گوریلے اور پاگل
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
کیوبا کے انقلابی رہنما ’’فیڈل
کاسترو‘‘نے ابتدائی تعلیم سانتیاگو میں حاصل کی،1942میں ہوانا گئے
اور1950میں ہوانا یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی، اسی اثناء میں کیوبا کے
دو سوانقلاب پسند طالب علموں کا ایک گوریلا جتھا منظم کیا اور26؍ جولائی
1953میں سانتیاگو کی فوجی بیرکوں پر حملہ کرکے بہت سے فوجی ہلاک کردئیے،
شدید جنگ کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا اور کیوبا کے مطلق العنان آمر ’’
باتستا‘‘ کے حکم پر15سال قید کی انہیں سزا دی گئی،1956میں کیوبا کی
پارلیمنٹ نے سیاسی قیدیوں کی معافی کا قانون منظور کیا، تو کاسترو اور ان
کے ساتھی بھی رہا کردئیے گئے،رہائی کے بعدپھرسے اس نے میکسیکو اور باتستا
حکومت کے خلاف چھاپا مار جنگ کے لیے کیوبا کے نوجوانوں کی ایک مختصر سی فوج
بنائی، 2؍دسمبر1956کو یہ فوج، کاسترو کی زیرکمان، کیوبا کے صوبہ اور ٹینٹ
کے ساحل پر اُتری،کیوبا کے ہزاروں نوجوان اس فوج میں شامل ہو تے گئے اور
1958 کے اواخر تک گوریلا جنگ نے باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کرلی، جنوری
1959میں باتستا فرار ہوگیا اور کیوبا پر کاسترو کے زیر کمان کمیونسٹوں کا
قبضہ ہوگیا۔
ڈاکٹر کاسترو نے کمال ہوشیاری سے شروع میں اپنے سیاسی نظریات پوشیدہ رکھے،
امریکی سی۔ آئی ۔اے آخر دم تک انہیں کمیونسٹ انقلابی کی بجائے قوم پرست
انقلابی سمجھتی رہی، اسی لیے اس وقت امریکا یہ فیصلہ نہ کرسکا ،کہ اس خانہ
جنگی میں کس کا ساتھ دے، فروری1959 میں کاسترو جمہوریہ کیوبا کے وزیر اعظم
مقرر ہوئے،1963میں کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین منتخب کیے گئے، 1963 ہی میں
لینن امن انعام کے مستحق، آگے جاکرہیرو آف دی سوویت یونین اور1972میں فیڈل
کاسترو نے آرڈر آف لینن کا اعزاز حاصل کیا،اس گوریلا کمانڈر نے قریباً
50برس تک امریکہ جیسی سپر طاقت کی ناک تلے کیوبا پر حکومت کرکے وہاں کاپورا
نقشہ کچھ سے کچھ کردیا۔
اﷲ رحم فرمائے،ہمارا گھر’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ پہلے اغیار کی ریشہ
دوانیوں کی بدولت مذہبی ولسانی فسادات وہنگاموں کا شکار تھا،اب ملک میں
خانہ جنگی کا باقاعدہ اعلان ہو چکا ہے،مشرقی ومغربی سرحدات پرپڑوسی ممالک
بھی کبھی زبانی کلامی دہمکیاں اور کبھی سچ مچ ہماری سیکورٹی فورسز کے رعنا
جوانوں کو شہیدکر دیتے ہیں،بارڈر کے قریب رہائش پذیر سویلین اور ان بے
چاروں کے گھربار بھی آئے روز دشمن کے گولہ بارود کا شکار ہو جاتے
ہیں،قبائلی علاقوں اور جنوبی پنجاب میں بہت سے پاگل ،مفروریا اغیار کے
ایجنٹ افراد، امریکی جارحیت سے بر سر پیکار طالبان ومجاہدین کے بھیس میں اس
مملکتِ خداداد کے خلاف نبرد آزما ہیں۔
اُدہر امریکہ بھی ہمارے لئے کسی مصیبت سے کم نہیں،امداد بھی دیتا ہے اور
اپنا کام بھی نکالنا چاہتاہے،پیار بھی کرتا ہے،گوادر کے مسئلے میں ناراض
بھی ہے،چین ہمارا دوست بھی ہے،مگرگوادر بھی لے چکا ہے،ماضی میں انڈیا کے
ساتھ ہم ایک ہی کوکھ میں رہے،اب صرف غیر مسلم نہیں انڈین مسلمان تک ہمیں
طعنے دیتے ہیں کہ اپنے پاؤں پے کھڑے ہونے کے قابل نہ تھے،تو بٹوارہ کیوں
کیا؟ایران اپنی جگہ خفہ،سعودیہ اورافغانستان اپنی اپنی جگہ ناراض۔
خداوندا ،ترے یہ سادہ دل بندے کدہر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے،سلطانی بھی عیاری
اب چین سپر پاؤر بننے جارہاہے،امریکہ کی خواہش ہے ،جو آپ کے ملک میں ہم نے
مجاہدین تیار کئے تھے،انہیں چائنا میں استعمال کریں،جو ہم شاید کبھی بھی نہ
کرسکے ان شاء اﷲ،وہ کہتا ہے اگر نہیں کرسکتے، تو پھر انہیں ماردو، ہمارے
انکار پر سانحہ ٔپشاور جیسے ہولناک دہشت گردانہ حادثات کرائے گئے، اب خطرہ
یہ ہے کہ کہیں بے اعتبار امریکہ کل کلاں خود ہی ان سے دوستی کا ہاتھ نہ
بڑہائے، کہ افغانستان بھی دیتے ہیں اور خاکم بدہن اڑوس پڑوس میں کوئی
چھوٹاسا ٹکڑا بغل بچہ بھی،عالمِ اسلام اور پوری دنیا میں تمہیں پیش رؤں کے
مانند’’ ہیرو‘‘ کا درجہ بھی دینے کو تیار ہیں،بس تم ہمارے کہنے پر اعلانِ
جہاد کیا کرو،تو پھر یہی پاگل دنیا میں گوریلے اور مجاہدین کہلائنگے،پورا
عالم انگشت بدنداں اور ہم کفِ افسوس مل رہے ہوں گے۔
کون سوچ سکتا تھا کہ فیڈل کاستروایک باغی سے گوریلا بن کر ملک پر قبضہ بھی
کرلے گا،امریکہ کے چہیتے صدام حسین کے گلے میں ایک دن امریکن خودہی پھندا
لگائینگے،قذافی سے ایٹمی اثاثہ جات لے کرانہیں بر سر بازار امریکی ہی رسو
اکرائینگے، لیکن یہ سب کچھ ہوا،لہذا ملک کے مستقبلیاتی فیصلوں میں بے پناہ
دانشمندی،تدبّراور نہایت باریک بین حکمت عملیوں کی اشدضرورت ہے۔الحکمہ
الحکمہ، العقل العقل۔ |
|