ڈپٹی نذیر احمد کا ناول ایامیٰ
ایک غیر معروف اور کسی حد نایاب تصنیف ہے۔ اگرچہ اس ناول میں ڈپٹی نذیر
احمد نے ایک مسلمان بیوہ کی دردناک کہانی بیان کی ہے۔ مقصد حسبِ معمول
اصلاح ہے، نہ صرف ڈپٹی نذیر احمد بلکہ ان سے سو سال قبل شاہ ولی اﷲ اور ان
کے صاحب زادے شاہ عبدالعزیز نے بھی بیوگی کے مسائل پر تھوڑی بہت روشنی ڈالی
تھی۔مشہور تاریخ داں پروفیسر محمد عمر نے اپنے شہرۂ آفاق تحقیقی مقالے
’’ہندوستانی مسلمانوں پر ہندو ازم کے اثرات‘‘میں جہاں مثبت اثرات کی
نشاندہی کی ہے وہیں کچھ منفی اثرات کا بھی ذکر کیا ہے۔اس سلسلے میں انھوں
نے مسلمانوں میں بیوہ کے استحصال، ان کی محروم زندگی اور ان کو سماجی
تقریبات کے موقعوں پر نظر انداز کرنے کے عمل کو برادرانِ وطن کی تہذیب اور
ستی کی رسم کا شاخسانہ بتایا ہے۔
’ایامیٰ‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی مردِ بے زن یا زنِ بے مرد کے
ہیں یہاں صریحاً بیوہ مراد لیے گئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شوہر کے انتقال
کے بعد عورت، عورت نہیں رہتی بلکہ زندہ لاش بن کر رہ جاتی ہے۔ اچھا پہن
نہیں سکتی، سج سنور نہیں سکتی، شادی بیاہ کی رسم میں شامل نہیں ہوسکتی، اس
کو تمام عورتوں سے مختلف زندگی گذارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اور بعض اوقات
اس کو اپنے شوہر کی موت کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جاتا ہے اوریہ طعنہ بھی دیا
جاتا ہے کہ کھاگئی اپنے شوہر کو۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ شوہر نہ ہونے
کے سبب بیشتر لوگ بیوہ کا مختلف طرح سے استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں
اوربے چاری عورت یہ سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور ہوتی ہے کیونکہ بیوگی اس
کا سب سے بڑا قصور ہے۔ اس صورتِ حال کو ڈپٹی نذیر احمد نے آزادی بیگم کی
زبانی بیان کیا ہے۔
’’جن کے مرد پاس نہیں ان کو تو بھلا کیا مذکور ہے۔ جن کے مرد پردیس میں
ہوتے ہیں کیا وہ سر نہیں دھوتیں، کپڑے نہیں بدلتیں، پھول، چوڑیاں نہیں
پہنتیں، مہندی نہیں لگاتیں، بناؤ سنگار نہیں کرتیں، میں نے ذراکی ذراآئینے
میں منھ کیا دیکھا کہ لگی چاروں طرف سے بھرمار ہونے ۔ان زبردستی کی
بدگمانیوں کی روک تھام مجھ سے کیا ہوسکے گی۔ مگر ہاں منھ کو کیچڑ ملوں،
ہندنی رانڈوں کی طرح سر منڈاؤں سو تو یہ مجھ سے نہ ہوا اور نہ آئندہ ہوگا۔
لوگ ایک بدگمانی نہیں لاکھ بدگمانیاں کریں بلا سے۔ مردوں نے یہ کیا آفت
برپا کر رکھی ہے۔ ناحق بیٹھے بٹھائے کسی کو رسوا کرنا اچھی بات ہے۔ شادیاں
بھی ہوتی ہیں،نکاح بھی ہوتے ہیں مگر یہ طریقہ کہیں سننے میں نہیں آیا اور
کسی کی پناہ پکڑے بغیر یہ فضیحتا بند ہوتا نظر نہیں آتا۔ اگر میں واقعی
خوبصورت ہوں جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں توخوبصورتی کچھ رنڈاپے سے نہیں آئی
مگر لوگ جانتے تھے کہ ایک نکاح میں ہی اس سے کسی کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا اب
دیکھا کہ کوئی اس کا سرپرست نہیں لگے عاشقی کا دم بھرنے۔‘‘ (ص:217-18)
اس ناول میں نذیر احمد نے عورت کی پیدائش سے لے کر موت تک کی داستان کو
