مشل فوکو (Michel Foucault ((1926 - 1984 )

 غلام شبیر
مشل فوکو کاشمار عالمی شہرت کے حامل مفکرین میں ہوتا ہے۔ ایک ممتاز فلسفی ، سوشل سائنس کے ماہر، نامور مورخ اور نظریہ سازتخلیق کار کی حیثیت سے اس نے شہرت اور بقائے دوام کے دربار میں عزت و احترام کے بلند منصب تک رسائی حاصل کی۔فرانس کے علمی اور ادبی افق پر 1960 سے1970 کے عرصے میں جو درخشاں ستارے طلوع ہوئے ،ان کے افکار کی ضیاپاشیوں سے مہیب سناٹوں کا خاتمہ ہوااور سفاک ظلمتوں کوکافور کرنے میں مدد ملی۔ مشل فوکو کا شمار تاریخ ادب کے اس ا ہم دور میں فرانس کی علمی وادبی کہکشاں کے تابندہ ستاروں میں ہوتا ہے۔اس نے طرز کہن کو ترک کرکے آئین نو پر عمل کرنے کو شعار بنایا اور مسحور کن اندازگفتگوکے اعجاز سے اس نے ایک عالم کو اپناگرویدہ بنالیا تھا۔ حرفِ صداقت پر مبنی دبنگ لہجے، ٹھوس استدلال ، واضح اندازفکر اور پس ساختیاتی اندازفکر کے ساتھ اس کی قلبی وابستگی اور والہانہ لگاؤنے اسے ایک منفرداور ممتاز مقام عطاکیا۔ مشل فوکو نے اپنے پیش رومفکرین سے ہٹ کر اپنے لیے جو طرز فغاں ایجاد کی اسے یقین تھاکہ مستقبل میں یہی طرز ادا قرار پائے گی۔اس سے قبل لیوی سٹراس اور رولاں بارتھ نے زبان اور لسانیات کے موضوع پر اپنے خیال انگیز اور فکر پرور مباحث سے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کی سعی کی ۔یہ فاضل زبان اور لسانیات کو جس طریقہء کار کے آلہ کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کرتے رہے اپنی نوعیت کے اعتبار سے اگرچہ وہ ایک منفرد انداز تھا لیکن مشل فوکو نے اسے لائقِ اعتنا نہیں سمجھا اور اپنے لیے ایک الگ انداز فکر اپنایا ۔کورانہ تقلید سے اسے شدید نفرت تھی اس لیے اس نے پامال راہوں پر چلنے کے بجائے ندرت اور تنوع کی مظہر نئی سوچ کو زادِ راہ بنایا۔مشل فوکو کے افکار کے سوتے تاریخ کے مسلسل عمل، سماجی اور سیاسی مآخذ اور ڈسکورس سے پُھوٹتے ہیں۔مشل فوکو کی حیات کے افسانے میں لچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ بات حیران کُن ہے کہ کہیں کہیں سے یہ قصہ قاری کو ابہام کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔اس کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ گیا مگر اس کا پُورا وجود کر چیوں میں بٹ گیا۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ اس کی ذاتی زندگی میں دلچسپی اور دل کشی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔اگر کسی شخص کی یہ رائے ہے کہ اس کاکام اس کی ذاتی زندگی کے معتبر حوالے کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں تو اس موقف کو تسلیم کرنے میں اسے کوئی تامل نہیں۔شر ط صرف یہ ہے کہ استفسارت اور وضاحت طلب امور کے بارے میں ناگزیر ضروریات کے بارے میں اسے مطمئن کر دیا جائے۔ وہ جواب دینے کے لیے تو تیار رہتا تھا لیکن اکثر سوال اس کے کڑے معیار اور میرٹ پر پورے ہی نہیں اترتے تھے۔اسے اپنے غم کا بھید کھولنے میں تامل نہ تھا لیکن جب کوئی محرم ہی نہ ملے تو حساس تخلیق کار اپنی جان پر گزرنے والے صدمات کا حال کس کے رو بہ رو بیان کرے۔ وہ تو اپنی زندگی کے جملہ نشیب و فراز بیان کر نا چاہتا تھا لیکن جب کوئی سنتا نہ ہو تو وہ بولتا کیسے اور قبر میں شور برپا کرنے کا کیا فائدہ ہے ۔چلتے پھرتے ہوئے مُردوں ،سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں کے سامنے زندہ انسانوں کے مسائل بیان کرنا آج کے دور کا لرزہ خیز اعصاب شکن المیہ قرار دیا جاتا ہے۔مشل فوکو کے اسلوب کی صد رنگی قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔

