رنگروٹ سے آفیسر ۔ قسط 3
(Khalid.Naeemuddin, Islamabad)
شخصی آزادی کا آخری دن !
کوہاٹ سے واپسی کس طرح ہوئی یہ ایک دردناک سفر کی ہولناک داستان ہے۔شوال کے
آخری دن تھے۔ حاجی صاحبان کراچی کی طرف بمع اپنے خاندان و دوستاں رواں دواں
تھے۔ عوامی میل میں ہم بھی گھسڑ مسڑ کے گسیڑم گھساڑ ہوکر پہنچے سب نے
ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ہر کوئی ہمیں تعریفی نظروں سے دیکھتا۔ مائیں اپنے نالائق
فرزندوں کو ہماری مثال دیتیں ۔ ارسطو اور افلاطون ہمیں شک کی نظروں سے
دیکھتے اور پھر ایک دن ہم کاکول جانے کے لئے تیار تھے سب رشتہ دار، عزیز و
اقارب ہمیں الوداع کہنے سٹیشن پر آئے ہوئے تھے۔ ہر کوئی سلامتی سے سفر کی
دعائیں دے رہا تھا۔ والدہ صاحبہ نے ہمارے بازو پر امام ضامن باندھا۔ گلے
میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔
ایک کالے مرغے کے سر پر دستِ شفقت پھروایا، جو یقیناًقربان ہوکر ہمارے سفر
اکیڈی سے باعزت اخراج کا ضامن بنا۔
ٹرین وقت مقررہ پر وسل بجا کر چل پڑی۔ چھوٹا بھائی اور والدہ نے ہمارے ساتھ
حیدر آباد تک جانا فرض سمجھا۔ مبادا کہ کہیں ہم حیدر آباد سے کسی غلط ٹرین
میں نہ بیٹھ جائیں۔ اگلاسٹیشن ٹنڈو الہ یار تھا ہم دروازے میں کھڑے ہوئے
شاید کوئی دوست ہمیں نظر آجائے۔ ہمیں دروازے میں ہار پہنا کھڑا دیکھ کر ایک
نوجوان مسلم نے نعرہ لگایا،”اسلام“ سب نے باآوازِ بلند کہا،”زندہ باد“ اور
پھر وہ باری باری ہمارا ہاتھ چومنے لگے۔ ہم حیران کہ خدایا! یہ کیسا کرشمہ
ہے، انہیں کیسے خبر ہوئی کہ ہم پاک فوج کے مایہ ناز آفسر بننے اکیڈمی جا
رہے ہیں۔ بعد میں عقدہ کھلا کہ گلے میں پھولوں کے ہار ہونے کی وجہ سے وہ
ہمیں ”حاجی“ سمجھ رہے تھے۔ بہرحال حضرت انسان کا اس میں کیا قصور وہ بے
چارہ تو ظاہری صورت دیکھ کر دھوکا کھا جاتا ہے۔
سولہ نومبر 1974 بروز ہفتہ، 4 ذی القعدہ 1394 ھجری، جو ہماری تاریخ میں
یادگار دن تھا کیوں کہ اس دن پاکستان کے وقت کے مطابق ٹھیک شام کو چار بج
کر پندرہ منٹ اور تیس سیکنڈ کو جب ہماری ٹیکسی پی ایم اے کے گیٹ سے اندر
داخل ہوئی تو ہمارے شہری حقوق سلب ہوچکے تھے۔ گیٹ کے سامنے چھ سات کیڈٹ اور
دو بغل میں ڈنڈا دبائے فوجی کھڑے تھے، انہوں نے ٹیکسی رکوائی ہم نے گردن
گھما گھما کر اور آنکھیں مل مل کر دیکھا مگر ہمیں کہیں بھی شامیانے اور
قناتیں نظر نہیں آئیں۔ جو فوجی حضرات اپنے قابلِ قدر مہمانوں کو خوش آمدید
کہتے ہوئے لگواتے ہیں۔ ٹیکسی سے اترے ڈرائیور نے سامان اتار کر نیچے
رکھا۔ہم نے پیسوں کی ادائیگی کی اور اس کا شکریہ ادا کیا اس نے معنی خیز
مسکراہٹ کے ساتھ سلام کیا۔ ہمارے میزبانوں نے نہایت شائستگی سے اسے واپس