نفسیاتی انداز میں روشنی ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کا اعتقاد ہے کہ انسانی نظریات لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر ہوتے
رہتے ہیں جیسے جو آج بہترہے وہ کل کیسے بدتر معلوم ہوتا ہے لیکن جو چیز
ہمیشہ قائم ودائم رہے گی وہ ہے مذہب اور قرآن مجید جس میں کسی طرح کی ترمیم
ممکن نہیں۔ ایک جگہ اسی حال کو آزادی بیگم نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
’’آدمی ایک بات کو ایک وقت بُرا سمجھتا ہے پھر وہی آدمی اسی بات کو دوسرے
وقت اچھا کہنے لگتا ہے۔ اوریہ خود مجھ پر گزری ہے اور خیال کرکے دیکھو تو
کوئی فرد بشر اس تزلزل سے خالی نہیں۔ بچپن کی باتیں جوانی میں بُری معلوم
ہوتی ہیں جوانی کی بڑھاپے میں۔ غرض اچھا وہی ہے جس کو مذہب اچھا کہے اور
بُرا وہی جس کو مذہب بُرا بتلائے۔‘‘ (ص258)
ڈپٹی صاحب کو سفاک حقیقت نگاری پر ملکہ حاصل ہے ۔ انھوں نے آزادی بیگم کی
بیوگی کے حالات کی ایسی محاکاتی تصویر کشی کی ہے کہ گویا قارئین کو حقیقی
قصے کا گمان ہوتا ہے۔ اور بہتوں نے تو آزادی بیگم کے کردار میں مولوی صاحب
کی بیوہ سالی کا عکس بھی تلاش کیا ہے۔ بہر حال یہ ناول آزادی بیگم کی تلخ
زندگی کاحقیقی مرقع معلوم ہوتاہے کیونکہ ڈپٹی نذیر احمد نے اس ناول میں
عورت کے احساس ونفسیات کو حقیقی پیرائے میں بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی
ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کو احساس ہے کہ شوہر کے انتقال کے ساتھ بیوی کی ضروریات کا
اختتام نہیں ہوتا:
’’ ان بے چاریوں کے شوہر فوت ہوئے ہیں نہ کہ وہ ضرورت جس کی وجہ سے دنیا
جہاں میں نکاح ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے خود ان کے پہلے نکاح ہوئے
تھے۔‘‘(ص:264)
اس عہد میں جب سے ڈپٹی نذیر احمد خود بھی اکبری اور اصغری کی کہانیاں لکھ
رہے تھے۔ نسائی خواہشات اور اس کے انسلاکات کا ذکر بھی گناہ تھا۔ نذیر احمد
نے اس سلسلے میں بھی پہل کی۔ جب آزادی بیگم کو ایک غیر مرد کی آواز سن کر
کشش محسوس ہوتی ہے تو ڈپٹی صاحب بڑے جذباتی انداز میں اس کا ذکر کرتے ہیں:
’’جسم پر میرا بس چلتا تھا اور اس کی میں نے حفاظت کی․․․ لیکن دل تو میرے
اختیار میں نہ تھا۔ وسوسوں کو کیونکر روکتی، خیالات کو کس طرح ٹالتی ۔ پس
میرا بدن بالکل بے گناہ ہے لیکن دل میں نہ اس کو بے گناہ سمجھتی ہوں اور نہ
بے گناہ کہتی ہیں۔ مجھ پر ایک وقت گزرا ہے دن نہیں، ہفتے نہیں مہینے نہیں
بلکہ برس کہ مرد کی آواز میرے کانوں کوبھی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ رات کو
چوکیدار پکارتا یا دن کو سودے والے صدا لگاتے تو میں کان لگا کر سنتی بلکہ
ایک دفعہ تو بے اختیار ہوکر ڈیوڑھی میں جاکر کھڑی ہوئی اور پھر مہینوں اپنے
تئیں ملامت کرتی رہی․․․ بیوہ ہوکر بیوگی کی قدر جانی کہ دنیا میں اس سے بڑھ
کر کوئی عذاب نہیں۔‘‘ (ص:265-66)
ایامیٰ میں ڈپٹی صاحب نے عور ت کی ضروریات اور اس کی جنسی خواہشات پر بھی
روشنی ڈالی اور اس کی زندگی کی تلخ حقیقت کا پردہ فاش کرنے کی کامیاب کوشش
کی۔ اور ہر مسئلہ کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں مدلل بیان کیا۔ اس لیے ان
کے ناولوں میں قرآنی آیتوں کے اکثر حوالے ملتے ہیں۔ اس ناول میں ایک جگہ یہ
آیت بیان کی گئی ہے۔ ’’وانکحو الایامی منکم۔‘‘ (اپنی رانڈوں کے نکاح کردو)
