سچائی کی شمع کو بجنے نہیں دیں گے

صحافی معاشرئے میں ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جب کہ پا کستان نے صحافت میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ جانوں کا نذرانہ پیش کیااوراس وقت دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے جہاں آواز بلند کر والے صحافیوں ،کالم نگاروں ،نمائندوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے پاکستان جب 14اگست 1947معرض وجود میں آیا تو اس وقت لب آزاد ہو گئے تھے ہر ایک کو قانونی و معاشرتی اور اخلاقی طور پر یہ حق حاصل ہو گیا تھا کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز ا‘ٹھا سکے اپنے ساتھ ہونی والی زیادتی و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کر سکے نہ صرف اپنے ساتھ ہونی والی نا انصافی و زیاتی کے خلاف آواز بلند کرے بلکہ ان تمام انسانوں کی آواز بنے جوظلم و زیاتی اور نا انصافی کا شکار ہوئے ہیں تو اس وقت میڈیا کا کردار بھی کچھ ایسا ہی ہے جو ظلم و زیادتی اور نا انصافی کا شکار ہونے والے افراد کی آواز بن کر عہد عوان سے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن ان آواز بلند کر والے صحافیوں ،کالم نگاروں ،نمائندوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے پیسوں کے زور یا پھر طاقت کے زور سے اور اگر کوئی پھر بھی نہ ر‘کے تو اس کی آواز کو ہمیشہ کے لیے چپ کروا دیا جاتا ہے کیا انصاف کی خاصر آواز بلند کرنا جرم ہے جس کی سزا موت ہے کیوں ان مظلوم و بے سہارا لوگوں کی خاصر آواز بلند کرنے والوں کے سر قلم کر دیے جاتے ہیں ان بے سہارہ و مجبور وں کی صدا کوئی نہیں سنتاان کی صدا بننے والے صحافیوں کو گولی کے دم پر چپ کروا دیا جاتا ہے صحافی معاشرے کی آنکھیں ہوتے ہیں اور جس معاشرے میں صحافت کویوں دبانے کی کوشش کی جاتی ہو وہ معاشرہ کبھی بھی ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتاصحافی معاشرئے میں ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جوعوام کی آواز کو حکام بالا تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں سال 2014 پاکستان ایک مرتبہ پھر صحافیوں کے لیے خطرناک ملک رہاصحافی تو اپنی خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں ان کا کسی جنگ یا نظام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے یہ قابل مذمت ہے خطروں میں گھرے صحافیوں کے تحفظ اور ان کی مالی امداد کے لیے بھی حکومت اپنا کردار ادا کرے سال 2014 بھی صحافیوں کے لیے مہلک اور خونی رہا۔ مختلف شورش زدہ علاقوں میں ذمہ داریاں انجام دینے والے صحافیوں کی ہلاکت ہوئی بدقسمتی کے ساتھ صحافیوں کو دوران کام تشدد کا نشانہ بنانے جمہوری معاشرئے کے لیے انتہائی خطرناک امر ہے حکومت کے وعدوں کے باوجود حالیہ مہینوں میں بھی صحافیوں کی سکیورٹی کا مسئلہ برقرار ہا اور شدت اختیار کرتا جا رہا ہے صحافیوں کے قتل تصادم کے شکار صوبوں خیبر پی کے اور بلوچستان میں رپورٹنگ کرنا انتہائی خطرناک ہے پاکستان کے سب سے بڑے آ بادی اور تجارتی شہر کراچی میں صحافیوں پر حملے بڑھ رہے ہیں صحافیوں پر حملوں کے اعتبار سے بلوچستان زیروگراؤنڈ ہے پاکستان میں صحافیوں