مشل فوکو نے تاریخ ،سوشیالوجی ،نفسیات اور فلسفہ کے اہم شعبوں میں اپنی معرکہ آرا کامرانیوں سے عالمی ادبیات میں تہلکہ مچا دیا۔پس ساختیات نے ادب اور لسانیات کو افکارِ تازہ کی مشعل تھام کرجہانِ تازہ کی جستجو کے فکری سفر پر مائل کیا ۔علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ دنیامیں کسی بھی قوم کی تہذیبی و ثقافتی عظمت کا تعلق سنگ و خشت کی بلند و بالا عمارات سے نہیں بل کہ افکارِ تازہ سے ہے جن کے اعجاز سے مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ِ ثریا کیا جا سکتا ہے۔مشل فوکو نے پسِ ساختیاتی فکر کا عمیق جائزہ لینے کے بعدقارئین ادب کو اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ محض متن پر انحصار کرنا درست اندازِ فکر نہیں بل کہ متن کا ڈسکورس ہی گنجینہء معانی کا طلسم ہے۔اس نے زندگی بھر اس بات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی کہ فکر و خیال کی جو لانیوں اور تخلیق فن کے لمحوں میں متن کا ڈسکورس کلیدی کردا ر ادا کرتا ہے۔اس نے ساختیاتی انداز فکر کے بجائے پسِ ساختیات سے وابستگی کو اپنا مطمحِ نظر بنایا اور زندگی بھر اس پر کا ربند رہا ۔کالج آف فرانس، پیرس میں اس کے افکار کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی ہے جہاں اس نے اپنی زندگی کے آ خری ایام میں بھی پسِ ساختیات پر خیال افروز مباحث کا سلسلہ جاری رکھا ۔یہاں تک کہ موت کے بے رحم ہاتھو ں نے اس شمع فروزاں کو گُل کر دیا اور لسانیات کا ہنستا بولتا چمن دائمی سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔اسے زندگی بھر اس بات کا قلق رہا کہ بعض لوگ اسے ایک ساختیاتی انداز فکر کے حامل شخص کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔بے پر کی اڑانے والوں کی بے سرو پا باتوں کی اس نے بہت تردید کی لیکن کسی نے اس جانب توجہ نہ دی۔اس نے پس ساختیاتی فکر کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی اور وہ اپنے فکری سفر پر مطمئن تھا۔مشل فوکو کے اسلوب کی انفرادیت کی دلیل یہ ہے کہ اس نے اپنے لیے ایک ایسا راستہ منتخب کیا جو اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔اس نے پامال راہوں سے بچ کر نئی منزلوں کی جستجو کو شعا ربنایا ۔ساختیات کے بارے میں یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس نے نہ صرف عام احساس اور عقل عام پر مبنی عام فہم اندازکو لائق اعتنا نہیں سمجھا بل کہ اسے یکسر لائق استرداد بھی قرار دیا ۔ساختیاتی فکر نے عقل عام کی منزل سے آگے گزرنے کی راہ دکھائی اور اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ اس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ تہذیبی اور ثقافتی عوامل کے بارے میں حقیقی اندازِ فکر اپنا سکے۔ مشل فوکو نے ساختیات کی اس کیفیت کے بارے میں جانتے ہوئے اس سے آ گے جانے کا فیصلہ کیا ۔اس کا خیال تھا کہ عقلِ عام کی تہی دامنی ،بے بضاعتی اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی امکان تک رسائی کی صلاحیت سے وہ یکسر محروم ہے۔مشل فوکو کے افکار کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ عقلِ عام کو چراغِ راہ سمجھنے میں بھی اُسے تامل ہے۔

ماہرین لسانیات اور ممتاز نقادوں کا اس امرپر اتفاق ہے کہ مشل فوکو نے ادب اور لسانیات میں جو کڑا اور منضبط رویہ اپنایاوہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔عملی زندگی میں اس نے تقلید کی مہلک کورانہ روش کوہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور پاسبانِ عقل کو دل کے ساتھ رکھنے پر اصرار کیا۔مطالعہء ادب میں بھی اس نے جانچ پرکھ کو شعار بنایا۔اس عالمِ آب و گِل کاروانِ ہستی مسلسل رو میں ہے اور رہروان ِ راہِ فنا نے سالہا سال کے تجربات کے بعد جن معائر اور صداقتوں کے بارے میں عمومی استحسان کا اظہار کیا اور انسانی کردار میں ان کے اعجاز سے نیکی ،خیر اور دردمندی کی نمو کے امکانات پیدا ہوتے ہیں،ان کے بارے میں بھی وہ تحفظات رکھتا تھا۔عملی زندگی میں اس کی تنقیدی فعالیت کا اندازہ اس امر سے لگایاجا سکتا ہے کہ وہ مسلمہ صداقتوں،اقوالِ زریں،ضرب الامثا ل اور مروج دستور العمل کو من و عن تسلیم کرنے میں تامل کرتا تھااور اقتضائے وقت کے مطابق ان کی جانچ پرکھ پر اصرار کرتا تھا ۔یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ وہ ان تمام امور کی ہر صورت میں تردید ،تکذیب یا انھیں غلط ثابت کرنے پر کمر بستہ نہیں تھا بل کہ اس کی دلی تمنا تھی کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں ان تمام امور کا از سرِ نو جائزہ لینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔اس سے عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔وہ ہمیشہ اس بات پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا تھا کہ تاریخ کے مسلسل عمل کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے لوح ِجہاں پر نقش ماضی کے متعدد حقائق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خیال و خواب بن کر معدوم ہو جاتے ہیں۔اس تمام صورت حال کو سائنسی اندازِ فکر کوبروئے کار لاتے ہوئے تاریخی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔باطنِ ایام پر نظر رکھنے والے اس امر سے آگاہ ہیں کہ ماضی کے حالات و واقعات جب ابلقِ ایّام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہونے لگتے ہیں تو ایسے پُر آشوب دور میں تاریخ کا مسلسل عمل انھیں تاریخ کے طوماروں سے نکال کر فکر و خیال کی نئی شمعیں فروزاں کرتاہے،جس سے دلوں کو ایک ولولہء تازہ نصیب ہوتا ہے۔اس پیہم رواں عمل کی بدولت عہدِ ماضی کے متعدد رازہائے سر بستہ کی گرہ کشائی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔اسی کو تاریخی شعور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ہوائے جور وستم اور یاس و ہراس کی فضا میں بھی تاریخی شعور کے وسیلے سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتما م کیا جا سکتا ہے اور طلوع ِ صبح ِ بہاراں کی اُمید بر آتی ہے۔تاریخی شعور سے فِکر ِ انسانی کو اس انداز میں جِلا مِلتی ہے کہ موقع پرستی و جاہ طلبی ،خو د غرضی و مفاد پرستی ،بُغض و عداوت ،عصبیت و تنگ نظری،ہو ا و ہوس ،استحصال اور منافقت اورشقاوت آمیر نا انصافیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد ملتی ہے۔

تاریخی شعورکے بارے میں مشل فوکو کے خیالات نہایت اُمید افزا رہے۔اس کا خیال تھا کہ تاریخی شعور سے فکر ِانساں کوایسی لائق صد رشک تابانیاں نصیب ہوتی ہیں جن کی بدولت اقوامِ عالم کی سماجی اور معاشرتی زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کی تفہیم میں بہت مدد ملتی ہے۔ہلاکت آفرینیوں اور ناگہانی آفات کی صورت میں مسلسط ہونے والے موجودہ لرزہ خیزاور اعصاب شکن دور میں تاریخ کے مسلسل عمل کو پیشِ نظر رکھنا اقتضائے وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ زمانے میں زندگی کی برق رفتاریاں جہاں کئی آسائشیں لائی ہیں وہاں زندگی کی اقدار عالیہ کو بھی یہی برق رفتاریاں بہا لے گئی ہیں اور کئی آلائشوں نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بروز گمبھیر صورت اختیا کرتا چلا جا رہاہے۔اس کے تدارک کے لیے علم،ادب،فلسفہ اور سائنس کے بارے میں مثبت شعورو آگہی کو پروان چڑھانااز بس ضروری ہے۔

یہ تاریخ کا مسلسل عمل ہی ہے جو افراد کو اس صلاحیت سے متمتع کرتا ہے جو معاشرتی زندگی کو درپیش مسائل کے بارے میں سنجیدہ اور حقیقت پسندانہ اندازِ فکراپنانے پر آمادہ کرتی ہے۔مشل فوکو اس امر کا شاکی تھا کہ ان عوامل کے بارے میں با لعموم سنجیدہ رویہ اپنانے میں تامل کیا جاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ معاشرے کے بااثر طبقے نے معاشرتی زندگی کو درپیش مسائل اور ان کے پسِ پردہ کار فرما عوامل کے بارے میں کوئی واضح ،ٹھوس اور قابلِ عمل لائحہء عمل مرتب کرنے کے بجائے کم زور ،ثانوی اور ناگوار طور پر مسلط کرد ہ طریقِ کار اپنا کر حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا لیاہے۔ان لرزہ خیز، روح فرسا آلام اورپُر آشوب حالات میں جب لوگوں نے مصلحت اندیشی کے تحت حرفِ صداقت لکھنا ترک دیا تھا مشل فوکو نے حریتِ ضمیر سے جینے اور حریتِ فکر و عمل کا علم بلند رکھنے پر اصرار کیا ۔