نائن الیون سے شارلی ہیبڈو تک

بیسویں صدی کے آخری سالوں میں نائن الیون کے سانحے نے دنیا کی عصری تاریخ پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔اس صدی کے اختتام سے دس گیارہ سال پہلے جب روس نے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں تو اس وقت روس کا سورج اپنے نصف النہار پر تھا ۔اس زمانے میں یہی بات سننے میں آتی تھی روس جہاں بھی داخل ہوا ہے وہاں سے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا ہے ۔دوسری بات یہ سننے اور پڑھنے میں آرہی تھی کہ اتنے بڑے طاقتور ملک کے پاس کوئی بندرگاہ نہیں ہے اور روس کے افغانستان میں داخل ہونے کامطلب محض افغانستان کو فتح کرنا نہیں ہے بلکہ بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک آنا ہے اور روس کا اگلا اور اصل پڑاؤ تو پاکستان ہے ۔ہمیں یاد ہے اس زمانے میں ہم دوست ایک دوسرے کو مذاق میں چھیڑا کرتے تھے کہ بھائی تمہار نام کریم ہے ،بس بچو ایک دو سال میں تم کریم سے کریموف ہو جاؤ گے جس کا نام سعید ہے وہ سعیدوف ہو جائے گا ۔جب ہم یہ باتیں کرتے تھے تو شعور کی اتاہ گہرائیوں میں خوف کی ایک لہر بھی چلتی رہتی تھی کہ ابھی سات آٹھ سال پہلے تو ہم سے مشرقی پاکستان چھین لیا گیا کیا اب بقیہ پاکستان بھی خدا نہ خواستہ ختم ہونے کے قریب ہے ۔بس وہ دن تو ایک طرح سے اس انتظار میں گزر رہے تھے کہ دیکھو اب کب روس کی فوجیں افغانستان سے پاکستان کی سرحد میں داخل ہوتی ہیں ۔اس وقت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اقوام متحدہ سمیت خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے تھیں ۔پھر ہم دیکھتے ہیں نہتے افغانیوں نے جدید اسلحوں سے لیس روسی فوجوں کا مقابلہ شروع کیا اس وقت حکومت پاکستان کی طرف سے بھی کوئی کمک یا امداد نہیں دی جارہی تھی بس افغان مجاھدین بے سروسامانی کے عالم میں اپنی ہی ٹکنیک سے جنگ لڑ رہے تھے افغانستان پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں کے پہاڑوں سے جتنا افغانی واقف ہوں گے اتنا اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔روسی فوجیوں کو چھاپہ مار جنگ کا مقابلہ کرنا تھا جس میں روس اس طرح پھنس کر رہ گیا کہ پاکستان کے گرم پانیوں تک آنے کا خواب دھندلاتا جارہا تھا ۔نہتے افغانیوں نے روس کے ٹینکوں کا اس طرح مقابلہ کیا کہ یہ پہاڑوں میں چھپ کر بیٹھ جاتے جب کوئی ٹینک آرہا ہوتا یہ اچانک اس کے سامنے آکر ٹینک کے شیشوں پر گیلی مٹی پھینک کر پہلے اسے اندھا کر دیتے اس کے بعد کپڑے کی بڑی سی گیلی چادر نیچے پہیوں میں ڈال دیتے جو ٹینک کے پہیوں میں الجھ کر اس کو لنگڑا کردیتی ،پھر اس کے بعد اس اندھے اور لنگڑے ٹینک پر چڑھ کر اس پر موجود روسی کو مار دیتے یا گرفتار کرلیتے ۔شروع کے تقریباَ دو سال نہتے افغان مجاھدین روسی فوجوں کا مقابلہ یکہ و تنہا کرتے رہے ، اس درمیان یہ بات ضرور دیکھنے میں آئی کہ چونکہ افغان باشندوں کے لسانی اور ثقافتی تعلقات پاکستان کے صوبہ سرحد کے باشندوں سے سینکڑوں سالوں سے قائم تھے اس لیے پاکستان سے سے کچھ لوگ بغیر کسی سرکاری حمایت یا ہدایت کہ اپنے طور پر اپنے افغان بھائیوں کی مدد کرتے رہے پھر کچھ عرصے بعد پاکستان نے باقاعدہ ان مجاھدین کواخلاقی ،مالی اور عسکری امداد دینا شروع کی کہ یہ تو پاکستان کے دفاع کی جنگ تھی ایک طویل عرصے سے پوری دنیا سرد جنگ کا شکار تھی امریکا نے جب دیکھا کہ روسی فوجوں کو افغانیوں نے ٹف ٹائم دیا ہے تو پھر وہ اس جنگ میں خود اپنے ایک منصوبے کے تحت کود گیا ۔