گستاخانہ خاکے نامنظور.... تمام عالم سراپا احتجاج
(عابد محمود عزام, karachi)
فرانسیسی میگزین کی جانب سے
گستاخانہ خا کوں کے ذریعے بدترین بین الاقوامی دہشت گردی کے ارتکاب کے بعد
دنیا بھر میں متعصب، گستاخ اور اسلام دشمن میگزین اور اس خبیث ذہنیت اور
گستاخی کی حمایت کرنے والے مغربی عناصر کے خلاف شدیداحتجاج کا سلسلہ جاری
ہے۔ تمام عالم میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس غلیظ حرکت پر عالم اسلام
کا ہر فرد شعلہ جولاں بنا فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو اور اس کی پشت پر
کھڑے مغرب کی پست سوچ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اسے اس قسم کی انتہا
پسندی سے باز رہنے کی وارننگ کے ساتھ سراپا احتجاج ہے۔ امت مسلمہ کا ہر فرد
ناموس رسالت صلی اللہ علیہ سلم پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے بے چین
دکھائی دے رہا ہے۔ فیصل آباد کے ایک تاجر نے گستاخ جریدے کے مالک کا سر قلم
کرنے والے کے لیے دو کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ پاکستان بھر کے
تمام شہروں میں مسلسل اور سخت احتجاج اور ریلیوں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔
ملک کی تمام مذہبی جماعتیں مل کر ”یوم مذمت“کے نام سے گستاخانہ خاکوں کے
خلاف سخت احتجاج کر چکی ہیں۔ جبکہ اس کے بعد بھی مسلسل احتجاج میں شدت آتی
جارہی ہے ، مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر یورپ نے اسلام کے خلاف متعصبانہ
رویہ ترک نہ کیا تو جنگ عظیم ہوسکتی ہے۔ گستاخانہ خا کے دوبارہ شائع کرنے
پر مسلمانوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ ملک کے تمام بڑے چھوٹے شہروں
میں احتجاجی مظاہروں کے دوران فرانس کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی، جبکہ
متعدد شہروں میں اقلیتی برادری نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر فرانس کے
پرچم جلائے اور گستاخانہ خاکوں کو مذہبی ہم آہنگی کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔
پاکستان کی تمام سرکاری و غیر سرکاری، سیاسی و غیر سیاسی شخصیات اور زندگی
کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے گستاخانہ خاکوں کی نہ صرف مذمت کی
ہے، بلکہ سخت الفاظ میں خبیث و غلیظ سوچ کے مالک گستاخوں کو تنبیہ کرتے
ہوئے ان سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے گستاخانہ خا
کوں کی اشاعت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گستاخ جریدہ مسلمانوں کی دل
آزاری کا مرتکب ہوا ہے، اسے معافی مانگنی چاہیے۔ آزادی اظہار کا مطلب ہرگز
یہ نہیں کہ دوسرے کسی مذہب کے مقدس شعائر کی توہین کی جائے اور اس کے ماننے
والوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جائے۔اس حوالے سے پاکستانی قومی اسمبلی
میں مذمتی قرار داد منظور کرنے کے ساتھ گستاخانہ خاکوں کے خلاف مارچ بھی
کیا گیا۔ جبکہ بعض سیاست دانوں نے عالمی عدالت میں یہ معاملہ اٹھانے کا
فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے علاوہ عالم اسلام کے تمام ممالک میں اس گستاخی کے خلاف احتجاج
کا سلسلہ جاری ہے۔ تنظیم اسلامی برائے باہمی تعاون( اوی آئی سی) نے
فرانسیسی جریدنے کے خلاف عدالت جانے کا مشروط اعلان کردیا ہے۔ فرانسیسی
میگزین چار لی ایبڈو کی طرف سے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے
گستاخانہ خا کے شائع کرنے پر الجزائر، نائجر، سوڈان، مصر، یمن، کویت،
مراکش، اردن، لبنان، فلسطین، بھارت، ترکی فلپائن سمیت دیگر ممالک میں شدید