یہاں نکاح ثانی کو نذیر احمد نے قرآن کی روشنی میں اس آیت سے ثابت کرنے کی
کوشش کی اور یہی اس ناول کوتصنیف کرنے کا مقصد بھی ہے۔ ان کو بخوبی اندازہ
تھا کہ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہی دور
کرسکتے ہیں۔ اس لیے ان کے ناولوں میں قرآن وحدیث کے بیشتر حوالے ملتے ہیں۔
کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ نذیر احمد کا اولین مقصد اصلاح معاشرہ سے
بھی زیادہ قرآنی تعلیمات کا ابلاغ ہے:
’’پیغمبر صاحب کی حدیث تو حدیث ان کا اپنا فعل اپنا عمل درآمد کہ بی بی
عائشہؓ کے سوائے آپ کی جتنی بیبیاں تھیں کسی کے آپ دوسری جگہ تھے اور کسی
کے دوسرے سے بھی زیادہ۔تین صاحب زادیاں حضرت فاطمہؓ تو جناب علی مرتضیٰ کے
ساتھ بیاہی گئیں ان ہی کے نکاح میں انتقال فرمایا۔ باقی رہیں دو صاحب
زادیاں دونوں کے دو دو بار نکاح ہوئے اور تمام خاندانِ نبوی اور تمام اصحاب
کے گھروں کا یہی حال تھا۔ ان لوگوں میں بیوی کا دوسرا نکاح ایسا ہی ضروری
اورلازمی معمولی تھا جیسا ہم لوگوں میں عورت کا پہلا نکاح۔‘‘(ص203)
ہندوستان کی دوبڑی قوموں نے آپس میں جس طرح ثقافتی اختلاط کیا ہے اس کی
مثال ملنی مشکل ہے۔ دونوں قوموں کے متقابل اور متصادم نظریات کے باوجود
دونوں قوموں پرہی ایک دوسرے کی تہذیب بلکہ مذہبی رسوم کے بھی اثرات
جزولاینفک ہوگئے ہیں اور یہ اثرات صرف مثبت ہی نہیں منفی بھی ہیں۔ قدیم
ہندوستان میں ستی پرتھا ایک بدترین سماجی لعنت تھی۔ ابن بطوطہ نے اپنے
سفرنامۂ ہند میں لکھا ہے کہ اس نے راجستھان میں ایک جلوس دیکھا جس میں ایک
عورت کو دلہن بناکر لے جایا جارہا تھا۔ ابن بطوطہ نے خیال کیا کہ شاید شادی
سے متعلق کوئی رسم ہوگی لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس زندہ عورت کو ایک مردے
کے ساتھ جلا کر خاکستر کردیا گیا تو وہ وہیں بے ہوش ہوگیا۔ابن بطوطہ کی
شکایت پربادشاہِ وقت نے ’ستی پرتھا‘ پہ جزوی طور سے پابندی عائد کردی۔ مکمل
امتناع برٹش سرکار کے ذریعے ہوا۔ اس کے باوجود اکثر بیواؤں کو ان کے بالوں
سے محروم کردیا جاتا اور ان پر کسی طرح کی آرایش بھی حرام کردی جاتی تاکہ
وہ پُرکشش نظر نہ آئیں اور مردوں کے التفات سے محروم رہیں۔ اس سلسلے میں
ہندوستانی مسلمانوں نے قرآن وحدیث کے فرمودات کو بھی نظر انداز کردیا۔ جس
میں بیوہ کے عقدِ ثانی کے لیے صریحاً ہدایات موجود ہیں۔ایک جگہ اس بات کو
اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’عرب، شام وروم، افریقہ، فارس کہیں کے مسلمان بیوہ کے دوسرے نکاح میں کسی
طرح کی عار نہیں سمجھتے۔ یہ خاص کر کچھ ہندوستان ہی میں مسلمان کی شامت ہے
کہ انھوں نے بیوہ کے دوسرے نکاح کو عیب سمجھ رکھا ہے۔ یہ ان پر ہندوؤں کے
ساتھ رہنے کی پھٹکار ہے۔احمقوں نے ہندوؤں کی رسم تو اختیار کرلی مگر یہ نہ
سمجھے کہ اس رسم کے پیچھے دین اور ایمان سب کھوبیٹھے۔ بیوہ کا نکاح نہ کرنا
بھی بڑا بھاری گناہ ہے۔‘‘ (ص203-204)
ڈپٹی نذیر احمد نے لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی او ریہ پیغام دیا کہ
رسمیں انسان نے بنائیں ہیں نہ کہ مذہب نے اورانھیں رسموں نے انسان کی زندگی
کو جیتے جی عذاب بناکر رکھ دیا ہے۔ اس کے برعکس مذہب نے تو انسان کو سہولت
اور گنجایش فراہم کی لیکن پھر بھی لوگ راہِ راست سے بھٹک کر غلط راہ پر چل
