ویسے تو امریکی ۹؍۱۱ کے بعد پاکستان کے دورے پہ
دورے کرتے رہے ہیں۔ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک معاملات پر مذاکرات
کرتے رہے ہیں۔ مگر اس دفعہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا دورہ بہت ہی
اہمیت کا حامل ہے۔ جان کیری نے کہا پاکستان حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے
خلاف کاروائی کریں۔ پاکستانی اور افغان طالبان پوری دنیا کے لیے خطرہ ہیں ۔وزیرستان
آپریشن قابل ستائش ہے۔ جان کیری صاحب کو معلوم ہے ہمارے ملک میں سرحد پار
افغانستان سے دہشت گردی جاری ہے۔ تازہ دہشت گردی میں ظالمان نے واہگہ کے
پاس عام شہریوں اور آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم بچوں کو جس بے دردی سے
شہیدکیا گیا اس کی مثال دنیا کی دہشت گرد کاروائیوں میں ڈھونڈنے سے نہیں
ملے گی۔ ظالم دہشت گردوں نے ایک ایک بچے سے اُس کے والد کا نام پوچھ پوچھ
کر شہید کیا۔ ٹیچرز کو زندہ جلا دیا گیا۔ ان دہشت گرد کاروائیوں کو ظالمان(
تحریک طالبان پاکستان) نے قبول کیا اور بعد میں اِس تنظیم کے بزدل امیر ملا
فضل اﷲ نے دیدہ د لیری سے کہا کہ ظالمان اس سے بڑی کاروائی کریں گے۔یہ بزدل
لوگ ملک سے باہر بیٹھ کر پاکستان کے معصوم لوگوں کے ساتھ دہشت گردی میں
ملوث ہیں۔ پشاور میں معصوم بچوں پر دہشت گرد کاروائی نے پوری پاکستانی قوم
کو یک جا کر دیا۔حکومت نے بروقت سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام سیاسی
اور مذہبی جماعتوں کو ایک میز پر بیٹھا کربیس نکات پر لائحہ عمل طے کر کے
پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے جس میں فوجی عدالتیں بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل پاکستان کی عدالتوں نے دہشت گردوں کے مقدمے سن کر ان کوپھانسی کی
سزا ئیں د ی تھیں ۔ مگر حکومتوں نے بیرونی پریشر کے سامنے جھک کر دہشت
گردوں کو پھانسی پر نہیں چڑھایا تھا۔ جس کی وجہ سے دہشت گردوں کے حوصلے
بلند ہو گئے تھے۔ اب عدالتوں سے سزا پانے والوں کو پھانسی کی سزا پر عمل
درآمد سے ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے اور دہشت گردی کرتے وقت سو دفعہ سوچیں
گے۔ مذہبی طبقے کا کہنا ہے دہشت گرد صرف اور صرف دہشت گرد ہوتا ہے۔ اس کا
کسی بھی طبقے سے تعلق ہو وہ صرف دہشت گرد ہے۔ لہٰذا حکومت کو سب دہشت گردوں
سے ایک جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ صرف مذہب کے نام پر دہشت گرد کو دہشت گرد
کہنا صحیح نہیں۔ جس نے بھی دہشت گردی کی ہے اس کی اسے سزا ملنی چاہیے ۔ اس
سلسلے میں حکومت کو مذہبی طبقہ کو بھی مطمئن کرنا چاہیے۔پشاور میں آرمی
پبلک اسکول کی دہشت گردی کے بعد ہماری مسلح افواج کے سپہ سالار اور آئی ایس
آئی کے سربراہ افغانستان گئے اور وہاں افغانستان کے صدر اشرف غنی صاحب اور
فوجی ذمہ داروں کے سامنے ثبوت پیش گئے اور (ظالمان) تحریک طالبان پاکستان
کے سربراہ کو پاکستان کے حوالے کرنے کی بات بھی کی۔ صدر اشرف غنی صاحب نے
اس کا وعدہ بھی کیا تھا مگر وہ آج تک پورا نہیں ہوا۔ اس کے بعد پھر ہمارے
آئی ایس آئی کے چیف افغانستان گئے اورا سی مطالبے کو دہرایا مگر حاصل کچھ
نہ ہوا۔ آج الیکٹرونک میڈیا پر خبر چلی کہ پاکستان کے سپہ سالار نے جان
کیری کے سامنے بھی سرحد پار افغانستان سے دہشت گردی کے ثبوت رکھے ہیں اور
کہا کہ اتحادی فوجی ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کریں۔ یہ مطالبہ کتنا
مناسب ہے اس کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ہم نے شمالی
وزیرستان سے پاکستان میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ امریکہ کی خواہش پر بھی
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں۔ امریکہ کو شروع
دن سے یہ خطرہ تھا کہ ان کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد حقانی نٹ ورک
افغانستان کے طالبان کی مدد کریں گے اور ان کی قائم کی گئی پٹھو اشرف غنی ؍عبداﷲ
عبداﷲ حکومت کا چند مہینوں تختہ الٹ دیں گے۔ اس سے قبل بھی امریکہ گذشتہ
کئی سالوں سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں مگر اس
وقت فوج کے سابق سربراہ نے ان کی بات نہیں مانی۔ جس کا تذکرہ آئی ایس پی آر
