قرضوں پر چلنے والی حکومت
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
میاں نواز شریف کو تاریخ میں
ریکارڈ قائم کرنے کا شوق ہے، انھوں نے اپنی جمہوری حکومت میں دو بار انسداد
دہشت گردی کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی ہیں، اچھے دہشت گرد اور برے دہشت
گرد کا امتیاز بھی ان کے دور حکومت کا خاصا ہے، قرض لینے میں بھی انھوں نے
اپنے سابقین کو مات دی ہے، انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی حکومت نے
90دن میں 547 ارب روپیہ کا قرضہ لے کر نیا ریکارڈ قائم کیا۔ پاکستان کی 65
سالہ تاریخ میں کسی حکومت نے اپنے پہلے 90 دنوں میں اتنا قرضہ نہیں
لیا۔میاں نواز شریف کی حکومت نے بینکوں سے قرضہ لینے کے بھی تمام ریکارڈ
توڑ دئیے۔ موجودہ مالی سال 2014 کو حکومت نے بینکوں سے 10 ہزار 907 ارب
روپے کے قرضے حاصل کئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا
ہے کہ حکومت موجودہ مالی سال میں جی ڈی پی کے 42.09 فیصد کے تناسب سے قرضے
حاصل کئے ہیں۔ گذشتہ سال حکومت نے 9521 ارب روپے بینکوں سے قرضے حاصل کئے
تھے۔ سابقہ وفاقی حکومت نے 2012 میں 7683 ارب روپے کا قرضہ بینکوں سے حاصل
کیا تھا۔ 2011 میں گیلانی حکومت نے 6012 ارب روپے کے قرضے حاصل کئے تھے
جبکہ 2010 میں حکومت نے 4651 ارب روپے کے قرضے حاصل کئے گئے۔ حکومت کی قرض
کی ہوس ہے کہ ختم نہیں ہوتی ، جس کی وجہ سے ملک میں معاشی بہتری کے نام پر
بار بار ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ، یوٹیلیٹیز کے نرخوں میں اضافہ کیا جاتا
ہے، جس نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ گذشتہ قرضے کی درخواست پر پاکستان
میں یورپی یونین کے سفیر لارس گونار وگامارک نے کہا تھا کہ اسلام آباد کی
بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کی کوششوں کی
حمایت نواز شریف حکومت کے معاشی ڈھانچے میں بنیادی کمزوریوں کو دور کرنے
اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں نمایاں اضافہ سے مشروط ہے۔انہوں نے واضح کہا
تھا کہ یورپی یونین دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے موجودہ حکومت کی
ہر طرح کی مدد کو تیار ہے مگر اس کے لیے اسلام آباد کو بھی ’’کچھ اہم‘‘
اقدامات کرنا ہوں گے۔’’ہم ان (پاکستان) کی ایسے ہی حمایت نہیں کریں گے۔
جیسا کہ آئی ایم ایف نے بھی بڑے واضح انداز میں کہہ دیا ہے ہم چاہیں گے کہ
پاکستان اقتصادی ڈھانچے میں کمزوریوں کو دور کرے خصوصاً ٹیکس وصولی کو
بڑھائے، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے۔۔۔۔ہم ان شرئط میں کوئی تبدیلی نہیں لارہے۔‘‘’’ڈونرز
کا پیسہ پاکستان کی ترقی کے لیے خرچ کرتے ہوئے ہم دیکھنا چاہیں گے کہ یہاں
پر جن لوگوں کے پاس پیسہ ہے وہ منصفانہ انداز میں ملک کے بجٹ میں اپنا حصہ
ڈالیں اور پاکستان میں ایسے کئی لوگ ہیں جن کے پاس اچھی خاصی دولت ہے۔‘‘
حکومت اب تک اس بات می ناکام ہی رہی کہ دولت مندوں سے ٹیکس حاصل کرسکے، اور
نئے ٹیکس دہندگاں شامل کرسکے، ٹیکس کی یہ تلوار عوام کی کمزور گرن ہی پر
چلتی ہے۔پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹیکس دہندگان
کی تعداد بہت کم ہے جو کہ اقتصادی ماہرین کے مطابق ملک کی کمزور معیشت کی
ایک بڑی وجہ ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان مشن کے سربراہ جیفری فرینکس نے یہ
