سانحہ پشاور پر شدید عوامی ردعمل
دیکھ کر ارباب اختیار کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور دہشت گردی کی سرکوبی کے لئے
متفقہ پالیسی مرتب کرنے پر مجبور کیا ۔ سانحہ پشاور نہ ہوتا تو اس قسم کا
اقدام شاید ہی دیکھنے کو ملتا ۔ یعنی ہمارا قومی رویہ بن گیا ہے کہ جب تک
کوئی سانحہ وقوع پذیر نہ ہو ہم کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچ سکتے ۔15 جون
کو جب افواج پاکستان کی طرف سے دہشتگردوں کے خلاف حتمی آپریشن ـ’’ آپریشن
ضرب عضب ‘‘ کا آغاز کیا گیا تو سیاسی قیادت کی طرف سے نہ صرف اس کا خیر مقد
م کیا بلکہ غیر مشروط طور پر اس کی حمایت کا اعلان بھی کیا ۔لیکن اگست میں
شروع ہونے والے پی ٹی آئی کے دھرنے اور سیاسی میدان جاری گرما گرمی نے منظر
نامہ ہی بدل دیا ۔میڈیا ، عوام حتی کہ عالمی برادری بھی اقتدار کی اس جنگ
سے مضوظ ہونے لگی ۔ تجزیہ نگاروں ، دانشوروں نے بھی اپنی تمام تر توجہ اس
جنگ پر مرکوز کردی ۔اور یہ جنگ جوں جوں تیز ہوتی گئی ، آپریشن ضربِ عضب قوم
کی نظروں سے اوجھل ہوتا گیا ۔
پھر اہل سیاست کو اس وقت ہوش آیا جب دہشتگرد پشاور میں 132 بچوں کا قتل عام
کر چکے تھے ۔تب جاکر سیاسی قیادت کواحساس ہوا جنگ گھر کے اندر پہنچ گئی ہے
۔ دہشتگردی کا قلعہ قمع ضروری ہے ۔یہ احساس بھی معجزاتی طور پر پیدا نہیں
ہوا بلکہ اس کے پیچھے بھی شدید عوامی دباؤ کا رفرما ہے ۔خیر دیر آید درست
آید۔بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ماضی کے واقعات کی طرح اب کی بار بھی قومی
لیڈارن مذمتی بیانات پر اکتفا کریں گے اور پھر چپ سادھ لیں گے ۔ لیکن اب کی
بار قومی قیادت نے جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا وہ یقیناََ قابل ستائش
ہے۔جمہوری پارٹیوں کے لئے شاید فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ مشکل تھا
۔لیکن ملک کی نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے تما م پارٹیوں کے لیڈران نے مشکل
فیصلے کرنے کی ٹھانی اور سانحہ پشارو کے ایک ہفتے کے اندر ہی قومی ایکشن
پلان کی منظوری دے کر قوم کوروشن مستقبل کی نوید سنا دی ۔یہ یکشن پلان 20
نکات پر مشتمل ہے جو دہشتگردی اور انتہاپسندی کے مکمل خاتمے کا روڈ میپ
تصور کیا جارہا ہے(1) پھانسی کی سزا پر عملدرآمد شروع کرنا۔ 2) ( فوجی
افسروں کی سربراہی میں خصوصی ٹرائل کورٹس کی تشکیل (3)ملک میں کسی طرح کی
مسلح تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت نہ دینا ۔ (4)نیکٹا کو فعال کرنا 5)
(گردنیں کاٹنے والوں کے لٹریچر کیخلاف کارروائی سخت کاروائی کرنا۔ (6)
دہشتگردوں کی فنڈنگ، وسائل ختم کرنا (7) کالعدم تنظیموں کو دوسرے نام سے
کام کرنے کی اجازت نہ دینا (8) اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا(9) پنجاب
میں عسکریت پسندی کی اجازت نہ دینا (10) دہشتگردوں کی تشہیر پر مکمل پابندی
لگانا۔ (11) دینی مدارس کی رجسٹریشن کرنا (12) آئی ڈی پیز کی فوری واپسی ۔
( (13 دہشتگردوں کے معاشرتی نیٹ ورکس کا خاتمہ کرنا (14) انٹرنیٹ اور سوشل