احتجاج اور ریلیاں نکالی گئیں، جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر
فرانسیسی پرچم بھی نذر آتش کیے گئے۔ نائجر میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے
خلاف احتجاج میں دن بدن شدت آتی جارہی ہے، احتجاج کے دوران اب تک متعدد
افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور مشتعل افراد کی جانب سے متعدد گرجوں کو
بھی آگ لگائی جاچکی ہے۔ کویت میں لاکھوں افراد نے گستاخانہ خا کوں کی اشاعت
کے خلاف فرانسیسی سفارت خانے کے با ہر احتجاجی ریلی نکالی، جس میں شریک
افراد نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے، جن پر عربی، فرانسیسی اور انگرےزی
زبان میں مذمتی نعرے درج تھے۔ کویت کی حکومت نے بھی گستاخانہ خا کوں کی
اشاعت کی شدید مذمت کی ہے۔ عمان میں ہزاروں افراد بازاروں اور گلیوں میں
نکل آئے اور فرانسیسی میگزین کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مشرق وسطیٰ کے
ممالک نے خبر دار کیا ہے کہ اگر فرانس نے میگزین کے خلاف کارروائی نہ کی تو
دنیا بھر میں نفرت کی ہوا چل پڑے گی۔ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور مسجد
اقصٰی کے باہر ہزاروں فلسطینیوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے فرانسیسی پرچم
نذر آتش کرتے ہوئے اس کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مطالبہ کیاکہ گستاخانہ
خا کے شائع کرنے وا لوں کے خلاف سخت کارروائی نہ کی گئی تو فرانس کی حکومت
بھی برابر کی شریک سمجھی جائے گی۔ قاہرہ میں ہونے والے مظاہروں میں الاخوان
المسلمون کے ہزاروں کارکن بھی شریک ہوئے۔ مظاہرین نے کہا کہ پیغمبر رحمت
صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خا کے شائع کرنا عالمی دہشت گردی ہے۔ بحرین
کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے خاکوں کی اشاعت سے مسلمانوں کے
جذبات کو مجروح کیا گیا، جو کسی صورت قابل برداشت نہیں۔ لبنان میں مظاہرین
نے احتجاج کرتے ہوئے نعرے تکبیر بلند کرتے ہوئے ریلی نکالی،جس میں ہزاروں
افراد شریک ہوئے۔ سعودی علماءکونسل نے بھی گستاخانہ خا کو ں کی اشاعت کی
شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کوئی آزادی نہیں، بلکہ انتہا
پسندوں کی مدد کرنا ہے۔ مرا کش نے کہا ہے کہ وہ اےسے غیر ملکی اخبارات پر
پابندی عاید کرے گا جو گستاخانہ خا کے دوبارہ شائع کریں گے۔ شمالی افریقہ
میں بھی اس حوالے سے سخت ترین احتجاج کیا گیا۔ ترکی میں بھی احتجاج کرتے
ہوئے مظاہرین نے فرانس سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت میں بھی
مسلمانوں نے گستاخ فرانسیسی میگزین کے خلاف احتجاج کیا، ان کے علاوہ دنیا
کے تقریباً تمام مسلم و غیر مسلم ممالک میں چھوٹی بڑی ریلیاں نکالی گئی
ہیں۔
الجزائر کی یونیورسٹیوں میں اس وقت 24ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں، فرانس کی
جانب سے خاکوں کے ذریعے گستاخی کے بعد اسٹوڈنٹ یونین کے سربراہ نے کہا ہے
کہ اگر فرانس نے اپنا احمکانہ اور گستاخانہ رویہ نہ بدلا تو تمام کے تمام
الجزائری طلبہ فرانس کے تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ جبکہ دوسری
جانب الجزائر میں قومی و عوامی سطح پر فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا
گیا ہے۔ الجزائر میں ہی سول سوسائٹی کی جانب سے خاکوں کی اشاعت کے خلاف
شروع کی گئی تحریک میں شامل الجزائری تاجر یونین کے ترجمان بولنوار نے کہا
ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں الجزائر میں فرانس کی مصنوعات زیادہ فروخت
ہوتی ہیں، الجزائر فرانسیسی مصنوعات کی بڑی مارکیٹ ہے، فرانس کی حالیہ مہم
