دہشت گردوں نے ۱۳۱ پھولوں ، ان کی پرنسپل ،
اساتذہ اور دیگر افراد کے جنازے دے کر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو
مجبور کردیا کہ وہ باہم مل کر دہشت گردی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قلہ قمع
کریں۔ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ء کے المناک سانحۂ نے پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی
جماعتوں کو ایک نکتہ پر متفق کردیا کہ پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری
ہے۔ یہ ہماری ۶۷ سالہ تاریخ کا انتہائی درد ناک اور اذیت ناک واقعہ ہے ۔
ایسی مثال تو پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ حادثہ دہشت گردی کی ایسی
بد ترین مثال ہے کہ مسلمان تو کیا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کا دل
کانپ جاتا ہے، روح تڑپ اٹھتی ہے۔ اس واقعہ کو رونما ہوئے کئی دن گزرچکے ہیں
لیکن آج بھی ٹی وی اسکرین پر یا اخبارمیں کسی ہنستے مسکراتے پھول کی تصویر
نظر کے سامنے آجاتی ہے تو جسم کانپ جاتا ہے، دل میں ایک آہ سی اٹھتی ہے۔
افسوس صد افسوس ایسا درد ناک عمل کرتے ہوئے ظالم دہشت گروں کے ہاتھ اس نہیں
لرزے ، ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا، ان کے دل پتھر کے ہوگئے جب
انہوں نے معصوم پھولوں کو بے دردی، بے رحمی اور درندگی کے ساتھ خون
میں نہلاکر شہید کیا۔ اس بے رحمانہ فعل کے نتیجے میں بھی ہماری سیاسی قیادت
انتہائی فیصلے نہ کرتی تو شاید قوم تو انکا کچھ نہ بگاڑ سکتی لیکن اﷲ کی
لاٹھی کبھی نہ کبھی انہیں ضرور اپنی گرفت میں لیتی۔
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے وقت کی اہم ضرورت
تھی اسے ہر صورت میں ہونا چاہیے تھا۔ معصوم بچوں کے بہیمانہ قتل اور شقاوتِ
قلبی کی خون آلود واردات نے پاکستان کی قومی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنے ،
سیاسی اختلافات ختم کرنے پر مجبور کردیا۔ سیاسی و عسکری قوت نے ایک دوسرے
کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ملک قوم کو اس سانحہ سے نکالنے اور ملک سے دہشت
گردی کی جڑیں اکھاڑ نے کا عزم کیا۔وزیر اعظم محمد نواز شریف نے قومی و
پارلیمانی رہنما ؤں کی تین آل پارٹیز کانفرنسز بلائیں۔ تمام سیاسی جماعتوں
کے نمائندوں نے متفقہ طور پردہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ چلنے اور
افواج پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے پر اتفاق کیا۔ حکومت،
مخالفینِ سیاست اور افواج پاکستان ایک پیج پر آگئے۔حکومتیِ ذمہ داران اور
سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے ۲۴ دسمبر کو ہونے والے اجلاس کا دورانیہ ۱۱
گھنٹے تھا ۔ اس طویل اجلاس کے بعد قوم کے نمائندوں نے دہشت گردوں سے نمٹنے
کے لیے حکمت عملی تیاری کی اور ۲۰ نکاتی’ قومی ایکشن پلان ‘تیار کیا ۔ایکشن
پلان کے نکات حسب ذیل ہیں۔
۱۔دہشت گردی میں ملوث سزا یافتہ مجرموں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کو
یقینی بنا یا جائے گا۔
۲۔فوجی افسران کی سربراہی میں اسپیشل ٹرائل کورٹ کا قیام عمل میں لایا جائے
گا۔
۳۔ خصوصی عدالتوں کی مدت دو سال ہوگی۔
