ہر گزرتا لمحہ ۔۔ماضی

رات کی گہری خاموشی میں گھڑی کی یہ ٹک ِٹکِ کرتی آواز کس قدر شور مچاتی ہے۔ انسان کو بے چین سا کر دیتی ہے۔اسکی ہر ہر آہٹ پر نیند کی پر پھیلائے آغوش جیسے ایک ایک قدم دور ہوتے جاتی ہے۔اس کشمکش میں اس کی حرکت کرتی سوئی کو غصے میں تکنا شروع کروتو۔۔تومحسوس ہوتا ہے کہ اس کی سوئی توکتنی معصومیت سے بس چلتی ہی چلے جاتی ہے۔ہر کسی سے بے نیاز،لاپرواہ،اپنی ہی مستی میں مگن۔بس وقت بتاتی ہے۔وقت!!!

اسی کے ساتھ انسان کب یادوں کے جنگل میں چلا جاتا ہے اسے پتا ہی نہیں چلتا ۔ماضی کے تمام لمحات اس کی یادداشت کی طرف دوڑ لگاتے ہیں ۔سبھی واقعات میں ملے جلے تاثرات سے انسان کے دل و دماغ پر مختلف جذبات کا سمندر امڈنے لگتا ہے۔کبھی دل کے دریچوں پر خوشی کی سنسناہٹ کرتے سنہرے دن۔۔امتحان کو اچھے نمبروں میں پاس ہونے پر ماں باپ کا پیار،ان کے چہرے کی چمکتی طمانیت۔ کام کاج میں ہاتھ بٹانے پر ماں کی ڈھیر ساری میٹھی دعائیں۔سالگرہ کے موقع پر سارا دن گھر کے افراد کا انجان بنے رہنے کے بعد ایک دل لبھاتی سرپرائز پارٹی کا اہتمام۔نوکری ملنے پر ایک عرصے کے بعد ملنے والا ذہنی سکون اور سب کے چہروں پر پھیلی حسین مسکراہٹوں بھرا روز۔ہاتھ میں ہم سفر کا ہاتھ تھامنے پر زندگی کو مزید خوبصورت بنانے کے بھرپور وعدے ۔بہن کو بلاوجہ ستانے اور ماں کی ڈانٹ کھانے کے وہ پیارے پل۔پہلے بچے کی پیدائش پر گھر بھر میں گیت گاتا سماں۔۔۔اور چہرے پر بے ساختہ ہنسی!

وہ وقت!!!کہ جن میں اداسی کے مختصر لمحات کی طوالت کا تکلیف دہ احساس ہونا۔سب دریچوں کے کھلنے کے ساتھ ساتھ ان میں سے بھی یادداشت کا گزر لازماََہوتا ہے۔۔۔باپ کے بیمار پڑنے پردل میں ڈر پیدا کرتے سو سو وسوسوں کا جنم لینا۔ماں کے لئے کسی پریشانی کا باعث بن کر اس کی نم ہوتی آنکھیں دیکھ کر شرمندگی سے ڈوب جانا۔شرارت میں کسی کی گھر کی گھنٹی بجا کر(خوددیوار کے پیچھے چھپے ہوئے) یک دم کسی بوڑھے کو دروازہ کھولتے دیکھنا اور اپنے کئے پر بہت برا محسوس کرنا۔اور۔۔اورکسی اپنے کا بہت دور چلے جانا۔۔۔

ایسا وقت بھی زندگی میں آتا ہے کہ اپنے پرائے کا فرق کھلی کتاب کی طرح انسان پر واضح ہو جاتا ہے۔وہ جب انتہائی ضرورت کے وقت ایک ہی سہارا۔۔اپنوں کا۔۔مگر ان کا سنگدلی کے ساتھ منہ پھیر کر پلٹ کر نہ دیکھنا۔خستہ حالی میں اپنوں کی سرد مہری ۔۔مگرپھر اچھے دنوں میں زبردستی کی قربت ظاہر کرنے کے سبق آموز قصے۔۔

آہ!!یہ زندگی بھی کیا کیا جلوے دکھاتی ہے۔وقت کے آنچل میں کتنے ہی موسم سموئے ہوئے انسان پر کبھی شدت کے ساتھ تو کبھی اپنے حسین پر پھیلائے بہت ہی پیار سے ظاہر ہوتی ہے۔زندگی میں آنے والے کچھ حالات کی سختی تو بھلائے نہیں بھولتی ۔اور اسی طرح خوشگوار یادوں کے بھنور سے نکلنے کا تو جی ہی نہیں چاہتا۔ان لمحات کی واپسی کا مطالبہ ہمارے منہ سے بے ساختہ نکل جاتا ہے۔کسی کی بھی زندگی کے سب سے پر رونق اور دل کو اپنے جال میں جکڑ لینے والے دن ''بچپن ''کے ہوتے ہیں۔ان دنوں کے سحر میں جب بھی دل و دماغ محو ہوتے ہیں تو بس پھر۔۔۔فضاؤں میں سب کے قہقہے ،چہروں پر مسکراہٹ اور معصوم سی شرارتوں کی جھلک ہی نظر آتی ہے۔اس دور میں نہ وقت کا اتا پتا،نہ ہی دنیا داری،نہ کوئی لین دین،نہ ہی کسی قسم کا کوئی جھنجھٹ ۔۔