میڈیا پر دہشتگردی کی روک تھام کے فوری اقدامات (15) انتہا پسندی کو برداشت
نہ کرنا (16)کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا (17) وسیع تر سیاسی
مفاہمت کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کی طرف سے حکومت بلوچستان کو مکمل اختیار
دینا (18) فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا
(19) افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کے ساتھ ان کے بارے میں جامع پالیسی تشکیل
دینا (20 ) صوبائی انٹیلی جنس اداروں کو دہشتگردوں کے مواصلاتی رابطے تک
رسائی دینے اور انسداد دہشتگردی کے اداروں کو مزید مضبوط بنانے کیلئے
فوجداری عدالتی نظام میں بنیادی اصلاحات کا عمل تیز کرنا شامل ہیں
ایکشن پلان پر بات کرنے سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا قومی قیادت کا یہ
اتفاق رائے عارضی ہے یا کہ مستقل ؟ میرے خیال میں سیول ملٹری قیادت ایک پیج
پر ہے ۔ سیاسی صورتحال بہر حال اس اتفاق رائے پرا ثر انداز ہوگی ۔سیاسی
صورتحال کا دارومدار حکومت پی ٹی آئی مذاکرات پر ہوگا ۔ اگرکامیاب ہوگئے تو
یہ اتفا ق رائے لمبا چل سکتا ہے ۔ اگر مذاکرات کا میاب نہ ہوئے تو اس اتفاق
رائے کو دھچکا پہنچے گا ۔ پرویز مشرف کا کیس بھی اس اتفاق رائے پر اثرا
نداز ہوسکتا ہے ۔لیکن اسلا م آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد لگ یہی رہا ہے
کہ حکومت اور پرویز مشرف کے درمیان کوئی معاہدہ طے پا جائے گا ۔تاہم پیپلز
پارٹی کے رہنما امین فہیم کی سابق صدر سے ملاقات نے نئی صورتحال کو جنم دیا
ہے جس سے پیپلز پارٹی کی صفوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ایک نئی سیاسی
جماعت بنانے کے حوالے سے بھی خبریں سامنے آرہی ہیں ، جس میں ناراض پیپلز
پارٹی ، ن لیگی اور پی ٹی آئی دھڑے شامل ہونگے ۔ سننے میں آیا ہے کہ یہ
جماعت پی ٹی آئی سے سخت حکومت مخالف موقف اپنائے گی ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ
خبریں حقیقت کا روپ دھار سکیں گی کہ نہیں ۔ میرے خیا ل میں اگر سیاسی جماعت
وجود میں آ بھی گئی تو اسے ایک قوت بننے میں دو سے تین سال کا عرصہ لگے گا
۔سیاسی میدان میں تمام تر تبدیلیوں کے باوجود اگر یہ اتفاق رائے جاری رہتا
ہے تو دیکھنا یہ بھی ہے کہ یہ دہشتگردی کے خاتمے کے لئے کس حد تک موثر ثابت
ہوتا ہے؟ فوجی عدالتوں کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کو اتفاق رائے پیدا کرنے
میں دیر ضرور لگی لیکن میرے خیال میں اس معاملے میں اتفاق رائے دیر پا ہے
۔فوجی عدالتیں صرف دہشتگردوں کو کٹہر ے میں لائیں تو سیاستدانوں کو کوئی
اعتراض نہیں ہوگا ۔لوگ اس حوالے سے سابق صدر کے کچھ روز پہلے آنے کا حوالہ
دیتے ہیں ۔میرے خیال میں سابق صدر کا بیان وقتی تھا۔ ہاں البتہ خصوصی
عدالتوں کے قیام میں کچھ قانونی پیچیدگیاں سامنے آسکتی ہیں لیکن اگر آئین
میں ترمیم کے ذریعے ان عدالتوں کو عمل میں لایا جاتا ہے تو بہت قانونی
پیچیدگیوں سے بچا جا سکے گا ۔فوجی عدالتیں دو سال کے لئے ہوں گی ۔ اس کے