اس کا کہنا تھا کہ ہزار خوف ہو لیکن زبان ہمیشہ دل کی رفیق ہو، خواہ کچھ بھی ہرجانہ دینا پڑے سچ ہی لکھا جائے ۔وہ اس بات کا داعی تھا کہ حق گوئی اور بے باکی ہی جواں ہمت افراد کا امتیازی وصف ہوتا ہے۔زندگی میں سچ کا بو ل بالا کرنے کے لیے ایسا ڈسکورس منتخب کیاجائے جس میں صداقت رچ بس جائے، لفظ بولیں اور الفاظ سے صداقتوں کی مہک قریہء جاں کو معطر کر دے۔صبح پرستوں کی یہ دیرینہ روایت ہے کہ وہ حرفِ صداقت کے تیشے سے منافقت ،مکر اورجبر کی فصیل کو منہدم کرنا اپنا نصب العین بنا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جری اور سچے تخلیق کار کے اسلوب میں اس کی شخصیت کے تمام انداز دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ اس نے اپنے دبنگ لہجے سے جس طرح صداقت اور تاریخ کو یک جان دو قالب بنا کر پیش کیا وہ اس کے منفرد اسلوب کا واضح ثبوت ہے۔ اس نے دنیا بھر کے قارئین ادب پر واضح کر دیا کہ صداقت اور تاریخ کے مسلسل عمل کو کسی بھی صورت میں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ صداقت کی تاریخی تناظر میں تحقیق کو شعار بنانے والے اس زیرک تخلیق کار نے افکارِ تازہ کی مشعل تھا م کر جہاں تازہ تک ر سائی کی جو مساعی کیں انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ حق گوئی کی مشکلات سے عہدہ بر آہونا اس کا مطمح نظر نہ تھا بل کہ وہ یہ چا ہتا تھا کہ حرف صداقت لکھنے والے ادیبوں کو جن صبر آزما حالات کا سامنا کر نا پڑتا ہے اس کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی اور مثبت انداز فکر کو پروان چڑھایا جائے۔جابر سلطان کے سامنے حق و صداقت کا علم بلند رکھنا اور زیرِ تیغ کلمہء حق ادا کرنا حریتِ فکر و عمل کے مجاہدوں کا امتیازی وصف ہوتاہے۔کسی بھی معاشرے میں جب مصلحت اندیشی کووتیرہ بنا لیا جائے اور صداقت کی خاطر جان کی بازی لگانے کی روش ترک کر دی جائے تو یہ بہت بُرا شگون ہے ۔اس کے بعد ایسا مسموم ماحول پیدا ہو جاتا ہے جس میں پورا معاشرہ بے حسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ا س حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب سچائی کا صورت گہنا جاتا ہے تو سفاک ظلمتیں مقدر کی سیاہی کی صورت میں مسلسط ہو جاتی ہیں ۔تہذیب و تمدن کو بھی اس لرزہ خیز کیفیت سے شدید ضعف پہنچتا ہے۔ مشل فوکو حرفِ صداقت کی ہمہ گیر اثر آفرینی اور دائمی تابندگی پر کامل یقین رکھتا تھا۔ بیسویں صدی کے اس جری اور ممتاز فلسفی کے متنوع خیالات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر متاع لوح قلم چھن بھی جائے تو حریت فکر کے مجاہد خون دل میں انگلیاں ڈبو کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتے ہیں۔یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ مشل فوکو نے صداقت کی جانچ پرکھ اور سچائی کی تلاش میں علوم کی حقیقت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔علوم کی اصلیت کے متعلق قاری کیا رائے قائم کرے اس کا کوئی جواب شل فوکو کے پاس نہیں۔

1950کے اوائل میں مشل فوکو کی جو تحریریں سامنے آئیں ان کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اسلوب پر نطشے کے اثرات نمایاں ہیں ۔اس نے ہیگل اور کارل مارکس کے افکار سے بھی اثرات قبول کیے۔صداقت کی جستجو اور نئے تعلقات کی آرزومیں وہ اپنے دل میں اپنی تمناؤں، اُمیدوں اور اُمنگوں کو سموئے اور خواہشات کی مشعل تھامے سفاک ظلمتوں میں بھی سر گرم عمل رہنے پر اصرار کرتا ہے ۔اس نے جنس کو بھی ایک نیا مفہوم دیا ۔وہ چاہتا تھا کہ جنس کو محض تسکین پر محمول نہ کیا جائے بل کہ اسے تخلیقی زندگی کے ایک نئے امکان کی حیثیت سے ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔اس کی مشہور تصنیف ’’جنس کی تاریخ ‘‘ کئی جلدوں پر مشتمل ہے ۔ یہ کتاب مکمل نہ ہو سکی لیکن اس میں مشل فوکو نے جنس کو تاریخی تناظر میں دیکھتے ہوئے کئی اہم امور کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔اس کتاب میں مشل فوکو نے جنس اور جذبات کے بارے میں جو تجزیے پیش کیے ہیں انھیں کسی مستحکم انداز فکر کا مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس تصنیف میں قدیم اور جدید تاریخ کے معتبر حوالوں کی کمی قاری کو کھٹکتی ہے۔