۴۔ملک میں مصلح اور دہشت گرد گروپ کے قیام اور سرگرم عمل ہونے کی اجاذت
نہیں ہوگی۔
۵۔انسداد دہشت گردی کے ادارے ٹیکنا کو مضبوط اور فعال بنایا جائے گا ۔
۶۔ نفرتیں ابھارنے ، گردنیں کاٹنے ، انتہا پسندی اور فرقہ واریت اور عدم
برداشت کو فروغ دینے والے لٹریچر اخبارات و رسائل کے خلاف موثر اور بھر پور
کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
۷۔ دہشت گردوں کی مالی اعانت کے تما م وسائل کومکمل طور پر ختم کردیا جائے
گا۔
۸۔کالعدم تنظیمو ں کو کسی دوسرے نام سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
۹۔ اسپیشل اینٹی ٹیررارزم فورس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
۱۰ٍ۔ مذہبی انتہا پسندی کو روکنے اور اقلیتو ں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے
گا۔
۱۱۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی کاا ہتمام ۔
۱۲۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دہشت گردوں اور ان کے نظریات کی تشہیر پر
مکمل پابندی۔
۱۳۔ بے گھر افراد کی فوری واپسی عمل میں لائی جائے گی۔
۱۴۔ فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کے عمل کو تیز کیا جائے گا۔
۱۵۔ دہست گردوں کے مواصلاتی نیٹ ورک کا مکمل خاتما کردیا جائے گا۔
۱۶۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشت گردی کے فروغ کی روک تھام کے لیے
اقدامات کرنا۔
۱۷۔ کراچی میں جاری آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانا۔
۱۸۔ وسیع تر سیاسی مفاہمت کے لیے تمام فریقین کی طرف سے حکومت بلوچستان کو
مکمل اختیارات دینے کا فیصلہ۔
۱۹۔ فرقہ واریت پھیلانے والے عناسر کے لیے فیصلہ کن کاروائی۔
۲۰۔ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن جیسے اقدامات قومی ایکشن پلان کا حصہ ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف ان نکات پر اتفاق رائے حاصل کرنے، تمام
سیاسی جماعتوں کو اس پر متفق کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب مرحلہ تھا قومی
ایکشن پلان پر عمل در آمد کا۔ قومی ایکشن پلان کے پہلے نکتے’ دہشت گردی میں
ملوث سزا یافتہ مجرموں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد‘ تو شروع کردیا گیا
اورکئی پھانسی کے مجرموں کو تختہ دار پر لٹکا یا جاچکا ہے اور دیگرکی سزاؤں
پر عمل درآمد تمام تر قانونی کاروائی مکمل ہونے پر عمل در آمد شروع کردیا
جائے گا۔ ایکشن پلان کا دوسرا اہم نکتہ ’فوجی عدالتوں کا قیام‘ اہم قانونی،
سیاسی وجمہوری پیچیدگی کا حامل تھا۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ اس
بات میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی جمہوری ملک میں، جمہوری حکومت کی موجودگی
میں فوجی عدالتوں کا قیام حکومت اور جمہوریت پر ایک سوالیہ نشان ہوا کرتا
ہے۔جمہوریت اور فوجی عدالتیں دو متضاد چیزیں ہیں۔ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے
کہ ہماری سیاسی جماعتیں فوجیوں کی قائم کردہ حکومت کے خلاف ہمیشہ ڈنڈا ہاتھ
میں لیے رہی ہیں اور جمہوری حکومت کے قائم ہوجانے کی صورت میں جمہوری حکومت
کو ختم کرنے کے لیے فوجیوں کی جانب دیکھتی نظر آتی ہیں۔جیسا کہ اب بھی بعض