بعد پھر انسداد دہشتگردی کی عدالتیں ان کی جگہ لے لیں گی ۔اب انسداد
دہشتگردی کی عدالتوں کی ناکامیوں کی وجوہات کو جاننے کی ضرورت ہے ۔تاکہ ان
دو سالوں میں ان عدالتوں کو مضبوط کیا جاسکے ۔
سانحہ پشارو کے بعد پیدا ہونیوالا ایک اہم اتفاق رائے اچھے اوربرے طالبان
کی تفریق ختم کرنا ہے ۔اچھے اور برے طالبان کون ہیں ؟کیا ان کے درمیان
تفریق مٹ سکے گی ؟ماضی میں جو گروہ دفاعی حکمت عملی کے تحت اچھے سمجھے جاتے
تھے ، خاص طور پر جو گرو ہ جو ماضی میں کاروائیاں نہیں کرتے تھے ۔کیا ان کو
ایک دوسرے سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے ؟ماضی میں حکومت نہ صرف اچھے اور برے
طالبان کے ردمیان تفریق کرتی رہی ہے ،بلکہ ان کے ساتھ مذاکرات بھی اسی
تفریق کو واضع کرنے کے لئے شروع کئے گئے ۔جو کہ بے سود رہے اوردہشتگردوں
کودوبارہ منظم ہونے موقع میسر آگیا۔مذاکرات میں ناکامی کی بنیادی وجہ یہ
بنی کہ دہشتگردوں کے لا تعداد گروپس کا م کررہے ہیں،ہر ایک کے اپنے اپنے
مطالبات ہیں ۔بہت سے گروپس ایسے ہیں جن کے بارے میں پورے وثوخ سے نہیں کہا
جاسکتا کہ یہ گڈ طالبان ہیں یا کہ بیڈ طالبان ۔ایسے میں ٹارگٹڈ کا روائی
نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی ۔دوسر ی وجہ یہ کہ یہ تمام گروپس ایک دوسرے سے
تعلق ختم نہیں کر سکتے، کسی ایک کے خلاف کاروائی کی صورت میں یہ اسے تمام
تر سپورٹ فراہم کر تے ہیں۔ حالیہ واقعا ت کی تحقیقا ت سے یہ بات بھی سامنے
آئی ہے کہ بہت سے اچھے سمجھے جانے والے گروپس بھی ان واقعات کے لئے سہولت
کا ر کے طور پر استعمال ہوئے ہیں ۔ میرے خیال میں سول اور عسکری قیادت اس
نتیجے پر پہنچی ہے کہ اچھے اور برے طالبان کی تفریق ختم کر کے دہشتگردی کا
مسئلہ حل ہوسکتا ہے، صرف ٹا رگٹڈ آپریشن موثر ثابت نہیں ہوگا ۔ بلکہ تما م
گروپس کے خلا ف بلا امتیاز کاروائی ہی کارآمد رہے گی ۔
دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ انتہائی اہم ہے ۔اس حوالے سے رجسٹریشن کے
سست اور پیچید ہ نظام پر بارہا انگلیاں اٹھا ئی جاتی رہی ہیں ،تمام حکومتیں
مدارس کی رجسٹریشن پر زور دیتی رہی ہیں لیکن کسی بھی حکومت نے زحمت گوارا
نہیں کی کہ رجسٹریشن کے اس نظام میں موجود خامیوں اور پیچیدگیوں کو دور کیا
جائے۔حکومت مدارس میں موجود غیر ملکی اماموں کے حوالے سے پالیسی واضع کرے
۔حکومت اتحاد تنظیمات مدارس اور دیگر تنظیموں سے مدارس ، ان میں تعلیم حاصل
کرنے والے طلباء اور ان مدارس کی انتظامیہ کا ریکارڈ حاصل کرسکتی ہے ۔ یہ
تنظیمیں مدارس کے حوالے سے بہت اثر و رسوخ رکھتی ہیں اور دعوہ کرتی آئی ہیں
کہ اگر کوئی مدرسہ اس طرح کی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہے تو حکومت اور دیگر
ادارے اس کی نشاندہی کریں تو یہ اس کے خلاف خود کاروائی کریں گی ۔2004 میں
مشرف حکومت نے انہی تنظیموں کیساتھ مذاکرت کرکے مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے
سے قانون سازی کی تھی اور رجسٹریشن کا عمل شروع کیا گیا تھا ۔