مشل فوکو کی تصانیف کا جس قدر کثرت اور تواترسے مطالعہ کیا جائے اتنی ہی سرعت سے اس کے اسلوب کی اثر آفرینی کا طلسم بھی ٹوٹتا چلا جاتا ہے۔ مشل فوکو کی تحریروں کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے بعض اوقات گمان گزرتا ہے کہ سترہویں صدی سے قبل کے حالات اور فرانس سے باہر واقع جدید دنیا کے معمولات اور فکری ارتقا کے بارے میں مشل فوکو کی واقفیت محدود تھی۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی عہد کے ادب اور فنون لطیفہ کے بارے میں مشل فوکو کی آرا پر مکمل طور پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

تاریخی حقائق کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں دیدہ وروں نے اپنی انجمن خیال سجائے رکھی اور اپنے لیے فکر و خیال کی نئی بستیاں بساتے رہے۔ خوب سے خوب تر کی جستجو کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا اوراس کے اعجاز سے سماجی اور معاشرتی زندگی میں سدھار کے امکانات پیدا ہوئے۔اپنے عظیم ترین اور اصلاحی مقا صدکے حصول کے لیے ممتاز دانش وروں نے ایک لائق صد رشک و تحسین لائحہء عمل مرتب کیا اس لائحہء عمل کو مشل فوکو ایپس ٹیم(Episteme)سے تعبیر کرتا ہے۔ ہر زمانے کے ایپس ٹیم میں اُفقِ علم پر متعدد آفتاب و ماہتاب طلوع ہوتے رہے ہیں جن کے افکار کی ضیاپاشیوں سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں ،اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا اور فکر ونظر کو مہمیز کرنے میں مد د ملی۔ان نابغہء روزگار ہستیوں کی تخلیقی کامرانیوں کی بدولت عام انسان کی فکری تہی دامنی ،تخلیقی بے بضاعتی اور محدود سوچ کے باعث معاشرتی زندگی کو فکر و خیال میں ندرت اور تنوع کی جس کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا بڑی حد تک ازالہ ہو جاتا ہے۔مشل فوکو نے ساد ،رلکے،نطشے،فرائڈاور مارکس کو ایسے یگانہ ء روزگار فاضل قرار دیا ہے جن کے افکار کی جو لانیوں ،رفعت تخیل اور فکری کا مرانیوں سے عام تخلیق کار اور افراد معاشرہ کے ڈسکورس میں رونما ہونے والے خلا کو پُر کرنے میں مدد ملی اور حریت فکر کا علم بلند ہوا۔ مشل فوکو ان مشاہیر کی عظمت کا مداح ہے اور واضح کرتا ہے کہ ان لوگوں نے جو طرزِفغاں اپنائی وہ اپنی مثال آ پ ہے۔انھیں محض تخلیق کار اور مصنف سمجھنادرست نہیں ۔ان کے اشہب قلم کی جو لانیوں سے جمود کا خاتمہ ہوا،سعیء پیہم کے جذبات کو مہمیز ملی اور فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔اس طرح ایک ایسا اچھوتا اور دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آیا جس نے قاری کو مسحور کر دیا۔یہی وہ ہستیاں ہیں جنھوں نے متن کی تخلیق کے قواعداور امکانات کی تفہیم کی نوید سنائی اور جہانِ تازہ تک رسائی کو یقینی بنانے کی مقدور بھر سعی کی۔ایک عام ناول نگار جو محض اپنے متن کو پیرایہء اظہار عطا کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے ،اس سے ان کا موازنہ درست نہیں۔ایک عام ناول نگار اور ان یگانہء روزگار ہستیوں میں بعد المشرقین ہے۔ مثال کے طور پر جب فرائڈ نے خوابوں کی تعبیراور مزاح اور اس کے لا شعورسے تعلق کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیااور کارل مارکس نے کمیو نسٹ مینی فیسٹو اور کیپیٹل جیسی تہلکہ خیزتصانیف پیش کیں تو پوری دنیا میں ان کی منفرد سوچ کو پذیرائی ملی۔انھیں محض مصنف قرار دینا سرا سر نا انصافی ہے۔ان یادگارِ زمانہ لوگوں کے افکار کا پرتو ہر عہد کے علم و ادب میں دکھائی دے گا۔ تاریخ ہر دور میں ان کے کام اور نام کی تعظیم کرے گی ۔