مسلمان کو مسلمان سے خوف کیوں؟
(Sajid Hussain Shah, Riyadh)
رات کا وقت تھا بس موٹر وے پر
اپنی منزل کی طرف گامزن تھی مسافروں کی اکثریت خوابِ خر گوش سے لطف اندوز
ہو رہی تھی کہ کسی جگہ پو لیس نے بس کو روک لیا اور تما م مسا فروں کی تلا
شی شروع کر دی پو لیس وا لے ایک ایک کر کے مسا فروں کو نیچے اتا رتے انکی
جا مع تلا شی لیتے اور انھیں آ گے بھیج دیتے ایک جواں لڑ کا جسکی داڑھی
ابھی مکمل نمودار نہیں ہو ئی تھی اور اسکی آنکھیں بھی بند تھیں جیسے ہی اس
نے بس کی سیڑھی پر پا ؤ ں رکھا اور انگڑا ئی لیتے ہو ئے بے سا ختہ اسکے منہ
سے اﷲ اکبر کا نعرہ بلند ہوابس پھر کیا تھا جیسے پر سکو ن ما حول میں ہلچل
مچ گئی ہو وہا ں مو جو د تمام مسا فر بمعہ پو لیس اہلکار سب بھا گ کھڑے
ہوئے پچاس سا ٹھ میٹر تک تو کسی نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا پہلے تواس نے
بھی بھا گنے کے لیے پر تو لے لیکن پھر اک دم سے رک گیا شا ید سا ری صور
تحال سے آگاہ ہو گیا ہو تو اونچی اونچی آواز میں قہقہے لگا نے لگا اپنے
دونوں ہا تھ ہوا میں بلند کیے اور سب کو پکا را میرے پا س کچھ نہیں نیند کی
کیفیت کی وجہ سے یہ سب ہوا سب کی جان میں جان آ ئی اور واپس بس کی طرف لو ٹ
آ ئے۔ ذرا سو چیے ــ ! جو نعرہ ہم مسلمانوں کی پہچان ہے جسکی بدولت ہمیں حو
صلہ ملتا ہے جس نعرے کو بلند کر کے ہم مشکل سے مشکل میدان میں کود پڑ تے
ہیں آج اسی نعرے سے ہم اتنے خوف زدہ کیوں ؟یہ خوف ہمارے دلوں پر راج کیوں
کر رہا ہے میں جس عنوان پر بات کرنا چاہتا ہوں اس پرآ پ کی تو جہ مر کوز
کرانا مقصود ہے -
اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں آیت کامفہوم کچھ اسطرح ہے کہ جس
نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اورجس نے ایک انسان
کی جا ن بچا ئی اس نے ساری انسانیت کو بچایا ایک مسلمان ہو نے کے ناطے اﷲ
تعا لیٰ کے اس فر مان کو اپنی زندگی میں طرز عمل کے طور پر اپنا نا ہم پر
فر ض ہے مگر سوال یہ ہے کہ آ ج کل کا مسلمان جن کی اکثریت اس بات کو ثا بت
کرنے میں کوشاں ہے کہ مومن کون ہے ؟اس پر عمل پیرا ہے کہ نہیں ایک اور بات
جو قابل غور ہے کہ یہاں لفظ انسان استعمال کیا گیا ہے یعنی اسلام ناحق کسی
بھی انسان کو قتل نہ کر نے کا حکم دیتا ہے آج کل عید میلاد النبی کی سر گر
میاں عروج پر ہیں عید میلاد النبی بدعت ہے یا نہیں اس کی بحث ہر ڈ گر پر ہو
رہی ہے مگر اس سے زیا دہ اس بات کی ضرورت لا حق ہے کہ آ یا ہم نے اپنی ندگی
میں سنت نبوی کو بھی نا فذ کیا ہے یا نہیں اپنے عقا ئد کے تحفظ کے لیے ہم
قرآن و حدیث کے دلا ئل کا انبار لگا لیتے ہیں مگر اخلاقی اقدار اسی شعلہ
بیانی اور جذبات کی رو بہہ جا تی ہے دنیا میں آ ج مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ
کر پکارنا عام فعل ہے ہو لیوڈ ہو یا بو لیوڈ کی فلموں میں دہشت گرد صرف
