ایک عظیم خاکہ نگار ٗ قابل فخر استاد اور قابل تقلید انسان پروفیسر صابر لودھی

پروفیسر صابر لودھی 30 دسمبر 2014 کورضائے الہی سے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ ان ﷲ و انا الیہ راجعون ( بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں)
................

پروفیسر صابر لودھی صاحب کا نام تو میں نے بچپن میں ہی سن رکھا تھالیکن ان سے ملاقات اس لیے بہت مدت کے بعدہوئی کیونکہ بچپن میں لکھنے والوں اور اساتذہ کرام کو آسمانی مخلوق تصور کرتا تھا اور یہ خیال میرے تصورمیں جاگزیں تھاکہ یہ ایسے عظیم لوگ ہیں جن کو کوئی عام شخص نہیں مل سکتا بلکہ ان کاایک خاص حلقہ اثر ہے جن میں وہ زندگی گزارتے۔ اﷲ تعالی نے کرم کیا ٗحالات نے کروٹ لی اور وقت نے ساتھ دیا تو میرا شمار بھی لکھنے والوں میں ہوگیا ۔ یہ میری قابلیت کااعتراف ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ اﷲ کا کرم تھا وہ جسے چاہتاہے اور جو چاہتاہے اسے وہ بنادیتا ہے ۔بہرکیف جب سے میں لکھنے والوں کی فیلڈ میں شامل ہوا تو میرے ذہن میں ہمیشہ دو نام گردش کرتے رہے۔ ایک نام توممتاز افسانہ نگار میڈم فرخندہ لودھی کا تھا اور ایک نام پروفیسر صابر لودھی کا ۔مجھے اس بات کاہرگز علم نہیں تھا کہ پاکستانی ادب کی یہ دونوں عظیم شخصیات ایک ہی چھت کے نیچے زندگی گزارتی ہیں اور رشتہ ازدواج میں بندھنے کی بناپر ایک دوسرے کے جانثار ساتھی بھی ہیں۔ان دونوں شخصیات سے میری پہلی ملاقات اکادمی ادبیات کے آڈیٹوریم میں اس وقت ہوئی جب ایک سانولی سلونی سی ضعیف العمر عورت اور ایک گورا چٹا خوبصورت سفید بالوں کا پروقار شخص آڈیٹوریم میں ایک ساتھ داخل ہوئے تو تقریب کو روک کر ہال میں موجود تمام مرد وزن نے اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھ کر ان دوشخصیات کا گرمجوشی سے استقبال کیا ۔میں نے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک ناشناسا شخص سے پوچھا کہ دو شخصیات کون ہیں جن کا اس قدر گرمجوشی سے تقریب کی کاروائی کو روک کر استقبال کیاگیا ہے ۔ تو مجھے بتایا گیا کہ آپ نہیں جانتے یہ خاتون پاکستان کی صف اول کی افسانہ نگارہ میڈم فرخندہ لودھی ہیں اور ان کے ساتھ جو سفید بالوں والے انتہائی پروقار اور خوبصورت انسان ہیں ان کا نام پروفیسر صابر لودھی ہے ۔سچ بتاؤں یہ میرے لیے حیرت انگیز خوشی تھی کہ میں جن دو عظیم شخصیات سے بات کرنے اور ان سے ملنے کو ترستا تھا جن کو دیکھنے کی تمنا ہر لمحے میرے دل میں موجزن رہتی تھی وہ دونوں شخصیات ایک ساتھ ہی میرے سامنے تھیں۔اب تقریب کی بجائے میری دلچسپی ان دونوں شخصیات تک ہی محدودہوکر رہ گئی ۔ میں نے ان کو ایک ساتھ بیٹھے ہوئے مسلسل دیکھتا رہا وہ کبھی کبھی ایک دوسرے کان میں سرگوشی کرلیتے پھر خاموش ہوکر تقریب کی جانب توجہ مرکوز کردیتے ۔ جب تقریب ختم ہوئی تو سب لوگ آپس میں گھل مل گئے بے شمار لوگ میڈم فرخندہ لودھی اور پروفیسر صابر لودھی کے گرد جمع تھے میں بھی ڈرتے ڈرتے ان کے قریب جا پہنچا اور پروفیسر صابر لودھی کے کان میں سرگوشی کے انداز میں کہا ۔ سر میں محمد اسلم لودھی ہوں ٗ میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔ میری زبا ن سے یہ الفاظ ادا ہونے تھے کہ پروفیسر صابر لودھی نے مجھے دونوں بازؤوں سے پکڑ کر گلے لگا لیا اتنی شفقت دیکھ کر میڈم فرخندہ لودھی بھی متوجہ ہوئیں تو پروفیسر صابر لودھی نے انہیں بتایا کہ یہ وہ اسلم لودھی ہیں جن کی کتابوں کی آجکل ادبی حلقوں اور اخبارات میں دھوم مچی ہوئی ہے ۔یہ بہت خوبصورت لکھنے والے ہیں۔ میڈم فرخندہ لودھی نے جب میرا نام سنا تو انہوں نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور میرے ماتھے کا بوسہ لے کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔پھر فرمایا ہم تو اخبارات میں آپ کی کتابوں کے بارے میں پڑھ کر آپ سے خود ملنے کے مشتاق تھے کہ یہ اسلم لودھی صاحب ہیں کون ۔ یہ دھڑا دھڑا کتابیں لکھے جارہے ہیں اور کتابیں ادبی حلقوں میں تہلکہ بھی مچا رہی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ تم آج ہمیں اس تقریب میں ہی مل گئے ۔ جب میڈم فرخندہ لودھی مجھ سے مخاطب تھیں تومیرا سر فخر سے ان کے سامنے جھکا ہوا تھا اورمیں دل ہی دل میں خود کو دنیا کاخوش قسمت انسان تصور کررہا تھا جن کو زندگی میں ایک کی بجائے دوعظیم ادبی اور تعلیمی شخصیات سے ملنے کا معجزہ رونماہوا تھا۔مزے کی بات تو دیکھیئے جب میڈم فرخند ہ لودھی مجھ سے مخاطب تھیں تو پروفیسر صابرلودھی نہایت ادب کے ساتھ نہایت خاموشی سے سب باتیں سن رہے تھے ۔وہ اس لمحے اپنی شخصیت اور علمی قابلیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف میڈم فرخندہ لودھی کے مدد گار کا روپ دھار چکے تھے ۔میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ ان دو عظیم شخصیات سے مل کر جتنی خوشی مجھے ہوئی تھی اس سے دو گنا زیادہ وہ خوش تھے ۔ جدا ہونے سے پہلے میڈم فرخندہ لودھی نے نہایت شفقت کااظہار کرتے ہوئے مجھے اپنے گھر بلایا ۔ جو یقینا میرے لیے اعزاز کی بات تھی ۔