اور وہ سب دن ماضی کی شاندار کہانیاں بن کر ذہن کے کسی کونے میں سمٹ جاتی ہیں ۔پھر جوانی کا
پر جوش وقت آتا ہے اور انسان اس کے دھارے میں خوب مستی سے بہتا چلا جاتا ہے۔اسے بچپن سے نکلنے کی اداسی ستاتی ہے لیکن جوانی کی تیز رفتاری اسے یوں مگن کرتی ہے کہ جیسے وہی سب سے اچھے دن ہوں۔نئے دوست ،نئے ارادے،نیا ولولہ،نئے مقاصد۔سبھی مل کر زندگی میں نئے نئے موڑسے آشنا کئے جاتے ہیں۔ہرگزرتا دن شام ہوتے ہی ماضی کی کتاب میں کسی صفحے پر قلم بند ہو جاتا ہے اور نئے دن کے ساتھ نیا ورق ۔۔۔

اور پھر یہ سب لمحات بھی ماضی کی دھول میں دھندلا جاتے ہیں۔کمزور جان،کانپتے ہاتھ،پھرتی میں آتی سستی۔۔اف !اس بڑھاپے نے تو کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔کہاں وہ جوانی کے رنگ اور کہاں یہ سر اٹھاتا بڑھاپا!! وقت کو ایسے پر لگے کہ اس نے نہ رکنے والی اڑان بھر لی اور پھر نہ رکا،نہ پلٹا۔کتنے ہی لوگوں کو پیچھے چھوڑ آیا۔کچھ تو وقت کے ذہن سے مٹ گئے ۔اور کچھ تو جونک کی طرح چمٹ کر رہ گئے۔
وقت۔۔۔اسے تو بس چلنا ہے کبھی نہ تھمنے کے لئے۔ہاں یہ ایک طرح سے ٹھیک تو ہے ناں۔انسان کی زندگی میں آنے والے دکھ کے لمحات میں یہ مرہم ہے ۔ایسے گزرتا جاتا ہے کہ جانے والے سے جدائی منٹوں سے گھنٹوں اور یوں ہفتوں سے مہینوں میں بدلتی سالوں تک پہنچ جاتی ہے۔دکھ اور غم کی شدت کا احساس کم ہوتے ہوتے آخر بہت سے دنیاوی کاموں کے پیچھے روپوش ہو جاتا ہے۔مگر۔۔۔خوشی میں تو وقت کا ایک ایک لمحہ سمیٹنے کو جی چاہتا ہے۔کہ بس یہ کسی طرح تھم جائے اور ہم اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیں۔انسان خود غرض ہونے لگتا ہے ۔

بس یہ ریت کی طرح ہی تو ہے۔انسان کی مضبوط مٹھی سے بھی کیسے آسانی سے پھسل کر چل پڑتا ہے اپنی ڈگر پر۔تو بس ایک انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنی حیات میں آنے والے ہر پل میں خوش رہے اور خوشیاں بانٹے۔دوسروں کے دکھ درد میں میں شریک ہو کر ان کو زندگی کی طرف لائیں نہ کہ ایک دن جا کر اپنا فرض پورا کر کے بھول جائیں۔

زندگی کو مثبت انداز سے دیکھئے ۔تا کہ آپ کی کوئی پریشانی آپ پر حاوی نہ ہو سکے۔اپنے لئے آسانیاں پیدا کریں مگر دوسروں کے لئے مشکلات نہیں۔زندگی تو ہے ہی امانت،تو اپنے پروردگار کے بتائے ہوئے راستوں کو اختیار کر کے اپنے لئے اطمینان سمیٹئے۔کتنی تو گزر بھی گئی اور باقی وقت کے ساتھ ساتھ چلتی جا رہی ہے بلکہ یوں کہیے کہ دوڑتی جاتی ہے۔ ہر گزرتا لمحہ ماضی میں بدلتا جا رہا ہے تو کیوں نہ اپنے حال میں زندگی کو شکر گزاری ،پرہیز گاری اور خوش اخلاقی سے لبریز کر کے ماضی کو تحفہ کیا جائے تا کہ کل جب وہ ماضی کے قصوں میں منعکس ہو تو دل میں کوئی اضطراب نہ جگا سکے۔۔۔۔

shaistabid
About the Author: shaistabid Read More Articles by shaistabid: 30 Articles with 25358 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.