ناسُورِ دہشت گردی کا خاتمہ تو پہلے بھی ناگزیر تھا اور ابھی ناگزیر ہے مگر .....؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
ویسے تو آج مجھے اپناکالم قائدِ
دھرنامسٹر عمران خان کی دوسری شادی سے متعلق لکھنا تھامگر میں کیا کروں...؟؟
کہ ابھی تک دل و دماغ سے سانحہ پشاور کی المناکی بھولائی نہیں جاسکی ہے
کیوں کہ اَبھی تک میں آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے
والے اپنی قوم کے معصوم بچوں کی پھول سے زیادہ حسین و جمیل شکلیں نہیں بھول
سکاہوں اوراَب تو ایسالگتاہے کہ جب تک میرے مُلک کے چپے چپے سے دہشت گرد
اور دہشت گردی کا پوری طرح سے خاتمہ نہیں ہوجاتاہے،اور ایک ایک دہشت گرد کا
سر تن سے جُداکرکے اِسے عبرت ناک انجام تک نہیں پہنچادیاجاتاہے ...اُس وقت
تک پھول سے معصوم بچوں کی یاد دل سے نہیں جائے گی ۔
اَب یہ اور بات ہے کہ ابھی تو اپنے ہی صوبے اور شہر میں سولہ دسمبرکو پیش
آئے سانحہ پشاور میں شہیدہونے والے معصوم انسانوں کے کفن بھی میلے نہیں
ہوئے تھے اور اِن کی قبرپر پڑے پھول بھی نہیں مرجھائے تھے کہ پی ٹی آئی کے
چئیرمین اور مُلک میں تبدیلی لانے اور نیاپاکستان بنانے والے مسٹرعمران خان
نے غمزدہ لوگوں کا غم ایک طرف رکھ دیااور اپنی دوسری شادی ریحام خان سے
ہنسی خوشی رچالی .. ہم خان صاحب اور خان صاحبہ کی دوسری شادی کے مخالف تو
ہرگزنہیں ہیں..کہ اِن دونوں نے باہمی رضامندی سے شادی کرکے
اپناگھربسالیامگر صرف افسوس اِس بات کا ہے کہ کیاہی اچھاہوتاکہ
مسٹردھرناعمران خان اور ریحام خان صاحبہ کی شادی سانحہ پشاور میں شہید ہونے
والے قوم کے پھولوں سے بھی زیادہ حسین اور زناک بچوں اور نہتے انسانوں کے
چالیسویں کے بعد شادی چارئی جاتی تو مزادوبالاہوجاتا...بہرکیف ..!جو ہواوہ
سب ٹھیک ہے مگراَب اپنی اِس شادی پر مسٹر خان صاحب اور بی بی خان صاحبہ کو
تھوڑی بہت عوامی تنقیدبھی برداشت کرنی ہوگی۔
جبکہ یہاں یہ امر انتہائی حوصلہ افزاء ہے کہ آج مُلک کی سول اور عسکری
قیادت کا دیس سے دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر ایک پلیٹ فارم پرآجانا یہ
ظاہر کرتاہے کہ اَب مُلک سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ ہر صورت
ممکن ہو کر ہی رہے گاحالانکہ ناسورِ دہشت گردی کا خاتمہ تو پہلے بھی
ناگزیرتھا(جب ماضی میں دہشت گرد اِسی طرح بے لگام تھے اور آزادی سے سول اور
عسکری علاقوں اور اہم مُلکی احساس تنصبات و اداروں اور نجی مقامات کو اپنی
کارروائیوں کا نشانہ بنایاکرتے تھے تب تو کوئی بھی دہشت گردی کا قلع قمع
کرنے کو تیار نہ ہواتھا...مگرچلواَب اگرمُلک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے
ہماری سول اور عسکری قیادت مصالحتوں کا شکار ہوئے بغیر باہم متحدو منظم ہو
کر ایک ہوگئی ہے تو یہ حوصلہ افزاامرہے اِس موقعے پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ
’’ دیرآیددرست آید‘‘)گو کہ اَب اگر دہشت گردی کے ناسور کوختم کرنے کے لئے
ہماری سول اور عسکری قیادت کی سطح پر اقدامات کئے جارہے ہیں تو اَب اِسے
کسی بھی جانب سے مشکوک بنائے بغیر اُمیدافزاء نتائج حاصل ہونے تک تنقیدکا
نشانہ نہ بنایاجائے اور اُس وقت کا انتظارکیا جائے جب مُلک میں فوجی
عدالتوں کے قیام سے دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق بہتر نتائج سامنے آئیں گے
۔
پچھلے دِنوں بحرین کے دارالحکومت منامہ میں پاکستانی کمیونٹی اوربحرین کے
مسلح افواج کے ہیڈ کواٹرکا دورہ کرتے ہوئے اِن مواقعوں پر وزیراعظم