آج ہمارے بعض دانشور اپنی تحریروں کے ذریعے نئی نسل کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے روس کی جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر پاکستان کو مسائل و مصائب کا گڑھ بنا دیا ۔پاکستان نے امریکا کو نہیں بلایا تھا یہ تو امریکا نے خود حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ کے مطابق موقع سے فائدہ اٹھایا پاکستان نے تو اسے جہاد سمجھ کر افغانیوں کی مدد کی ۔لیکن یہ تو پھر امریکا ہی تھا نے جس نے پوری دنیا سے لوگوں کو بلا کر اس جنگ میں شریک کیا یہ اسامہ بن لاد ن اور ان کے ساتھ عرب ممالک کے دیگر مجاھدین افغان جہاد میں حصہ لینے کے لیے آئے اور پھر روس کی شکست کے بعد یہ لوگ اپنے ملک واپس جانے کے بجائے افغانستان اور پاکستان میں ہی رہ گئے کہ یہاں پر ان کے برادرانہ ذاتی تعلقات اس حد تک قائم ہو گئے تھے ان میں سے بیشتر نے یہیں شادیاں بھی کر لی تھیں ۔یہ سارے مجاھدین اسامہ بن لادن سمیت اس زمانے میں امریکا کی آنکھ کا تارا تھے ۔اس موقع پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اسامہ بن لادن سمیت جتنے مجاھدین دیگر ممالک سے آئے تھے وہ جہاد کے جذبہ صادق کے ساتھ آئے تھے ان میں سے بیشتر نے شہادت کا رتبہ حاصل کرلیا اور کچھ غازی بن گئے ۔جنیوا اکارڈ میں اہم مسئلہ یہ تھا کہ ضیاء الحق صاحب چاہتے تھے کہ روس کی واپسی سے پہلے افغانستان میں حکومت سازی کا مشکل مرحلہ طے ہو جائے ،اس لیے کہ افغان مجاھدین کے کئی گروپ تھے جو اپنے اپنے محازوں پر جہاد کررہے تھے ان میں حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی کے گروپ زیادہ مضبوط گروپ تھے دیگر گروپ نسبتاَ چھوٹے تھے ان گروپوں میں آپس میں بھی شدید اختلافات تھے پاکستان کی حکومت اور کچھ دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے ان گروپوں کے درمیان مصالحت کرانے کی جان توڑ کوششیں کیں ۔امریکا ان اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا اس کو یہ خوف تھا کہ اگر افغانستان میں حکمت یار اور پروفیسر ربانی کی حکومت قائم ہو گئی تو یہ خالص اسلامی حکومت ہو گی اس زمانے میں افغانستان کی جس شیڈو حکومت کا نقشہ سامنے آرہا تھا اس میں پروفیسر ربانی صدر حکمت یار وزیر اعظم اور احمد شاہ مسعود وزیر دفاع بنتے لیکن امریکا کو یہ بات پسند نہ تھی کہ افغانستان میں مضبوط جہادی گروپوں کی خالص اسلامی حکومت قائم ہو ۔ادھر نو دس سال تک تن تنہا فیصلہ کرنے والے ضیاء الحق صاحب جونیجو صاحب کو وزیر اعظم بنا چکے تھے ۔گو کہ جونیجو صاحب کو ضیاء صاحب ہی لائے تھے لیکن امریکا نے جونیجو صاحب کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور اپنی مرضی کے جینوااکارڈ منظور کروایا جس میں افغانستان کے بڑے جہادی گروپوں کو سائیڈ لائن کردیا گیا اور ایک کمزور حکومت تشکیل دی گئی جو افغانستان میں مزید انتشار کا سبب بن گئی ۔ضیاء الحق صاحب کو اس کا شدید افسوس تھا کہ ان کی برسوں کی محنت ضائع ہو گئی ،پھر یہ خطرہ بھی سامنے تھا اب امریکا کی نظر کرم بدل رہی ہے اور وہ عنقریب ٹشو پیپر کی طرح ہو سکتے ہیں انھوں نے پہلی فرصت میں آئین کے آرٹیکل کافائدہ اٹھاتے ہوئے جونیجو صاحب کی حکومت کو بے دخل کردیا جس کا امریکا کو افسوس ہوا اور اس وقت امریکا کو پاکستان کے لیے جمہوریت یاد آئی ۔پھر 17اگست 1988کو ضیاء صاحب کے طیارے کو حادثہ پیش آیا اور اس میں امریکی سفیر رابن رافیل سمیت افغان جہاد کے سارے ہیروز شہید ہو گئے ۔