آج کل بحرانوں نے پاکستان میں گھر کیا ہو اہے۔ اس کا ذمہ
دار کون ہے ۔ابھی تک یہ قوم معلوم نہیں ہو سکا۔لیکن سیاسی دکانداریاں عروج
پر ہوتیں ہیں۔بتایاجاتاہے کہ عوامی نمائندگی کیلئے کسی بھی انتخاب میں حصہ
لینے کیلئے الیکشن کمیشن کو درخواست دیتے وقت اور بعد میں رکن پارلیمنٹ
بننے پر لازم ہے کہ تمام اراکین اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات فراہم کریں۔ ملک
کے مفاد کی نظر سے دیکھا جائے تو اراکین کی طرف سے ظاہر کئے جانے والے ان
کے یہ اثاثے صرف دکھاوے کیلئے ہوتے ہیں اگر ان اراکین اور ان کے خاندان
والوں کی ایک سال کے شاہانہ طرز زندگی کو دیکھا جائے تو ان کے یہ اخراجات
ان کے ظاہر کردہ اثاثوں سے بھی سو گنا زائد ثابت ہو جائیں گے کون نہیں
جانتا کہ پاکستان میں ایک ماہ کیلئے ایک ہفتہ کیلئے اور کئی دفعہ ایک دن
کیلئے مخصوص SRO جاری کئے گئے جس سے ملکی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہوئے اپنے
بے نامی اثاثوں میں کھربوں روپوں کا اضافہ کیا گیاجن کا کہیں بھی اندراج
نہیں ہوتا ۔
اگربات کی جائے کہ ہر رکن قومی اسمبلی کے لئے ضروری ہے کہ حلف اٹھائے ورنہ
وہ اسمبلی کی کارروائی میں شامل نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ حلف مقرر شدہ ہے جو
آئین یں درج ہے۔ اس حلف کے ذریعے وہ ملک سے وفاداری کا عہد کرتا ہے۔عام
انتخابات کے نتیجے میں وفاقی سطح پر قائم ہونے والا قانون ساز ادارہ جس کے
اراکین براہ راست عوام کی آراء سے منتخب ہوتے ہیں۔قومی اسمبلی 342 ارکان پر
مشتمل ہے۔ اس کے لئے نشستوں کی تقسیم آبادی کے تناسب سے کی گئی ہے۔قومی
اسمبلی کے رکن کے لئے پاکستان کا شہری ہونا لازم ہے اس کی عمر پچیس سال سے
کم نہ ہو ،نام بطور ووٹر اس حلقے میں درج ہو جہاں سے وہ انتخاب لڑرہا ہوں۔
کسی سرکاری عہدہ پر فائز نہ ہو۔ دماغی طور پر دست ہو۔ کسی ملازمت سے بد
عنوانی کے تحت نکالا نہ گیا ہو۔ کسی اخلاقی جرم میں دو سال سے کم سزا ہو۔
نظریہ پاکستان ،افواج پاکستان اور عدلیہ کے خلاف بیان نہ دیا ہو۔رائے دہندہ
پاکستان کا شہری ہو۔ اس کی عمر کم از کم اٹھارہ سال ہو، اس کا نام انتخابی
فہرست میں ہو۔ دماغی طور پر مفلوج نہ ہو۔قومی اسمبلی کے اراکین کا انتخاب
متعلقہ انتخابی حلقے کے ووٹرز براہ راست اپنے ووٹوں سے کرتے ہیں۔اگر کوئی
ایدوار ایک سے زیادہ حلقوں میں انتخاب جیت جاتا ہے تو اسے ایک نشست کے سواء
باقی تمام نشستوں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔اگر کوئی رکن مسلسل چالیس
اجلاسوں میں غیر حاضر رہے تو اس کی رکنیت منسوخ ہوجائے گی۔ اگر کوئی رکن
اپنی رضا مندی سے اپنی رکنیت ختم کرنا چاہتا ہو تو وہ اسپیکر کو اپنا
استعفیٰ دے سکتا ہے۔ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد سیاسی جماعت کا
سربراہ اپنی جماعت کے کسی بھی رکن پارلیمینٹ کو جماعت کی پالیسی کی خلاف
ورزی اور فیصلوں کو تسلیم نہ کرنے پر ان کی رکنیت ختم کرسکتا ہے۔صدر مملکت
یا خود وزیراعظم کے مشورہ سے مشترکہ یا کسی ایوان کا اجلاس طلب کرسکتا ہے
اور خود ہی اسے ملتوی کرسکتا ہے۔ لیکن قومی اسمبلی کے کم از کم سال میں تین
اجلاس ہونے چاہئیں جن میں کم از کم 130 دن کا کام ہونا ضروری ہے اور دو
اجلاسوں کے درمیان 120 دن کا وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اسمبلی کے 1/4ارکان
اجلاس بلانا چاہیں تو وہ اسپیکر سے درخواست کرسکتے ہیں اور یہ اجلاس سپیکر
ہی ملتوی کرتا ہے۔ کیونکہ اسمبلی کا اجلاس اگر سپیکر بلائے تو وہ اجلاس کا
مقام اور اس کے ملتوی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔آئین میں اسمبلی کی مدت پانچ
سال مقرر ہے جو کہ اس کے پہلے اجلاس سے شمار ہوگی۔ اس سے قبل اسے برخاست