نکلے اور لوگوں کو سیدھی راہ پر لانے کے لیے ڈپٹی صاحب نے قرآن وحدیث کا
سہارا لیا۔ کیونکہ وہ حافظ مولوی تو تھے، انھوں نے اپنے اس فن کو ناول
نگاری میں آزمایا تاکہ مذہبی اور سماجی اعتبار سے معاشرے کی اصلاح ہو، لوگ
اپنے اچھے بُرے کو سمجھیں اور غلط کام سے بچیں۔ اور اسی بنیاد پر لوگوں نے
انھیں واعظ ناول نگار قرار دیا۔ لیکن واعظ ناول نگار ہونا ان کی خامی نہیں
بلکہ خوبی تھی۔ ان کی انھیں خصوصیات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے
کہ ڈپٹی صاحب اردو کے اولین ناول نگار کے ساتھ ساتھ مصلح بھی ہیں تو بے جا
نہ ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں عورت کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ شوہر کے انتقال کے
بعد نہ سسرال عورت کا ہوتا ہے اور نہ میکہ۔ سسرال والے سوچتے ہیں جس کے لیے
آئی تھی جب وہ ہی نہیں رہا تو اب یہاں اس کا کیا کام۔ اور میکے والے سوچتے
ہیں کہ ہم نے تو اس کو بیاہ کر اپنا فرض ادا کیا۔ افسوس جس گھر میں پید
اہوئی اور جس گھر میں بیاہی اب یہ دونوں ہی گھر اس کے لیے پرائے ہوگئے،
آزادی بیگم اس کرب سے گذر رہی ہے:
’’ایک طرح کی خود مختاری جو بیاہے جانے سے مجھ کوحاصل ہوئی تھی رفتہ رفتہ
جاتی رہی وہ انجام مجھ کو نظر آرہا ہے کہ اس گھر میں میرا وہی وقر ہوگا جو
ایک ماما یا لونڈی کا ہوتا ہے۔ بلا سے افیم کھاکر رہوں گی اور بھائی
بھاوجوں کے طعنے نہ سنے ہیں نہ آئندہ سنوں گی۔‘‘(ص: 171-172)
شوہر کے صدمے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی پابندیاں اور طعنے بے عزتی کی زندگی
ہمارا سماج عورت کو بظاہر تو نہیں مارتا پرجیتے جی ضرور ماردیتا ہے۔ بہت سی
عورتیں اس صدمے کو برداشت نہیں کر پاتیں تو وہ دماغی توازن کھو بیٹھتی ہیں
یا خود کشی کرنے کی کوشش کرتی ہیں، کچھ اس طرح کے معاملات آزادی کے ساتھ
بھی پیش آئے:
’’ہر وقت میں رنجیدہ رہتی ہوں۔ اس کے معنی کہ خدا سے روٹھی ہوئی ناراض کہ
کیوں میرے آدمی کو اپنے پاس بلایا اور مجھ کو رانڈ بیوہ کرکے بٹھادیا۔ پس
دین ایمان بھی کہا ں باقی رہا۔ لاکھ منھ سے نہ کہوں پر خدا تو دِلوں کی
چوریوں کو جانتا ہے کہ اس کے نزدیک میں گنہگار ٹھہر چکی، کہ میں اب کسی
سہاگن کو نہیں دیکھ سکتی، مجھ کو ارمان آتا ہے کہ اس کا میاں تو موجود ہے
میں نے ایسا کیا قصور کیا تھا کہ میرے ہی میاں کو مرنا تھا۔ میں سمجھتی ہوں
کہ حسد بری چیز ہے کہ جس طرح آگ لکڑی کو جلاکر راکھ کردیتی ہے اسی طرح حسد
ساری نیکیوں کو برباد کردیتا ہے ۔ لیکن میں کیا کروں میرے دل میں تو آپ سے
آپ اس طرح کے خیالات آتے ہیں۔میں ان کو روک نہیں سکتی، میں ان سے انکار
نہیں کرسکتی، پس ایسی نالایق اور بے ہودہ زندگی سے تو مررہنا بہتر۔ بلا سے
ہمیشہ کو پنڈتو چھوٹ جائے گا لیکن اتنا ہی خیال آتا ہے کہ حرام موت مرنا
بھی تو بڑاگناہ ہے۔ پھر میں سوچتی ہوں جیسی وہ حرام موت ویسی حرام زندگی۔
بلکہ مرنا تو ایک دفعہ کا مرنا ہے اگر آدمی حرام موت مرا تو اس نے ایک گناہ
کیا اور اس طرح کے جینے میں تو گناہوں کے علاوہ کفر کا خوف ہے۔ یہ خاص صورت
میں نے تو کسی کتاب میں دیکھی نہیں، کسی مولوی سے مسئلہ پوچھوں تو فوراً
تاڑ جائے گا اور پھر اگر مرنے کی صلاح ٹھہری توجیناخدا نے دشوار کرر کھا ہے