بہرکیف کچھ دن بعد میں اور میری بیگم ٗ دونوں واپڈا ٹاؤن والے گھر پہنچے تو ہمارا استقبال کسی غیر ملکی سربراہ کی حیثیت سے کیا گیا۔ پروفیسر صابر لودھی اور میڈم فرخندہ

لودھی ہماری آمد پر بہت خوش تھے ۔ہمیں بھی ان کے گھر میں بیٹھ کر بے حد خوشی ہورہی تھی ۔ یہ گھر نہیں تھابلکہ اس گھر کی چھت کے نیچے دو عظیم ادبی شخصیات ایک ساتھ رہتی تھیں اس لیے اس گھر کو اگر میں ادبستان سے تشبیہ دوں تو غلط نہیں ہوگا ۔اس کے باوجود کہ ہم کھانا گھر سے کھا کر گئے تھے پھر انہوں ہمیں کھانا کھانے پر مجبور کردیاگیا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے پر مشتمل اس ملاقات میں بے شمار باتیں ہوئی جو اب ذہن سے محو ہوچکی ہیں لیکن ایک بات ضرور یاد ہے کہ میڈم کو بھی میری طرح قوت سماعت میں کمی کا مرض لاحق تھا ۔ لیکن اس کمی کو پروفیسر صابر لودھی صاحب معاون بن کے پورا کردیتے تھے۔ جب ہم واپس آنے کے لیے گھر سے نکلے تو شام کے سائے زمین پر اتر چکے تھے اور سڑک پر کہیں کہیں روشنیاں جلتی ہوئی دکھائی دیتی تھی اس کے باوجود کہ دن کے وقت موسم خوشگوار تھا لیکن شام ڈھلے سردی میں خاطر خواہ اضافہ ہوچکا تھا۔موٹرسائیکل سٹارٹ کی تو پروفیسر صابر لودھی صاحب نے اپنے سر سے گرم ٹوپی اتار کے میرے سر پر یہ کہتے ہوئے رکھ دی کہ یہ ٹوپی آپ کو سردی سے بچائے گی ۔

