پہلی تھپکی ۔۔۔۔!
(Farrukh Shahbaz Waraich, Lahore)
ٹھیک سال اور مہینہ تو یاد نہیں
مگر اتنا ضرور یاد ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایک میڈیا گروپ کے نئے
شروع ہونے والے اخبار کے لئے رپورٹنگ کر رہا تھا۔رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ ان
سطور کا لکھنے والا اخبار میں کالم اور فیچر بھی لکھتا تھا۔اخبار کے دفتر
آنا اور چائے کے گرما گرم کپ کے ساتھ اخبارات کی فائل دیکھنابلکہ کھنگالنا
یہ عمل میرے لیے رومانیت سے بھرپور ہے۔سچ پوچھیں تو اس کام کا اپنا ہی لطف
ہے۔ایک دن حسب معمول اخبارات کی فائل دیکھتے ہوئے ایسے ہی نظر ایک کالم پر
پڑی،کالم نگار کی تصویر مانوس سی محسوس ہوئی۔ہاں یہ تو وہی صاحب ہیں غالبا
کسی تقریب میں ملاقات ہوئی تھی،صاحب باتونی سے لگتے تھے،اس دن بھی چہک چہک
کر باتیں کر رہے تھے شہرکے لوگوں کی طرح مصنوعی مسکراہٹ گفتگو کا خاصہ
تھی۔صاحب کی تحریر پڑھنا شروع کی تو جیسے تحریر نے اپنے سحر میں جکڑ لیا
ہو،جیسے یہ صاحب خود اپنی تقریر سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں
بالکل ایسے ہی لگا جیسے موصوف کہیں ہمارے نزدیک ہی موجود ہم کلام ہیں ۔تحریر
میں بھی دم تھا،کالم کا نام تھا’’پاکستانی قوم ۔۔۔ صابر قوم ہے‘‘ اور صاحب
کالم کا اسم گرامی تھا عبدالماجد ملک ۔۔جی ایسے ہلکے پھلکے کالم کہاں پڑھنے
کو ملتے ہیں۔ایک دن سرراہ ان سے ملاقات ہو گئی ہم نے کالم کی تعریف کر
ڈالی۔بس ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلایہ سلسلہ چلتے چلتے دوستی کے رشتے میں
تبدیل ہو گیا۔
ایک دن میں شدید پریشان تھا ماجد میرے پاس آیا اور میری پریشانی کی وجہ
معلوم کی اور پھر چپکے سے اس مسئلے کا حل کر ڈالا۔پھر آہستہ آہستہ یہ بھید
کھلتا گیا یہ جو عبدالماجد ملک کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ ہوتی ہے یہ
مصنوعی نہیں بالکل خالص ہے ۔خلوص اس کے باطن اور ظاہر دونوں میں کوٹ کوٹ کر
بھرا ہوا ہے۔دیہاتی بیک گراونڈ اور واجبی سی تعلیم رکھنے والے اس نوجوان نے
اپنی فیلڈ میں اس قدر محنت کی کہ چند سال پہلے ایک کمپنی میں معمولی ملازمت
سے آغازکیا ،خلوص اور سچی لگن کے ساتھ اعلی مقام حاصل کر لیا آج عبدالماجد
ملک پاکستان کی معروف بزنس کمپنی کا جنرل مینیجر ہے۔عبدالماجد ملک ان
نوجوانوں کے لیے ایک بہترین مثال ہے جو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے
روزگاری کا رونا روتے ہیں ۔نوجوان پڑھ لکھ کر معمولی سی ملازمت اختیار کرنے
میں شرماتے ہیں،حالانکہ اس میں کوئی عار نہیں کیونکہ اگر آپ میں ٹیلنٹ ہے
تو آپ جہاں بھی ہوں گے وہ مقام آپ کو ضرور ملے گا جس کے آپ حقدار ہیں۔ماجد
اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ماجد سادہ اور محبت کرنے والا انسان ہے،جو شاید
اس دنیا میں صرف محبتیں بانٹنے آیاہے۔ماجد خود میں ایک حساس انسان بھی ہے
جو اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی لوگوں کے دکھ دردمحسوس کرتا ہے۔یہ اچھے
دنوں کی باتیں ہے جب سید بدر سعید،شہباز سعید آسی،اعجاز بٹ،وسیم عباس اور
ہم اکٹھے باغ جناح میں واک کیا کرتے تھے یہ واک کم ایک’’ ادبی جلسہ‘‘ زیادہ
ہوتا تھا۔اس واک کے بعد ادبی بیٹھک میں بیٹھ کر گھنٹوں ادبی بحثیں کرنا
