سال 2001-2کی بات ہے جب مَیں
نویں جماعت کا طالب علم تھا تب مُجھے اپنی جماعت کے انگلش مضمون کی کتاب
میں ایک چائنیز کی اپنے بیٹے کو وقت کا حاکم یعنی کہ بادشاہ بنانے کیلئے دی
جانے والی تعلیم و تربیت پر مبنی ایک ایسی سٹوری پڑھنے کو مِلی جس میں اس
چائنیز کے ہاں شادی کے کافی عرصہ بعد ایک بیٹھے کی پیدائش ہوتی ہے جسے وہ
ابتدائی تعلیم مکمل کروانے کے بعد ایک بہترین لیڈر یعنی کہ قائدبنانے کیلئے
اعلیٰ تعلیم دِلوانے کی غرض سے دوسرے شہر کے ایک اعلیٰ سکالر کے پاس چھوڑ
آتا ہے یہ سکالر کچھ عرصہ تک تو اسے سلیبس تک ہی محدود رکھتا ہے پھر اِس
بچے کو اپنے ساتھ لئے ایک جنگل کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے جہاں پہنچنے کے
بعد کچھ یوم کا راشن اس کے حوالے کرتے ہوئے اِسے کہا جاتا ہے کہ اب آپ نے
اُس وقت تک یہیں رہنا ہے جب تک واپس بُلایا نہ جائے اور واپس چلا جاتا ہے
طالبعلم یہ سُن کر پہلے تھوڑا گھبراتا ہے مگر استاد کے حوصلہ دینے پر خاموش
ہو جاتا ہے اور جنگل میں سکونت اختیار کرلیتا ہے جس کے کچھ ہی عرصہ بعد
اُستاد کی طرف سے بلاوا آتا ہے کہ واپس آؤں کل تمہارا امتحان ہے یہ سُن کر
طالبعلم پہلے تو تھوڑا پریشان ہوتا ہے پھِر چل پڑتا ہے پریشان اس لئے ہوتا
ہے کہ اُسے کچھ پڑھایا تو گیا نہیں اب امتحان نہ جانے کِس بات کا ہے ،خیر
وہاں پہنچتے ہی کچھ دیر کے آرام کے بعد امتحان شروع ہوتا ہے یہ اِمتحان اُس
کا اُستاد ہی لیتا ہے جس میں طالبعلم سے صرف دو ہی سوال کئے جاتے ہیں پہلا
یہ کہ اُس نے جنگل میں کون کون سی آواز سُنی اور وہ آواز کِس کِس جانور کی
تھی شاگر بتاتا ہے کہ وہاں میں نے شیر کے دھاڑنے کی آواز سُنی وہ اِس طرح
دھاڑتا ہے ،میں نے کوئل کے گنگنانے کی آواز سُنی وہ اِس طرح سے گنگناتی ہے
میں نے کوے کی آواز سُنی وہ اِس طرح سے بولتا ہے وغیرہ وغیرہ،جس پر اُستاد
اُسے زیرو نمبر دیتے ہوئے یہ کہہ کرواپس بھیج دیتا ہے کہ وقت کا حاکم یعنی
کہ بادشاہ بننے کیلئے پہلے ایک اچھا لیڈر یعنی کہ اچھا قائد بنناضروری ہے
اور ایک اچھا قائدبننے کیلئے انتہائی باریک یعنی کہ نہ سنائی دینے والی
آوازوں کو سُننا انتہائی ضروری ہے لہذا تُم فیل ہوئے کیونکہ تم نے نہ سنائی
دینے والی آوازویں نہیں سُنیں جاؤدوبارہ تیاری کرو،جس پر وہ طالبعلم واپس
جنگل جا کر دوبارہ تیاری کرتا ہے اور ہر آواز پر گہرا کان رکھتے ہوئے اُسے
سُننے اور اُسے پہچاننے پر مکمل عبور حاصل کرنے کے بعد دوبارہ آکر امتحان
دیتا ہے اور پاس ہو کر ایک اچھا لیڈر بنتا ہے،ترقی یافتہ ممالک میں سیاست
میں قدم رکھنے کیلئے آج بھی اِس قسم کی تاعلیٰ تعلیم ضروری ہے اِسی لئے اُن
ممالک میں کِسی کے بھوکے مرنے کی خبر نشر نہیں ہوتی اِسی لئے اُن کے ہاں بے
روزگاری کے مارے خود کُشیاں نہیں کرتے اور اِسی لئے اُن کے ہاں سانحہ پشاور
جیسے سانحے رونما نہیں ہوتے،جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں یہاں کمزور اور نہ
سنائی دینے والی آوازوں کو مذید دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ،یہاں تعلیم کی
