شملہ مرچ - مذکر یا مونث
(Khalid.Naeemuddin, Islamabad)
شملہ مرچ " سے ہماری واقفیت بہت
پرانی ہے ، جب ہم اِسے قیمے کو خراب کرنے کا سب سے اہم جزو سمجھتے تھے ،
بلکہ شملہ مرچ تو کیا آلو ، گوبھی اور پالک کے علاوہ کسی بھی سبزی کی شراکت
ہمیں قیمے کے ساتھ گوارا نہ تھی ، یوں سمجھیں کہ باقی سبزیاں قیمے کی ہماری
نظروں سے گرانے کے لئے ڈالی جاتیں ، تو اُس وقت ہم منھ بسورتے اور بمشکل
قیمے کو چن چن کر الگ کرتے اور کھاتے یا پھر ، اَمرت دھارا تناول کرتے ،
یعنی "گھی چینی اور روٹی " ۔
شادی کے بعد تو ، یوں سمجھیں کہ" شملہ مرچ اور بینگن " ہماری بیگم جہیز میں
لائیں ، اس کے علاوہ ، کدو ، ٹینڈے ، لوکی ، چھوٹی لوکی ، بڑی لوکی ،
منجھلی لوکی ، صاف لوکی ، کھردری لوکی ، بلکہ یوں سمجھیں کہ ، اِن سب کو ہم
کدو کی ہی ذریت میں شمار کرتے ، انہوں نے نہ صرف ، آلوؤں کا گوشت سے رشتہ
توڑا ، بلکہ قیمے کو بھی اتنا خوار کیا کہ ہمیں قیمے سے اُنسیت ہوگئی ، یا
یوں سمجھیں کہ" بدو کے اِن اونٹوں " ہم مجبورا پسند کرنے لگے ، اُس وقت
ہماری شکل دیدنی ہوتی جب ہم آفس سے تھکے ماندے جہلم کی جُھلسا دینے والی
گرمی میں باہر سے آتے ، غسل کرنے کے بعد جب واش روم سے نکلتے اور ڈائینگ
ٹیبل کی طرف بڑھتے ، تو بیگم ہماری پہلی بیٹی کو ہماری گود میں دیتے ہوئے
کہتیں ، کہ آج ایسا بہتری کھانا بنایا ہے کہ ، آپ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں
گے ، تو آپ اندازا کر سکتے ہیں کہ کہ ہماری کیا حالت ہوتی ،
"ہاں ، آج گوشت کا کس کے ساتھ رشتہ لگایا ہے ؟" ہم ڈرتے ہوئے پوچھتے –
" بس آپ بوجھیں تو جانوں؟ " وہ باورچی خانے سے ہمیں کسوٹی کھیلنے پر
اُکساتیں ۔
" کسی کدو کے چشم و چراغ سے ، پیوند لگایا ہو گا " ہم کہتے ۔
" آج خود کدو مہاراج ہیں " وہ جواباً تفنن کے تیر پھینکتیں ۔
" بیگم ، کدو کو مہاراج کہو یا شہنشاہ ، لیکن گوشت کی ذات سب سے اونچی ہی
رہے گی اور کدو پک کر کدو ہی کہلائے گا ، متنجن نہیں بن سکتا " ۔
ہمارے طنز کے جواب میں وہ ، کدو مہاراج کو گوشت کے جلو میں ، شیشے کی ڈونگے
میں میز پر رکھتے ہوئے کہتیں ،
" آپ کھا کر دیکھیں اور پھر بتائیں "
قارئین ، ساڑھے بائیس سالہ ، بیگم سے آپ پنگا نہیں لے سکتے اور ان دونوں
میس سے کھانا ،کھانا تو ناممکن تھا ، جہاں گوشت کو نہ صرف ، کدو فیملی کے
ساتھ خوار کیا جاتا ، اور بعض دفعہ اِن کی کمیابی و گرانی کی وجہ گاجروں کی
رتھ پر سوار کروایا جاتا نوجوان و بوڑھے غیر شادی شدہ ، آملیٹ سے اپنے غصے
کی آگ بجھاتے جو اُن کے پیٹ میں بھڑک رہی ہوتی ۔
نتیجتاً ، تعریف تو کرنا ہوتی اور یوں ہزار کوشش کی جاتی کہ مینو کےقید
خانے کے زنداں میں کدو کو ایک دن کے لئے ڈالا جائے ، لیکن ممکن نہیں تھا
کیوں کہ ہم نے اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماری تھی اور وہی حرکت ہم سے سرزد
ہوئی تھی جو ہمارے والد محترم ، کیا کرتے ، کدو خاندان کے صرف چند بیج ،
خالی زمین میں ڈالتے اور اُس کے بعد پورے گھر میں درختوں پر اپنے پیلے اور
سفید پھولوں سے پبلسٹی کرنے کے بعد ، دیوار پر ، توری ، درخت پر لوکی ،
زمین پر کدو اور فضا میں ٹینڈے ۔ ہمارے گھر سے ، مفت میں نکلنے والی سوغات