ہمارا محبوب مشغلہ تھا ۔ہم دوستوں کی محفلیں عروج پر ہوتی تھیں تو ماجد کسی
نہ کسی غم کے مارے کی مدد میں جتا ہوتا۔لوگوں کی تکلیف دیکھ کرماجد کا قلم
بھی جیسے غم کی کیفیت میں آجاتا ہے۔ ہمارے ’’معروف کالم نگاروں‘‘ کی طرح
ماجد لفظوں سے کھیلنے کا ہنر نہیں جانتاکیونکہ یہ ایک سچا انسان ہے ایسا
انسان جو محسوس کرتا ہے وہ تحریر کرتا ہے۔مجھے پورا یقین ہے ماجد کے لکھے
گئے کالم شاید کبھی بھی عوامی مقبولیت حاصل نہ کر پائیں کیونکہ یہ ہمارے
کالم نگاروں کی طرح کہانیاں نہیں لکھتا،نا ہی اپنے کالموں میں ایسے واقعات
تحریر کرتا ہے جس میں لکھنے والے بڑے فخر کے ساتھ لکھتے ہیں کہ انھوں نے
صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کی۔بڑی معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں ایسی
بڑھکیں مارنے والوں کو اور ایسے کہانی باز لوگوں کو کالم نگار کہا جاتا ہے
اور یہ کھرا انسان کسی بھی طرح کالم نگارکی اس تعریف پر پورا نہیں اترتا۔
کالموں کے قبرستان میں جہاں کہیں کچھ زندگی کے آثار نظر آتے ہیں ہم وہیں پر
رک جاتے ہیں۔یہ ایک مشکل کام بھی ہے موت کے شہر میں زندگی کی تلاش خوفناک
ہوتی ہے۔ہمارے اخبارات کے ادارتی صفحات پر کالم کم واعظوں کی اور نصیحتوں
کی بھرمار زیادہ نظر آتی ہے۔کالموں میں درد اتنا کہ پڑھنے والے کا سر چکرا
جاتا ہے،بہتر تو یہ ہے کہ ہر اخبار کے ادارتی صفحے کے ساتھ ایک آدھ سر درد
کی گولی بھی دی جائے تاکہ قاری کو سہولت رہے۔عبدالماجد ملک نے کالم اس لیے
نہیں لکھے کہ وہ کسی اخبار میں اس کی تصویر کے ساتھ شائع ہوں، وہ اس بات سے
بے نیاز ہو کر لکھتا ہے کہ اگلے روز اس کا یہ کالم کسی روزنامے کی زینت بنے
گا بھی کہ نہیں۔ یہ عوام کا کالم نگار ہے اور عوام کے لئے لکھتا ہے۔ماجد نے
جو محسوس کیا وہ بغیر لگی لپٹی رکھے بغیر تحریر کر دیا۔ہوسکتا ہے ماجد کے
کالم میں آپ ادب کی چاشنی ڈھونڈنے پر بھی ڈھونڈ نہ پائیں کیونکہ یہ لکھے
گئے الفاظ ماجد کے دل کی آواز ہیں جو دل سے نکلتے ہیں۔
یہ خوش بختی بھی میرے حصے میں آئی کہ میں اس نوجوان کی کتاب مرتب کر رہا
ہوں جس کی دوستی پر میں ہزار بار فخر کر سکتا ہوں،ماجد دوستوں کا دوست ہے ۔یہ
کتاب ایک تخلیق کار کی تخلیقات پر مشتمل ہے۔یہ کتاب ان نوجوانوں کو حوصلہ
اور ہمت بھی دے گی جو پہلا قدم اٹھانے سے ہچکچاتے ہیں۔آج ماجد اپنے آپ کو
حوصلہ مندی کے ساتھ قارئین کی عدالت میں پیش کر رہا ہے ۔اس عدالت میں جہاں
دلائل اس کے حق میں بھی آئیں گے اور مخالفت میں بھی لیکن آخری فیصلہ پھر
قارئین کو ہی کرنا ہے۔لیکن یہاں سے قارئین پر ایک بھاری ذمہ داری آگئی ہے ۔
یہ عبدالماجد ملک کی پہلی کتاب ہے ،پہلی محبت،پہلا عشق،پہلی ملاقات،پہلا
تاثر،پہلی شاباش،پہلا احساس،پہلی کتاب اور پہلی تھپکی انسان کبھی نہیں
بھولتا۔اس لیے میں ماجد کے حوصلے کی داد دیتے ہوئے پہلی تھپکی کے لیے آگے
بڑھ رہا ہوں اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ ایک سچا تخلیق کار مزید آگے بڑھے تو
آئیے میرے ساتھ مل کر اس نوجوان کو تھپکی دیں ہو سکتا ہے آپ کی یہ تھپکی اس
کو آسمان کی بلندیوں پر لے جائے۔۔۔۔!
(گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں کتاب ’’سوچ نگر‘‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھا
گیا)
|
|