گٹکا

بگڑی اردو اور قبرستانوں کی تیزی سے بڑھتی آبادی کی واحد وجہ....
کیا آپ کومعلوم ہے کہ جلد ہی اردو زبان اور خود کو اپاہج بنانے میں خود آپ کا ہی ہاتھ ہوگا...؟ اور
ایک محتاط اندازے کے مطابق 2017-2018ء تک، کراچی کی آبادی میں سے تقریباً 50، لاکھ لوگ قبرستانوں میں پہنچ چکے ہونگے.....کیسے؟ پڑھیئے اور واہ واہ کیجئے...

آپ کچھ اس طرح کے جملے تو روز مرہ کی زندگی میں سنتے ہی ہیں کہ جن کی ادائیگی سے تلفظ ہی بدل جاتا ہے۔ مثلاً:
مے پ سے لینے جارہا ہوں۔ تم کے سے آؤگے۔ وہ ہے در آباد جا ئے گا ،
پے لے تم جاؤ پِھل مے پونچتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ...

اس طرح کی بگڑی ہوئی اردو کا تلفظ 90% صرف اور صرف’’ گٹکا‘‘ نامی موذی شئے کی وجہ سے ہورہا ہے۔

جب تک گٹکا منہ میں دبا ہوتا ہے اور کھانے والے کو بولنا بھی پڑتا ہے تو بولتے وقت وہ گٹکامنہ سے باہر نکل جاتا ہے۔ اب اس کو بچانے کے لئے نچلے ہونٹ کو نچلے دانتوں پراندر کی جانب زبردستی جما کر بولا جاتا ہے تو الفظ کی ادائیگی ذہن سے تو صحیح ہو رہی ہوتی ہے مگر تلفظ بگڑ چکا ہوتا ہے۔

گٹکے میں چھالیہ، تمباکو، (کہیں کہیں ذبح شدہ جانوروں کا خون)، مختلف تیزاب اور چونا استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ گٹکے کو مضبوطی سے گال اور جبڑے کے درمیان جمائے رکھنا ہوتا ہے اس لئے منہ کے مسلز مستقل اکڑے رہنے کی وجہ سے ایک ہی پوزیشن میں رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے جبڑے کی موومنٹ نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ یہاں آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ وہ شخص چنے کا دانہ بھی منہ میں ڈالنے کے قابل نہیں رہتا۔ جب جبڑا حرکت نہیں کرسکتا تو وہ گٹکا جو کہ جبڑے اور گال کے درمیان پھنسا ہو اہوتا ہے تو وہ اپنے اندر کی تیزابیت اورچھالیہ اور تمباکو کی رگڑ کی وجہ سے گال اور مسوڑھوں کو مسلسل زخمی کر رہا ہوتا ہے اور اس گٹکے کا لعاب معدے میں بھی جا رہا ہوتا ہے اس طرح سے وہ سانس کی نالی میں کینسر کے مرض کی راہ کو ہموار کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی ایک گٹکے سے تین بیماریاں ایک ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔جو شخص صرف دو سال تک مسلسل گٹکا کھاتا رہا ہو، اس کا جبڑا تیسرے سال میں ناممکن ہے کہ پورا کھل جائے۔ یعنی اس کا جبڑا مکمل طور پرجام ہوچکا ہوتا ہے۔ اسپتالوں میں جا کر دیکھیں۔ وہاں اکثر لوگ ایسے مدقوق نظر آئیں گے کہ جن کے گالوں پر ٹانکوں کے نشان ہیں اورجو، اب بات بھی صحیح طرح سے نہیں کرسکتے حالانکہ ان کے گال بھی کاٹے جاچکے ہوتے ہیں۔ اس آپریشن کے باوجود وہ زیادہ سے زیادہ مزید صرف 3 سال ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔یعنی گٹکا کھانے والا زیادہ سے زیادہ صرف6-7 سال ہی زندہ رہ پاتا ہے۔
اب آپ کوصرف غور کرنا ہے کہ....
آپ کے آس پاس کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جو گٹکا نہیں کھاتے
جو کھاتے ہیں انہیں سمجھانا آپ کا اخلاقی فرض ہے، ورنہ...
چند سال بعد وہ صرف آپ کی یادوں میں ہی ’’باقی‘‘ رہ جائیں گے

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Bilal Farhat
About the Author: Bilal Farhat Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.