اس موقع پر ہمیں ایک مزاحیہ ڈرامے کا ڈائیلاگ یاد آگیا کہ جب ایک لڑاکا بیوی کے شوہر کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کی بیگم صاحبہ کو اغوا کرلیا گیا ہے ،وہ اچھا کہہ کر حیرت و افسوس کا بناوٹی اظہار کرتا ہے پھرجب یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ بہت سارے زیور بھی پہنے ہوئے تھیں پھر وہ کچھ سوچ کر کہتا ہے چلو یارمجھے زیور کی قربانی گوارہ ہے ،بالکل اسی طرح امریکا نے بھی اپنے سفیر کی قربانی گوارہ کرلی ۔ورنہ امریکا اپنے ایک شہری کے قاتل ایمل کانسی کو برسوں بلوچستان کی پہاڑیوں میں تلاش کرتا ہے اور انھیں پکڑ کر لے جاتا ہے اور اپنے یہاں موت کی سزا دیتا ہے اسی امریکا نے اپنے سفیر کے قاتلوں کو پکڑنے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔
بہر حال جب افغانستان کا نتشار بڑھتا گیا تو پھر طالبان وجود میں آئے اور یہ طالبان افغانستان میں آگے بڑھتے گئے اور ملا عمر کی حکومت قائم ہو گئی ۔طالبان کے بارے میں بے نظیربھٹو نے بیان دیا کہ یہ ہمارے بچے ہیں ۔نصیر اﷲ بابر نے کہا کہ طالبان ہم نے بنایا ہے ۔طالبان نے افغانستان میں جب اپنی حکومت قائم کی تو وہ آ ج کے دور میں قرن اول کے طرز حکمرانی کی ایک چھوٹی سی مثال تھی ۔طالبان نے افغانستان میں تین اہم کام کیے ۔منتشر اور بدامنی والا افغانستان پر امن افغانستان بن گیا حیرت انگیز طور پر امن کا قیام طالبان کا ایک عظیم کارنامہ تھا ۔دوسرا طالبان کا کارنامہ ہیروئن کی کاشت پر پابندی تھی ،جس کے لیے امریکا تک ناکام ہو چکا تھا ۔تیسرا کارنامہ طالبان کا افغانستان میں تیز اور فوری انصاف کا قیام ۔امریکا کے لیے پریشارنی کی بات یہ تھی جس چیز سے بچنے کے لیے اس نے جنیوا اکارڈ کیا تھا وہی چیز ایک دوسری شکل میں اس کے لیے چیلنج بن کے سامنے آگئی ۔

نائن الیون کا سانحہ ایک منصوبہ تھا یا سازش اس کا آج تک فیصلہ نہ ہو سکا ۔معروف صحافی حامد میر نے ان ہی دنوں افغانستان کے خفیہ مقام پہ جا کر اسامہ بن لادن سے ایک اہم انٹرویو کیا جس میں اسامہ بن لادن نے یہ اقرار کیا کہ نائن الیون کا منصوبہ اس کا اپنا بنایا ہوا تھا اور وہی اس کے اصل خالق ہیں ۔جب کہ اس سانحے کچھ دنوں کے بعد ایک اہم خبر بریک ہوئی تھی جب کہ بعد میں اس خبر کا کوئی فالو اپ نہیں آیا وہ خبر یہ تھی کہ جس دن ٹوئن ٹاور تباہ ہوا اس دن اس بلڈنگ میں کام کرنے والے چار ہزار سے زائد یہودی چھٹی پر تھے پھر یہ کہ اس میں جتنے لوگوں کے نام آئے وہ سب سعودی عرب کے لوگ تھے ۔ایک اہم بات یہ تھی دو طیارے ان دونوں بلڈنگوں کے اوپری حصوں پر ٹکرائے تھے تو پھر یہ دونوں جڑواں عمارتیں کیسے تباہ ہوئیں اس کی تفصیل بھی بعد میں سامنے آئی کہ پہلے سے ان عمارتوں میں ڈائنامنٹ لگائے گئے تھے جو ہوائی حملے کے بعد اپنے ٹائمنگ سے پھٹے ۔اتنا بڑا اور عظیم الشان منصوبہ بغیر کسی طاقتور ایجنسی کی معاونت کے پایہء تکمیل تک پہنچ ہی نہیں سکتا ۔کیا یہ امریکن سی آئی اے کی کارروائی تھی یا موساد کی یا پھر اسامہ بن لادن کی ۔یہ ایک ایسا معمہ ہے جو شاید کبھی نہ حل ہو سکے ۔ایک عام انسانی ذہن تو صرف یہ سوچ سکتا ہے اسامہ بن لادن ابتدا میں امریکن سی آئی اے کی منشاء اور مرضی سے افغانستان آئے تھے لیکن ہم پھر یہی کہیں گے وہ خود اور اپنے ساتھ جتنے لوگوں کو لائے تھے وہ سب مخلصانہ طور پر جہاد میں حصہ لینے ہی آئے تھے لیکن جب امریکا سے اختلافات ہوئے اور ان کے راستے جدا ہو گئے تو کوئی بعید نہیں امریکن سی آئی اے نے غیر محسوس طور پر اپنے کسی کارندے کو اپنا باغی بنایا ہو جس نے اسامہ کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہو اور تمام اسٹریٹیجک معلومات فراہم کی ہوں ۔