جانے کو کہا۔ ٹیکسی کے جاتے ہی ایک کرخت آواز ہمارے کانوں میں گونجی،
”سامان اٹھاؤ“
مڑ کر دیکھا۔ ہمارا ایک میزبان خوفناک بلکہ خونخوار نظروں سے ہمیں دیکھ رھا
تھا۔
”تم نے میرا حکم نہیں سنا“ وہ دوبارہ چلایا،
”جی، آپ مجھے کہہ رہے ہیں؟“ ہم نے حیرانگی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”یہاں کوئی قلی نہیں ہے؟“ ہم نے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے کہا،
”قلی، کیا کہا قلی؟ یہ سامان تم خود اٹھاؤ“ وہ گلے کی گہرائیوں سے دھاڑا۔
ہم میں جانے کہاں سے پھرتی آگئی جھک کر سامان اٹھایا ، یہاں کے جذبہ ء
میزبانی کی دل میں تعریفیں کرتے ہوئے ۔ اپنے ایک میزبان کے پیچھے تقریباً
دوڑتے ہوئے ایک بڑی عمارت کے لان میں پہنچے جس کا نام بٹالین میس ہے۔ یہاں
ایک میلہ سا لگا ہوا تھا بھانت بھانت کی آوازیں آری تھیں اور ان آوازوں کے
پس منظر میں لوگ قلا بازیاں اور دوسرے کرتب دکھا رہے تھے۔ ہم بھی اپنا
سامان ایک طرف رکھ کر انہیں لوگوں میں شامل ہوگئے۔ اور اپنی پہلی زندگی پر
بھی پچھتا رہے تھے کہ اگر کسی سرکس میں نوکری کی ہوتی تو آج اتنی تکلیف نہ
اٹھانا پڑتی۔ ایکرو بیٹکس کے مختلف مظاہروں کے بعد رات گیارہ بجے اپنی
رہائش گاہ، انگریزوں کے دور میں لکڑی سے بنی ہوئی بیرک میں پہنچادیئے گئے۔
وہاں برآمدے میں لگے ہوئے قدآدم آئینے میں اپنا حلیہ دیکھا واللہ اگر اس
وقت ہمیں مجسموں کی نمائش میں رکھ دیا جاتا تو پہلا انعام ہمارے مجسمے کو
ملتا۔
دوسری صبح منھ اندھیرے پو پھٹنے سے قبل، اتوار کا سہانا دن، جب کہ دنیا
والے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے ہم فقط ایک جانگیئے میں انتیس عدد دیگر
ملزمانِ کمیشن کے ساتھ باجماعت شبنم آلود لان میں کھڑے اپنی قوتِ برداشت کا
امتحان دے رہے تھے۔ ہمارے جسم پر پڑنے والی شبنم، بھاپ بن کر ایسے اُڑ رہی
تھی جیسے گرم توے پر پانی کے چھینٹے ڈالنے کے بعد اٹھتی ہے۔ ساڑھے سات بجے
حکم ملا کہ دس منٹ میں تیار ہوکر ناشتے کے لئے، فال اِن ہوجائیں۔ یا خدا،
صرف دس منٹ، کمرے میں ہم چار کیڈٹ تھے۔ سہیل، فاروق، امجد، ہم اور دو باتھ
روم گویا پانچ منٹ فی کیڈٹ تیاری کے لئے ملے۔
ناشتے کے بعد ہم دوڑتے ہوئے، ایک بیرک کے سامنے پہنچے جہاں ہمیں ماہر گیسو
تراش کے سپرد کر دیا گیا۔ فوج سے تربیت حاصل کر کے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ
حضرات بڑے بڑے شہروں میں اپنی دکانیں کچھ اِس طرح بڑھاتے ہیں، کہ ایشیاء کے
ماہر زلف اور گیسو تراش آف ہیئر کٹنگ سیلون، ملٹری سے منظور شدہ بمع بیس
اکیس دیوار پر آویزاں اسناد جو بیدردی سے مجبور فوجیاں کے بال ترشوانے پر