مسلمان ہی کیوں دکھا ئے جا تے ہیں آ ج سے کئی سال پہلے بہت سا رے مسلمان
مجا ہد ین روس کے خلا ف افغانستان اور دیگر روس کی ریا ستوں میں بر سر
پیکار تھے تب تک امریکہ انھیں ہر ممکن مدد فراہم کر رہا تھا دنیا کی نظر
میں یہ لوگ ہیرو تھے ان مجا ہدین پر کئی کہا نیاں فلمائیں گئی جن میں انھیں
مثبت طور پر دکھایا گیا لیکن جوں ہی روس کو برباد کرنے کا مقصد پورا ہو ا
نظریں یکسو بدل گئیں مگر اصل بات جو زیر بحث ہے وہ حکمت عملی ہے جو دور حا
ضر میں بھی کامیابی سے رواں دواں ہے تما م مسلمان مجا ہدین کی تو پوں کا رخ
مسلمانو ں کی طرف ہی مو ڑ دیا گیا اگر اپنے ارد گرد بغور جا ئزہ لیا جا ئے
تو یہ با ت قا بل افسو س ہے بہت سارے مسلم ممالک جن میں پا کستان ،شام
،لیبیا، اردن، عراق اور افغانستان سر فہرست ہیں میں انہی مجا ہدین کو مسلم
ریا ستوں کے خلا ف استعما ل کیا جا رہا ہے آپﷺ کا فر مان ہے کہ ہر کلمہ گو
کی جان و مال دوسرے مسلمان پر حرام ہے تو ہم کیسے کسی بھی کلمہ گہ کی جان
لینے کے مرتکب ہو سکتے ہیں جس نے کلمہ پڑھ لیا اور تہے دل سے اس با ت کا
اقرار کیا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں وہ
مسلمان ہو گیا اسکے عقا ئد و اعمال اﷲ کی درگاہ میں قا بل قبو ل ہیں یا
نہیں کیا اس بات کو ہم اﷲ پر نہیں چھوڑ سکتے کیو نکہ اﷲ سے بڑھ کر کوئی
انصاف کرنے والا نہیں لیکن اس کے بر عکس آ ج کے مسلمان کو ایسے ایسے فتنوں
میں الجھا دیا گیا ہے جس کشمکش سے با ہر نکلنا بہت دشوار معلوم ہو تا ہے
مقتول بھی اپنی جان اﷲ کے نام سے دے رہا ہے اور قاتل بھی اﷲ اکبر کی تکبیر
بلند کر کے حملہ آ ور ہو رہا ہے اس عالمِ کیفیت میں ہم کن پرندوں کے طلب
گار ہیں جو ہماری مدد کو نا زل کیے جا ئیں گے ہما ری صفوں میں موجود ان
دشمنوں سے ہمیں خوب آ شنا ہو نا ہو گا جو ہمیں ہمارے ہی خلاف بھڑکا ر ہے
ہیں ہما رے درمیان نفرت کی آگ پر تیل ڈال کر خود مزے سے جا ئزہ لیتے ہیں
مگر میں سمجھتا ہوں اس دشمن سے زیادہ ہم خود اسکے ذمہ دار ہیں اقتدار اور
طا قت کے نشے نے مسلمانوں کو اسلام سے درکنار کر دیا ہے ایک اﷲ اور ایک
قرآن کو ماننے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہو گئے کم سن اور نا
دان بچوں کو ہتھیار بنا کر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے آ پﷺ کے
وہ الفاظ میرے زہن پر نقش ہو رہے ہیں جن کا مفہوم کچھ اسطرح تھا
’کہ نو عمر ہوں گے دما غی طور پر نا پختہ ہوں گے اور ایمان ان کے حلق سے
نیچے نہیں اترے گا‘۔صحیح بخا ری کی اس حدیث مبارکہ کو پڑھ کر ایسے نہیں
لگتا کہ آ پﷺکا ارشاد انہی کم بختوں کے لیے ہے جو آجکل ہما رے دینِاسلام کو
بدنام کرنے پر تلے ہو ئے ہیں آ خر میں اﷲ تعا لیٰ سے دعا گو ہو ں کے تمام
امت مسلماں کو ان فتنوں سے نجات دے اور ان فتنوں کے پھیلانے والوں کو جہنم
وصال کرے - |
|