی کی غیر یقینی سیاست اور کڑی شرائط نے اس خواب کو
شرمندہ تعبیر نہ ہونے دے۔ |
|