کیا جاسکتا ہے۔اسمبلی کے کورم کے لئے ایک چوتھائی ارکان کی حاضری ضروری ہے۔
اگر کورم کم ہو تو اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا جاسکتا ہے۔اسمبلی میں تمام
فیصلے حاضر ارکان کی اکثریت سے کئے جاتے ہیں۔قومی اسمبلی کے تمام اجلاسوں
کی کارروائی کے لئے ایک مستقل ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں واقع ہے جو
پارلیمنٹ ہاؤس کہلاتا ہے۔اسمبلی کے ارکان کو بہت سی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔
اسمبلی میں کی ہوئی بات پر ان کے خلاف عدالتی چارہ جوئی نہیں ہوسکتی اور نہ
ہی اس کی اسمبلی کی بات پر مقدمہ ہوسکتا ہے۔ ارکان اسمبلی کو اپنے خیالات
کے اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ ہر رکن کو مقررہ تنخواہ اور دیگر الاؤنس
ملتے ہیں۔ اسمبلی کی کارروائی کے دوران ارکان کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔
اگر گرفتار کرنا ضروری ہو تو اسپیکر سے اجازت لینا ضروری ہے۔
اس وقت تقربیاً سالانہ ایک رکن اسمبلی پر قومی خزانے سے 90 کروڑ تک کی رقم
خرچ کی جاتی ہے۔ پاکستان کی 18 کروڑ آبادی میں سے 11 کروڑ پاکستانی غریب
ہیں جبکہ پاکستان کی اکثر آبادی کھانے پینے جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی
محروم ہے۔ بدترین مالی بحران کے شکار، پسماندہ اور غریب ممالک میں شمار کئے
جانے والے ملک پاکستان میں فی کس آمدنی 130 روپے سے بھی کم ہے جبکہ بنیادی
سہولتوں سے محروم پاکستانی قوم کے منتخب نمائندے ہر ماہ قومی خزانے سے
ڈھائی لاکھ روپے وصول کر رہے ہیں۔
ایک رکن قومی اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ 23 ہزار 823 روپے، ایڈہاک الاؤنس 11
ہزار 903 روپے، مین ٹیننس الاؤنس 8 ہزار روپے، ٹیلیفون الاؤنس 10 ہزار روپے،
اور دیگر الاؤنسز 8 ہزار 571 روپے ہیں۔اس کے علاوہ ہر رکن کو قومی اسمبلی
یا قائمہ کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت پر 3 ہزار 750 روپے بھی دیئے جاتے
ہیں۔تاہم اس بیان میں متعدد الاؤنسز کو چھپا لیا گیا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ
کی تنخواہوں کے حوالے سے آئین کی شق 1974 کے تحت اراکین کو ہر قائمہ کمیٹی
کے اراکین کو چیئرمین کو اضافی تنخواہ دی جاتی ہے جس کے تحت انہیں 12 ہزار
700 روپے دیئے جاتے ہیں، اس کے علاوہ اسٹاف کار 360 لیٹر پیٹرول کی حد کے
ساتھ فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ 4 رکنی عملہ بھی اس پیکج کا حصہ ہوتا
ہے۔اس وقت تقریباً قومی اسمبلی میں 42 قائمہ کمیٹیاں کام کررہی ہیں اور ہر
ایک میں 15 سے 20 اراکین شامل ہیں، اس کے علاوہ 6 خصوصی کمیٹیاں بھی کام
کررہی ہیں جن میں 151 اراکین کو نمائندگی حاصل ہے۔درحقیقت 342 رکنی ایوان
کا ہر رکن کسی نہ کسی قائمہ کمیٹی کا حصہ ہے اور اس کے تحت وہ اضافی تنخواہ،
مراعات اور الاؤنسز لے رہا ہے۔اسی آئینی شق کے تحت پارلیمنٹ کے ہر رکن کو
سالانہ ڈیڑھ لاکھ کے سفری ویچرز دیئے جاتے ہیں، جبکہ اسی مد میں 90 ہزار
روپے نقد بھی دیئے جاتے ہیں، اس کے علاوہ 15 بزنس کلاس آنے جانے کے ٹکٹ بھی
ہر رکن کو ملتے ہیں، جبکہ قائمہ کمیٹی کے اجلاسوں کے دوران بھی اراکین کو
بزنس کلاس کے اخراجات اور دیگر الاؤنسز ملتے ہیں۔آئین کے تحت ہر رکن اسمبلی
اور اس کے خاندان کو مفت طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔تنخواہوں اور
الاؤنسز سے ہٹ کر حکومت نے رواں برس کے وفاقی بجٹ میں 33 ارب روپے ترقیاتی
فنڈز کے لئے مختص کئے ہیں، جو اراکین قومی اسمبلی کی سفارشات پر خرچ کئے
جاتے ہیں۔اگرصورتحال رہی توبحران اگر طوفان میں تبدیل ہو گے تو متاثرہ عوام
سیاست کی آڑمیں لگنے والے تمام تماشوں کو خاتمہ کردے گی۔ |