کی سکیورٹی دن بدن بدترین ہوتی جا رہی ہے صحافیوں کے قتل کے واقعات کے علاوہ بھی صحافی برادری کیخلاف کارروائیاں وسیع اور گہری ہیں پاکستان میں ان گنت صحافیوں کو اغوا کیا گیاتشدد کا نشانہ بنایا گیا یا پھر انہیں کام سے روکنے کیلئے سخت نتائج کی دھمکیاں دی گئیں جبکہ صحافی فوج کے سپاہی کی مانند میدان جنگ میں سینہ سپر کئے ہوئے اپنے قلم اور کیمرہ کی آنکھ کے ذریعے عوام کو حقائق سے آگاہ کرتے رہتے ہیں اور اگر ہمارئے ملک میں صحافیوں کی آواز کو دبانے کی کوشش تسلسل کے ساتھ جاری رہی تو پھر ہر کوئی گھروں کے کونوں میں بیٹھ کر ماتم کرتا رہے گا اور ان کی آواز حکام تک پہنچانے والا کوئی نہیں ہوگا، ان کو اس جرم کی سزا دی جاتی ہے جو جرم نہیں نیکی ہے اور جس کا صلہ گولی نہیں فخر ہے دعائیں ہیں اگر ہم اس ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں تبدیلی اپنے اندر لانا ہوگی یہ احساس پیدا کرنا ہو گا کہ دوسروں کی عزت کیسے کی جاتی ہے دوسروں کی جانوں کی قدر کتنی ہے دوسروں کی عزت و جان مال کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے دوسروں کے د‘کھ درد میں شریک کیسے ہوتے ہیں کب تک انصاف کی خاظر کھڑے ہونے والے صحافی نا انصافی کی بھیت چڑھتے رہیں گے کب تک غریبوں کے ساتھ ہونی نا انصافیوں کو اجاگر کرنے والے اسی طرح اندھی گولیوں کا شکار ہوتے رہیں گے اور کب تک ان کے والدین بھی انصاف کی اپیل کرتے خود بھی جان کی بازی ہارتے رہیں گے ایک سچے اور معاشرے کے لیے درد رکھنے والے صحافی کا قصور یہ ہے کہ وہ معاشرے میں ہونے والی زیاتیوں ،نا انصافیوں ،لوٹ مار کو بے نقاب کرتا ہے کیا سچ بولنے اور سچ دکھانے کی سزا موت ہے اگر اس کی سزا موت ہے تو صحافی موت سے نہیں گھبراتے بلکہ سچ کی خا طر اپنی جانیں دیتے رہیں گے میرے نزدیک صحافت ایک مقدس پیشہ ہے صحافت سے منسلک ہر آدمی کا فرض ہے کہ حق سچ کی آواز بلندکرے صحافیوں کی عالمی تنظیموں کا یہ اندیشہ بجا طور پر درست ثابت ہو رہا ہے کہ سرزمینِ مملکتِ خداد صحافیوں کے لیے روئے زمین پر سب سے زیادہ خطرناک اور غیر محفوظ خطہ ہے۔ وہاں کے حالات چیخ چیخ کر صحافیوں سے کہہ رہے ہیں کہ نظر بچا کے چلو ، جسم وجاں چرا کے چلو صحافی مظلوموں بے سہارہ لوگوں کی آواز بنتے رہیں گے اگر حق سچ کی آواز بلند کرنے والوں کو گولی کے زور پر ایسی طرح چپ کروایا جاتا رہا تو ایسا نہ ہو کہ ایک دن حق سچ کی آواز بلند کرنے والوں کی تعداد اتنی کم ہوجائے کہ لوگ انصاف کی خاطر غیر قانونی راستے تلاش کرناشروع کردیں جس سے معاشرے میں سچائی کی شمع ماند پڑ جائے تو آئیں آج یہ عہد کریں کہ سچ کی خاصر قربان ہونے والے ان صحافیوں کی آواز کو دبنے نہیں دیں گے اور ان کا ساتھ دے کرسچائی کی شمع کو بجنے نہیں دیں گے خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو امین

تم قلم روک رہے ہو پر تمہیں یاد رہے قلم کار کسی خوف سے دبنے والے نہیں
Mian Naseer Ahmad
About the Author: Mian Naseer Ahmad Read More Articles by Mian Naseer Ahmad: 32 Articles with 26287 views I am writer, Journalist, Editor i always try to explore the truth of society and never involve in notorious activities.. View More