شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) میں
چین ،روس اور چاروسط ایشیائی ممالک قازقستان،ازبکستان،کرغیزستان اور
تاجکستان بطور رکن ممالک شامل ہیں۔یہ علاقے کی اہم ریاستیں ہیں اور ان
کوآبزرور( مبصر) ممالک اور ڈائیلاگ پارٹنر کی حیثیت حاصل
ہے۔پاکستان،ایران،بھارت اور منگو لیا و افغانستان ایس سی او کی آبزرور(
مبصر )ریاستیں ہیں جبکہ بیلارس ،سری لنکا اور ترکی اس کے مذاکراتی پارٹنر
ہیں۔ ایس سی او، دو بڑے علاقائی کھلاڑیوں یعنی روس اور چین کے درمیان
سٹرٹیجک رابطوں کو بڑھانے میں مفید فورم کا کردار ادا کررہی ہے ۔ایس سی او
کے اصول بالخصوص نو آزاد ممالک اور ترقی پزیر ممالک کے لیے نہایت پرکشش ہیں
جو اپنی آزادی و خود مختاری کا پرجوش انداز سے تحفظ کرتے ہیں ۔اس کے منشور
میں اس تنظیم کے بڑے مقاصد کی یوں تعریف کی گئی ہے کہ اس کے ذریعے باہمی
اعتماد کو مستحکم بنایا جائے گا۔
رکن ممالک میں اچھے ہمسایوں جیسے دوستانہ تعلقات سیاسی امور میں موثر تعاون
،معیشت،تجارت،سائنس وٹیکنالوجی ثقافت تعلیم،توانائی، ٹرانسپورٹ اور
ماحولیاتی تحفظ میں باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا ۔یہ کہ تمام ممالک
علاقائی امن و سلامتی و استحکام کے لیے مل جل کر کام کریں گے ۔تنظیم کے
منشور میں برابری کی بنیاد پر ریاستوں میں تعلقات کو فوقیت دی گئی ہے اور
عالمی امور میں بالادستی کے تصور اور جبر و استبداد کی نفی کی گئی ہے۔یہ
ایک ایسے علاقے کے قیام کی خواہش مندہے جس میں ہم آہنگی ہو جو شنگھائی جذبے
کی روح سے مطابقت رکھتا ہو۔ جن کا مطمع نظر باہمی اعتماد،باہمی مفاد،
مساوات، مشاورت،متنوع تہذیبوں کا احترام اور مشترکہ ترقی کے مقاصد کا حصول
ہو۔تنظیم کی توجہ زیادہ تران مسائل پر ہے جو رکن ممالک کو براہ راست متاثر
کرتے ہیں۔ان میں سب سے اہمیت معاشی ترقی کو دی گئی ہے۔ایس سی او، ان
سیکیورٹی چیلنجز پر بھی توجہ دیتی ہے جن کو تین لعنتیں قرار دیا گیا اور وہ
لعنتیں ہیں دہشت گردی،علیحدگی پسندی اور مذہبی انتہا پسندی۔ایس سی او کے
پرچم تلے اس کے خاتمہ کے لیے تاشقندمیں علاقائی سطح پر انسداد دہشت گردی کا
ڈھانچہ قائم کیا گیا ہے ۔ایک دوسرا اہم شعبہ علاقائی اقتصادی و ثقافتی
تعاون کا ہے جس میں توانائی ،ذرائع نقل وحمل،انسداد دہشت گردی ،ماحولیاتی ،
سماجی تحفظ میں تعاون پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کو
توانائی کے بحران کا سامنا ہے جبکہ وسطی ایشیائی ممالک اس سے مالا مال ہیں۔
ایس سی او کے لیے ان دونوں خطوں کوآپس میں ملانا ایک بڑا چیلنج ہو
گا۔تاشقند سربراہی کانفرنس 2009 میں نئے ملکوں کو رکن بنانے کے قواعد کی
منظوری دی گئی۔ اس وقت سے یہ تنظیم اپنے ادارہ جاتی ڈھانچہ کو فروغ دینے کے
سلسلے میں ایک طویل مسافت طے کر چکی ہے ۔رکن ممالک اس بات کا اعتراف کرتے
ہیں کہ مبصر کی حیثیت سے شامل ممالک اور ڈائیلاگ پارٹنر کو تنظیم کے ڈھانچے
کے اندر رہتے ہوئے بڑے پیمانے پر عملی امور میں شامل کیا جانا چاہیے۔جہاں
تک پاکستان کا تعلق ہے وہ پہلے ہی یہ اعلان کر چکا ہے کہ اس کا مفاد ایس سی
او کی مکمل رکنیت کے حصول سے وابستہ ہے۔پاکستان دراصل پہلا مبصر ملک ہے جس
نے ایس سی او کی رکنیت کے لیے باقاعدہ طور پر درخواست دی ہے کیونکہ یہ اس
کی خارجہ پالیسی کے بڑے مقاصد سے مطابقت رکھتی ہے۔پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ
انتہا پسندی کو روکا جائے اور ایس سی او کے منشور کے مطابق بارڈ سیکورٹی کو
بڑھا یا جائے کیو نکہ پاکستان کو انتہا پسندی اور باڈرسیکورٹی کے دونوں طرح
کے مسائل کا سامنا ہے اور وہ اس مسئلہ پر قابو پانے کے لیے ایس سی او کے
رکن ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھائے گا۔پاکستان مستقبل میں انسداد دہشت
گردی کی مشقوں میں حصہ لینے اور انٹیلی جنس میں تعاو ن و اشتراک بڑھانے میں
بھی گہری دلچسپی رکھتا ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری کے قیام کے سمجھوتے
،گوادر بندرگاہ کی ترقی اور ترکمانستان،افغانستان ،پاکستان بھارت(TAPI)گیس
