میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے

 پشاور میں نوخیز پھولوں کے ساتھ جوا ہوا، اس کے بعد اب بچتا ہی کیا ہے؟ بے گناہ و معصوم بچوں کے بلا وجہ بیہمانہ قتل کے بعد مزیدکیا درندگی باقی رہ گئی۔ یہ آخری حد ہے۔ انتہا ہے انتہا۔ ہاں! اگر درندہ صفت دہشتگردوں کا بس چلے اور من چاہے تو وہ اس سے بھی بڑھ کر درندگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ جو کچھ دہشتگردوں نے بچوں کے ساتھ کیا وہ انسانی عقل سے ماورا ہے، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس دہشتگردی نے انسانیت کی روح کو بے چین اور شرمندہ کر دیا ہے۔ شیطان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ خون میں لت پت بچوں کی کتابوں، جوتوں اور ان کی اسکول یونیفارم کے مناظر نے پاکستان کیا پوری دنیا میں تمام والدین کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔ بقول شاعر
زندگی اتنی بے رحم بھی ہوسکتی ہے کبھی
اجڑی ماﺅں کی آہ و بکا دیکھ رہا ہوں

16دسمبر کو پشاور میں قیامت صغریٰ برپا ہونے کے بعد ہر شخص دکھ، درد، تکلیف، غم اور پریشانی میں مبتلا ہے۔ اس سانحے کے بعد اپنے سینے میں دل رکھنے والا کوئی فرد بچوں کے قاتلوں پر چار حرف بھیجے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس دہشتگردی کے سامنے جارحیت، درندگی، سفاکیت اور حیوانیت جیسے الفاظ بھی بہت چھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔ اس قدر وحشیانہ رویہ، اس قدر شقی القلبی کہ انسان ایسے حیوان نما انسانوں کی انسانیت پر بھی حیرت آشنا ہوجائے۔ مشرق و مغرب سے لے کر شمال و جنوب تک ہر ملک، ہر مذہب اور ہر نسل کا ہر فرد حیران و پریشان ہے کہ آخر ان بے گناہ و نہتے بچوں کا قصور کیا تھا؟ انہیں کس جرم میں قتل کیا گیا ہے؟ اس واقعے کی دردناکی نے ہر اس شخص کو شدید صدمے سے دوچار کر دیا، جو اپنے پہلو میں دھڑکتا دل رکھتا ہے۔ اس سانحے کی اندوہ ناکی کسی بھی پیمانے سے نہیں ماپی جاسکتی۔ یہ ایک ایسا قومی سانحہ ہے، جس کی کوئی نظیر اور مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ پوری دنیا ورطہ حیرت میں ڈوبی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کا ملک پاکستان کیسی دھرتی ہے، جہاں بغیر کسی جرم کے کھلنے سے پہلے ہی پھولوں کو مسل دیا گیا، جہاں اسلام کے حکم ”علم حاصل کرو“ کے مطابق الف، ب، پ پڑھنے کے ”جرم“ میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بے گناہ و نہتے بچوں کو ہمیشہ کی نیند سلادیا گیا۔ کسی نے بچوں کے ساتھ اس قسم کی درندگی کے وقوع کا سوچا تک نہیں تھا۔ دنیا والے جنازوں پر پھولوں کو تو دیکھے تھے، لیکن اب پھولوں کے خون میں لت پت جنازے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر انگشت بدنداں ہیں:
پھول دیکھے تھے جنازوں پہ ہمیشہ شوکت
کل میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے

دل و دماغ کو چھید دینے والے اس سانحے پر ہر ذی شعور انسان غم، غصّہ، نفرت اور بیچارگی کے امڈتے جذبات کے ساتھ سرتاپا شرمندگی کے عالم میں غرق ہے کہ کس طرح معصوم بچوں کے قتل عام پر ان کے والدین کو ضبط اور صبر کی تلقین کرے، دہشتگردوں نے جن کے جگر گوشوں کی زندگیاں چھین لی ہیں۔ یہ بچے تو ابھی ان کھلی کلیوں کی مانند تھے۔ روشنی کے ننھے چراغوں کو اپنی روشنی پھیلانے سے پہلے ہی گل کردیا گیا۔ قاتل ان معصوموں کے خون کی ہولی کھیلتے رہے اور ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اتارتے رہے۔ پہلے ایک بچے پر گولی چلائی، پھر دوسرے پر، پھر تیسرے پر اور اس طرح درندگی کا یہ کھیل اس وقت تک جاری رہا، جب تک قاتلوں میں درندگی کا کھیل کھیلنے کی سکت باقی رہی۔ اس دلفگار سانحے کے بعد سے دل انتہائی غمگین و پریشان ہے۔ ضبط کی لاکھ کوششوں کے باوجود بیسیوں بار آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے ہیں اور یقینا ہر پاکستانی کی یہی کیفیت ہے۔ اس قوم کا ہر باسی اداسی، پریشانی و غمگینی کے عالم میں اس سوچ میں غلطاں ہے کہ جو کچھ پشاور میں ہوا ، کاش وہ نہ ہوا ہوتا۔ کاش 16دسمبر کو سورج طلوع نہ ہوتا، سحر نہ ہوتی۔ کاش کسی صورت پاکستان کے کیلنڈر سے 16 دسمبر کا دن مٹ سکتا۔ کاش کوئی فرشتہ ان معصوموں اور قاتلوں کے درمیاں کوئی دیوار کھڑی کردیتا۔ اے کاش ....!! موت کو ہی موت آئی ہوتی، یہ پھول تو سلامت رہتے۔