عطا ہوئیں۔ ہم لان میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے باربر شاپ میں
اپنی باری پر داخل ہوئے اور ایک کرسی پر بٹھا دیئے گئے۔ ایک سفید کپڑے میں
ہمیں اس طرح جکڑا کہ نہ ہم ہاتھ ھلا سکتے تھے اور نہ کسمسا سکتے تھے۔ ہمارے
سر پر ایک ہاتھ سختی سے جم گیا جس نے ہمارا سر جھکا سر بسجدہ کر دیا ۔ لیکن
زمیں سے کوئی صدا بلند نہ ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے ہمارے سر کو گھاس کا میدان
سمجھ کر مشق شروع کر دی، مشین کی گھر گھر سنائی دیتی اور کبھی قینچی کی چخ
چخ، نجانے ہمارے سر کا حدود اربعہ اُن کی سمجھ میں نہ آیا یا وہ بے چارے
تھک گئے تھے لہذا انہوں نے ہمیں تشریف لے جانے کے لئے آزاد کیا۔ آئینے میں
شکل دیکھی ایسا لگتا تھا کہ کسی گنبد پر چیل نے اپنا آشیانہ بنایا ہو۔ اس
کے بعد ستم یہ کہ ہمیں فوٹو گرافر کے کیمرے کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔ جب
اپنی تصویر دیکھی تو جیل سے فرار ہونے والے اُس قیدی کی تصویر لگی جو عادی
مجرم ہو۔اس پر ہمیں میرپورخاص کے فوٹو گرافر کو مہارت کا سرٹیفکیٹ دینے کو
دل چاہا نے لگا۔
بڑے لوگوں پر بڑی مصیبتیں آتی ہیں۔ ادب کی دنیا میں اقبال اور غالب،دردو
میر کے ساتھ ہمارے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ہم اپنی بعض مشکلات میں ان کے شعروں
سے حل کے لئے فال نکالتے ہیں اور یہی اکثریت کا چلن ہے، سوائے کچھ بد چلنوں
کے جو امام دین کے پرستار ہیں، خیر ہم نے بھی انہی کا سہارا لیااور اس پر
عمل بھی کیا، کرالنگ کے دوران ہم نے اپنی ہستی کو خاک میں ملانے کی حتی
المقدور کوشش کی لیکن ہمار کہنیاں اور گھٹنے گل و گلزار ہونے کے بجائے،
لالہ زار ہو گئے۔ خودی کو بلند کرنے کے لئے ہم نے دیوار کی آخری حد تک
ٹانگیں لے جانے کی کوششیں کیں۔ مگر خدا تو کیا کاپل صاحب نے ہماری رضا نہیں
پوچھی اور نہ ہی کبھی پوچھنے کی ضرورت محسوس کی۔
جنوری شروع ہوا آسمان پر بادل امنڈ امنڈ کر آتے اور خاموشی سے گذر جاتے
لیکن جب برستے تو زمین کے بجائے ہم پر برستے ہم دعا کرتے کہ بس برسیں برف
نہ گرائیں۔ کیوں کہ برف کا گرنا اور ہمارا برف میں قلابازیاں لگانا لازم و
ملزوم تھا اور ایک صبح ”بابے“ نے بتایا کہ ”سر جی باہر برفاں لگی دی نے“ ۔
”کیا آ آ آ آ‘ ہم چاروں کی خوفزدہ آواز بلند ہوئی۔ وہ دن ہمارا بس گذر گیا،
دو بجے سب کے ساتھ پی ایم اے روڈ پر اپنے جوتے بجاتے دوڑتے واپس میس کی طرف
جارہے تھے اور اقبال کا شعر کانوں میں گونج رہا تھا۔ ع
سنبھل کر قدم رکھنا راہِ الفت میں۔ کہ سر جاتا ہے گامِ اولیں پر۔
لائبریری کے سامنے ایسا محسوس ہوا کہ دنیا ہمارے ارد گرد گردش میں ہے اور