میں نے یہ کہتے ہوئے ٹوپی پہن لی کہ بڑے بزرگ اپنے چھوٹوں کو خلافتیں عطاکرتے ہیں کیا میں یہ سمجھ لوں کہ آپ نے اپنی ٹوپی پہنا کر مجھے اپنا خلیفہ بنالیا ہے ۔ میری اس بات پر پروفیسر صاحب نے قہقہہ لگا یا اور ہم واپس گھر پہنچ گئے ۔پھر وہ وقت بھی آیا جب میری والدہ مرحومہ کی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب میں میڈم فرخندہ لودھی اور پروفیسر صابر لودھی دونوں تشریف لائے اور اپنے خوبصورت کلمات سے میری عزت افزائی فرمائی ۔ میں نے ایک مضمون "وفاؤں کا حصار" میڈم فرخندہ لودھی کی خدمت میں تبصرے کے لیے بھیجا تو میڈم نہ صرف بیگم کے حوالے سے میری تحریر پڑھ کے خوش ہوئی بلکہ انہوں نے25 جنوری 2009کو ایک خط کے ذریعے نہایت خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہم دونوں میاں بیوی کو ایک موتی اک تارا سے تشبیہ دی ۔ پھر جب میڈم کاانتقال ہوا تو پروفیسر صابر لودھی نے قلم سنبھال لیا اور خاکوں پر مشتمل ایک خوبصورت کتاب "بھلایا نہ جائے گا" منظر عام آئی ۔ یہ کتاب اپنی نوعیت کی بہترین کتاب تھی ۔اس کتاب میں پروفیسر صابرلودھی اپنے ماضی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بچپن میں ہمارا خاندان بسی پٹھاناں ( ریاست پٹیالہ ) کا رہائشی تھاشہر کے چاروں کھونٹ یوسف زئی ٗ سوری ٗ لودھی اور نیازی پٹھانوں کی حویلیاں تھیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر سب پٹھان اکٹھے ہوجاتے تھے۔ بچوں کو بزرگوں کے سامنے سر اٹھانے کی تاب نہیں تھی روح اﷲ خان زندہ دل اور بے باک پٹھان تھے چہرہ فروغ مے سے گلستاں بنائے رکھتے ۔ بزرگوں کی پگڑی اچھالنے کا فن انہیں آتا تھا ۔ نکاح کے بعد چھوہارے اچھالنے کا فریضہ بھی وہی اداکرتے ۔ ان کے اشارے پر ہم طرے دار بزرگوں کے گرد جا بیٹھتے ۔وہ ایک بڑا سا چھینٹا پگڑیوں کی طرف اچھالتے ٗ ہم چھوہارے لوٹنے کے لیے عماموں کی طرف زغند ( زقند) بھرتے ۔ ایک دو چھوہارے مٹھی میں آجاتے مگر طرے دار پگڑیاں دور جا پڑتیں ......... میں نے بھی شاید غیر شعوری طور پر روح اﷲ خان سے اثر قبول کیا اور زغند بھر پگڑی اچھالی ہے ۔ اس طرح پروفیسر صابر لودھی خاکہ نگاری کی جانب راغب ہوئے۔

