بیک چینل ڈپلومیسی کیوں؟

بھارتی کانگرس پارٹی کے کسی بھی دور میں پاکستان کے مفادات کاکبھی بھی خیال نہیں رکھا گیا بلکہ کانگرس نے ہمیشہ پاکستان کی تباہی کی منصوبہ سازی جاری رکھی ہے۔ اس کی بڑی وجہ مسئلہِ کشمیر رہا ہے جس پر بھارت نے گذشتہ 63سالوں سے غاصبانہ قبضہ جمایا ہوا ہے۔جس کے مسلمان سپوتوں نے اپنی حریت کی خاطر 80لاکھ سے زیادہ قربانیا دے کر بھارتی عزائم کو ناکام بنانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں جن کو بھارت کی کانگرسی قیادت نے ان کی مرضی کے مطابق اقتدار منتقل کرنے کا ساری دنیا کے سامنے کئی کئی بار وعدے کیئے تھے۔ مگر ان کے رہنما پنڈت جواہر لال نہرو نے کبھی بھی اپنے یو این او سے کئے گئے وعدوں کا پاس نہ کیا۔ اور کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو جاری رکھنے کے لئے روزانہ کوئی نیا بہانہ تراشتے رہے۔ یہ وہ ہی کانگرس پارٹی ہے جس نے پاکستان کو دولخت کر کے ہماری قوت کومنتشر کر کے ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی تھی۔جس میں کانگرس پارٹی سو فیصد کامیاب تو نہ ہو سکی ۔مگر کسی حد تک اس نے ہماری طاقت کا شیرازہ منتشر کرنے میں وقتی طور پر تو کامیابی حاصل کر لی تھی۔جس کوہم نے مئی 1998میں دوبارہ مضبوط کرنے میں بظاہر تو کامیابی بھی حاصل کر لی تھی ۔مگر دشمن کی آنکھ کا اسی وقت سے ہم کانٹا بنے ہوے ہیں اور ہر روز ہمارے خلاف اندرون خانہ کوئی نہ کوئی سازش مقامی اور بین ا لاقومی طور پر کرتا رہتا ہے۔ ہمارے موجودہ حکمران ماضی کے مغرب سے ڈرے ہوے ڈکٹیٹرکی پالیسیوں کو ٹو کرنے میں دن رات ایک کئے ہوے ہیں۔ ہمارے صدر محترم تو ہمیشہ ہی یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ نہیں ہے․․․․ حالانکہ ہماری آزادی کو سب سے زیادہ بھارت ہی سے خطرہ ہے۔

جو لوگ بھی کشمیر میں کشمیریوں کی کسی بھی قسم کی انسانی حقوق کے حوالے سے خدمات انجام دے رہے ہیں وہ بھارت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ مفتی سعید جو صرف کشمیریوں کی معاشی پریشانیوں کا ازالہ کرتے رہے ہیں ۔ان کو بھارت نے ممبئی حملوں میں بھر پور طریقے سے ملوث کرنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ 21 ،اگست 2009 کو بھارتی وزیر خارجہ چدم برم نے بھارتی الزام ایک مرتبہ پھر شدت کے ساتھ دہرایا ہے کہ مفتی سعیدممبئی حملوں میں شریک رہے ہیں پاکستان اس حولے سے مخلصانہ تحقیقات نہیں کر رہا ہے۔ گویا بھارتی الزامات کو من و عن مان کر اپنے شہری کو اس کی مرضی کے مطابق سزا دے کر کشمیر کاذ سے دستبردار ہوجائے۔بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے دکھاوے کے لئے کشمیر پر بڑے مثبت بیانات کا آغازکردیا ہے جو بظاہر تو بہت خوبصورت عمل ہے۔مگر در پردہ وہ بھارت کو خوش کرنے کی غرض سے بیک ڈور ڈپلومیسی کا کھلے عام چرچا بھی کر رہے ہیں ۔ بڑی معذرت کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے علاوہ پیپلز پارٹی کا ہمیشہ کشمیر مخالف روئیہ رہا ہے۔جس نے کشمیر کازکو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ کشمیر میں بھارتی ظلم و تشدد کے حوالے سے ساری دنیا امریکہ کے سوائے آواز اٹھاتی رہی ہے۔مگراس کے باوجود بھارتی مظالم میں کمی کا تصور کرنا بھی کشمیریوں کے لئے ایک محال امر ہے۔

یورپی یونین نے اپنی سالانہ رپو رٹ برائے کشمیر 2004 میں کہا تھا کہ ’’ہندوستانی فوج اور پولس فورسزکے ہاتھوں انسانی حقوق کی کشمیر میں شدید خلاف وزیاں ہو رہی ہیں۔حکومت ہندوستان سے کہا گیا ہے کہ وہ اس قسم کے زیاتیوں کی تمام رپورٹوں کی فوری طور عدلیہ کے ذریعے تحقیقات کرائے ۔علاقے میں ا ن تمام دہشت گردانہ اور تشدد کی کاروائیوں کی ہم شدت کے ساتھ مذمت کرتے ہوے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کشمیر میں میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کوکھلے طور پر کام کرنے دیا جائے ‘‘

