گزری اتوارعبدالماجدملک کی کتاب ’’سوچ نگر‘‘ کی
تقریبِ رونمائی میں جانے کاموقع ملا ۔ماجدکے بلاوے میں اصراراورخلوص ہی
اتناتھا کہ ڈھونڈے سے بھی معذرت کے الفاظ نہ ملے ۔تقریب میں جاکر احساس ہوا
کہ اگرمیں معذرت کرکے گھربیٹھ رہتی توایک خوشگوار دِن گزارنے کا لطف
کھودیتی ۔تقریب کے صدرنشیں محترم سجادمیر اورمقررین میں نمایاں ڈاکٹراجمل
نیازی،نجم ولی خاں ،گلِ نوخیزاختر ،مظفرمحسن ،فرخ شہبازوڑائچ ،ناصرمحمودملک
اور کچھ دوسرے لوگ شامل تھے۔مجھے بھی اپنے خیالات کااظہار کرنے کے لیے
کہاگیا لیکن میں نے معذرت کرلی کیونکہ کچھ نجی مصروفیات کی بناپر میں تو
’’سوچ نگر‘‘کے داخلی دروازے پر دستک تک بھی نہ دے سکی تھی ۔ویسے کچھ مقررین
نے میری طرح یہ اعتراف تو ضرورکیا کہ اُنہیں سوچ نگرکے مطالعے کاوقت نہیں
ملا لیکن پھربھی وہ لمباچوڑا اظہارِخیال کرگئے جس سے کم ازکم یہ توثابت
ہوگیا کہ ’’تبدیلی آ نہیں رہی ،تبدیلی آگئی ہے ‘‘۔یہ تبدیلی نہیں تو
اورکیاہے کہ اب ہم کتاب پڑھے بنابھی تجزیوں اور تبصروں کے ماہر ہوگئے ہیں۔
گلِ نوخیزاخترفنِ مزاح نگاری میں خراماں خراماں آگے بڑھتے چلے جارہے
ہیں۔اُنہوں نے اپنے مخصوص اندازمیں ’’اظہارِخیال‘‘کرکے محفل لوٹ لی ۔وہ
بولتے رہے اورہم قہقہے لگاتے رہے ۔ ناصرمحمودملک اور مظفرمحسن نے بھی ہلکے
پھلکے اندازمیں رنگ جمایا جبکہ نجم ولی خاں نے دِل کی بات انتہائی جذباتی
اندازمیں کہی ۔وہ کتاب کے بارے میں بہت کم بولے کیونکہ اُن کا دُکھ
دوسراتھا ۔اُنہوں نے کہاکہ آل پارٹیزکانفرنسزمیں تو جماعت اسلامی اورجمعیت
علمائے اسلام دہشت گردی کے خلاف یکسوتھیں لیکن جب آئینی ترمیم کی باری آئی
تودونوں نے ہی راہِ فراراختیار کرنے میں عافیت جانی ۔نجم ولی کا جذباتی
اندازاُن کے دلی دُکھ کا عکاس تھاجو مجھے بہت اچھالگا کیونکہ ہونابھی یہی
چاہیے کہ
ہزارخوف ہو لیکن زباں ہو دِل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
اب ایسابھی نہیں کہ میں’’سوٹڈبوٹڈ‘‘ نجم ولی خاں کو قلندرہی سمجھ بیٹھوں
لیکن یہ ضرور کہ اُن کے اندر کہیں نہ کہیں ایک قلندرچھپا بیٹھا ہے جوکبھی
کبھار عالمِ غیض میں نعرۂ مستانہ بلندکرتے ہوئے باہرنکل آتاہے ۔ڈاکٹراجمل
نیازی نے فرمایاکہ وہ تقریب میں آنے سے معذرت کرناچاہتے تھے لیکن جب اُنہیں
پتہ چلاکہ ماجد میانوالی کے گاؤں’’رَکھی‘‘کا باسی ہے تواُن سے رہانہ گیا
کیونکہ اُن کااپنا آبائی گاؤں بھی ’’رَکھی‘‘سے ملحق ہے ۔ڈاکٹرصاحب نے
دَورانِ تقریرعمران خاں اورریحام خاں کا ذکربھی کیا اورساتھ ہی یہ بھی
کہاکہ اِس شادی سے اداکارہ میرا اورعائلہ ملک کے دِل ٹوٹ گئے ،تب پیچھے سے
آوازآئی کہ اوربھی بہت سے دِل ٹوٹے ہیں جس پرڈاکٹرصاحب نے کہا’’مینوں تے
ایناں دوواں دا ای پتہ اے ،باقیاں دا تینوں پتہ ہووے گا‘‘(میں تو اِن دونوں
کے بارے میں جانتا ہوں،باقیوں کا آپ کوپتہ ہوگا)۔محترم سجادمیر نے اپنے
خطبۂ صدارت میں فنِ کالم نگاری کے بارے میں ایسی بہت سی باتیں کیں
جونَوآموز لکھاریوں کے لیے مشعلِ راہ تھیں ۔یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے
ایک استاداپنے طلباوطالبات کولیکچر دے رہاہو ۔یوں ہنستے مسکراتے یہ تقریب
اپنے اختتام کوپہنچی لیکن یہ بتانامیں بھول ہی گئی کہ ساری تقریب کامزہ
تواُس وقت دوبالاہواجب ہم ڈائننگ ہال میں پہنچے ۔تقریب کے اختتام تک چار بج
