سیدناابوہریرہ رضی اﷲ عنہ:اسلام کی عظیم اور اولین درس گاہ کے ممتاز طالب علم

 سیدناابوہریرہ رضی اﷲ عنہ:ذخیرۂ حدیث کے سب سے بڑے راوی

کمال وخوبی والے نبی احمد مجتبیٰ محمد مصطفیﷺنے بے شمار لوگوں کو کمال وخوبی والا بنایااور حقیقت میں کمال وخوبی والا وہ شخص ہے جو دوسروں کوبھی کمال وخوبی والا بنادے۔رسول اکرم ﷺکا یہ فیض ہمیشہ جاری رہے گا،آقا علیہ السلام صبح قیامت تک اپنے جاں نثاروں کوکمال وخوبی والا بناتے رہیں گے۔پیارے مصطفی ﷺنے جن لوگوں کو کمال وخوبی والابنایاان میں سے ایک مشہور ومعروف ذات مبارکہ سیدناابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی ہے جو کہ رسول اﷲ ﷺ کی قائم کردہ اسلام کی سب سے پہلی یونی ورسٹی ’’صفہ‘‘ کے ممتاز طالب علم اور فن حدیث کے ماہر ہیں۔جنہوں نے براہ راست مشکوٰۃ نبوت ﷺسے فیض حاصل کیاہے۔

زمانۂ جاہلیت میں میں آپ کانام عبد الشمس یاعبدعمروتھا۔اسلام میں آپ کانام عبداﷲ یاعبدالرحمن ہوا۔قوی یہ ہے کہ آپ دوسی ہیں،حاکم اور ابواحمدکہتے ہیں کہ آپ کانام عبدالرحمن بن صخر ہے ۔(نزھۃ القاری ،کتاب الایمان،ص249)آپ کی کنیت ’’ابوہریرۃ‘‘ہے اور یہ کنیت اس قدر مشہور ہوئی کہ آپ کااصل نام بھی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔اس کنیت کی وجہ یہ ہیکہ آپ کوبلی بڑی پیاری تھی،حتیٰ کہ ایک بار آستین میں بلی لئے ہوئے تھے۔حضورﷺنے فرمایا:’’تم ابوہریرہ یعنی بلیوں والے ہو‘‘۔تب سے آپ اس کنیت سے مشہور ہوگئے،(نزھۃ القاری ،کتاب الایمان،ص249،مراۃ المناجیح ، ج1 ، ص 46)

ولادت وقبیلہ:آپ کانسبی تعلق قبیلۂ دوس سے ہے )ترمذی شریف مترجم اردو،ابواب المناقب،جلددوم،ص؍752)دوس قبیلہ عرب قبیلے ’’ازد‘‘کی ایک شاخ ہے جبکہ اس نے اپنے مورث اعلیٰ’’دوس‘‘کے نام کی نسبت سے شہرت پائی ہے۔بنودوس’ ’یمن‘‘ کے ایک گوشے میں آباد تھے۔آپ کی ولادت ہجرت نبویﷺسے تقریباً چوبیس برس قبل ہوئی۔