انھوں نے اپنے فکر پرور اور بصیرت افروز خیالات سے افکارِ تازہ کے مظہر ڈسکورس کے امین غیر مختتم امکانات کے استحکام اور تنظیم کی مساعی کو نصب العین بنایا اور منطقی استدلال کے بنیاد گزار کی حیثیت سے جریدہء عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ اس سے بڑھ کر بو العجبی کیا ہو گی کہ مشل فوکو نے جن مشاہیر کے کمالات کو لائق تحسین سمجھا ان کی حق گوئی ،صداقت ،بے باکی اور نئے تخلیقی تجربات کو بہ نظر تحسین دیکھا،ان کے ڈسکورس کا پرتو اس کے اپنے اسلوب میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔یہ ایسی پیچیدہ صورت حال ہے جس کے بارے میں ناطقہ سر بگریباں ہے کہ اس کے بارے میں کیا کہا جائے اور خامہ انگشت بدندا ں ہے کہ اس تضاد کے متعلق کیا لکھا جائے۔ سچ ہے کواکب جس طرح دکھائی دیتے ہیں ویسے ہوتے نہیں۔ معاصر علمی ،ادبی اور فکری کیفیات کا تاریخی تناظر میں جائزہ لینے کے بعد مشل فوکو اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کے دور کی ایپس ٹیم اپنی تکمیل کے قریب ہے اس کے بعد نئے دانائے راز روشنی کا سفرجاری رکھیں گے۔

اس حقیقت کوفرمو ش نہیں کر نا چاہیے کہ جب تخلیق کار الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے سے ڈسکور س کو نکھار عطا کرتاہے تو یہ فعالیت اس کی انفرادیت کی دلیل بن جاتی ہے۔وہ روایت کی اساس پر افکارِتازہ کاقصر عالی شان تعمیر کر نے کا آرزو مند ہو تا ہے اور اپنی تمام صلاحیتوں اور قوتوں کی تجسیم کو شعار بنا تا ہے۔جہاں تک تاریخ کے مسلسل عمل اور اس کے مضمرات کا تعلق ہے مشل فوکو نے نطشے کے اثرات قبو ل کر تے ہو ئے اس امر سے اتفاق کیا کہ تار یخ کا معروضی مطالعہ بعید از قیاس ہے۔ کو ئی بھی مورخ تاریخ لکھتے وقت سائنسی اندازفکر نہیں اپنا سکتا۔وہ اپنے اسلوب میں دل کشی اور نکھار پیدا کرنے کی غرض سے رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے کئی استعاروں اور مہم جوئی کے کئی واقعات کو جگہ دے سکتا ہے اور اس طرح شعور وذہن کو نئی تابانیوں سے آ شنا کر سکتا ہے۔ ہیگل نے لکھا تھا :
’’چونکہ انسانی آزادی اوراحساسِ آزادی ایک چیز ہے لہٰذاآزادی کاارتقا شعور و ذہن کا ارتقا ہے۔اس عمل میں ہر قسم کے افکار تشکیل پاتے ہیں ۔اس لیے فلسفہ تاریخ صرف
انسانی عمل ہی کوظاہر نہیں کرتابل کہ وہ کائناتی عمل سے بھی پردہ اُٹھاتا ہے۔‘‘(1)

مشل فوکو کے جن شاگردوں نے کے پس ِساختیاتی افکار کواپنے فکر و فن کی اساس بنا کر ان کی ترویج و اشاعت پر توجہ دی، ان میں ممتاز فلسطینی فلسفی ایڈورڈ سعید( EDWARD SAID)کا نام قابل ذکر ہے۔ایڈورڈسعید کے اسلوب پر بھی مشل فوکو کے ما نند نطشے کے افکار کا پرتو نمایاں ہے۔کو لمبیا یونیورسٹی امریکہ میں انگریزی ادبیات کی تدریس پر مامور اس فاضل پروفیسر نے اپنے استا دکے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زندگی بھر ڈسکورس کی اہمیت کو اجا گر کیا ۔مشل فوکو کی تمام اہم تصانیف میں ڈسکورس کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔اس نے ڈسکورس کا جس تواتر کے ساتھ ذکر کیا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کی اس نے اظہار و ابلاغ کی قوت کوڈسکورس کا ثمر قرار دیا اور یہ کہ انسانی فہم و ادراک کے جو ہر کا کرشمہ ڈسکورس کی صورت میں دامنِ دل کھینچتا ہے۔مشل فوکو کا خیا ل تھا کہ انسانی فہم و دراک اور بصیرت کے بارے میں یہ با ت اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اس کی تکمیل فرد کی زندگی میں نہیں ہو سکتی۔مثال کے طور پر طب ،ریاضی اور سائنس ہی کو لے لیں ،یہ سب علوم تاریخ کے مسلسل عمل کے نتیجے میں آنے والی نسلوں کے لیے سر چشمہء فیض ثابت ہو ئے ہیں ۔کانٹ نے کہا تھا :
’’انسانی عقل و فہم کی نشو و نما کا عمل انفرادی زندگی میں نہیں بل کہ تاریخی عمل میں پُورا ہوتا ہے ۔انسان چونکہ عقل و فہم کا مالک ہے اس لیے اس کی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے لیے
تاریخی عمل ضروری ہے۔یہ تاریخی عمل عقل و ادراک کوترقی دیتا ہے اس لیے انسانی تاریخ عقل ،فہم اور ادراک کی تاریخ ہے۔‘‘ (2)