نوازشریف نے اظہارخیال کرتے ہوئے مُلک سے دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ
پھینکنے کے عزم کودُھراتے ہوئے کہاکہ فوجی عدالتوں سے دہشتگردوں کو فوی
سزاملے گی ،شدت پسندوں کے لئے فوجی عدالتیں بنائی ہیں تاکہ وہ کیفرِ
کردارتک پہنچیں ا گر جرم ہوتاہے تو 15سے 20دن کے دوران اُن لوگوں کو پھانسی
کے پھندے پر لٹکاناچاہئے،اُنہوں نے کہا کہ ہمارے پا س دہشگردی کے خاتمے کے
سواکوئی آپشن نہیں،ہم مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آخری حدتک جائیں
گے،اگرچہ جب وزیراعظم نوازشریف یہ کہہ رہے تھے کہ فوجی عدالتیں 10،15سا ل
پہلے بننا چاہئے تھیں تو اِس موقعے پر راقم الحرف کو ایسالگاکہ جیسے
وزیراعظم کو اِس بات کا شدیدصدمہ ہے کہ فوجی عدالتیں پہلے کیوں کہ بنائی
گئیں اگر پہلے بنادی جاتیں تو آج صورت حال یہ نہ ہوتی جیسی آ ج ہے ۔
بہرحال...!! بحرین میں پاکستانی کمیونٹی اور بحرین کے مسلح افواج کے
ہیڈکواٹرکے دورے کے موقعے پر وزیراعظم نوازشریف نے اپنے خطاب میں حب الوطنی
کے نیک جذبات سے سرشار ہوکر جس طرح یہ کہاکہ لوگوں کے گلے کاٹنے والے کسی
رعایت کے مستحق نہیں ہیں، فوجی عدالتیں دس پندرہ سال پہلے بن جانی چاہئیں
تھیں،ماضی کی حکومتیں دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم شہریوں کی شہادتوں کا
احساس کرتیں تو بیشک آج حالات بہت مختلف ہوتے ‘‘ اِن کے اِس جملے میں وطن
سے محبت اور اپنے شہریوں کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوااور ایسالگاکہ جیسے
وزیراعظم نوازشریف کے دل میں اپنے وطن اور اپنے شہریوں سے والہانہ محبت اور
اِن کے احترام و جان و مال کی حفاظت کا جذبہ مزین ہے ۔
بیشک ماہِ رواں کی 7تاریخ اور بدھ کا دن سرزمین پاکستان سے دہشت گردوں اور
دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مُلکی تاریخ کا ایک اہم ترین دن قراردیاجاسکتاہے
جب صدرپاکستان عزت مآب ممنون حُسین کے دستخط کے ساتھ ہی 21ویں آئینی ترمیم
دستورِ پاکستان کا باقاعدہ حصہ بن گئی اور مُلک میں دوسال کے لئے فوجی
عدالتوں کے قیام کو حتمی شکل دینے کے لئے قانونی اجازت مل گئی ، اگر چہ آج
بھی مُلک کی بعض مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین پر مُلک میں فوجی عدالتوں
کے قیام پر تحفظات ہیں مگر کیا اِن کے نزدیک مُلک سے دہشت گردوں اور بڑھتی
ہوئی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اِس کے علاوہ بھی کوئی اور حل ہے...؟؟اگر
ایساکچھ تھایا ہے ...؟؟ تو فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالف مذہبی اور سیاسی
جماعتوں کے اکابرین ابھی تک کیوں خاموش تھے...؟؟یقینا اِن کے پاس مُلک سے
دہشت گردی اور دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو روکنے اور اِن کے خاتمے کے لئے
کوئی لائحہ عمل نہ پہلے تھا اور نہ ہی اَب ہے ...؟؟مگر چونکہ یہ مخالفت
برائے مخالفت کرنا اِن کی عادتوں کا حصہ ہے اِس لئے یہ مُلک میں دوسال کے
لئے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بنائی جانے والی فوجی عدالتوں کے قیام کی
بھی مخالفت کرکے اپنا اپنا سیاسی قداُونچاکرناچاہتی ہیں،اِن کا ایک طرف یہ
مقصد ہے تولگتاہے کہ جیسے دوسری جانب اِن مذہبی وسیاسی جماعتوں قائدین فوجی
عدالتوں کے قیام کی مخالفت کرکے دہشت گردوں کو بھی ناراض نہیں کرناچاہتے
ہیں اور درپردہ اِنہیں یہ بتاناچاہتے ہیں کہ اِن کے ہوتے ہوئے کوئی اِن کا
بال بیگانہیں کرسکتاہے۔(ختم شُد) |
|