ہم بے وزنی کی کیفیت میں ہوا میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، پھر ہم یک لخت کسی
چھپکلی کی مانند پٹ سے زمین پر گرے۔ پہلے تو اپنے دماغ کو اس حادثے کے
متعلق بتاتے رہے اور ساتھ یہ بھی سوچتے رہے کہ دوسرے مصرعے میں، ”سر جاتا
ہے“ کے بجائے، ”پھسل جاتا ہے“ ہوتا تو نہایت مناسب ہوتا۔ ہمارا سر زمین سے
ٹکرایا اور کائینات ساکن ہو گئی، ہوش واپس آئے تو ہم، ہسپتال میں تھے۔
دوسرے دن سی ایم ایچ گئے ایکسرے ہوا، ہڈی بچ گئی لیکن بائیں ران سوج گئی۔
ایک ہفتہ اکیڈمی کے ہسپتال میں رہنے والے ہم واحد فرسٹ ٹرم کے جنٹل مین
کیڈٹ تھے۔ باقی سیکنڈ، تھرڈ اور فائنل ٹرم کے تھے۔ ہمارے آرام کے اہتمام کا
اندازہ آپ نہیں کر سکتے اور نہ ہی سوچ سکتے ہیں۔
سہیل ہم چاروں میں سب سے چھوٹا تھا، ایف ایس سی کرتے ہی فوج میں آفسر بننے
چلا آیا۔ امجد زمان ملٹری کالج کا فارغ التحصیل تھا اور اپنے کلاس فیلوز سے
ایک سال بعد آیا تھا۔ فاروق عرف گھگو کا بھی یہی حال تھا اور ہمارے ساتھ کے
ہم سے ڈیڑھ سال سینئر تھے۔ آپ سمجھ گئے نا۔ نہیں سمجھے اچھی بات ہے۔ دل جلے
فارسی میں کہتے تھے،
خدایا سگ باش برادر خورد مباش (خدا کتا بنادے چھوٹا بھائی نہ بنائے)
اور پی ایم اے میں ،"خدا بے شک جونئیر بنائے مگر جونئیر کلاس فیلوز کا
جونئیر نہ بنائے"۔
ہمارے کمرے سے تیس گز کے فاصلے پر، جنٹل مین کیڈٹ آفس المعروف جی سی آفس،
سیکنڈ پاکستان بٹالین تھا جہاں آٹھ بجے رات، منتخب کیڈٹس کے اخلاق و اطوار
کی تصحیح کی جاتی تھی۔ اِن کیڈٹس نے ہمارے کمرے کو سومنات کا مندر سمجھا
ہوا تھا اور یہ سب ملٹری کالج کے تھے۔ اور امجد زمان کی محبت میں ہمارے
کمرے میں گھسے چلے آتے۔ گورکھا نام سنا ہے آپ نے؟ نہیں آ پ کیسے سن سکتے
ہیں بلکہ ایک کیڈٹ کو گورکھا پوزیشن صرف دیکھا جا سکتا ہے۔
تو قارئین، اخلاق و اطوار کی درستگی کے لئے آنے والے کیڈٹس ہمارے کمرے میں
آتے ہی ہمیں، گورکھا پوزیشن میں جانے کا غیر قانونی حکم دے دیتے۔ اتوار کا
دن تھا ہم نے بابے کو کیفِ ٹیریا بھجوا کے جلیبیاں اور سموسے منگوانے کا
حکم دیا تا کہ فُل ٹائم عیاشی کی جاسکے۔ کوئی تین چار کمرے پہلے کے سامنے
سے ایک آواز گونجی،
”امجد زمان کا کمرہ کون سا ہے؟“
ہمارا خون لمحے کے لئے خشک ہو گیا، عیاشی کا محل دھڑام سے زمیں بوس ہوگیا۔
سہیل نے تجویز دی، الماریوں میں چھپ جاتے ہیں۔سہیل اور فاروق ایک الماری
میں، امجد اور میں دوسری الماری میں غڑاپ سے چھپ گئے۔ کمرے کا دروازہ دھڑام
سے کھلا، کمرے کا دروازہ کھلنے کے انداز سے معلوم ہو جاتا کہ کون آیا ہے۔
آنے والے سیکنڈ ٹرم کے بپھرے ہوئے شیر تھے اور اِس امید پر کودے کہ شکار
اندر موجود ہے۔ لیکن انہیں مایوسی ہوئی۔ کہ کمرہ خالی تھا۔ وہ کمرے میں چکر