قبول اسلا م:7؍ہجری میں خیبر کی فتح کے سال ایمان لائے اور غزوۂ خیبر میں شریک ہوئے۔پھر حضورﷺکے ساتھ سایہ کی طرح رہے۔علم کابہت شوق تھا۔ہردم حضورﷺکے ساتھ رہتے تھے۔اﷲ پاک نے آپ کوغضب کاحافظہ دیاتھا۔(جامع الاحادیث،حالات راویان حدیث،426)قبول اسلام کے بعد سے حضورﷺکے پردہ فرمانے تک یعنی محرم 7؍ہجری تاربیع الاول 11؍ہجری تک آپ کی چار سالہ زندگی کاحاصل آقاعلیہ السلام کی خدمت کرنا،رخ والضحیٰ کی زیارت کاشرف حاصل کرنااورعلوم ومعارف کے سرچشمہ فیض بارگاہِ نبوتﷺسے سیرابی اور حصول فیض کرناتھا۔سفر ہویاحضر،خلوت ہویاجلوت،رات ہویادن،امن ہویاجنگ کاموقع،صحت ہویابیماری،خوشی کے لمحات ہوں یارنج والم کی گھڑیاں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ رسول گرامی وقارﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے کے لیے بیتاب وبے قرار رہتے تھے۔اس نیک مقصد کے حصول کے خاطر آپ نے ازدواجی زندگی کوخیرآباد کہا،ذریعہ معاش ترک کیا اور اصحاب صفہ کی نفوس قدسیہ کی جماعت میں شامل ہوکرفقروفاقہ کے عالم میں زندگی گزاری۔تقریباًتین سال سے زائد عرصہ آپ نے اسلام کی اس عظیم اور اولین درس گاہ کے ممتاز طالب علم کی حیثیت سے گزارا۔اس دوران مصیبتوں اورپریشانیوں کے پہاڑٹوٹے،فقروفاقہ کے طوفان اٹھے،رنج والم کی گھٹائیں چھائیں،صبرآزمالمحات کی برسات ہوئی مگر آپ نے ان تمام باتوں کوبرداشت کیااور دامن مصطفیﷺسے وابستہ رہے۔

حصول علم کے لیے قربانی:غزوۂ خیبر کے موقع پرآپ سب سے پہلے حضورﷺکی خدمت میں حاضرہوئے اور پھر آخرحیات مقدسہ تک حاضربارگاہ رہے۔آپ نے اس زمانہ میں کس طرح زندگی کے ایام گزارے ،فرماتے ہیں:’’خداوندقدوس کی قسم!میں بھوک سے جگرتھام کے زمین پر بیٹھ جاتااورپیٹ پرپتھرباندھ لیتاتھا،منبررسول اور حجرۂ مقدسہ کے درمیان کبھی چکرا کر گر پڑتا ، لوگ سمجھتے میں پاگل ہوں حالانکہ یہ صرف بھوک کااثرتھا۔(تدوین حدیث مع اصول حدیث،35)ان جانفشانیوں کے عالم میں بھی آپ نے حضورﷺکے شب وروز،عادات واطوار،اخلاق واوصاف اور اقوال وفرمودات کواپنے قلب وذہن میں محفوظ کرلینے کامشن جاری رکھا۔

قوی حافظے کاسبب:پہلے آپ کاحافظہ اتنا قوی نہیں تھا،ایک بار خدمت اقدسﷺمیں حاضر ہوئے،ضعفِ حافظہ کی شکایت کی،مختار نبیﷺنے فرمایا:اپنی چادر پھیلاؤ،انہوں نے چادر پھیلادی، حضور اکرمﷺنے دوچلّواس میں ڈالاپھرحکم دیاکہ چادر سینے سے لگالو،انہوں نے ایساہی کیا۔فرماتے ہیں:پھرمیراحافظہ اتناقوی ہوگیا کہ اس کے بعد سے پھرکچھ نہیں بھولا۔ (بخاری،کتاب العلم،بحوالہ نزھۃ القاری ،کتاب الایمان،ص249،ترمذی شریف مترجم اردو،ابواب المناقب،جلددوم،ص؍752) اس کے بعد آپ کے علم کاعالم یہ ہواکہ خود ہی ارشاد فرماتے ہیں: رسول اﷲﷺسے میں نے دوتھیلے (علم کے)سیکھے،ایک کومیں نے عام کردیادوسرے اگرظاہرکردوں تولوگ میرانرخرہ کاٹ ڈالیں۔(صحیح بخاری شریف عربی مترجم،کتاب العلم،ص154)امام بخاری فرماتے ہیں نرخرہ جہاں سے کھانااترتاہے ۔اس کی منظرکشی محب گرامی ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی نے یوں کی ؂
نبی کے دست مبارک کی برکتیں دیکھو
عطا کی حفظ کی دولت ابوہریرہ کو