سیاسی رہنما بانگِ دہل کہہ رہے ہیں کہ فوج کو ملک کا نظم و نسق اپنے ہاتھ
میں لے لینا چاہیے۔یہی سیاسی رہنما فوجی قیادت کو ڈکٹیٹر کی حکومت کہتے
نہیں تھکتے ۔ انہیں سولی پر چڑھانے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ کارکردگی کے
حوالے سے پاکستان کی تاریخ میں جو ترقی فوجی قیادت کے ادوار میں ہوئی وہ
جمہوری دور میں نظر نہیں آئی۔حکومت اور مخالف سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے
پر پاکستانی عوام نے نہ صرف سکھ کا سانس لیا بلکہ ان کے اندر ایک امید کی
کرن دکھائی دی کے اب پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف ایسی
حتمی اور فیصلہ کن کاروائی ہوگی کہ عوام کو ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات
مل جائے گی۔ پاکستان کے قاتون ساز ادارے قومی اسمبلی نے ادھر فوجی عدالتوں
کا قانون کثرت رائے سے منطور کیا چند لمحے بھی نہ گزرے تھے کہ ملک کی ایک
بڑی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے
پریس کانفرنس کر کے اپنے تحفظات میڈیا کے سامنے بیان کردئے۔ دوسری جانب
جماعت اسلامی بھی مولانا کی حامی نظر آئی، شیخ رشید بھی اسمبلی میں موجود
نہیں تھے، کپتان تو پہلے ہی سے اسمبلی سے باہر تھے دوسرے یہ بھی کہ وہ ان
دنوں اپنی نجی زندگی میں زیادہ ہی مصروف رہے، ان کی مصروفیات اب سب کے
سامنے آہی چکی ہیں۔ کسی کے ذاتی معاملات میں دخل مناسب نہیں،انہوں نے کچھ
غلط نہیں کیا، البتہ غلط وقت کا انتخاب کیا، کچھ تَوقُف کر لیاجاتا تو وہ
ان ہی کے حق میں بہتر ہوتا ، پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے دورے کے موقع پر
انہیں شہید بچوں کے والدین کے احتجاج کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
۲۱ ویں ترمیم کی حمایت کرنے والوں میں متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) اور
ان کے قائد الطاف حسین پیش پیش تھے انہوں نے قومی اتفاق رائے کو اپنے موقف
کی کامیابی قرار دیا، متحدہ نے ملک بھر میں یوم تشکر بھی منایا ۔ ترمیم کی
حمایت کرنے والوں میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل تھی،جب ساتھ دیا تو اس
پر قائم رہیں ۔اس کی مثال کچھ ایسی ہے کہ آم کھاتے وقت تو ساتھ تھے بعد میں
تھو تھو ۔ سینٹ میں پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہا’ ضمیر کے خلاف
ووٹ دیا، جتنا شرمندہ آج ہوں پہلے کبھی نہ ہوا‘۔ تقریر کرتے ہوئے اپنے
جذبات پر قابو نہ رکھ سکے انہوں نے کہا کہ’ مجھے ۱۰ سال سینٹ میں ہوچکے ہیں
جتنا شرمندہ آج ہوا ہوں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، یہ ووٹ پارٹی کی امانت
تھا جو میں نے دیدیا۔ آئندہ کا لائحہ عمل میرے اوپر ہے آج میں نے اپنے ضمیر
کے خلاف ووٹ دیا ‘یہ کہہ کر وہ آبدیدہ ہو کر مزید کچھ کہے بغیر بیٹھ گئے۔
کسی نے رضاربانی کے آنسوؤں کو مگر مچھ کے آنسو قرار دیا ،تجزیہ نگار ادریس
بختیار نے سینیٹر رضا ربانی کو مشورہ دیا ہے جو غلط نہیں کہ ووٹ اگر پارٹی
کی امانت تھا تو وہ انہوں نے دے دیا، استعفیٰ تو ان کاا پنا ہے ۔ انہیں
اپنا یہ اختیار استعمال کر لینا چاہئے۔ وہ کچھ کھوئیں گے نہیں ، ان کی عزت