ایکشن پلان میں بلو چستان کے مسئلے کے حل کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی طرف
سے صوبائی حکومت کو اختیار دینے کی تجویز دی گئی ہے ۔ میرے خیال میں صوبائی
حکومت کو با اختیار کرنے سے قبل صوبائی ، وفاقی حکو متوں اور فوج کا ایک
پیج پر ہونا ضروری ہے ۔بلوچستان کا مسئلہ وسائل کی غیرمنصفا نہ تقسیم اور
سابق حکمرانوں کی بلوچوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے باعث وجود میں
آیا ۔اس پر سابق صوبائی حکومتوں کی خراب کا رگردگی اور غیر سنجیدگی نے امن
و امان کے مسائل کو جنم دیا ہے ۔بلوچستان میں اغوا برائے تاوان ایک کاروبار
بن چکا ہے ۔ کرپٹ اور نا اہل آفسران کی وجہ سے انصاف کا نظام درہم برہم
ہوچکا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطانق انسداد دہشتگردی کے کل 2 ہزار کیسز میں سے
464 کا تعلق بلو چستان سے ہے۔ تکنیکی طو ر ان کیسز کا فیصلہ سات دن کے اندر
ہو جانا چاہیے تھا لیکن زیادہ تر کیسز چار سال سے زیر التوا ہیں ۔اس سے
مجرموں کو شواہد ختم کرنے کا موقع میسر آجاتا ہے ۔صوبے میں بہت سے سردار
اور سیاستدان ایسے ہیں جو ان مجرموں کی سرپرستی کررہے ہیں۔اس کے علاوہ
بیرونی قوتوں کی مداخلت نے بھی صوبے کے حالات خراب کرنے میں اپنا کردار ادا
کیا ہے ۔اس سلسلے میں زبانی جمع خر چ کے برائے عملی اقداما ت کرنے ہوں گے
۔سولین حکومت کی رٹ بحال کرنے کے لئے ناراض گروپوں سے با مقصد مذاکرات کا
آغاز ، قانون نافظ کرنے والے اداروں میں سے نااہل اور کرپٹ آفسران کا صفایہ
،غیر ملکی مداخلت روکنے کے حوالے سے عملی اقدامات،سرحد پار موجود فراری
کیمپوں سے شدت پسندوں کی کا روائیاں اور ان کی باآسانی واپسی کو روکنے کے
جامع حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔
اسی طرح فاٹا کو بھی ماضی میں نظر انداز کیا جاتا رہا جس کے با عث پروان
چڑھتی غربت اور نفرت نے انتہا پسندی کو جنم دیا ۔ایک اور بڑا مسئلہ سرحد پر
کوئی جامعے نظام نہ ہونے کی وجہ سے 56 ہزار کے قریب افعان باشدوں کا روزانہ
سرحد عبور کر کے پاکستان آنا ہے ، جن میں جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہوتے
ہیں ۔سرحد کی سخت نگرانی کا جامع نظام تشکیل دے کر اور آر پار آزادانہ نقل
و حرکت کو روک کر بہت سے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے ۔فاٹا کا
ترقیاتی بجٹ صرف انیس ارب ہے ۔ یہاں کا ترقیاتی بجٹ بڑھانے اور فاٹا کو
اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ترقی دینے اور روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنے
دہشتگردی کے مرض سے مستقل چھٹکا را حا صل کرنے میں مدد ملے گی ۔اسے قومی
دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے ایک اہم تجویز قبائلی علاقوں میں مقامی
حکومتوں کا نظام متعارف کروانے کے حوالے سے ہے اس سے وہاں کے لوگوں کی
محرومیاں دور کرنے میں مدد ملے گی ۔
کراچی آپریشن کو بھی منتقی انجام تک پہنچانے کا اعلان کیا گیا ہے۔کراچی
آپریشن شروع ہوئے ایک سال سے زیائد کا عرصہ ہوگیا لیکن صوبائی حکومت کی غیر