پائپ لائن علاقائی تعاون کی نمایاں مثالیں ہیں جن میں پاکستان سرگرمی سے
حصہ لے رہا ہے۔
پاکستان کوایس سی او کی مکمل رکنیت مل گئی تو یہ علاقے میں گروپ کی
سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینے کے قابل ہو جائے گا۔کیونکہ ایس سی او کی
پالیسیاں اورپروگرامز پاکستان کے طویل المیعاد مقاصد سے ہم آہنگ ہیں۔ یہ
کہنابے جانہ ہوگا کہ ایس سی او پاکستان کے لیے ایک مفید فورم ہے جس کے
ذریعے وہ علاقے میں امن و استحکام کو فروغ،دہشت گردی کے خاتمہ میں مدد دے
سکے گا اور مستقبل میں مضبوط اور وسیع تر تعاون پر مبنی تعلقات کے لیے رکن
ممالک کے ساتھ مل کر کا م کر سکے گا ۔پاکستان کے افغانستان میں امن کے قیام
میں اہم کردار اور تجارتی و توانائی کے لیے راہداری کے طور پر انتہائی
اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقے میں طویل المیعاد استحکام کے لیے
دہشت گردی اور سمگلنگ کی روک تھام کی جنگ میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ایس سی او کے رکن ممالک اور مبصر کا درجہ رکھنے والے ممالک کو علاقے میں
استحکام بر قرار رکھنے کے لیے تجارت،صنعت،ٹیکنالوجی اور زرعی شعبوں میں
باہمی تعاون پر توجہ دینا ہوگی۔جنوبی ایشیا بالخصوص افغانستان میں استحکام
چین کے لیے بہت ضروری ہے کیو نکہ وہ افغانستان میں انتشار نہیں چاہتا اس
لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے لا محالہ اثرات پاکستان کی سلامتی پر پڑیں گے۔
چین افغانستان میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے علاقائی اور عالمی کاوشوں
کا ساتھ دینا چاہتا ہے اس ضمن میں پاکستان کا تعاون بھی اسے حاصل رہے
گا۔پاکستان شروع سے ہی افغانستان میں امن و استحکام کا حامی رہا ہے جس کے
لیے اس کی کا وشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔افغانستان میں امن و استحکام
کے لیے ضروری ہے کہ وہاں مشترکہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ایس سی او
کی طرف سے اس ملک کے ساتھ تجا رت کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کی جائیں اور
روایتی سلک روٹ کو بحال کیا جائے۔یہ افغانستان میں قیام امن کے لیے بہترین
آپشن ثابت ہوں گے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رکن ممالک اور مبصر ممالک کے لیے افغانستان
میں سرمایہ کاری کے وافر مواقع ہیں۔ وہ نہ صرف کان کنی میں سرمایہ کاری کر
سکتے ہیں بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی ان کے لیے سرمایہ کاری کے امکانات روشن
ہیں۔ چین ریل کے جن منصوبوں پر عمل پیرا ہے وہ ایک دن افغانستان،تاجکستان
اور پاکستان کو باہم مر بو ط کر دیں گے جس سے علاقائی تجارت اور اقتصادی
تعلقات کو زبردست فروغ ملے گا۔اس تناظر میں بین الاقوامی تعلقات کو وسعت
دینے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان دوسرے ممالک سے
زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد حاصل کر کے اپنے عوام کو ترقی و خوشحالی کی
منزل سے ہمکنار کر سکے۔لیکن یہ تعلقات باہمی احترام،باہمی مفادات اور باہمی
فوائد پر مبنی ہونے چاہیں ۔تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اسے علاقائی نظام میں
کردار ادا کرنے کے لیے اس پر وچ سے تحریک ملی ہے اور اس نے مستقبل کے بین
الاقوامی تعلقات میں قائد انہ کردار ادا کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ایس سی او
کو علاقائی ضرورتوں اور صلاحیتیوں کے پیش نظر طویل المیعاد مقاصد اور
پائیدار کثیر الجہتی تعاون کے حصول کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر سرگرم عمل
ہونا پڑے گا۔کثیرالاطراف علاقائی تعاون کے مقصد کا حصول تبھی ممکن ہے جب
رکن ممالک اور مبصر کا درجہ پانے والے ممالک کو علاقائی اور عالمی امور میں
اپنا موثر کردار ادا کر نے کے مواقع ملیں ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی
رکنیت سازی میں توسیع کی جائے اور اس کا آغاز یوں کیا جانا چاہیے کہ تمام
مبصر ممالک کو مستقل رکنیت کا درجہ دے دیا جائے۔ |