مقبوضہ کشمیر میں حالیہ انتخابات
کے دوران کل 87نشستوں میں محبوبہ مفتی کی pdpنے28اوربی جے پی نے
25‘کانگریس12‘عمرعبداﷲ کی نیشنل کانفرنس 15‘پیپلزکانفرس 2‘پی ڈی ایف اور سی
پی آی ایم ایک ایک اور3نشستیں آزاد اُمیدوارلے اُڑے ۔کسی جماعت کو واضح
برتری نہ ملی۔بی جے پی اس نعرے کیساتھ بھارتی الیکشن میں اُتری تھی کہ
ریاست کی ڈیموگرافی تبدیل کرکے مسلم حیثیت ختم کردے گی‘اس بناء پر جموں
ولداخ میں غیرمسلم اکثریت کے علاقے میں اُسے کامیابی ہوئی۔پی ڈی پی نے
الیکشن میں توپوں کارخ بی جے پی کی جانب کردیااورمخالف ووٹ کیش کرایا۔
نتائج سامنے آنے کے بعدپی ڈی پی کو پراپنے ووٹرز کا دباؤ بڑھتاگیا ‘بات چیت
کے باوجود وہ بی جے پی سے ہاتھ نہ ملاسکی۔نیشنل کانفرنس نے pdpکو غیرمشروط
حمایت کی یقین دہائی کرائی‘کانگریس نے بھی بی جے پی کو مات دینے کیلئے
گرینڈالائنس کی پیشکش کی لیکن پی ڈی پی کا خیال تھا کہ بی جے پی سے مخالفت
مول لینے کامقصد مرکز سے فنڈز کی عدم دستیابی کی صورت میں نکلے گا‘لہذا وہ
مخمصے کاشکار رہی اوراسی کش مکش میں بھارت نے کشمیر میں گورنر راج نافذ
کردیا۔گزشتہ 37سالوں میں ریاست میں چھٹی بارگورنرراج قائم ہواہے۔
دوسری جانب دہلی میں 17فروری سے ہی صدرراج نافذ ہے ۔گزشتہ انتخابات میں عام
آدمی پارٹی کو28‘بی جے پی کو31اورکانگریس کو محض 8سیٹیں ملیں اورعام آدمی
پارٹی کے سربراہ اروندکجریوال نے کانگریس کے آٹھ ممبروں کے ساتھ مخلوط
حکومت بنائی جو محض 49دن چل سکی۔انڈین الیکشن کمیشن کے سربراہ وی ایس سمپت
نے 13085251ووٹرز اور70سیٹوں کی مالک دہلی اسمبلی کے انتخابات 7فروری کو
کرانے کااعلان کر کیاہے‘10 فروری کو ووٹوں کی گنتی جبکہ 15تک فائنل رزلٹ
سامنے آئے گا۔12نشستیں مخصوص ہیں اور11763پولنگ مرکز قائم کیئے
جائینگے۔شکست خوردہ کانگریس نے ابتک 24 نشستوں پر اُمیدوارکھڑے کیئے ہیں
جبکہ اروندکجریوال نے تمام سیٹوں پر اُمیدواروں کا اعلان کرتے ہوئے خود ہلی
سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیاہے۔دہلی میں الیکشن کا ضابطہء اخلاق نافذ
ہوچکاہے جبکہ آٹورکشہ کے پیچھے اشتہاری مہم کامعاملہ ابھی عدالت میں ہے۔
اسوقت پورے ہندوستان میں محض دہلی اسمبلی میں انتخاب کا دنگل سجنے
جارہاہے۔اس لیئے تمام پارٹیوں کی نگاہیں اسی الیکشن پر مرکوز ہیں۔خیال
کیاجارہاہے کہ بی جے پی جو مقبوضہ وادی میں ریاست کی مسلم حیثیت کو ختم
کرنے کا نعرہ لے کر لوک سبھاکے انتخابات جیتی ہے وہ فی الحال مقبوضہ کشمیر
میں حکومت سازی کو لٹکائے رکھناچاہتی ہے کیونکہ اگر وہ پی ڈی پی سے ملکر
کشمیر میں حکومت بناتی ہے تو اسے دہلی کے عوام کوجواب دہناہوگاکہ کس شرط پر
شراکت اقتدار کامعاہدہ ہوا۔اگر وہ 370پرنرم رویہ اپناتی ہے تو عام آدمی
پارٹی اورکانگریس اس بات کو ایشو بنا کر اسکے گرد گھیراتنگ کرسکتے
ہیں۔اسوقت عام آدمی پارٹی ہی بی جے پی کی مخالف نظرآرہی ہے کیونکہ کانگریس
پرانی پالیسیوں کے ساتھ چل رہی ہے اس نے درمیانی عمر کے اجے ماکن کوانتخابی
کمیٹی کاسربراہ بناکرآغازکیاہے ۔عام آدمی پارٹی کیلئے یہ الیکشن جیتنابہت
ضروری ہے کیونکہ ہندوستان میں دہلی ہی اسکی پہچان بناہے اگروہ اسے گنوادیتی
ہے تواسکے معدوم ہونے کاخطرہ ہے اوراگرجیت جاتی ہے تو مستقبل میں بی جے پی
کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔اسوقت ریڈیومہم بھی بی جے پی اورعام آدمی پارٹی کے
درمیان چل رہی ہے۔بی جے پی کی سرکار سرحدوں پر خوف وہراس پھیلاکربھی ہندو
ووٹرکو اپنی طرف متوجہ کررہی ہے ۔ 2014میں کم وبیش 243سرحدی خلاف ورزیاں
بھارت کی جانب سے کی گئیں ۔ بھارت نے فلیگ میٹنگ میں بھی دھوکہ سے پاکستان
رینجرز کے نوجوانوں کوشہید کیا۔
گورنر راج کی مدت چھ ماہ ہے اگر اس دوران سیاسی حکومت تشکیل پاگئی تو درست
ورنہ دوبارہ نئے انتخابات کااعلان ہوگا۔
نیشنل کانفرنس کے عمرعبداﷲ پی ڈی پی کو گورنرراج کا ذمہ دارٹھہرارہے ہیں کہ
اس نے سیکولر جماعتوں کی حمایت کے باوجود بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کی
کوشش کی اور گورنرراج لگ گیا۔ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماء شبیراحمد شاہ نے
بھی شرنارتھیوں کوشہریت دینے کے بھاجپافیصلے کو تنقید کانشانہ بناتے ہوئے
اسے ریاست میں مذہبی منافرت پھیلانے کے مترادف قراردیا۔ جبکہ گورنر راج کو
کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماء میرواعظ عمرفاروق اوربزرگ رہنماء سید علی
گیلانی نے غیراہم قراردیتے ہوئے کہاکہ ہمارے لیئے اصل مسئلہ حق خودارادیت
ہے۔تمام ترصورتحال کے پیش نظرہم یہ اندازہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ریاست
کشمیر میں حکومت سازی دہلی الیکشن تک موء خررہنے کے امکان ہیں اور نتائج کے
بعد ہی یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتادکھائی دیتاہے۔ |