حال ہی میں لندن میں رئٹر کو انٹرویو دیتے ہوے شاہ محمد قریشی وزیر خارجہ پاکستان نے کہا ہے کہ ہم نے بھارت کے ساتھ بیک ڈور چینل ڈپلومیسی شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس کیلئے پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان کو بھارت کے لئے اپنا خصوصی ایلچی مقرر کرنے پر غور کر رہے ہیں ۔بیک چینل ڈپلومیسی کے ساتھ ساتھ باضابطہ امن مذاکرات بھی چلتے رہیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کو نہ جانے یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی ہے کہ بھارت اپنی بڑھتی ہوئی طاقت کے نشے میں بد مست ہے اور وہ تمہاری خوشامدوں کو تو کوئی اہمیت دینے کو تیار ہے ہی نہیں۔ ہاں کشمیر کے مسئلے سے آج دستبرداری کا اعلان کردو جیسا کہ اس کی خواہش ہے تو کل ہی وہ تم سے اپنی شرائط پر تعلقات بہتربنانے کا سوچ سکتا ہے۔ کیونکہ شروع دن سے ہی بھارت کشمیر کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے۔ مگر کشمیر چونکہ پاکستان کے پکے حامی ہیں اور وہ کفرستان کے ساتھ مل کر کسی طرح بھی نہیں رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گذشتہ 63 سالوں سے مسلسل اپنے مادر وبطن کی آزادی اور ہندو استعمار سے چھٹکارے کی جدوجہد میں دن رات مصروف ہیں۔

پاکستان کو چاہئے کہ اپنے تمام اثر و رسوخ کو استعمال کر تھے ہوے اقوام متحدہ کو مجبور کرے کہ وہ کشمیریوں کی آزادی کے بھارتی وعدوں کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرے۔اور کشمیریوں سے اس کے پلیٹ فارم پر کئے گئے تمام وعدوں کی تکمیل کرائے۔ مگر بڑی عجیب بات یہ ہے کہ جب عیسائیوں کی طرف سے انڈونیشیا جیسے ملک کے علاقے دارفور میں آزادی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس کے تمام کے تمام کل پرزے اچانک ہی بڑی تیزی سے حرکت میں آجاتے ہیں اوراتنے بڑے مسلمان ملک کو ڈس انٹریگیٹ کر دیا جاتا ہے۔ در حقیقت عیسائی دنیا مسلمانوں کی کمزوری سے فی زمانہ نا جائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت کفر کی تمام قوتین اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مجتمع ہو چکی ہیں ۔ ان سب اک ایجنڈا ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ اسلامی قوتوں کو ابھرنے نہ دو کہ کہیں یہ پھر سے ساری دنیا پر نہ چھا جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر کفر کیا اسلامی قوتیں بھی مغرب کے اشارے پر آنکھیں چرارہی ہیں ۔حالانکہ ایک وقت تھا کہ مسلمان ممالک کی اکثریت کشمیر کے مسئلے پر تو پاکستان کی اصولی حمایت کرتی تھیں۔ مگر آج ان ممالک کی اکثریت بھارت اور امریکہ کے خوف سے اپنے سابقہ موقف سے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔

کشمیریوں اور پاکستان کے عوام کو بیک چینل ڈپلومیسی کے نام پر بیوقوف نہ بنایا جائے۔ بھارت سے کھل کر دوٹوک انداز میں کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کیا جائے ۔جس کے اس نے ساری دنیا کے سامنے ،کشمیریوں سے جھوٹے ہی صحیح مگروعدے کئے ہوے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی ماضی کی قرار دادوں کو کھول کر دیکھ لیا جائے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کو بیچ میں ڈالکرکیا وعدے کئے تھے ؟جن کو آج وہ سامنے لانے سے مسلسل کترا رہا ہے۔

ہندوستان کے سامنے گھِگّھی باندھ کر کھڑے ہونے کے بجائے ہماری حکومت کومضبوطی سے اپنا موقف دہرناچاہئے۔ہمارے لئے پانی کے مسائل پیدا کرنے کے لئے ہماری مرضی کے بغیر بگھلیار ڈیم محض ہمیں ٹیز کرنے کی غرض سے بنا کر ساری دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ کشمیر میں ڈیلوپمنٹ کر رہا ہے۔ حالانکہ اس کو یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ ہماری مقبوضہ سر زمین پر ہماری اور کشمیریوں کی مرضی کے بغیر کوئی اقدام کرے ۔ مگر ہمارے بکے ہوے حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کروہ کشمیر میں ہر وہ کام کر گذر رہا ہے جو اسے اس خطے میں نہیں کرنے چاہیں تھے۔

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213010 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.