ِ کدواں ، پڑوسیوں کو بھیجی جاتی اور وہاں سے اُس سے دگنی مقدار میں ، کدو
کی ہم قبیل دیگر ، سبزہ جات و گھاس پات ہمیں ترسیل کیا جاتا ، نہ معلوم یہ
جہلم کی مٹی کا اثر تھا یا بنگالیوں کی طرح کدوؤں کا تخمی ریزی کا کہ جہلم
کے ہر گھر میں کدوؤں کا بلاشرکت غیرے قبضہ تھا ۔
جب ہمارے بچوں کی طرف سے ، کدوؤں بلکہ ہر سبزی کے خلاف علم بغاوت بلند ہوا
، تو اس کی لیڈری ہم نے سنبھال لی اور یوں بلامبالغہ تیس سال تک ، ہم اور
ہمارے بچے صرف مسلمان رہے اور بطور مسلمان گوشت پر گذارا کرتے رہے، سبزیوں
میں پالک ، گوبھی و آلو کو اجازت تھی ،جب سسرال جاتے بیگم ، کدو فیملی کے
ساتھ ، آلو بھی ڈلواتیں ، تاکہ ہم بھی ، لذتِ کام و دھن سے اور سسرالی
میزبانی سے لطف اندوز ہوسکیں ، وقت گذرتا رہا بچے شادی ہو کر اپنے گھروں کے
ہوگئے ، آج بدھ کا دن تھا بیگم نے درس دینے کے لئے اپنی سہیلی کے ہاں جانا
تھا ۔
کار میں بیٹھے پوچھا ، "کب واپسی ہوگی" ۔
بولیں، " ایک بجے ہمیں لے لینا ، ساتھ کھانا کھائیں گے "۔
انہیں معلوم تھا کہ ، آج ہم دوست گردی کے لئے نکلے ہیں تو شام کو ہی آئیں
گے ۔
ہم پوچھا، " خیر تو ہے ، آج سہیلیوں کے ساتھ کھانا نہیں کھانا ؟ "
کہنے لگیں ، " نہیں طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ ٹھیک ایک بجے آجانا " ۔
" اچھا کیا پکایا ہے ؟ " ہم نے پوچھا ۔
" آپ بوجھیں تو جانوں ؟ " انہوں نے کہا ۔
ہمارے ذہن میں ایک بلبلہ اٹھا ، اُس کی اُوٹ سے ہمیں ساڑھے بائیس سالہ ،
بیگم نظر آئیں ہمارا دل دھک سے رہ گیا ۔
ہمیں یاد آیا ، کہ کل ہسپتال سے واپس آتے ، پی اے ایف کی سبزی مارکیٹ سے
کچھ چیز وہ لے کر آئیں تھیں ،
ساڑھے بارہ بجے اُنہیں فون کیا ،" میں سیور کے پاس ہوں کہو ، تو چاول لیتا
آؤں "
بولیں ، " نہیں رہنے دیں "۔
ہم ان کی سہیلی کے گھر کے سامنے ایک بجے پہنچ گئے ، فون کیا ، "باہر کھڑے
ہیں آجاؤ "۔
بولیں ، " مجھے دیر ہوجائے گی ابھی درس چل رہا ہے "۔
ہم نے سوچا کہ ، ڈاکٹر قمر کے پاس جا کر وقت گذارتے ہیں ، وہاں گئے تو ایک
بج کر بیس منٹ پر وہ بچے کو لانے کے لئے کھڑے ہوئے ۔
ہم نے بیگم کو فون کیا ، " بھئی اب تو ڈاکٹر قمر نے بھی ہمیں باہر نکال دیا
ہے -آپ کو لینے آجاؤں ؟"
بولیں ، " انہوں نے کھانا لگا لیا ہے آپ گھر جائیں ، کھانا کھا لیں اور دو
بجے لینے آجانا "
" تم ملاؤں کی ہر جگہ چاندی ہے " اور فون بند کردیا ۔
گھر آئے تو ملازم سے کھانا لگوانے کا کہا ، اُس نے کھانا لگایا ، لوکی اور
شملہ مرچ کے ڈھیر میں ، دو آلو جھانک رہے تھے ۔ گوشت کا تڑکا برائے نام تھا
۔ ہمارے دل سے آہ نکلی اور چپ کر کے کھانا کھایا ، کیوں کہ ہم پھر چونتیس
سال پہلے کھڑے تھے اور بیگم سے جھگڑا مول نہیں لے سکتے ۔بیگم کو لانے گئے ،
انہوں نے کار میں بیٹھتے پوچھا ، " کھانا کیسا تھا ؟"
انہیں رائے دی ، " آئیندہ لوکی اور شملہ مرچ مونث کے بجائے مذکر لانا " ۔
" کیا مطلب ؟" انہوں نے پوچھا
"ہمیں آج ایک فیس بک پر پوسٹ آئی ہے ، جس میں ہمیں بتایا گیا ہے ، کہ تین
بٹ والی شملہ مرچ مذکر ہوتی ہے اور چار بٹ والی شملہ مرچ مونث ۔ مذکر کو
پکا کر کھایا جاتا ہے اور مؤنث کو کچا " ہم نے جواب دیا
وہ سمجھیں شاید ہم مذاق کر رہے ہیں ، شاید آپ بھی مذاق سمجھیں ۔
لیکن کیسا رہا ہمارا فٹبال میچ ؟ |
|