دہشتگردی کی بیخ کنی کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیر

گزشتہ ایک دہائی سے پوری قوم دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ افواج پاکستان مسلسل اس عفریت سے نبرد آزماء ہیں۔ انہوں نے پرخطر علاقوں میں بہت سے آپریشن کئے اور انہیں دہشت گردوں سے پاک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے افسر اور جوان اس جنگ میں شہید ہوئے۔ اسی طرح حکومت اس کے دیگر اداروں کے افراد بھی دہشت گردی کیخلاف اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ انہیں بھی شدید خطرات ہیں۔ عام شہریوں نے بھی دہشت گردی کے مختلف واقعات میں اپنی جانیں گنوائیں۔بہت سے افراد آئی ڈی پیز بننے پر مجبور ہوئے۔ اب بھی آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے آئی ڈی پیز کی بڑی تعداد موجود ہے۔اپنے گھر بار کو چھوڑنا کسی بڑی قربانی سے کم نہیں۔ اسی طرح دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں سے ہماری معیشت تباہ حال ہوچکی ہے۔ پاکستان کا عالمی امیج بھی متاثر ہواہے۔ اس طرح قوم کا ہر شہری، ہر طبقہ اور ہر کونہ دہشت گردی سے متاثر ہے۔ دوسری طرف دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیوں کے باوجود بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے۔ سیکورٹی فورسز اگر اپنی جان پر کھیل کر انہیں گرفتار کرتی یا ان کے خلاف کوئی کارروائی کرتی تو وہ عدالتوں سے خود کو آزاد کروا لیتے۔ اس طرح دہشت گردوں کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ جتنی چاہیں سفاکی کرلیں، پاکستان میں انہیں کوئی بھی تختہ دار پر لٹکا نہیں سکتا۔ اس صورتحال میں وہ بے خوف و خطر ریاست اور شہریوں کو نشانہ بناتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ سانحہ پشاور رونما ہوا۔ جس نے پوری قوم کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کردیا۔

حکومت نے فوری طور پر پھانسی پر عائد پابندی ختم کی اور دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ کیا تاہم پھر وہی قانونی سقم اور رکاوٹیں آڑے آگئیں۔ عدالتوں کی کارروائی پر دہشت گردوں کے اثرات محسوس کئے گئے۔ شنوائی میں تاریخ، گواہان کو عدم تحفظ کا احساس، تشویش اور تشویشی افسران اور عملے کی سیکورٹی کے مسائل․․واقعی یہ غیر معمولی حالات ہیں ۔ ایک طرف ملک و قوم کا وجود ہے تو دوسری طرف دہشت گردکی کالی چادر ․․․ قوم کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ان غیرمعمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے کرنے پڑے۔ حکومت نے فوری طور پر کل جماعتی کانفرس بلائی اور آئینی ترمیم کرکے دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا جو قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری کے بعد 7جنوری 2015ء سے آئین کا حصہ بن کر پاکستان بھر میں نافذ العمل ہوچکا ہے۔ ترمیمی ایکٹ کے تحت فوری طور پر ملک کے چاروں صوبوں میں فوجی عدالتیں قائم کردی گئیں ہیں۔پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے اس بارے میں بتایا کہ ملک میں دہشت گردی کے تدارک اور دہشت گردوں کو جلد ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے 9 فوجی عدالتیں بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن کے قیام کے لیے کام شروع کردیا گیا ہے اور یہ عدالتیں جلد ہی اپنا کام شروع کردیں گی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 3،3، سندھ میں 2 جب کہ بلوچستان میں ایک فوجی عدالت قائم کی جائے گی۔یاد رہے کہ عدالتوں میں کیس صرف اور صرف مرکزی حکومت بھجوایا کرے گی۔ آئینی ترمیم کی شق3کے تحت فوجی عدالتیں صرف دو سال کیلئے قائم کی جائینگی اور مدت مکمل ہونے پر خودبخود ختم ہو جائیں گی۔

پشاور سانحے کے بعد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں سیاسی پارٹیوں نے فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق کیا تھا مگر بعد میں بعض جماعت نے تحفظات کا اظہار بھی شروع کر دیا تاہم اکثریت نے اس کے حق میں ووٹ دیا کہ جن حالات سے پاکستان اس وقت دوچار ہے، اس طرح کے غیر معمولی اقدامات سے ہی ان سے نکلا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کااس حوالے سے کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کا قیام ناگزیر ہے۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے کرنے کا وقت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتو ں میں وہی مقدمے چلیں گے جسکی منظوری حکومت دے گی۔ اس طرح وزیراعظم نے واضح کردیا کہ دہشت گردوں کو فوری طور پر انجام تک پہنچانے کے لئے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گئے تاہم ساتھ ہی انہوں نے وفاقی حکومت کی طرف سے مقدمے کی منظوری کا اعلان کرکے دراصل ان خدشات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے جو بعض جماعتوں اس حوالے سے رکھتی ہیں۔مثلاََیہ طے کیا گیا کہ کراچی میں لسانی بنیادوں پر قتل اور بلوچستان میں ریاستی تنصیبات پر حملوں میں ملوث باغیوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں چلیں گے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی فوجی عدالتوں کو جمہوریت سے متضاد لیکن وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔ قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ پاک فوج آئین قانون اور جنیوا معاہدے کی پابند ہے۔ فوجی عدالتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سب کو لٹکانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں سیاستدانوں تاجروں میڈیا کے نمائندوں یا عام شہریوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ ان تمام وضاحتوں کے بعد اب اس مسئلہ پر بحث ختم ہونی چاہئے اور قوم کی تمام تر توجہ دہشتگردوں کیخلاف جنگ میں فوج حکومت اور سیاسی قیادت کے ہاتھ مضبوط کرنے پر مرکوز ہونی چاہئے۔ وفاقی حکومت نے پہلے مرحلے میں ان مقدمات کو فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں فوجی اور قانون نافد کرنے والے اداروں کے افراد اور سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا اور جو مقدمات اس وقت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اس ضمن میں تمام صوبوں کے حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے مقدمات کی تفصیلات فوری طور پر وزارت داخلہ کو بھجوائیں تاکہ اس پر کارروائی شروع کی جاسکے۔ جو مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجیں جائیں گے ان کی سماعت از سر نو شروع نہیں ہوگی بلکہ وہیں سے شروع ہوگی جہاں ان مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ختم ہوئی تھی۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد ہر پاکستانی امید رکھتا ہے کہ اس سے دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی ہوگی۔ فوجی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردوں کو فوری طور پر ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے گا۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے عام عدالتوں پر منفی اثر پڑیگا یا پھر ان پر اعتماد اٹھ جائیگا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے،کیونکہ دہشت گرد عناصر جو مختلف حربوں کے ذریعے گواہان اور تحقیقات اور شنوائی پر اثر انداز ہوتے ہیں، انہیں فوجی عدالتوں کے ذریعے ایسا کوئی موقع نہیں دیا جائے گا۔ ہر محب وطن پاکستانی کی یہی خواہش ہے کہ دہشت گردوں نے جس سفاکی اور بربریت کے ساتھ پاکستان اور اس کے باسیوں کی معصوم جانوں کو مسلا، ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے اوردہشت گردوں کو عبرت کا نشان بنادیا جائے۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 73245 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.