مرنا لوگ مشکل کردیں گے۔‘‘ (ص182)
اس ناول کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ایک طرح کی جدوجہد اور اپنے آپ
سے لڑنے کی کوشش ہے اور بعض جگہ سوال وجواب کا دلچسپ اندازِ بیان اس کے حسن
کو دوبالا کردیتاہے۔ مثال کے طور پر آزادی بیگم کے سوالات جو اس کے اندر
ایک طرح کا طوفان پید اکررہے تھے۔ انھیں سوالوں کے جواب ڈھونڈ کر وہ اپنے
اندر اس طوفان کو روکنے کی کوشش بھی کرتی ہے جیسے خود کشی کرنی چاہیے یا
نہیں؟ حرام ہے یا ایسی زندگی حرام ہے۔ اور اس کا جواب نذیر احمد نے آزادی
کی زبانی کچھ اس طرح ادا کیا ہے۔
’’میں نے وضو کر دو رکعت نماز استخارہ پڑھی، دعا مانگی، جو فال دیکھنے کو
قرآن کھولاتو اس کی پہلی سطر کے شروع میں تھا ۔
ولا تقتلو انفسکم (اپنی جان کو ہلاک نہ کرو) اور حاشیے پر کسی حدیث کے
حوالے سے لکھا تھا کہ جو شخص جس طور سے خود کشی کرتا ہے ابد الاباد تک اس
عذاب میں مبتلا رہے گا۔‘‘ (ص: 184)
اگر ڈپٹی صاحب واعظ ناول نگار نہ ہوتے تو وہ قرآن کے حوالے سے گمراہ لوگوں
کو راہ پر نہیں لاسکتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ معاشرے کے لوگ
اپنے آپ کو پہچانیں اور مذہبی اعتبار سے اپنی زندگی گذاریں۔ وہ مسلمانوں کو
سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ اگر انھوں نے مذہب کے مطابق زندگی بسر نہ کی
تو ان کو دنیا اور آخرت میں کن کن رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ڈپٹی صاحب کی یہ کوشش بیواؤں کی دوسری شادی کو لے کر ہی نہیں بلکہ ان کو
خود کشی سے بچانے اور ان کی مصیبتوں سے لوگوں کو روشناس کرانے کی بھی تھی
کہ کیسے ایک عورت معاشرے میں شرم کی وجہ سے اپنا منھ کھول کر دوسری شادی کے
بارے میں کہنے کی ہمت نہیں رکھتی لیکن خود کشی جیسا بڑا قدم اٹھانے کی ہمّت
رکھتی ہے۔ وہ دل ہی دل میں دوسری شادی کے بار ے میں سوچتی ہے، دعائیں کرتی
ہے، منتیں مانتی ہے لیکن نکاح ثانی کے بارے میں نہ کسی سے کہتی ہے اور نہ
کوئی اس سے کہتا ہے۔ نذیر احمد نے ایک جگہ اس کیفیت کو اس طرح بیان کروایا
ہے:
’’ان کو چاہیے تھا کہ دوسرے نکاح کی تحریک کو ترغیب دلائیں مگر انھوں نے
نہیں کیا۔ اس لیے کہ مجھکو چاہیے تھا کہ دوسرے نکاح کا ارادہ ظاہر کروں میں
نے نہیں کیا۔ میں نے بہتیری بہتیری تدبیریں کیں کہ کسی ایسے شغل میں لگ
جاؤں کہ خیال نہ آئے۔ پورے ایک برس صوم داؤد رکھ کر دیکھے کیونکہ میں نے
کتاب میں پڑھا تھا کہ روزہ، روزہ بھی حضرت داؤد علیہ السلام کا ساایک دن
بیچ کا نفس کشی کے لیے بہت مفید۔ مہینوں سر نہ دھویا،ہفتوں بالوں میں کنگھی
نہ کی، کپڑے نہ بدلے۔‘‘ (ص260)
ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناول میں ایسے زوال پذیر معاشرے کی عکاسی کی ہے
جہاں عورت کوپوجا توجاتاہے مگر افسوس انسان نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی خواہشات
کا گلا گھو نٹ کر ا سے زندہ لاش بننے پر مجبور کردیاجاتا ہے۔
یہ ناول1891میں شائع کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب انگریز ہندوستان پر اپنا
تسلط قائم کرچکے تھے۔ یہ دو تہذیبوں کے تصادم کا دور تھا۔اگر اسے اصلاحی
دور بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ قوم کے باشعورا ورتعلیم یافتہ افراد نے
