کہتے ہیں جھوٹے کے پاؤں نہیں
ہوتے مگر یہاں تو پوری وزارت ملی ہوئی ہے . زیر موضوع صاحب پر سب سے پہلے
میں نے تحریک انصاف کے ٣٠ اکتوبر والے جلسے سے پہلے غور سے نظر ڈالی . سفید
بال اور نورانی چہرہ ، کسی سرکاری اسکول کا شفیق پرنسپل یاد آجاتا ہے .
موصوف نے کہا کے عوام نے عمران خان ساتھ نہیں دینا اور دس باراں ہزار سے
زیادہ کا جلسہ نہ ہوگا . جب جلسے کا اختتام ہوا تو موصوف نے ارشاد فرمایا
کہ دعوے سے کہتا ہوں کے سولاں ہزار کرسیاں لگی ہیں اور میں نے کرسیوں کی
بات کی تھی. غلط بیانی تو باقی سیاستدان بھی کرتے ہیں اور اکثر جھوٹ. خان
صاحب کو ہی لے لی جیے ، اکثر اعداد و شمار جو پیش کرتے ہیں وہ غلط ہوتے ہیں
. لیکن ایسے جھوٹ کو ہم سفید جھوٹ نہیں بلکہ جانبدار جھوٹ کہتے ہیں جہاں
انسان اپنی غیر جانبداریت کھو کر لا شعوری طور پر غلط بیانی کرتا ہے . اسکی
سب سے بڑی مثال شہباز شریف کے بجلی والے دعوے . کچھ جھوٹ ہوتے ہیں پچھلی
حکومت کے وزیر داخلہ والے. اس جھوٹ کی تعریف یہ ہے کہ غیر سنجیدگی کے عالم
میں انسان بہت سی باتیں اپنی طرف سے کہہ جاتا ہے . لیکن الله کی پناہ ، ان
حضور نے تو اپنی ہی قسم دریافت کی ہے . اسکو آئندہ سے شائد وزیر اطلاعت سے
ہی یاد کیا جاۓ . اسمے انسان کے منہ پر جھوٹ بول کر اگلے ہی لمحے بات تبدیل
کر دینا شامل ہے . پتا بھی نہیں لگتا اور بات کی پہنچ جاتی ہے . ابھی چند
دن پہلے موصوف نے کس خوبصورتی سے الفاظ کا چناؤ کیا. "اگر لفظ بوگس کہیں
لکھا ہو تو بھی ایاز صادق سے استعفا لے لوں گا ". اس شرط سے انھوں نے عدالت
پر اپنا دباؤ بھی ڈال دیا اور انے والے دنوں میں جھوٹ کو سچ بھی بنا دیا .
اصل میں یہ جھوٹ ہے ہی نہیں سرے سے، یہ غلط اطلاع ہے اور یاد رہے غلط اطلاع
یعنی آدھا سچ پورے سفید جھوٹ سے خطرناک ہے . بہرحال دیکھتے ہیں جانے کتنے
دنوں تک ایسی غلط اطلاعات آتی رہیں گے. |