پاکستان کو ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کے انتہائی دہشت ناک عفریت کا سامنا ہے، جو گزرتے وقت کے ساتھ مزید خوف ناک اور بھیانک ہوتا جارہا ہے۔ جس سے مساجد محفوظ ہیں نہ درسگاہیں، چرچ محفوظ ہیں نہ امام بارگاہیں، بازار محفوظ ہیں نہ شاہرائیں، ہسپتال محفوظ ہیں نہ دفاتر، مشایخ محفوظ ہیں نہ علمائ، عورتیں محفوظ ہیں نہ بچے، مائیں محفوظ ہیں نہ بیٹیاں، باپ محفوظ ہیں نہ بیٹے، اسکول محفوظ ہیں نہ کالج، مدارس محفوظ ہیں نہ یونیورسٹیاں۔ سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ دہشتگرد یہ سب درندگی اسلام کے نام پر کرتے ہیں، حالانکہ اسلام تو ہر ظلم کی سخت مذمت کرتا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ بچوںکاقتل عام کرنے والے اسلامی تعلیمات سے بالکل بھی آشنا نہیں تھے، کیونکہ اسلام تو جنگ میں بھی دشمن کے بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر ہاتھ اُٹھانے، حتیٰ کہ سرسبز باغات اور ہرے بھرے کھیت بھی اُجاڑنے کی اجازت نہیں دیتا ،تو پھر کس طرح مان لیا جائے کہ بے گناہ و نہتے مسلمان بچوں کو حصول علم کے دوران اس بے دردی سے شہید کرنے والے اسلام سے آگاہ ہیں؟ اس قسم کے جاہل و ناپختہ مسلمانوں کی وجہ سے آج پوری دُنیا اسلام اور مسلمانوں سے متنفرہونے لگی ہے۔ خدا جانے یہ دہشتگرد مسلمان بھی تھے یا مسلمانوں کے روپ میں مسلمانوں کے دشمن غیر ملکی ایجنٹ۔ پشاور سانحے میں بھارت سمیت غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کی اطلاعات سامنے آچکی ہیں۔ اس سے پہلے بھی ملک میں کئی کارروائیوں میں غیرملکی قوتوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملتے رہے ہیں۔ اب دشمن ممالک کی ہلہ شیری اور مکمل تعاون سے دہشتگرد بہت شیر ہوتے جارہے ہیں،جب تک پاکستان میں غیر ملکی قوتوں کی مداخلت نہیں روکی جاتی، اس وقت تک غیر ملکی ایجنٹوں کو پاکستان میں دہشتگردی سے روکنا بھی مشکل ہے۔

ملک میں غیر ملکی قوتوں کی مداخلت سے اسی صورت نمٹا جاسکتا ہے، جب پوری قوم حقیقت میں متحد اور بیدار ہوجائے۔ یہ امر نہایت خوش آیند ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد ساری قوم اتحاد و اتفاق کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر نظر آرہی ہے۔ رہنمایانِ قوم اپنے تمام اختلافات اور جھگڑوں کو ایک طرف رکھ کر اس قومی سانحے کی مذمت پر یکسو ہوئے اور حالات کا متحد ہوکر مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس کے ساتھ قوم کو حالات کے اس گرداب سے نکالنے کے لیے علمائے کرام اور دینی رہنماؤں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ اگرچہ علمائے کرام اور دینی رہنماؤں نے اس اندوہ ناک واقعے کی بھرپور مذمت کی ہے، تاہم موجودہ حالات کا تقاضا مذمتوں سے آگے بڑھ کر کچھ کر گزرنے کا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ علمائے کرام بھی کھل کر میدان میں آئیں اور قوم کے سامنے کھوٹے اور کھرے کی تمیز بالکل واضح کردیں۔ یہ علمائے کرام کی ذمے داری ہے، جب تک معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمے داری ادا نہیں کرے گا، اس وقت تک قوم کا اس گرداب سے نکلنا مشکل ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.