کے سابق سربراہ نے اپنے الیکٹرونک انٹرویو میں پریس کوبتایا تھا۔خیر اب تو
ہماری بہادر فوج ان بزدل دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے لگی ہوئی
ہے۔ جس میں پوری پاکستانی قوم بھی اپنی فوج کے ساتھ شامل ہے۔جو حلقہ نیک
نیتی سے ان کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتا تھا اب وہ بھی ان کو کیفر کردار تک
پہنچانے کے لیے فوج کے ساتھ شانہ بشانہ شامل ہے۔ فوج اور سیاستدان بلکہ
پوری پاکستانی قوم یک جان ہے۔ امریکہ کو معلوم ہے اس کاروائی میں ہمارے
فوجی شہید ہو رہے ہیں ۔دس لاکھ سے زیادہ لوگ شمالی وزیرستان سے ہجرت پر
مجبور ہو کر در بدر ہو گئے ہیں۔ خیبرایجنسی فوجی آپریشن میں بھی پاکستان کے
کئی شہری اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو ئے ہیں۔ اس فوجی آپریشن پر
امریکہ کی طرف سے ہماری فو ج کی زبانی تعریف اور اظہار یکجہتی بھی کیا ہے۔
جان کیری نے اپنے دورے کے درمیان بے گھرہونے والے کے لئے۲۵ کروڑ ڈالرکی
امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ جس پر الطاف حسین صاحب نے بجا طور پر کہا اتنی
کم رقم تو اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے۔ پاکستان کی عوام کا مطالبہ ہے
کہ تحریک طالبان پاکستان(ظالمان) کے امیر فضل اﷲ کو پاکستان کے حوالے کیا
جائے۔ افغانستان سے دہشت گردی کرنے والے ظالبان کے خلاف اتحادی فوجی
کاروائی کر کے ان کا خاتمہ کریں۔ آیندہ بھی پاکستان کے خلاف اس سے زیادہ
دہشت گرد کاروائی کے بیان پر ملا فضل اﷲ سے پوچھ گچھ کی جائے اور ایسی بزدل
لانا کاروائیوں سے روکا جائے۔ بھارت نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ
افغانستان میں جو اپنے درجنوں کونصل خانے قائم کئے ہوئے ہیں ان کے ذریعے
پاکستان کی سا لمیت کے خلاف کاروائیاں ہو رہی ہیں۔ جن کے ثبوت کئی دفعہ
پریس میں بھی آ چکے ہیں۔ افغانستان میں بیٹھے بھارت کو بھی پاکستان دشمن
کاروائیوں سے روکا جائے۔ اگر امریکہ پاکستان کے یہ سب مطالبات پر غور کرنے
اور بل آخر ان پر اپنی پٹھو افغان حکومت کو عمل کرنے پر تیار کر لے تو
پاکستانی عوام سمجھے گی کہ امریکہ پاکستان کا دوست ہے۔ جب سے پاکستان بنا
ہے اور پاکستان اور امریکہ آپس میں دوست ہیں۔ امریکہ پاکستان کی بقا اور سا
لمیت پر یقین رکھتا ہے تو بات بنی گی۔ ورنہ جس تناسب سے پاکستان میں امریکی
مخالفت پہلے سے موجود ہے اس نازک موقعے پر مزید پڑھنے کا امکان ہے۔ کیونکہ
افغانستان میں امریکہ کی پٹھو حکومت قائم ہے ۔امریکہ نے تیرہ سال تک
افغانستان میں چالیس ملکوں کی فوجی قوت سے افغانستان میں طالبان کو ختم
کرنے کی کوشش کی تھی مگر شکست کھا کر واپس چلا گیا ہے۔ امریکہ کے دس ہزار
فوجی اپنے کیمپوں میں موجود ہیں۔افغانستان کی فوج کی مدد کر رہے ہیں۔
افغانستان میں امریکہ کا اثر رسوخ ہے۔ امریکہ ہی افغانستان سے پاکستان کے
خلاف دہشت گردی ختم کروا سکتا ہے۔بھارت کو بھی پاکستان کے خلاف کاروائیوں
سے روک سکتا ہے۔ اس وقت امریکہ کا امتحان ہے کہ وہ پاکستان سے ۶۷ سالہ
دوستی کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ پاکستان کی امداد کے بلند بالا دعوے کرتا
رہتا ہے ۔ پاکستانی الیکٹرونگ میڈیا پراس کی امداد کے اشتہاروں کی بھر مار
ہے۔ تعلیم میں مدد ، بجلی میں مدد،زراعت میں مدد اور نہ جانے کس کس مد میں
امداد کے اشتہار چلائے جا رہے ہیں۔ مگر کسی محکمے میں کو ئی بھی ترقی نہیں
ہوئی ۔بلکہ تنزل ہی ہوا ہے۔ این جی اوز کی ڈاریکٹ مدد کی باتیں بھی ہوتی
رہی ہیں۔مگر پی پی کے سابق و زیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے مطابق آدھی امداد
تو امریکہ کے مشیروں کی مد میں خرچ ہو جاتی ہے ۔ باقی بچی کچی کرپشن میں
چلی جاتی ۔عوام بچاری کوکم ہی حصہ ملتا ہے۔پاکستانی عوام کو امریکی امداد
کی ضرورت نہیں صرف تجارت کی ضرورت ہے۔ امریکہ افغانستان سے پاکستان کے خلاف
دہشت گردی کو روک دے تو پاکستانی عوام سمجھے گی کہ امریکہ پاکستان کا دوست
ہے۔ اب امریکہ کا امتحان ہے۔ اگر پاکستان کے ان مطالبات کو منظور کیا جائے
تو تب ہی جان کیری کے دورے کو کامیاب کہہ سکتے ہیں۔ ورنہ یہ دورا بھی پہلے
دوروں کی طرح ایک دورا ہی ہو گا۔ |