بجائے اپروچ دیکھی جاتی ہے چاہے کِسی کے ہاتھ میں شراب کا لوٹا ہی کیوں نا
ہو مگر ایم پی اے یا ایم این اے وہی بنے گا جس کا باپ یا بھائی ایم پی اے
یا ایم این اے رہا ہواسی لئے مُلک سانحات کا گھر بن چُکا ہے ، اور قابو
پانے کیلئے ہمیں اب ایسے اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں جن کی پہلے سے موجود آئین
میں گنجائش ہی نہیں (یعنی کہ فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت پیش آرہی ہے
)اس سے ایک طرف تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا موجودہ نظام مکمل طور پر آزاد
نہیں جبکہ دوسری طرف فوجی عدالتوں کے قیام کے اس حکومتی فیصلہ یوں بھی
محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظام صرف اور صرف مختلف شخصیات کے مختلف پریشرز یا
مختلف مفادات کے عوض درج ہونے والے مقدمات میں صرف شریف شہریوں یا سیاسی
مخالفین کو سزائیں جزائیں دینے کیلئے ہے ،جبکہ بڑے بڑے کریمینلز اور دہشت
گردوں کو سزائیں دینے کیلئے ہمیں ایک ایسے محکمے کے ماتحت عدالتیں بنانا پڑ
رہی ہیں جو سیاست ثقافت کرپشن یا پھر کسی بھی قسم کے کِسی بھی دوسرے پریشر
سے مکمل آزاد ہے؟اگر ایسا نہیں تو حکومت پہلے سے موجود نظام سے کیوں نہیں
کام لیتی ؟اگر اس میں کوئی خامی ہے تو اُسے دور کیوں نہیں کر دیتی ؟چاہے
تربیت کے ذریعے کرنی پڑے یامانیٹرنگ کے ذریعے،کیونکہ فوجی عدالتوں میں بھی
تو انسانوں نے ہی کام کرنا ہے اور پہلے بھی انسان ہی کام کر رہے ہیں،لہذا
فوجی عدالتیں بنانے یا پولیس کا کام بھی فوج کو ہی سونپتے سے کوئی خاص فرق
نہیں پڑنے والا،اگر کوئی فرق پڑسکتاہے تو میری ناقص رائے کے مطابق اِسی
صورت ہی پڑسکتا ہے کہ حکومت پولیس افسران کو بھاری تنخواہوں کے عوض صرف
شرفا کی چھترول کی حد تک ہی رکھنے کی بجائے اسے فوج کے ماتحت کر دے اور اگر
گڑ بڑ موجودہ عدالتی نظام میں سمجھتی ہے تو اِسے ٹھیک کرنے یا مانیٹرکیلئے
بھی کوئی ایسا ادارہ بنا دے جس پر فوج سمیت ہر شہری کو مکمل اعتماد
ہواورانتہائی جدید طریقے سے مانیٹرنگ کرتے ہوئے فوری سزائیں جزائیں سنا ئے،
جس سے یقیناًپہلے والا نظام ہی نئے سے بھی بہتر ہو کر چل سکتا ہے کیونکہ
فیصلے ہمیشہ ایف آئی آر ز اور تحقیقات کی بنیادوں پر ہوتے ہیں جبکہ ہمارے
ہاں کِسی نا کِسی فریق سے مال بھٹورنے کے چکر میں چھ چھ ماہ تک عدالتوں میں
چلان ہی سینٹ اپ نہیں کروائے جاتے ،اور بعض اوقات توملزم کو بیل بھی نہ
کروانے تک کی آشیر باد دے دی جاتی ہے جب یہ کام میرٹ پر ہونے لگے گاتو باقی
سب خود بخود ہی ٹھیک ہو جائے گا اس سے جہاں انصاف کی فراہمی میں پائے جانے
والے شک وشبات کا خاتمہ ہو گا وہاں انصاف پانے کیلئے سویس بنک کی ملکیت اور
کّوے کی عمر پانے کی ضرورت کا تاثر بھی ختم ہو جائے گا،ورنہ متذکرہ بالا
تاثر پیدا ہوگا جس کے نتیجہ میں حکومت کو عمران خان جیسے لوگ جو اب خاموش
ہیں پھِر بلیک میل کرنا شروع کردیں گے ،کیونکہ ایسے لوگوں میں احساس کم اور
موقع مِلنے پہ معافی نہ دینے کا مادہ بہت زیادہ ہوتاہے(فی امان اﷲ)۔ |