مشل فوکو نے تاریخ کی اہمیت پر بہت زوردیاہے۔تاریخ نویسی میں مشل فوکو زبان و بیان کی دل کشی اور رنگینی کو الفاظ کی بازی گری پر محمول نہیں کرتابل کہ وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے وسیلے سے قوت کی تحصیل کی مساعی ثمر بار ہوں ۔ اگر تاریخ نویسی میں ایسا ڈسکورس اپنایا جائے جہاں تخیل کی شادابی اور افسانوی انداز سے سے قارئین کو سبز باغ دکھایا جائے تو اسے تاریخی ناول نگاری کا نام دیاجائے گا۔ اُس کا استدلال ہے کہ قوت کا حصول ڈسکورس ہی کا مرہون منت ہے ۔فرد کی عملی زندگی میں کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ اشیا کے ساتھ تشدد کو روا رکھے جانے کے واقعات سامنے آتے ہیں ۔مشل فوکواسے ڈسکورس کی ایک صورت کا نام دیتا ہے۔اس نے تخلیق کار کے منصب اور ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا کہ مصنف کو توازن ،اعتدال اور انصاف کو شعار بنانا چاہیے۔معاشرتی زندگی مختلف اداروں کے اشتراکِ عمل سے رواں دواں ہے۔اسے چاہیے کہ اداروں کے نظامِ کار کو پیشِ نظر رکھے جو ڈسکورس کی کا ئنات کے دائرہء کار کا تعین کرتا ہے۔تہذیب کی تمام اقسام،ڈسکورس کی جملہ صورتوں پر یکساں طور پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اس طرح خاص نوعیت کے سلسلہ وار اور پیچیدہ مراحل کے نتیجے میں ڈسکورس ایک خاص آہنگ میں سامنے آتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ گا کہ ڈسکورس کا دائرہء کار لا محدود ہے جو کسی فردِ واحد پر انحصار نہیں کرتا ۔ڈسکورس گلدستہء معانی کو نئے ڈھنگ سے با ندھنے اور ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باندھنے کی فعالیت ہے۔خزاں کے سیکڑوں مناظر کے مسموم ماحول میں بھی قوی ڈسکورس طلوع صبحِ بہاراں کے ہزارہا جلووں سے فیض یاب ہونے کے لا تعدادامکانات سامنے لا سکتا ہے۔مشل فوکو نے ما بعد الطبعیات کے بارے میں بھی اپنے تحفظا ت کا بر ملا اظہار کیا۔پس ساختیاتی فکر کے مطابق ایغو کا خلاف بھی اس کے جذبات اس کی تحریروں میں نمایا ں ہیں۔
مشل فوکو نے اظہار و ابلاغ کی روح پرور اور وجدانی اثرآفرینی اوراس کی محیر العقول قوت کے نمو پانے کے محرکات کاتفصیلی جائزہ لیا۔اس کا خیال تھا کہ محض متن پر انحصار کرنا سرابوں میں بھٹکنے کے مترادف ہے۔ متن پر کلیتاً انحصار اور اکتفا کرنے والوں کا خیال ہے کہ معنی خیزی کے سوتے قوت اور نظریے سے پھوٹتے ہیں جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔بادی النظر میں یہ بات واضح ہے کہ دلوں کومرکزِ مہرو وفا کرنے اور قلب و روح کو مسخر کرنے والی لا زوال قوت کا سرچشمہ ڈسکورس ہے۔اسی کے معجز نما اثر سے فکری ،جذباتی،احساساتی اور ذہنی کیفیات کی جلوہ گری کا اہتمام ہوتاہے۔ انسانی زندگی میں رونما ہونے والے حالات ،واقعات،نشیب و فراز ،الم و انبساط کو محض حادثاتی ہر گز قرار نہیں دیا جا سکتا۔بل کہ یہ سب تغیرات اور ارتعاشات ایک نظام کے تابع ہیں ۔ان حالات میں یہ ڈسکورس ہی ہے جو سماجی اور معاشرتی زندگی کی اجتماعی کیفیات کے بارے میں حقیقی منظر نامہ سامنے لاتا ہے۔یہاں گمان گزرتا ہے کہ مشل فوکو نے نطشے کے افکار کو ایک منفرد انداز میں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ جہاں تک ڈسکورس کا تعلق ہے مشل فوکو نے اسے فکر انساں کی ایک ایسی اہم فعالیت سے تعبیر کیا ہے جسے اظہار و ابلاغ کے محور کی حیثیت حاصل ہے۔اس کا خیال ہے کہ ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی مسحورکُن کیفیت جو تاریخ کے مسلسل عمل کی آئینہ دار ہو ڈسکورس کا امتیازی وصف ہے۔اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک زیرک ،فعال ،مستعد اور مستقبل پر نظر رکھنے والے تخلیق کار کے افکار و تصورات کی تفہیم اس کے عہد میں ممکن نہ ہو لیکن زمانہ آئندہ یا بعید آ ئندہ میں اس کے تصورات کو حقیقی تناظر میں دیکھا جا سکے اوراس کی شخصیت کے محدود زاویوں کے بجائے اس کے منتخب ڈسکورس کے بارے میں چشم کشا صداقتیں سامنے آئیں۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے اور افراد کا وجود خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتا ہے لیکن یہ ڈسکورس ہی ہے جو لفظ کی حرمت اور تخلیق کی جاذبیت کو تا ابد بر قرار رکھتا ہے۔کہنے والا تو عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھا ر جاتا ہے لیکن اس کا ڈسکورس باقی رہ جاتا ہے ۔ڈسکورس کی جاذبیت اور اذہان کی تطہیر و تنویر اور جِلا کا اہتمام کرکے دل میں اُتر جانے والی اثر آفرینی اس کے دوام کی ضمانت ہے ۔ڈسکورس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مشل فوکو نے لکھا ہے:
