سیاسی لحاظ سے گوجرانوالہ شہر کو ایک اعلیٰ مقام اس لئے
بھی حاصل ہے کہ ماضی میں کو ئی بھی بڑی اور کامیاب سیاسی تحریک کے آغاز کے
بعد کا میا بی کے ساتھ اختتام ہی پر ہوا ہے۔ قائد جمہوریت شہید ذوالفقار
علی بھٹو کی تحریک سے لے کر عدلیہ کی آزادی کے لئے کیا جانے والا لانگ مارچ
سر فہرست ہیں۔ گوجرانوالہ شہر کسی دور میں پیپلز پارٹی کا مضبوط قلعہ سمجھا
جا تا تھا اور پیپلز پارٹی کی ساکھ کو مضبوط کر نے میں آرائیں برادری کا
اتحاد بھی شامل ہے۔ لیکن وقت کے سا تھ ساتھ پیپلز پارٹی کی گرفت گوجرانوالہ
پر کمزور ہو تی گئی اور ایک وقت آیا کہ گوجرانوالہ میں پیپلز پارٹی ایک بھی
سیٹ حا صل کر نے میں کا میا ب نہ ہو ئی۔اس کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کے را
ہنماؤ ں کی با ہمی چپکلش اورکا رکنان سے دوری سمجھی جا رہی ہے۔ پیپلز پا
رٹی کو جومقبو لیت خالد ہمایوں مر حوم ، لالہ ادریس کے دور میں ملی وہ کار
کنان ابھی بھی نہیں بو لیں ہیں۔ لیکن اس کے بعد پیپلز پارٹی کے نظریا تی کا
رکن اور جیا لے اہمیت نہ ملنے کی وجہ سے نا راض ہو نے لگے اور پھر تحریک
انصاف کے میدان میں آتے ہی اس میں شمو لیت اختیار کر لی۔یہی وجہ ہے کہ اب
یہ شہر کی سب سے بڑی سیا سی قوت اور تیسری قوت کہلانے لگی ہے۔اپنے دور
اقتدار میں بھی پیپلزپارٹی ضلع گوجرانوالہ میں اپنا قد اونچا نہ کر سکی جب
لالہ ادریس کی وفات کے بعد سٹی کی صدارت کا معاملہ آیا تو آرائیں برادری کو
نظر انداز کیا گیا اور سٹی کی صدارت لالہ برادران کے ذمہ کر دی گئی جس کی
وجہ سے آرائیں برادری کا اتحاد خطرے میں پڑ گیا اور بالآخر آرئیں برادری
تقسیم ہو گئی اور اکثریت نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی بعض سیاسی
بصیرت رکھنے والے سینئر شہریوں کہا کہنا ہے کہ قیادت کا آرائیں برادری کو
سٹی کی صدارت نہ دینا ایک غلط فیصلہ تھا کیونکہ جب سے آرائیں برادری کے
ہاتھ سے پیپلزپارٹی کی صدارت گئی ہے پیپلزپارٹی زوال پذیر ہو رہی ہے لیکن
بعض کایہ بھی کہنا ہے کہ لالہ ادریس کے دور میں بھی پیپلزپارٹی کے قدم
مضبوط تھے۔لیکن اگر آرائیں برادری کا اتحاد برقرار رہتا تو لالہ ادریس کے
بعد سٹی کی صدارت انکو دے دینی چاہیے تھی ۔اب یہ باتیں بھی گردش کر رہی ہیں
کہ موجودہ سٹی کی قیادت اور این اے 95کے پیپلزپارٹی کے سینئر مرکزی راہنما
تحریک انصاف میں شامل ہونے جارہے ہیں جس کی قیادت اور راہنماؤں نے تردید
بھی کی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو گوجرانوالہ میں پیپلزپارٹی کو ایک ایسا دھکا
لگے گا کہ دوبارہ نمبر3کی پارٹی بننے کے لیے بھی پیپلزپارٹی کو 20سال سے
زیادہ کا عرصہ لگے لگا۔پیپلزپارٹی پنجاب کی قیادت اس سلسلے میں نہ تو متحرک
دکھائی دے رہی ہے اور نہ ہی سنجیدہ ہے ان قیاس آرائیوں کے بعد پنجاب کے صدر
کو فوری طور پر گوجرانوالہ کا دورہ کرنا چاہیے اور تمام پارٹی کے اختلافات
اور رنجشیں دور کروانی چاہیے بصورت دیگر پیپلزپارٹی کو جو نقصان گوجرانوالہ
میں سیاسی طور پر پہنچے گا اسکا ازالہ مشکل ہو جائیگا۔اگر موجودہ قیادت اور
مرکزی راہنما ساتھیوں سمیت تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو
یقینا تحریک انصاف مضبوط ترین سیاسی جماعت بن کر ابھرے گی اور پیپلزپارٹی
کا سیاسی مستقبل اندھیرے میں چلا جائیگا۔پنجاب کی قیادت اس پہلو پر غور
رکیں اور جلد گوجرانوالہ کا ہنگامی دورہ کریں اور معاملات کو بہتر بنانے
میں کردار ادا کریں۔ |