میں اضافہ ہی ہوگا‘۔ اسی پارٹی کے خورشید شاہ صاحب نے استدلال دیا کہ ’ہم
بوجھل دل سے آئین میں ترمیم کر رہے ہیں‘۔حاصل بزنجو نے فرمایا کہ ’ہم زہر
کے گھونٹ پی کر فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے ووٹ دے رے ہیں‘۔
مولانا فضل الرحمٰن نے فوجی عدالتوں کے قانون کے حوالے سے حکومتی طرز عمل
پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشتگردی مذہی یا غیر مذہی نہیں ہوتی شکر
ہے گناہ سے بچ گئے‘۔گویا تمام سیاسی جماعتوں کے باہمی اتفاق سے پاس ہونے
والے فوجی عدالتوں کے قیام کا قانون ایک گناہ ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ۲۱
ویں آئینی ترمیم و آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے حکومت نے ان کو اعتماد
میں نہیں لیا ۔ کیونکہ ملٹری کورٹس سپریم کورٹ سے ماورا ہیں اﷲ کا شکر ہے
کہ اس نے ہمیں بل کی منظوری میں حصہ لینے کے گناہ سے محفوظ رکھا‘۔مولانا نے
تین تجاویز دیں ان میں ایک دہشت گردی کے ساتھ مذہب اور مسلک کو نہ جوڑا
جائے۔ دوسری تجویز فوجی عدالتوں کے لیے دی جانے والی دو سالہ آئینی مدت میں
کسی بھی صورت توسیع نہ کی جاے ۔ مولانا کی تیسری تجویز یہ تھی کہ فوجی
عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا حق ہونا چاہئے۔ امیر جماعت
ِ اسلامی سراج الحق نے کہا’ دہشت گردی کے خلاف قوم میں جو اتفاق رائے پیدا
ہوا ہے حکومت اپنے ہاتھوں سے اسے تباہ کرنے کی کوشش نہ کرے انہوں نے کہا ہم
نے اکیسوی آئینی ترمیم میں جو ترمیم پیش کی تھی اس میں سب کی بھلائی تھی۔
ہم نے کہا تھا کہ مدارس کے بجائے ترمیم میں تعلیمی اداروں کا لفظ لکھا
جائے‘۔مولانا فضل الرحمٰن ، ساجد میر یا سراج الحق کی تجاویز ایسی نہیں کہ
انہیں شا مل کرنے سے کوئی قیامت آجائے گی۔ انہیں احسن طریقے سے پہلے ہی
شامل کیا جاسکتا تھا لیکن مولانا کی سیاسی تاریخ کچھ اسی قسم کی ہے وہ پہلے
نانا کرتے ہیں پھر ہاں ہاں کر دیتے ہیں۔حکومت انہیں بلا لے وہ فوراً مان
جائیں گے۔ ویسے وزیر واعظم صاحب نے آج ہی (۱۱جنوری) کہا ہے کہ ’آئینی
ترامیم پر تحفظات دوور کرینگے، غیر معمولی حالات کے باعث غیر معمولی فیصلے
کیے ،دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تنہا نہیں جیتا جاسکتا ، سب مل کر ہی اس کا
مقابلہ کرسکتے ہیں‘۔
اس میں شک نہیں کہ ترمیم منظور ہوجانے سے قبل ہی مذہمی جماعتوں نے اپنے
تحفظات کا اظہار کردیا تھا اور یہ بھی اچھا عمل تھا وزیراعظم صاحب کا کہ
انہوں نے ان کے تحفظات دور کرنے کی ہداہت کردی تھی کہا جاتا ہے کہ ایک جانب
مولانا صاحب سے ترمیم پر تحفظات دور کرنے کے لیے مذاکرات ہورہے تھے تو
دوسری جانب قومی اسمبلی میں بل پر رائے شماری شروع ہوچکی تھی۔۲۱ ویں ترمیم
صرف چار گھنٹے میں بل سے ایکٹ بن کر نافذ ہوگئی۔ یہ کوئی اچھی راویت نہیں
وزیر اعظم صاحب نے تحفظات دور کرنے کے لیے ٹیم کو ہدایت دی تھیں تو مولانا
کے ساتھ ہونے والے نتیجے کا انتظار کرلینا چاہیے تھا۔ اس جگہ مولانا کا غم
و غصہ جائز نظر آتا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکیسویں ترمیم کی
منظوری اس اعتبار سے متفقہ تھی کہ ایوان میں موجود کسی بھی رکن نے مخالفت