جب مشرقی تہذیب کا مغربی تہذیب سے موازنہ کیا تو انھیں اپنی تہذیب میں بہت
سی خامیاں نظر آئیں ا ور ان کی اصلاح پر کمربستہ ہوگئے۔ یہ سرسید کی اصلاحی
تحریک کا دور تھا۔ سرسید کے اس تحریک کے علمبردارہونے کے باوجود بھی بعض
معاملات میں نذیر احمد کو ان پرفوقیت حاصل ہے۔ مثلاً تعلیم وتربیت ِ نسواں
کی طرف انھوں نے سرسید سے زیادہ توجہ دی اور بیواؤں کی پریشانیو ں کو کھل
کر بیان کرنے کی سعی کی۔ مولوی نذیر احمد ادب کو محض وقت گزاری اور نفس
تفنن و طبع کا ذریعہ نہیں خیال کرتے بلکہ اسے زندگی سنوارنے کا وسیلہ قرار
دیتے ہیں اس لیے ان کے ناولوں میں مشرقی اور مغربی تہذیب کا موازنہ ملتا
ہے۔ ان کے نظریات اس وقت واضح ہوکر سامنے آتے ہیں جب انگریز لڑکی مَیری
شادی سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہے آزادی بیگم 12-13 سال کی عمر
میں شادی کا بوجھ برداشت کرتی ہے اور اس کے برعکس مَیری 19سال کے بعد شادی
کی خواہاں ہے وہ بھی اپنی پسند کے نوجوان سے جب کہ ڈپٹی صاحب کی مرکزی
کردار کو یہ آزادی میسّر نہیں جس کا نام ہی آزادی ہے بقول ڈپٹی صاحب آزادی
صرف نام کی ہی آزادی ہے۔
ڈپٹی صاحب نے انگریزسوسائٹی کا ہندوستانی سوسائٹی سے موازنہ کیا اور یہ
بتانے کی کوشش کی کہ شادی کو لے کر ان دونوں معاشروں میں کتنا فرق ہے۔ ایک
جگہ ’میری‘ اور ’آزادی‘ کے سوال وجواب ملاحظہ ہوں:
’’آزادی: شاید ماں ہی کے مرجانے کی وجہ سے آپ کے بیاہ میں اتنی دیر ہوئی۔
میری: دیر تو کچھ بھی نہیں ہوئی ، ہم لوگ بس اس عمر میں شادی کیا کرتے
ہیں۔اس سے پہلے شادی کردینا گڈے اور گڑیا کی شادی کا کھیل ہے۔ آزادی: پھر
اب میم صاحب کو تو ایسی کیا پیڑ پڑی تھی۔ پادری صاحب ہی کہیں بات ٹھہرارہے
ہوں گے۔ میری: شادی میری، اور بات ٹھہرائیں پادری صاحب؟ اس کے معنی؟ جی میں
نے اپنی بات آپ ٹھہرائی ہے۔ آپ کو ہم لوگوں کا دستور معلوم نہیں۔ ہم لوگوں
کا قاعدہ یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کو پسند کرکے آپس میں رضا مند
ہولیتے ہیں۔ ماں باپ اور دوسرے بزرگوں کی اجازت رسمی بات ہے۔ آزادی: تو کیا
آپ لوگوں میں کنواری لڑکیاں غیر مردوں سے مل سکتی ہیں؟ میری: بیشک جیسے ہم
اور آپ اگر ملیں نہیں تو ایک دوسرے کا مزاج، ایک دوسرے کا اصل حال کیوں کر
معلوم ہو اور بے جانے بوجھے زندگی بھر کے لیے کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا تو
اندھیرے میں نشانہ ہے، لگاتو تیر نہیں تو تکّا۔ آزادی: بھلا فرض کیجیے کہ
آپ کسی شخص کے ساتھ شادی کرنے پر رضا مند ہوگئیں اور پادری صاحب نے اجازت
نہ دی تو آپ کیا کریں گی؟ میری: ایسا اتفاق شاذ ونادر واقع ہوتا ہے بلکہ
نہیں ہوتا۔ آخر میں بھی تو عقل رکھتی ہوں۔ ایسے شخص سے راہ ورسم ہی کیوں
کرنے لگی جس کی نسبت پادری صاحب کو یا کسی کو اعتراض کی گنجایش ہو۔ صورت
شکل، خاندان، ذاتی لیاقت، تندرستی، مزاج، عادت، آمدنی چیزیں دیکھنے کی ہوتی
ہیں۔ تو کیا میں نہیں دیکھ سکتی؟ اور بیاہ تو مجھ کو کرنا پڑے گا میرا ہی
دیکھنا مقدم ہے۔‘‘(ص66-67)
مغربی معاشرے میں مرد اور عورت کو برابر سمجھا جاتا ہے اور اس کو اپنی
زندگی جینے کی پوری آزادی ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس ہندوستانی معاشرے میں
عورت کو اپنے بارے میں کسی بھی فیصلے کا اختیار نہیں خواہ وہ شادی شدہ ہی