دوسی تم سے سبقت لے گیا:حاکم رحمۃ اﷲ علیہ حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت زیدبن ثابت رضی اﷲ عنہ کے پاس آیا اوران سے کوئی بات پوچھی۔انہوں نے فرمایا:تم ابوہریرہ کے پاس چلے جاؤاور ان سے یہ مسئلہ دریافت کرلو کیونکہ ایک دفعہ میں،ابوہریرہ اور ایک تیسراشخص مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور دعائیں مانگ رہے تھے۔اتنے میں رسول خداﷺتشریف لے آئے۔میں اور میراساتھی دعاکرتے،تورسول اﷲ ﷺہماری دعاپر آمین فرماتے ،پھر حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے دعاکی۔ان کی دعاکے کلمات یہ تھے،ترجمہ:یااﷲ !میں تجھ سے انہی چیزوں کاسوال کرتاہوں جن کاسوال میرے ساتھیوں نے کیاہے۔مزیدبرآں میں تجھ سے ایسے علم کاسوال کرتاہوں جوکبھی فراموش نہ ہو۔حضورنبی اکرم ﷺنے فرمایا:آمین۔ہم نے عرض کی :یارسول اﷲﷺ!ہم بھی ایساعلم مانگتے ہیں جوکبھی فراموش نہ ہو۔رسول گرامی وقارﷺنے فرمایا:’’اس معاملے میں دوسی تم سے سبقت لے گیاہے‘‘۔(الخصائص الکبریٰ،جلددوم،ص484)یعنی کہ علم نہ بھولنے جیسی اہم خصوصیت خالص حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کے حصے میں آئی ۔

مجاہدانہ زندگی:خالق کائنات نے جہاں آپ کو علم وفضل سے نوازاتھا وہاں آپ کے قلب مبارک میں جذبۂ جہاد بھی موجزن فرمایاتھا۔عہد رسالت میں غزوۂ خیبر 7؍ھ میں شرکت فرمائی،اس کے علاوہ آپ غزوۂ وادی القریٰ(غزوۂ فدک)،غزوۂ ذات الرقاع،غزوۂ فتح مکہ،غزوۂ تبوک اور بعض سرایامیں بھی شریک رہے۔جب عہد صدیقی میں فتن ارتدادکے شعلے بھڑکے تو ان نازک لمحات میں بھی آپ ان مخلص مومنین میں شامل تھے جنہوں نے سیدناصدیق اکبررضی اﷲ عنہ کے زیرامارت ان فتنوں کی بیخ کنی کی۔عہدفاروقی آیاتواس میں بھی ملک شام کے جہاد اور جنگ یرموک میں تاریخ جہادرقم کی۔سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعدعہدِ عثمانی میں’’بلنجر‘‘اور آرمینیہ جرجان وغیرہ کی لڑائیوں میں بھی آپ کی شمولیت کاتذکرہ ملتاہے۔
کثرت روایات کاسبب:صحابہ کرام بسااوقات دن میں تجارت اور کھیتی باڑی میں مشغول رہتے تھے لہٰذاجن کو روزآنہ حاضری کاموقع نصیب نہ ہوتاتووہ اس دن حاضر رہنے والے حضرات سے کسی جدید طرزعمل اور اس دن کی مکمل کارکردگی سے واقف ہونے کے لیے بے چین رہتے۔بعض دیوانۂ عشق ومحبت وہ بھی تھے جنہوں نے خانگی الجھنوں سے سبکدوشی بلکہ کنارہ کشی اختیار کرکے آخر وقت تک کیلئے یہ عہدوپیماں کرلیاتھاکہ اب اس درکوچھوڑکرنہ جائینگے۔اصحاب صفہ کی جماعت اس پر پوری طرح کاربندرہتی اور شبانہ روزان کا مشغلہ یہ ہی رہ گیاتھاکہ جوکچھ محبوب کردگارسے سنیں یادرکھیں اور اس کواپنی زندگی میں جذب کرلیں۔اس جماعت کے سرگروہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ ہیں،جوذخیرۂ حدیث کے سب سے بڑے راوی شمار ہوتے ہیں،لوگوں کوان کی کثرت روایت پرکبھی تعجب ہوتاتوفرماتے:
’’تم لوگ کہتے ہوکہ ابوہریرہ،رسول اکرم ﷺکی بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتاہے اور یہ بھی کہتے ہوکہ مہاجرین وانصار اتنی حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے ،توسنو، مہاجرین تواپنی تجارت میں مصروف رہتے اورانصار کامشغلہ کھیتی باڑی تھا اور میراحال یہ تھاکہ میں صرف پیٹ پر حضورﷺکی خدمت میں حاضر رہتا،جب انصارومہاجرین غائب رہتے میں اس وقت بھی موجود ہوتا،اصحاب صفہ میں ایک مسکین میں بھی تھا،جب لوگ بھولتے تومیں احادیث یادرکھتاتھا۔(نزھۃ القاری،کتاب الایمان،ص249،مسند احمد بن حنبل ، بحوالہ : تدوین حدیث مع اصول حدیث،ص34)اس کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ حضورﷺنے آپ کی یادداشت کے لیے دعاکی تھی جس کااثریہ ہواکہ فرماتے ہیں۔’’میں پھرکبھی حضورپاکﷺکی حدیث نہیں بھولا‘‘۔حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:ابوہریرہ!ہم میں سے تم سب سے زیادہ حضورﷺکی مجلس میں بیٹھتے اور سب سے زیادہ حدیثیں یاد رکھتے تھے۔(ترمذی شریف مترجم اردو،ابواب المناقب،جلددوم،ص؍753)