فرانس کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کرے گا۔ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی
اشاعت کے بعد یورپ میں مقیم الجزائری باشندوںنے پورے یورپ میں آپ علیہ
السلام کی سیرت کی مہم کا آغاز کیا ہے۔ مراکش نے فرانس کی جانب سے شائع
ہونے والے خاکوں پر سخت تنقید کی ہے، مراکش نے اپنے ملک کے پرنٹ میڈیا کو
سخت تاکید کی ہے کہ وہ احتیاط سے کام لے۔ مراکش کی جانب سے سختی ناراضگی کے
سبب فرانس کی حکومت نے مراکش کو منانے کے لیے اپنے وزیر خارجہ کو مراکش
بھیجنے کا اعلان بھی کیا ہے، جبکہ مراکش میں عوام، سول سوسائٹی، تاجر اور
صحافی تنظیموں اور دیگر کئی حلقوں کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ
کا اعلان کیا ہے۔ مراکش اور الجزائر کی تمام یونیورسٹیوں اورتعلیمی اداروں
میں فرانس کے خلاف مذمتی ریلیاں بھی منعقد کی گئی ہیں۔ مصر کی تاریخی دانش
گاہ جامعہ الازہر نے کہا ہے کہ فرانسیسی ہفت روزہ چارلی ایبڈو میں توہین
آمیز خاکوں کی اشاعت سے نفرت ہی کو تقویت ملے گی۔ ترکی کے صدر رجب طیب ارد
گان نے کہا کہ فرانسیسی میگزین نے دنیا بھر میں نفرت اور نسل پرستی کو ہوا
دی ہے، میگزین پہلے ہی مسلمانوں، مسیحوں اور دیگر کمیونٹی کے خلاف نفرت
آمیز اشاعت کرنے کے باعث بدنام ہے، یہ کوئی آزادی نہیں، بلکہ دوسرے کے حساس
معاملات میں کھلی مداخلت ہے، جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مسلمان دیگر
انبیاءعلیھم السلام کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور نہ ہی
اپنے نبی صلی اللہ علیہ سلم کی شان میں گستاخی برداشت کر سکتا ہے۔ افغان
صدر اشرف غنی نے فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی
اشاعت کو ”اسلام کی تضحیک“ قرار دیتے ہوئے ان کی شدید الفاظ میں مذمت کی
ہے۔
دوسری جانب دنیا بھر سے سنجیدہ حلقے بھی فرانسیسی گستاخ میگزین کی جسارت پر
سراپا احتجاج ہےں۔ خود فرانس کی نصف آبادی نے گستاخانہ خاکوں کی مخالفت کی
ہے۔ عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے کی
بھی کچھ حدیں ہوتی ہیں اور دوسروں کے مذہب کی توہین نہیں کی جا سکتی۔ آپ
کسی کو بھی اشتعال نہیں دلا سکتے، آپ کسی کے ایمان کی توہین نہیں کر سکتے۔
انہوں نے مثال دی تھی کہ اگر میرا بہترین دوست ڈاکٹر گیسپری میری ماں کے
بارے میں برے جملہ کہے تو وہ جواباً مکے کی توقع کر سکتا ہے۔ مصر میں قبطی
عیسائیوں کے پیشوا ٹاواڈورز دوئم نے بھی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی شدید
مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لبنان،
مصر، شام اور دیگر کئی ممالک میں اقلیت عیسائی تنظیموں نے گستاخانہ خاکوں
کی اشاعت کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے ریلیاں نکالیں اور فرانسیسی مصنوعات کے
بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ روس نے خبردار کیا ہے کہ چارلی ایبڈو کی جانب سے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون شائع کرنا ملک کے قانون اور
اخلاقیات کے خلاف ہے۔ میڈیا اور کمیونیکیشن واچ ڈاگ نے کہا کہ روسی میڈیا
میں اس طرح کے کارٹون شائع ہونا اخلاقیات اور قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
مذہبی موضوعات پر بنے خاکے اور کارٹون شائع کرنا کسی بھی مذہب کے نمائندوں
کی توہین کے ضمرے میں آتا ہے۔ فلپائن میں ریلی کے شرکا نے پلے کارڈ اٹھائے
ہوئے تھے، جن پر یو آر شارلی اینڈ آئی لَو محمد کے نعرے درج تھے۔ دیگر
متعدد غیر مسلم ممالک میں بھی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف مظاہرے کیے