کیوں نہ ہو۔ اس کو کولہو کے بیل کی طرح کسی کے بھی پلے باندھ دیا جاتا ہے۔
بغیر اس کی مرضی کے وہ شادی کرنا چاہے یا نہ چاہے اگر لڑکی کے گھر والے
چاہیں تو وہ کبھی بھی کسی سے بھی اس کو بیاہ سکتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت
ڈپٹی نذیر احمد نے آزادی کی زبانی بیان کروائی ہے:
’’غرض آزادی ایک بار پھر جانے پر آمادہ ہوئی، ان کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ
کر بیٹھ گئی اور لگی دل میں غور کرنے کہ بات کا سلسلہ کس طرح شروع کروں۔یہی
نہ کہ تم میری منگنی کی بات چیت کررہی ہو مجھ کو اپنا بیاہ کرنا منظور
نہیں۔ یہ بات کاہے کو ہے کہ ایک پتھر سا ماردینا ٹھہرا؟ اگر سن کر انھوں نے
جھڑک دیا اور کہا چل پرے ہٹ؟ منھ لگائی ڈومنی گائے آل پتال۔ تجھ کو؟ کس نے
دخل دیا ہے جا اپنے ٹھکانے سے جاکر بیٹھ۔ تو یہ توکچھ بھی نہ ہو بری کی بری
بنی اور مطلب کا مطلب فوت ہوا وہ تو کہیں ایسا اتفاق ہوتا کہ کوئی اس کا
مذکور چلاتا میں بیٹھی سنتی اور موقع پاکر بول اٹھتی۔ مگر ایسا اتفاق نہ
ہوا اور نہ ہوگا۔ پہلے سے ابا جان نے ددا کے ہاتھ منع کروا بھیجا ہے کہ اس
قسم کی بات چیت ہوتی ہو تم ٹل جایا کرو۔ بس اس کا تو فیصلہ ہے کہ یا تو
کہنے سننے کا نام نہ لوں اور کہوں تو آپ کہوں اور تنہائی میں
کہوں۔‘‘(ص76-77)
ڈپٹی نذیر احمد مولوی ہونے کے باوجود ایک کھلے ذہن کے مالک تھے۔ ان کو
بخوبی احساس تھا کہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی ان سے ان کا بچپن اور تعلیم
سے محروم کردیتی ہے اور جو عورتیں تعلیم یافتہ نہیں ہوں گی وہ اپنے بچوں کو
بہتر تربیت کیسے دے سکیں گی۔وہ عورت کو بھیڑ بکری کی طرح سمجھنے کے قائل نہ
تھے بلکہ وہ چاہتے تھے کہ عورت اپنے فیصلے خود لینے کے قابل بنے۔ وہ مغربی
تہذیب کے مداح نہ تھے لیکن وہ مشرقی تہذیب کو بہتر ضرور بنانا چاہتے تھے اس
لیے انھوں نے عورت کی تربیت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کی
بھی کوشش کی۔
اس ناول کا پلاٹ گتھا ہوا ہے مگر آزادی بیگم کی تقریروں نے اس کے تناسب اور
توازن کو مجروح کردیا ہے۔ نذیر احمد وسیع تجربے اور پارکھی نظر کے مالک تھے
اور اپنی زندگی میں کئی نشیب وفراز سے گذرے، ہر قسم کے لوگوں کو دیکھنے اور
پرکھنے کا موقع ملا، حافظہ قوی تھا جس سے بھی ملے ذہن نشیں ہوگیا۔ مردم
شناس ایسے کہ زندگی کے پیچ وخم و انسانی نفسیات سے بخوبی واقف تھے۔ طالب
علمی کے زمانے میں پیٹ بھرنے کے لیے گھر گھر جانا پڑا، کسی کا مسالہ پیستے،
کسی کا سودا لاتے تو جب کہیں جاکر باسی روٹی اور قیمے کی لگدی میسر آتی۔
لیکن اسی بہانے متوسط طبقے کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔
کردار نگاری میں ڈپٹی نذیر نے مختلف طرح کی فنی تدبیری اختیار کیں۔ کبھی
انھوں نے خود کرداروں کا تفصیلی تعارف کرایا تو کبھی کرداروں کے مزاج اور
ان کی خاصیتوں پر روشنی ڈالی۔ ایک جگہ آزادی بیگم کے کردار کا خود تفصیلی
تعارف کچھ اس طرح کروایا ہے:
’’وہ ایسے گھر میں پیدا ہوئی جس کے سارے خاندان میں لڑکیوں کا توڑا تھا۔ ان
لوگوں میں یوں ہی لڑکیاں کم پیدا ہوئیں تھیں اور بھولے بسرے پیدا ہوتی بھی
تھیں تو لوگ پہلے سے مہمان چند روزہ خیال کرلیا کرتے تھے۔آزادی نہ صرف