سنجیدگی نظر کے باعث یہ آپریشن سست روی کا شکار ہے ۔کراچی میں بدآمنی
پھیلانے والے مختلف سیاسی جماعتوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں ۔پولیس اور رینجرز
کی کاروائیوں کی وجہ سے یہ عناصر کچھ عرصے کے لئے بلوں میں چھپ گئے
ہیں۔لیکن جونہی اس آپریشن کی شدت میں کمی آتی ہے یہ دوبارہ بلوں سے باہرنکل
آتے ہیں ۔ اب حکومت پورے پا نچ سال یہ آپریشن جاری نہیں رکھ سکتی ۔ آپر یشن
کی کامیابی کا انحصار سیاسی جماعتوں کے تعاون پر ہے۔کراچی کو اسلحے سے پاک
کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے ۔اگست 2013 میں ڈی جی رینجرز کی طرف سے کراچی
بدآمنی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتا یا گیا کہ کراچی میں
بدآمنی کی نہ تھمنے والی لہر کے پیچھے اس اسلحے کا ہاتھ ہے جو گزشتہ دور
حکومت میں 19 ہزار نیٹو کنٹینرز کی مدد سے کراچی آیا ۔اور یہ اسلحے سے بھرے
کنٹینرز کراچی میں غائب ہوگئے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس غفلت کے ذمہ
داروں کے خلاف کیا کاروائی ہوئی ؟ اور کیا اس اسلحے کی ریکوری کے لئے کیا
اقدامات اٹھا ئے گئے ہیں؟ کراچی آپریشن کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے صوبائی
اور مرکزی حکومتوں کو سنجیدگی دیکھا نا ہوگی ۔ پولیس کی استعداد کار بڑھا
کر آپریشن میں تیزی لانے کے ساتھ ساتھ آپریشن میں گرفتار ہونے والے
دہشتگردوں کوجلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے خصوصی عدالتیں قائم
کرنے کی ضرورت ہے ۔
قومی ایکشن پلان میں ڈراؤن حملوں کے حوالے سے کو ئی واضع پالیسی کا اعلان
نہیں کیا گیا ۔یہ ایک اہم معاملہ ہے جس پر قومی قیادت کو ضرور سوچنا ہوگا
۔کانفلیکٹ مانیٹرنگ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں 416 ڈراؤن
حملے کیے گئے جن میں 3459 ہوئیں ۔ان میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔آپریشن
ضربِ عضب شروع ہونے کے بعد ایک بار پھر ڈراؤن حملوں میں تیزی آگئی ہے
۔دہشتگرد ماضی میں ڈراؤن حملوں کو شدت پسند کاروائیوں کے جواز کے طور پر
استعمال کرتے رہے ہیں۔اب جب پاکستان تمام گروپوں کے خلاف یکساں کارائی
یکررہا ہے تو ایسے حملوں کا کیا جوا ز رہ جاتا ہے؟
دہشتگردی اور انتہا پسندی بہت پرانا مسئلہ ہے ۔ اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لئے
بھی وقت درکا ر ہے ۔نظام انصاف میں خامیوں کے باعث دہشتگردی اور انتہا
پسندی پھیلتی پھولتی ہیں۔ دہشتگردوں کی فنڈنگ اور وسائل ختم کرکے ان کے
معاشرتی نیٹ ورکس کا خاتمہ کرکے اور ان کو نئے نام سے کام کر نے کی اجازت
نہ دینے سے دہشتگردی کے نصف مسائل کا چھٹکا را ممکن ہے ۔اور دیگر مسائل کا
حل نظام انصاف کو بہتر بنا کر اور نظام تعلیم میں تبدیلیاں کرکے اور دیگر
اقدامات سے ممکن ہے ۔ قومی ایکشن پلان میں کوئی ایک نقطہ بھی ایسا نہیں جو
قابل عمل نہ ہو یا جس سے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے میں مدد نہ ملے ۔ اب
ضرورت پختہ عزم کی ہے ۔ اس پر عمل درآمد کی ہے ۔ |