گئے، جن میں گستاخ میگزین پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔
دنیا بھر کے سنجیدہ اور غیرجانبدار صحافتی حلقوں نے گستاخانہ خاکوں کی
اشاعت کو صحافتی دہشتگردی قرار دیا ہے۔ جبکہ دنیا بھر کے اخباروں نے
فرانسیسی رسالے چارلی ایبڈو (جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے
گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے ہیں) کے ”سروائیورز“ ایڈیشن پر غصے، تشویش اور
یک جہتی کا ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اپنے صفحہ اول پر لکھا:
”فرانسیسی رسالے کا نیا سرورق نئے خوف ساتھ لے کر آیا ہے اور اس بات کا
خطرہ ہے کہ چارلی ایبڈو مزید تشدد کا نشانہ بنے۔“ مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے
اخباروں نے، جن میں غیر جانبدار اخبار بھی شامل ہیں، میگزین کی جانب سے
سرورق پر آپ علیہ السلام کے گستاخانہ خاکے چھاپنے پر کڑی تنقید کی ہے۔ اردن
کے سرکاری اخبار ”الدستور“ کے صفحہ اول کی سرخی تھی: ”چارلی ایبڈو کی
اشتعال انگیزی جاری ہے۔“ الجزائر کے روزنامے ”الشروق“ میں حبیب راشدین نے
فرانسیسی حکومت کی جانب سے چارلی ایبڈو کی مالی مدد پر تنقید کرتے ہوئے کہا
ہے کہ ”اس اقدام نے تمام سرخ لکیریں پار کر دی ہیں اور یہ مسلمانوں کے خلاف
کھلی صلیبی جنگ ہے۔ اب یہ ہر مسلمان کا حق بن گیا ہے کہ وہ فرانس کے سفیروں
پر اپنے مذہب کی توہین کا مقدمہ دائر کر دیں۔“ الجزائر کے ایک اور اخبار
”النہار“ کے صفحہ اول پر ایک تصویر شائع کی گئی، جس پر لکھا تھا: ”ہم سب
محمد ہیں“ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے بھی گستاخانہ خاکوں کو ”اشتعال
انگیزی“ قرار دیا ہے۔ ترکی کے ایک اخبار ”یینی اکیت“ نے چارلی ایبڈو کے
خلاف بالخصوص اور مغرب کے خلاف بالعموم ایک پورا صفحہ چھاپا ، جس کا عنوان
تھا ”رسوائی جاری ہے“ اخبار نے لکھا ہے: ”خطرناک حالات کے باوجود سرکش
رسالے چارلی ایبڈو اور صہیونی میڈیا کے زیرِ اثر مغربی میڈیا نے مسلمانوں
اور مسلم دنیا کے خلاف بزدلانہ حملے جاری رکھے ہیں۔“ کئی تبصرہ نگاروں نے
فرانس اور دوسرے ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ مذاہب اور مذہبی شخصیات کی
توہین کو غیر قانونی قرار دیں اوراگر ایسا نہ کیا گیا تو انتہاپسندی کو ہوا
ملے گی۔ سعودی عرب کے روزنامے ”الوطن“ نے لکھا ہے کہ ”آزادیِ اظہار کو اس
مقام پر رک جانا چاہیے جہاں کسی کے رنگ، نسل یا مذہب کی توہین شروع ہوتی
ہے۔ “ لبنانی اخبار ”الانور“ نے مغرب پر دہرے معیار کا الزام عاید کرتے
ہوئے کہا ہے کہ ”ایک طرف تو یورپی ملک یہود دشمنی کو جرم قرار دیتے ہیں، تو
دوسری جانب دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے میں
کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔“ ادھر فرانس کے معتدل اخبار ”لا موند“ نے اپنی
ویب سائٹ پر متنازع مزاح نگار دیودون امبالا امبالا کی گرفتاری پر سوال
اٹھایا ہے، جنھوں نے مبینہ طور پر دہشت گردی کی حمایت میں بیان دیا تھا۔
اخبار نے پوچھا ہے: ’چارلی، دویودون، آزادیِ اظہار کی حدیں کہاں ہیں؟‘ چین
کے سرکاری میڈیا نے چارلی ایبڈو کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر
تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مسلمانوں کو غیرضروری طور پر
اشتعال دلایا گیا ہے۔ چینی اخبار ”گلوبل ٹائمز“ نے خاکے کو ”غیرمناسب“ قرار
دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”اگر چارلی ایبڈو اسلام کے بارے میں اسی طرح اڑا رہا
تو اس سے فرانسیسی حکومت مشکل میں پڑ جائے گی۔“ |
|