اکیلی بیٹی تھی بلکہ اکیلی پوتی، اکیلی نواسی، اکیلی بھانجی، اکیلی بھتیجی،
آزادی پیداہوئی توانا تندرست ٹپڑے کا ٹپڑا اچھے خاصے چار پانچ انگل گھنے
گھونگھروالے سیاہ بال ، چھٹی کے اندر کی کیا بساط؟ ماں کی گود میں سوتی
کودیکھا تو نظر لگانے والوں کی آنکھ میں خاک برس سوا برس کا پلا ہوامرد
بچہ۔ پہلی بدگمانیاں اور اس کی یہ حالت کوئی نہیں کہتا تھا کہ یہ بچے گی
لیکن وہ کاٹھی ایسی لے کر آئی تھی جس نے کسی روگ کو اس کے پاس نہ بھٹکنے
دیا۔ خدا نے اس کو جلد جلد پروان چڑھایا ۔ وہ بیل ہوکر بڑھی اور جال ہوکر
پھیلی۔ پہلی سالگرہ میں وہ دوڑی دوڑی پھرتی تھی۔اور دوسری میں ایسی بلا کی
باتیں کرتی جیسے بنگالے کی مینا۔‘‘ (ص49-50)
آزادی بیگم ڈپٹی نذیر احمد کے ناول کا مرکزی کردار ہے۔ اس کردار میں ایک
طرح کی کشش ہے جو لوگوں کو بے حد متاثرکرتی ہے۔ آزادی پیدائش سے لے کر موت
تک عام عورتوں سے مختلف نظر آتی ہے۔ وہ دوسری لڑکیوں کی طرح زیور اور کپڑوں
کا شوق نہیں رکھتی اور نہ ہی کم عمر میں شادی خواہاں ہے، وہ اپنے اندر
جدوجہد کرتی رہتی ہے لیکن بول نہیں پاتی۔ مولوی مستجاب سے شادی ہونے کے
باوجود ہمت نہیں ہارتی اور اس سے کٹھ ملایئتی چھڑ اکر ہی دم لیتی ہے۔
بیوہ ہونے کے باوجود دوسری بیواؤں کی حالت جاننے کی جدوجہد کرتی رہتی ہے
اور زندگی کے آخری وقت میں دوسری بیواؤں کی زندگی سدھار نے کی غرض سے ان کے
حالات بلا جھجک مردوں کے سامنے بیان کرتی ہے۔
ڈپٹی صاحب نے جہاں کسی کردار کا تعارف کرایا تو ایسا معلوم ہوا ہے کہ کردار
میں جان پڑگئی۔ آزادی بیگم اس کی بہترین مثال ہے۔ اگر ڈپٹی صاحب کے کرداروں
کو زندگی کا مرقع کہا جائے تو بے بنیاد نہ ہوگا۔
آزادی بیگم کے بیشتر مکالمے لمبی تقریریں معلوم ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود
بھی وہ پڑھنے والے کے ذہن میں چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ محاوروں اور کہاوتوں کی
بھرمارنے عبارت کو بوجھل بنادیا ہے لیکن پھر بھی مکالمہ نگاری کے فن میں
ڈپٹی صاحب کامیاب نظر آتے ہیں۔ عربیت کے غلبے سے ان کی تحریروں کو کافی حد
تک نقصان بھی پہنچا ہے لیکن اس کے باوجود کہیں کہیں ایسی کہاوتیں استعمال
کردیتے ہیں کہ پڑھنے والا مسکرانے پر مجبور ہوجاتا ہے ان کا یہ ناول سبک
روی سے شروع ہوکر ایک لرزہ خیز دھماکہ پر ختم ہوتا ہے جو پورے معاشرے کو
جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ آخر کیوں بیوہ پھر سہاگن نہیں بن سکتی؟
ممکن ہے آج کے سیاق وسباق میں اس ناول میں کچھ فنی اور تکنیکی تسامحات نظر
آئیں۔ ڈپٹی صاحب کے ناولوں کو انھی خامیوں یا محرومیوں کی وجہ سے کبھی کبھی
ناول کے زمرے سے خارج کردیا جاتا ہے۔ عالمگیر ادب میں بھی ایسے ناول کی
مثالیں کمیاب تھیں جن سے ڈپٹی صاحب روشنی حاصل کرسکتے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ
محض ناول کے خواہاں نہیں تھے بلکہ وہ ناول کو اصلاح ِمعاشرہ کا ہتھیار
بنارہے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ کنواں ان کو ہی کھودنا تھا۔ اس ناول کی پہلی
اشاعت کی پیشانی پر انھوں نے اپنا یہ شعر درج کیا ہے:
بُرا دستور، بے جا بات ناہنجار شیوہ ہے
بڑی خوف وخطر کی جائے ہے جس گھر میں بیوہ ہے
سفینہ
(ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی) |