لگانے لگے ایک نے باتھ روم ا دروازہ کھٹکھٹایا، شاید شکار اندر ہو مگر وہ
بھی خالی،
”میرا خیال ہے یہ لوگ میس گئے ہوں“۔
یہ کہہ کر وہ جانے کے لئے پلٹے کہ ٹھک کی آواز اور فاروق کا سر الماری کے
پٹ سے ٹکرایا اور الماری کھل گئی۔ ہوا یوں کہ گھگھو جس کی ہر جگہ سونے کی
عادت تھی، یہاں تک کہ فال اِن میں کھڑا کھڑا سوجاتا۔ وہ الماری کی گرم فضا
میں جونہی غتر بُود ہوا اُس کا سر الماری کے پٹ سے ٹکرا گیا۔
دوسری الماری کھولی گئی،اُس کے بعد۔
”عجب تھا جہاں کا منظر“ کہیں مسجود تھے سہیل و فاروق۔کہیں پھِرکی تھے نعیم
اور امجد۔
کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد خلاصی ہوئی، کمرے میں گرم گرم جلیبیوں،سموسے اور
چائے کا جو مزہ آیا وہ بیان سے باہر۔
فرسٹ ٹرم کے خاتمے پر دوڑ دوڑ کر ہماری ٹانگیں بگلے کی طرح ہوگئی تھیں اور
پیٹ کمر کی آخری ہڈی کو چھوتا تھا۔ بیلٹ ٹائیٹ کرنے کے آخری سوراخ بھی فیل
ہو جاتے اور سٹاف ہماری بیلٹ میں ایک انگلی پھنسا کر اُس میں سے پوری
بٹالین کے گذرنے کا دعویٰ کرتا۔ یا حکمیہ انداز میں طربیہ سوز کی لے پر
چلاتا،
”نعیم صاحب۔ پی ایم اے روڈ پر ایسے مت چلیں جیسے آپ ولیمہ کی دعوت سے واپس
آرہے ہیں یا
آواز شیر کی طرح نکالیں میمنے کی طرح نہیں"
نعیم صاحب، زمیں پر ایڑیاں اتنی زور سے لگیں کہ پانی نکل آئے“ وغیرہ وغیرہ
اگر آپ نے کرنل محمد خان کی کتابیں نہیں پڑھیں تو آپ کو یہ کیسے معلوم
ہوگا، کہ اُن کے زمانے میں ڈرل سکوئر میں پالی جانے والی شرارتی مکھی اپنی
اولادکو کیڈٹس کی ناک کے پارک میں تفریح کا لطف اُن کی سرشت میں نفوذ کروا
گئی۔ جونہی سٹاف،”ہوشیار باش“ کرواتا یہ ”بھن بھن“ کا نعرہ مار کر ناکوں کی
چونچ پر آبیٹھتیں۔ اور کیڈٹس کو سلیوٹنگ ٹیسٹ میں، پریڈ گراونڈ میں سلیوٹنگ
ٹیسٹ میں ناک کو آزادنہ کھجانے پر فیل کروا دیتیں۔ جس کے لئے وہ پچھلے آٹھ
ہفتوں سے ایڑیاں مار مار کر اپنی تمام عقل بقولِ سویلیئن، زمین میں پہنچا
دیتا تھا اور اُس کی اوپر کی منزل خالی ہوجاتی۔ اُس کے بعد کیڈٹ کو سو گز
دور ایک چارمربع فٹ کے ٹارگٹ کے عین درمیان میں اپنی تما م توجہات مرکوز
کرتے ہوئے، مقصد کے حصول کو اپنا نصب العین بنانے کی تربیت دی جاتی۔ جو
کیڈٹ جتنا زیادہ اپنے نصب العین کے قریب بغیر کسی شک و شبہ ہوتا وہ اتنا ہی
فوجی زندگی کا کامیاب فرد کہلاتا۔ عملی زندگی میں یہ ٹارگٹ کچھ بھی ہو سکتا
ہے۔جو سینئیر کے حکم ”گو“ سے شروع ہوتا ہے اور ٹارگٹ کے حصول پر اختتام
پذیر ہوتا ہے۔ لیکن اِ س کے درمیان وہ تمام قوانین آتے ہیں جو فوجی کتابوں
میں لکھے ہوتے ہیں جن کا انحراف ٹارگٹ کے حصول کے بعد سزا پر ختم ہوتا ہے۔ |
|