حفظ وضبط کی نادر مثال:حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے 5372؍احادیث مروی ہیں،حضوراقدسﷺ نے ان کی یادداشت کے لیے دعاکی تھی جس کے نتیجہ میں آپ فرماتے تھے کہ پھر میں کبھی کوئی حدیث نہیں بھولا،آپ کے اس دعویٰ پر ہوسکتاہے کچھ شک گذراہوکہ ایک دن مروان بن الحکم نے آپ کوبلایا،مروان کے سکریٹری ابوالزعزہ کابیان ہے کہ مجھے پہلے ہی حکم مل چکاتھاکہ پردہ کے پیچھے بیٹھ کر جوکچھ بیان کریں لکھتاجاؤں،بہرحال یہ ہی ہوا،مروان مختلف انداز سے سوالات کرتا اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ احادیث کریمہ بیان کرتے جاتے اور میں پس پردہ لکھتاجاتاتھا،یہاں تک کہ ایک اچھاخاصہ مجموعہ تیار ہوگیا لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کوکچھ خبرنہ تھی۔اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ چلے گئے اور وہ مجموعہ بحفاظت رکھ دیاگیا۔ابوالزعزہ کہتے ہیں:مروان نے اس مجموعہ کوایک سال تک رکھ چھوڑا،اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کوپھر بلایااور مجھے بٹھاکر آپ سے وہی احادیث پھرپوچھیں،میں کتاب دیکھتاجاتاتھا،پوری کتاب سنادی لیکن نہ کسی لفظ کااضافہ تھااور نہ کمی۔(تدوین حدیث مع اصول حدیث،ص ؍98) گویایہ آپ کاامتحان تھا جس میں آپ دعائے رسولﷺکی بدولت فائزالمرام رہے اور اہل دربارنے آپ کے قوت حافظہ کی توثیق کی۔