چکے تھے اورمارے بھوک کے بُراحال ۔ڈائننگ ہال کی میزوں پر سجے طرح طرح کے
کھانوں نے ہماری آنکھوں میں اشتہاکی چمک کوکئی گناکردیا اور پھر ہمیں نہیں
پتہ کہ ہم نے کیا کھایا،کتنا کھایا اورکیوں کھایا۔
گھرپہنچ کرہم نے سوچاکہ اب چونکہ ماجدکا نمک کھاچکے اِس لیے ’’سوچ نگر‘‘کا
مطالعہ کرہی لیناچاہیے کیونکہ اگر نہ کرتے تویہ ’’نمک حرامی‘‘ہوتی ۔سوچ نگر
کے مطالعے کے بعد میری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ اگرماجد کی تحریروں کو
ادبی معیارپر نہ پرکھاجائے تو اُن میں وہ سبھی کچھ مو جود ہے جوکسی بھی
مثبت سوچ رکھنے والے شخص کے دل کی آوازہو سکتی ہے ۔ماجدسے میراتعارف زیادہ
پرانانہیں لیکن اُس سے جب بھی ملاقات ہوئی، مجھے محسوس ہواکہ اُس نوجوان
میں کچھ نہ کچھ کرگزرنے کی اُمنگ جواں ہے ۔وہ مُنہ ٹیڑھاکرکے، انگریزی کے
جملے جھاڑکر دوسروں کو متاثرکرنے کی کوشش تونہیں کرتا لیکن اپنی فطری سادگی
کے سبب اپناحلقۂ احباب وسیع ضرورکرتا جارہاہے ۔ساری زندگی اُردوادب پڑھنے
اورپڑھانے کی بناپر مجھے ہمیشہ نسلِ نَوکے وہ لوگ بہت اچھّے لگتے ہیں جو
اُردوادب کے محافظ بن کراُبھر رہے ہیں ۔اُردوہماری قومی زبان ہے لیکن ہم نے
ہمیشہ اِس سے سوتیلی ماں کا ساسلوک کیاہے ۔اگر ماجدملک جیسی نسلِ نَواُردو
کی حفاظت کے لیے نکل کھڑی ہوئی ہے توہمیں اُنکی تحریروں میں ادبی موشگافیوں
کی تلاش کی بجائے اُنکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔ماں کے پیٹ سے توکوئی
لکھاری پیدا ہوتاہے نہ تجزیہ وتبصرہ نگار ،سبھی اِس دشتِ پُرخارکی سیاحی کے
شوق میں نکلتے ہیں ۔کچھ تھک کریہ سفر ادھوراچھوڑ دیتے ہیں اورکچھ سفر جاری
رکھتے ہوئے نمایاں ہوجاتے ہیں ۔جس ماجدکو میں جانتی ہوں اُس نے چھوٹی سی
عمرمیں زندگی کے سارے نشیب وفرازکو دیکھا ،پرکھا اورسہا ۔یہی وجہ ہے کہ
اُسکی تحریروں میں ایک سبق موجودہے اور لائقِ تحسین یہ کہ یہ سبق دینِ مبیں
کے تابع ہے ۔جوقاری بھی سوچ نگرکا مطالعہ کرے گااُسے یہ اندازہ لگانے میں
کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ ماجدکے اندرایک’’ نوجواں مسلم ‘‘کادل دھڑکتاہے
۔اُس کی یہی خوبی اُس کی ساری ادبی خامیوں(اگرکوئی ہیں)پر حاوی ہوجاتی ہے
۔اُس کادُکھ یہ ہے کہ وہ جب تہذیبِ حاضرکو دینِ مبیں سے متصادم دیکھتاہے تو
چلا اُٹھتاہے اور جذبات کی یہی رَواُسے ادبی پختگی سے دورلے جاتی ہے لیکن
اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ قاری پراپنا نقطۂ نظرضرور واضح کر
جاتاہے اورمیرے نزدیک ایک اچھّی تحریرکی خوبی بھی یہی ہونی چاہیے
۔سرسیّداحمدخاں کی تحریروں کے بارے میں مولاناالطاف حسین حالی نے لکھاتھا
کہ سرسیّد کی حالت تواُس شخص کی سی تھی جس کے گھرمیں آگ لگی ہوئی ہواور وہ
لوگوں کو مددکے لیے پکاررہاہو ۔ماجدبھی جب یہ کہتاہے کہ ’’میں تو شرمندہ
ہوں اِس دَورکا انساں ہوکر‘‘ تو یوں محسوس ہوتاہے کہ وہ تہذیبِ حاضرکے
درندوں سے نبردآزما ہے ۔مجھے یہ بھی محسوس ہوتاہے کہ جیسے ماجدخوداپنی تلاش
میں ہو۔اسی لیے کبھی وہ شہرِ خموشاں میں نکل جاتاہے توکبھی قیامت کی
نشانیاں ڈھونڈنے لگتاہے ،کبھی تفرقوں میں نہ پڑنے کادرس دیتاہے توکبھی
اسلاف کی دنیامیں گُم ہوجاتاہے ۔حصولِ منزل کی لگن اور ’’ادھوری سوچیں‘‘ہی
اُس کاسرمایۂ حیات ہیں ۔اگر اُس نے اپناسفر جاری رکھاتو مجھے یقین ہے کہ
ایک نہ ایک دِن اُسے ڈھیروں ڈھیر قاری بھی مل جائیں گے ۔ |