میں ووٹ نہیں دیا اور ترمیم اتفاق رائے منظور کر لی گئی۔ قومی اسمبلی میں
۲۴۷ اور سینٹ میں ۷۸ ارکان نے بل اور ترمیم کے حق میں ووٹ دئے۔ مولانا فضل
الرحمٰن ، جماعت اسلامی نے اسمبلی میں موجود رہتے ہوئے مخالفت میں ووٹ دینا
مناسب نہیں سمجھا اور رائے شماری کے وقت بائیکاٹ کیا ۔ اسمبلی میں رہتے
ہوئے مخالفت میں ووٹ دینا مناسب نہیں سمجھا گویا یہ طریقہ کار’چھپتے بھی
نہیں سامنے آتے بھی نہیں ‘ والا معاملہ رہا۔ گویا صاف مخالفت سے گریز کرنا
ہے تجزیہ نگارر ؤف طاہر نے اسے انگریزی لفظ abstainسے تعبیر کیا ہے۔ فوجی
عدالتیں جمہوریت کی روح کے خلاف ہوتی ہیں ، فوجی عدالتوں کی جمہوری حکومت
میں گنجائش ہی نہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یا سیاست داں یہ نہیں چاہتا کہ
فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آئے لیکن پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے
حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب یہ کڑوی گولی نگلے بغیر چارا نہیں،
مختلف صورت حال میں مختلف فیصلے کرنا پڑجاتے ہیں۔ دو سال کے لیے فوجی
عدالتوں کا قیام ملک کی بقا کے لیے لازمی ہے
یہ فوجی عدالتیں ۶ جنوری ۲۰۱۷ء کو خود بہ خود ختم ہوجائیں گی۔
انسدادِ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کی اہم ترین شق ’فوجی عدالتوں ‘
کے قیام کے لیے قانون بن چکا، ہفتوں نہیں بلکہ دنوں میں ہی اس پر عمل در
آمد شروع ہوجائے گا۔ دوسری جانب قتل و غارت گری کے ملزمان کو بھانسی کا عمل
بھی شروع ہوچکا ہے۔ اسی طرح یکے بعد دیگر قومی ایکشن پلان کی دیگر باتوں پر
عمل در آمد پر سنجیدگی، ایمانداری، حب الوطنی کے جذبے اور پاکستان کو دہشت
گردی کی لعنت سے محفوظ کرنے کے لیے ان پر عمل در آمد کیا جائے تو پاکستان
بہت جلد دہشت گردی کی کاروئیوں سے نجات حاصل کر لے گا اور عوام کا امن و
سکون دوبارہ لوٹ آئے گا۔ آخر میں اپنی بات صحافی و تجزیہ نگارمظہر عباس کی
اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ ’اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم
کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں پڑا ۔ اس کے باوجود ہر کوئی (سیاست داں) کچھ
آنسوؤں کے ساتھ اور باقی بغیر اس کے شرمسار ہیں ۔ لیکن آپ اس بات پر نادم
کیسے ہوسکتے ہیں جس کے حق میں ووٹ دیا؟ جس کے خلاف موقع ملا اور آپ نے ووٹ
نہیں دیا سے کیسے مسترد کر سکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ فوجی عدالتیں قانون
بننے کے بعد اب آئینی عدالتیں ہیں لہذا سیاست دانوں کو اپنے آنسوروک لینے
اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کچھ عملی طور پر کرنا چاہئے‘۔رہا سوال
تحفظات کا تو یقینا وہ دور ہوہی جائیں گے ۔ وزیر اعظم بھی یہ بات کہہ چکے
ہیں اور شہباز شریف سے مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقات میں بھی ان کی شکایات
کے ازالے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اگر دینی جماعتوں کی شکایات بھی دور ہوجاتی
ہیں تو یہ آئینی ترمیم زیادہ جامع اور مُتَنَفِس ہو
جائے گی اورحکومت و عسکری قوت کو زیادہ قوت کے ساتھ دہشت گردوسے نمٹنے میں
سہولت ہوگی۔ (۱۵ جنوری ۲۰۱۵ء) |