پروفیسر صابر لودھی فرماتے ہیں میں شاعری اور فکشن کو تخلیقی ادب میں شمار کرتا ہوں فکشن لکھنے والا اپنے کرداروں کے ذریعے شخصیت کی تخلیق کرتاہے اور خاکہ نگار شخصیت کے وجود سے تخلیقی عمل کو بروئے کار لانے کی سعی کرتا ہے وہ شخصیت کے طلسم کدے سے اپنے فن میں نکھار لاتا ہے ۔ خاکے کی تخلیق ثانوی درجے پر آتی ہے ۔
...................
صابر لودھی ( جن کا اصل نام محمد صابر علی خاں لودھی ہے) نے 38 برس اردو زبان وادب کی تدریس میں گزارے ہیں۔ ان میں سے 34 برس ان کا تعلق گورنمنٹ کالج لاہور سے رہا۔ آپ کو استاد الاساتذہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ خود کہتے ہیں کہ میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہزاروں شاگردوں کی ذہانت بھری مسکراہٹ ہے جس نے مجھے سدا مسرور رکھا۔ صابر لودھی دس سال تک اورینٹل کالج میں بطور وزیٹنگ پروفیسر‘ شعبہ اردو سے بھی منسلک رہے ۔ انہوں نے شاعری بھی کی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے لیکن حال ہی میں چھپنے والا ان کے خاکوں کا مجموعہ ’’بھلایا نہ جائے گا‘‘ ان کی بھرپور پہچان بن کر سامنے آیا ہے۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ میرا بہت سا وقت اپنی اہلیہ فرخندہ لودھی کے افسانوں کو Rewrite کرتے گزرا اور یہ میری زندگی کے بڑے قیمتی لمحے بن گئے۔ ’’بھلایا نہ جائے گا‘‘ میں جہاں ڈاکٹر سید عبداﷲ‘ پروفیسر وقار عظیم‘ قیوم نظر‘ ڈاکٹر نذیر احمد‘ ڈاکٹر محمد اجمل اور دیگر مشاہیر کے خاکے شامل ہیں وہاں دو خاکے دو درسگاہوں ایمرسن کالج ملتان اور گورنمنٹ کالج ساہیوال کے بھی ہیں۔

پروفیسرصابر لودھی بھارتی پنجاب کے ضلع انبالہ کی تحصیل کھرڑ کے گاؤں سیالبہ ( ماجری) میں پیداہوئے ۔ یہ گاؤں چندی گڑھ سے 21 کلومیٹر ( مغرب کی جانب ) کے فاصلے پر واقع ہے۔آپ کے جد امجد کا تعلق ضلع روپڑ سے تھا ۔ خاندان کے لوگ ہوشیارپورمیں بھی آباد تھے اور بہلول پور ( ضلع لدھیانہ ) میں بھی ۔ آبائی پیشہ سپہ گری اور زمینداری تھا ۔ آپ کے پڑدادا ٗرنجیت سنگھ کی فوج میں کمان دار تھے ۔ ان کانام عاقے خان تھا ( غالبا عاقل خان ) انگریزوں کے خلاف لڑے ۔ زوال کا شکار ہوئے ۔ سیالبے کی قدیم حویلی میں پناہ لی ۔ وہیں زمینداری کرتے رہے ۔آپ کے والد کی شادی بسی پٹھاناں ۔ سرہندبسی ) پٹیالہ سٹیٹ میں ہوئی ۔ انہوں نے اسی شہر میں سکونت اختیار کی۔ مکان بنایااور مدرسی کو پیشہ بنایا ۔

آپ کی میری والدہ محترمہ حافظ قرآن تھیں ۔ آپ نے انہی سے ترجمے کے ساتھ قرآن پاک پڑھا ۔ ساتویں جماعت تک "بسی پٹھاناں "کے گورنمنٹ ہائی سکول میں زیر تعلیم رہے ۔ آٹھویں جماعت کاامتحان اپنے گاؤں کے مڈل سکول سے پاس کیا ۔ہندوستان کی تقسیم کے مرحلے میں آپ اور آپ کے خاندان کو شدید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا خاندان کے کئی افرادکی شہادتوں کے بعد آپ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے میں کامیاب ہوئے ۔

پاکستان پہنچنے کے بعد میٹرک کاامتحان علی پور ضلع مظفر گڑھ کے ہائی سے دیا اور پھر چار سال ایمرسن کالج ملتان میں گزارے ۔ 1956ء میں اورینٹل کالج سے ایم اے اردو اور 1958ء میں ایم اے فارسی کیا۔ اساتذہ سے جو سیکھا وہی عملی زندگی میں دوسروں کو سیکھایا ۔