اس لیے کہ اتنا بڑا واقعہ جس میں ہزاروں امریکی شہری ہلاک ہوئے ہوں امریکی حکومت نے اب تک اس سانحے کی تحقیقات نہیں کروائی ۔لیکن امریکا کو اس کی وجوہات اور تحقیقات سے کوئی دلچسپی نہیں ،اس کو دلچسپی اگر کسی بات سے تھی تو وہ یہ کہ اس منصوبے کے ردعمل اسے مرحلہ وار کیا کیا کرنا ہے چونکہ اس واقع کے بعد پوری دنیا میں امریکا کے لیے ہمدردی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی اور وہ اس لہر کو کیش کرانا چاہتا تھا ۔پھر اس نے افغانستان پر حملہ کیا اور وہاں پر کارپٹ بمباری کی اب تک ہزاروں افغانستان کے معصوم لوگ امریکی بمباری سے شہید ہو چکے ہیں ،لیکن افغانیوں نے بھی ہمت نہیں ہاری اور پچھلے پندرہ سال سے دنیا کی بڑی قوت جس کے ساتھ چالیس ممالک کی فوجیں ہو ں کا اتنا جرات مندی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اب امریکا کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی ہے ۔

جب کسی واقع کی تحقیقات نہ ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس حادثے کے پیچھے کوئی سازش ہے جب کسی سانحے کے تمام ملزموں کو مار دیا جائے اور کسی کو زندہ پکڑنے کی کوشش نہ کی جائے تو بھی سمجھ لیا جائے اس کے پیچھے کوئی سازش ہے ۔جس طرح جب لیاقت علی خان کو گولی لگی تو پستول اے فائرنگ کرنے والے شخص کو ایک پولیس والے نے اسی وقت گولی مار کر ہلاک کردیا حالانکہ وہ چاہتا تو اسے زندہ گرفتار بھی کر سکتا تھا لیکن جب پہلے سے یہ منصوبہ بندی کی گئی ہو تو پھر اسی کے مطابق عمل ہوتا ہے ۔
اس تناظر میں فرانس کے رسالے شارلی ہیڈو پر حملے کو دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ایسا یورپی ملک جس کے امن امان کے قیام کے ادارے مضبوط ہو ں جس کی پولیس انتہائی منظم اور چوکس ہو جس کے انٹیلیجنس کے ادارے طاقتور ہوں وہاں کسی مسلمان کی کیسے ہمت ہو سکتی ہے کہ اتنی بڑی کارروائی کر سکے ۔ویسے تو مسلمانوں میں بہت ہمت رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں ۔اس واقع میں بھی ہم دیکھتے ہیں کے دوسرے دن جن دو مسلم بھایوں کو پکڑا گیا انھیں پولیس مقابلہ ظاہر کر کے مار دیا گیا حالانکہ اگر فرانس کو اس واقع کی تحقیقات سے دلچسپی ہوتی تو وہ ضرور حملہ ٓاوروں کو زندہ پکڑنے کی کوشش کرتا لیکن اس سازش کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے عزائم تو کچھ اور ہیں جس کے کچھ مظاہر بعد میں نظر آرہے ہیں اور کچھ چھپائے جارہے ہیں مثلاَچالیس ممالک کے سربراہوں کی قیادت میں دس لاکھ افراد کا جلوس جو بظاہر تو دہشت گردی کے خلاف تھا لیکن عملاَ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف تھا کہ ایک عرصے سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے گو کہ اس میں کچھ اسلامی ممالک کے سربراہان بھی شریک تھے ترکی کے سربراہ بھی گئے تھے لیکن انھوں نے بعد میں بہت جرات مندانہ موقف اختیار کیا کہ اسرائیل تو خود سب سے بڑا دہشت گرد ہے اسے کیوں اس میں بلایا گیا صابرہ اور شتیلا کے کیمپوں میں معصوم عورتوں اور بچوں کا کس نے قتل عام کیا اور پھر اب تک لاکھوں فلسطینیوں کا خون اسرائیل کے دامن پر موجود ہے ۔دوسری طرف شارلی ہیبڈو نے دوبارہ تضحیک آمیز کارٹون کو شائع کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کا یہ بیان بالکل درست ہے کہ تیسری عالمی جنگ کی تیاریاں کی جارہی ہیں ۔شارلی ہیبڈو کی پٹاری سے اور کیا کیا نکلتا ہے آپ بھی انتظار کریں ہم بھی انتظار کرتے ہیں ۔

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 43721 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.