کتابت حدیث:حضرت حسن بن عمروبیان کرتے ہیں:میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کے سامنے ایک حدیث پڑھی،آپ نے اس کوتسلیم نہ کیا،میں نے عرض کیا:یہ حدیث میں نے آپ ہی سے سنی ہے،فرمایا:اگرواقعی تم نے یہ حدیث مجھ سے سنی ہے تو پھریہ میرے پاس لکھی ہوئی موجودہوگی۔پھرآپ میراہاتھ پکڑ کرمجھے اپنے گھرلے گئے،آپ نے ہمیں حضورﷺکی احادیث کی کئی کتابیں دکھائیں،وہاں وہ متلعقہ حدیث بھی موجودتھی،آپ نے فرمایا:میں نے تم سے کہاتھاناکہ اگریہ حدیث میں نے تمہیں سنائی ہے توضرورمیرے پاس لکھی ہوگی۔ (تدوین حدیث مع اصول حدیث،ص87)اس روایت سے ظاہرکہ آپ کے پاس تحریر شدہ احادیث دس پانچ نہیں تھیں بلکہ جوکچھ وہ بیان کرتے تھے ان سب کوقید کتابت میں لے آئے تھے۔قارئین کرام اس بات سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ صحابہ کے دور میں کتناعظیم ذخیرۂ حدیث بشکل کتابت ظہورپذیرہوچکاتھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں لوگ کثرت سے اپنے بچے حفظ احادیث کے لیے بٹھاتے تھے۔آپس میں مذاکرۂ حدیث کاطریقہ بھی جاری کیاگیاتھا،اساتذہ متعلمین کاآموختہ سنتے،سبقاًسبقاً احادیث یاد کرائی جاتی تھیں،کوئی صرف پانچ حدیثوں کادرس دیتا اور کوئی دوہی پر اکتفاکرلیتاتھا۔(تدوین حدیث مع اصول حدیث،ص97)

روایات کے مجموعے:روایت حدیث میں آپ کی شان امتیازی حیثیت کی حامل ہے،پانچ ہزار سے زائد احادیث کاذخیرہ تنہاآپ سے مروی ہے جوآج بھی کتابوں میں محفوظ ہے۔آپ کی روایات بھی آپ کے دور میں جمع وتدوین کے مراحل سے گزرکرکتابی شکل میں جمع ہوگئی تھیں،اس سلسلے کے چند نسخے مشہورہیں۔
(۱)پہلانسخہ بشیربن نہیک کامرتب کردہ ہے۔وہ کہتے ہیں:میں جوکچھ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے سنتاوہ لکھ لیاکرتاتھا،جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تووہ مجموعہ میں نے آپ کوپڑھ کرسنایااور عرض کیا:یہ وہ احادیث ہیں جومیں نے آپ سے سماعت کی ہیں،فرمایا:ہاں!صحیح ہیں۔(ابوداؤد،باب فی ترک الوضو،بحوالہ:تدوین حدیث،ص؍86)
(۲)دوسرامجموعہ زیادہ مشہور ہے اور یہ ہمام بن منبہ کامرتب کردہ ہے۔یہ اب چھپ چکاہے۔اس مجموعہ کی اکثر احادیث مسند احمد،صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں،ان کے موزانہ سے پتہ چلتاہے کہ ان میں ذرہ برابرفرق نہیں،پہلی صدی اور تیسری صدی کے مجموعوں کی مطابقت اس بات کاکھلاثبوت ہے کہ احادیث ہرقسم کی آمیزش سے محفوظ رہیں۔یہ یمن کے امراء سے تھے،ان کے علاوہ تلامذہ اور خود آپ کے مرتب کردہ مجموعے بھی تھے۔(تدوین حدیث،ص؍86)