شکوہ بھی کیا تھا کہ پاکستانی حکام پر مشکل پڑے تو قرضہ لیتے ہیں مگر مشکل
کٹتے ہی رقم لیتے وقت کئے گئے وعدے بھول جاتے ہیں، اب یہ سلسلہ ختم ہوجانا
چاہئے۔ آئی ایم ایف کا قرضہ پاکستان کی عوام کو ہر بار بھاری پڑتا ہے، خاص
طور پر توانائی اور ٹیکس نظام میں اصلاحات کے نام پر عوام پر کڑی مشکلات
پڑتی ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران خان اپنی ذاتی زندگی میں شادی
کرکے تبدیلی لے آئے ہیں، عمران خان کچھ عرصے قبل موجودہ حکومت کو جعلی
مینڈیٹ سے قائم ہونے والی حکومت کہتے تھے اور الزام لگاتے تھے کہ حکومت نے
نے عوام کے دکھوں کا مداواکرنے کی بجائے انہیں نئے عذاب میں مبتلا کر رکھا
ہے، ایک سال میں ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ قرض لیا گیا اور بجلی حکومت
گزشتہ حکومت نے پانچ برسوں میں جتنی کی تھی موجودہ حکومت نے ایک سال میں اس
سے دگنی کر دی ہے ۔عمران خان نے ایشین ترقیاتی بینک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا
تھا کہ میٹرو بس منصوبے پراسلام آبادمیں صرف چارارب روپے خرچ آئیں گے
مگرہمارے حکمران چوبیس ارب روپے اس پرخرچ کررہے ہیں ۔ الزامات سے قطع نظر
یہ بات واضح ہے کہ حکومت گذ گورنس سے محروم ہے،ایک طرف کرپشن کو روکنے کے
لئے کچھ نہیں کیا گیا تو دوسری جانب نج کاری کے ذریعے ملکی ادارے بیچے
جارہے ہیں۔ نواز شریف حکومت نے او جی ڈی سی کے 10 فی صد حصص بیچنے اور
واپڈا، اسٹیل مل کی نجکاری کا اعلان کر رکھا ہے۔جس کے سبب پو رے ملک میں
مزدور اورملا زمین نواز شریف حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان میں
جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں بھی ہیں جو نجکاری کے خلاف ہیں۔
نواز شریف دو تہائی اکثریت سے وزیر اعظم مْنتخب ہوئے ہیں،لیکن ان کے گرد سر
مایہ دار اور کا رخانہ داروں کا گھیرا ہے۔ جن کی خواہش ہے کہ سرکاری اداروں
، کا رپوریشنوں اور بڑے بڑے سرکاری فرموں کو نج کاری کے ذریعے سرمایہ دارون
کو کو ڑی کے بھاو بیچ دیا جائے۔ نج کاری کی فہرست میں شامل 65سرکاری اداروں
میں ریلوے، پی آئی اے، سٹیٹ لائف انشو رنس کا ر پو ریشن، آئل اینڈ گیس ،
سوئی گیس کا ا دارہ اور اس کے علاوہ ا یسے بْہت سارے ادارے ایسے ہیں،جن پر
ملک کے کا رخانہ داروں اور سرمایہ داروں کی نظریں لگی ہوئی ہیں، 1985 سے
2008 تک مختلف حکومتوں نے184اداروں کی نج کاری سے 496 ارب روپے حاصل
کیئے۔نج کاری سے حا صل شدہ رقم کو دفاع، غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور
فلاحی کاموں کے لئے برابر برابر تقسیم کرنا اور ان شعبوں پر خرچ ہونا
تھا۔لیکن نج کا ری سے حا صل شدہ رقم نہ تو غیر ملکی قر ضوں کی ادائیگی پر
خر چ کی گئی اور نہ ہی اس سے لوگوں کے فلا ح و بہبو د کے کام کئے گئے۔
پاکستان کا غیر ملکی قرضہ جو 1991 میں 23ارب ڈالر تھا 2008 میں 45 ارب ڈالر
اور 2012 میں 85 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے کا
قرض دار ہے۔ غْربت کی شر ح بڑھتے بڑھتے 45 فی صد سے تجاوز کر گئی۔حالیہ
تحقیات کی رو سے نجکاری معا شی زوال کا سبب بنتی ہے۔اب دنیا میں آئی ایم
ایف س قرض میں بھی کمی آئی ہے اور نجکاری کا رْجحان بھی ختم ہورہا ہے۔ لیکن
ہم ہیں کہ ایک طرف قرضہ لے رہے ہیں اور دوسری جانب نفع بخش اداروں کو اونے
پونے بیچ کر ملک میں غْربت، افلاس ، مہنگائی اور بے روز گاری پیدا کر رہے
ہیں۔ |
|