آپ نے بہت بھرپور زندگی گزاری ۔آپ نے نہ صرف اپنے بزرگوں کی قیمتی روایات کو برقرار رکھا۔ممتاز افسانہ نگار فرخندہ لودھی کی رفاقت میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کچھ اس طرح گزارا ۔کہ دیکھنے والے یہ محسوس ہی نہیں کرسکتے تھے کہ ان میں سے بڑا تخلیق کار کون ہے ۔

زمانہ بہت شوق سے پروفیسر صابر لودھی صاحب کی داستان حیات سن رہا تھا کہ فالج کے حملے نے ان سے لکھنا تو دور کی بات ہے بات کرنے کا حق بھی چھین لیا۔ ایک دن میں نے ان مزاج پرسی کے لیے فون کیا تو انہوں نے ڈبڈباتی زبان میں بتایا کہ انہیں فالج ہوچکا ہے اب ان سے زیادہ بولا نہیں جاتا۔بعدمیں پتہ چلا کہ کینسر کا موذی مرض بھی آپ کو لاحق ہوچکا ہے۔ پیرانہ سالی کی بنا پر چلنا پھرنا تو پہلے بہت کم تھا اس پر فالج نے انہیں ہر آنے والے لمحے میں موت کے قریب تر کردیا۔ بالاخر پاکستانی ادب کا یہ عظیم خاکہ نگار ٗ استادوں کا استاد ٗ خوبصورت انسان اور لودھی خاندان کا قابل فخر فرزند30 دسمبر کی صبح اس دنیا سے رخصت ہوگیا ۔پروفیسر صابر لودھی جہاں بہت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے وہاں انہوں نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ اپنی عظیم بیوی میڈم فرخندہ لودھی کی چاہت میں ہی گزار دیا ۔رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد بے شک میڈم فرخندہ لودھی ٗ پروفیسر صابر لودھی کی بیگم تھیں لیکن یہ کریڈٹ بلاشبہ پروفیسر صابرلودھی کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی سانولی سلونی بیوی کو حوروں پر ترجیح دیتے ہوئے زندگی کے دوران اپنا محبوب بنائے رکھا۔پروفیسر صابر لودھی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میرے خاندان میں سبھی لوگ گورے چٹے اور سرخ و سفید تھے ۔ اس لیے میری پسندکالا رنگ تھا۔ چونکہ فرخندہ کا رنگ سانولا تھا اس لیے میں نے خود انہیں شادی کے لیے پرپوز کیا۔
..................

مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی بیگم کے حوالے سے ایک آرٹیکل " وفاؤں کا حصار" لکھا تھا جسے پاکستان کے نامور ماہرین ادب کو رائے کے لیے بھجوایا تھا اس پر آرٹیکل پر ماہرین کی جانب سے بہت خوبصورت تبصر ے ہوئے لیکن سب سے خوبصورت تبصرہ اظہر جاوید مرحوم کا تھا ۔انہوں نے لکھا کہ لاہور میں تین مثالی جوڑے موجود ہیں ایک پروفیسر صابر لودھی اور فرخندہ لودھی کا ٗ دوسرا اشفاق احمد اور آپا بانو قدسیہ کا ٗ تیسرا محمد اسلم لودھی اور عابدہ اسلم کا ۔ انہوں نے مزید لکھا کہ فرخندہ لودھی کے انتقال کے بعد پروفیسر صابر لودھی خود کو نامکمل تصور کرتے ہیں اور ہر لمحے ان کی یاد میں ہی کھوئے رہتے ہیں۔ "بھلایا نہ جائے گا؟" کتاب اس کا واضح اظہار ہے ۔خود مجھے اس بات کا علم تھا کہ دو سچی محبت کرنے والوں کے درمیان اتنی لمبی جدائی نہیں ہوسکتی ۔ وہی ہوا پروفیسر صابر لودھی اس دنیا سے رخصت ہوکر اپنے محبوب بیوی فرخندہ لودھی کے پاس پہنچ گئے ہیں جہاں نہ تو جدائی کا تصور کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی ان کے درمیان کبھی جدائی حائل ہوسکتی ہے ۔ ایک دوسرے کبھی نہ بھولنے والے پھر سے ایک ہوچکے ہیں ۔

بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کرجانے والے ہیں ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.