مرویات:آپ سے پانچ ہزار سے زائد احادیث مروی ہیں۔تین سوپانچ امام بخاری وامام مسلم دونوں نے،ترانوے صرف امام بخاری نے اور ایک سونوے صرف امام مسلم نے روایت کی ہیں۔امام بخاری کہتے ہیں کہ آپ سے آٹھ سوحضرات سے زیادہ نے روایات کی ہیں جن میں صحابی بھی ہیں اور تابعی بھی۔اجلہ صحابہ مثلاً: حضرت ابن عباس،ابن عمر،جابراور انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان سے احادیث اخذ کیں۔آپ اﷲ کے فضل پریوں شکراداکرتے،یتیمی میں پلا،مسکینی کی حالت میں ہجرت کی،بسرہ بن غزوان کانوکربنا،انہوں نے میری شادی بھی کردی،اس اﷲ کاشکر جس نے دین کوپشت پناہ اور ابوہریرہ کوامام بنادیا۔اتنی کثرت کے ساتھ حدیثیں بیان کرنے کے باوجودروزآنہ ہزار رکعت نفل پڑھتے۔ ( نزھۃ القاری، کتاب الایمان، ص250) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:صحابہ کرام میں سے کسی کے پاس مجھ سے زیادہ احادیث پاک کاذخیرہ نہیں ہے۔(مسند احمد بن حنبل ،بحوالہ:تدوین حدیث مع اصول حدیث،ص؍80)

عہدخلفاء میں خدمات:عہد رسالت ﷺکے بعد بھی آپ کی زندگی دینی،علمی اور مجاہدانہ کارناموں سے لبریزہے۔عہدصدیقی میں آپ گوشہ نشین ہوکر اشاعت حدیث کی خدمت انجام دیتے رہے۔سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے زمانہ خلافت میں بحرین کے عامل رہے۔سیدناعثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں مشرقی ممالک میں ہونے والے جہاد میں شرکت کے لیے مدینۂ منورہ آئے۔شورش کے زمانے میں لوگو ں کوسیدناعثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی امدادوحمایت پرآمادہ کرنے کی بھرپورکوشش کی۔ارباب سیر کے بیان کے مطابق آپ ان حضرات میں شامل تھے جوحضرت عثمان ذوالنورین رضی اﷲ عنہ کے دفاع کے لیے جان ہتھیلی پررکھ کرکاشانۂ خلافت میں موجود تھے۔سیدناعلی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں جب فتنوں نے سراٹھایاتو بہت سے صحابۂ کرام نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ،انہی میں آپ بھی شامل تھے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں بھی بعض موقعوں پر امارت مدینہ کے فرائض انجام دیئے۔

دعائے وصال:59؍ہجری میں 87؍سال کی عمرپاکر مدینۂ طیبہ میں وصال فرمایا۔یہ دعامانگاکرتے ،اے اﷲ!60؍ہجری اور چھوکروں کی حکومت سے پناہ مانگتاہوں،اس دعا سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ جو حامل اسرار تھے انھیں معلوم تھاکہ 60؍ہجری کاآغاز لڑکوں کی حکومت اور فتنوں کاوقت ہوگا۔ان کی یہ دعاقبول ہوئی اور یزیدپلید کے تسلط سے سال بھرپہلے مدینۂ طینہ میں رحلت پائی۔( نزھۃ القاری ، کتاب الایمان،ص250،خطبات محرم،ص؍341)

درس:حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی حیات طیبہ کے ان درخشاں پہلوؤں سے جہاں رسول اکرمﷺکا اپنے غلاموں پر کرم فرمانامعلوم ہوا،وہی اس بات کابھی درس حاصل ہوا کہ راہ اسلام میں پہلے قربان ہوناپڑتاہے تب کہی جاکر نوازشات،انعامات و اکرامات کے دروازے کھلتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ اسلاف کرام کی حیات مبارکہ سے درس حاصل کرتے ہوئے حصول علم کے لیے کوشش کریں اورتبلیغ دین کافریضہ انجام دیں۔اﷲ پاک علم وعمل کی توفیق عطافرمائے۔آمین
مٹادے اپنی ہستی کو اگرکچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کرگل وزار بنتاہے
٭٭٭
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 718168 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More