All discourses,whatevr their status,form,value,and whatever the treatment to which they will be subjected,would then develop in the anonymity of a murmur.We would no longer hear the questions that have been rehashed for so long:,who really spoke?Is it really he and not someone else?with what authenticity or originality?And what part of his deepest self did he express in his discourse?In stead,there would be other questions,like these :,What are the modes of existence of this discourse?Where has it been used ,how can it circulate,and who can appropriate it for himself?What are the places in it where there is room for possible subjects?Who can assume these various subject- functions?And behind all these questions,we would hear hardly any thing but the stirring of an indifference:,What difference does it make who is speaking?, (3)
جنوں کی حکایات خوں چکاں رقم کرتے وقت مشل فوکونے اپنی انفرادیت کا لوہامنوایا۔ فہم و ادراک کو وہ انسان کے جو ہر سے تعبیرکرتاہے۔جس طرح فطرت ہمہ وقت لالے کی حنا بندی میں مصروف عمل ہے بالکل اسی طرح ذہن و ذکا وت اور بصیرت میں بھی فطرت کے تقاضوں کے مطابق نشوونما کاعمل مسلسل جاری رہتا ہے۔بعض اوقات ایسابھی ہو تا ہے کہ فکر انسانی کی تکمیل افراد کی زندگی میں نہیں
ہوپاتی ،ان کی داستان ان کے دل میں نا گفتہ ہی رہ جاتی ہے ،یہیں سے جنوں کے بار ے میں کئی خیالات سامنے آتے ہیں۔سماجی زندگی میں کچھ حدود اورقیودکا تعین کر دیا جاتا ہے جن کے ذریعے یہ فیصلہ کیا جاتا کہ کس شخص کا رویہ ذہنی بیداری کا مظہر ہے۔ اگرکوئی شخص خرد کی گتھیوں کو نہ سلجھاسکے اور بے مقصداور مہمل اندازاپنائے تویہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ شخص مخبوط الحواس اور فاتر العقل ہے ۔تاریخ کے مسلسل عمل کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سماجی اور معاشرتی زندگی کی پر امن بقائے باہمی کا دارو مدار فہم و ادراک اورذہن و ذکاوت کے مسلمہ معائر پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔اگر کہیں ان معائر سے انحراف کی صورت پیدا ہوتی ہے تو اسے جنون پرمحمول کیا جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں زندگی کی درخشاں اقدار وروایات کے تحفظ کے لیے فکر و خیا ل کا ایک حصا ر تشکیل دیا جاتا ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کو ئی اپنا گریبان چاک کرے اور ذہن و ذکاوت، فکر و خیال اور تہذیب و ثقافت کے حصار سے باہر نکلنے کی کو شش کرے تو اس کیفیت کو دیوانگی کی علامت سمجھاجاتا ہے۔مشل فوکوکا خیا ل تھا کہ دیوانہ پن ایک فطری کیفیت ہے۔فرد کا سینہ و دل جب حسرتوں سے چھا جاتا ہے تو غم و آلام اور یاس کے ازدحام میں وہ دل کو نہیں سنبھال سکتا۔یہ انتہائی نا مساعدحالات ہیں جو فردکو جنون کے کرب ناک حالات کی جا نب دھکیل دیتے ہیں۔ یہی جنون جب بڑھنے لگتا ہے توفرد کو پا گل اور سودائی بنا دیتا ہے۔اس موضوع پر اس نے جو مباحث پیش کیے ہیں ان کے مطالعہ سے مشل فو کو کی نفسیات پر گرفت کی حقیقی نو عیت کا اندازاہ لگایا جا سکتا ہے۔مشل فوکو کے اسلوب پر نا قدین نے کھل کر لکھا ہے ۔ مشل فوکو کی خودرائی بعض اوقات مضحکہ خیز صورت اختیار کرلیتی ہے اورقاری یہ سوچنے لگتا ہے کہ کون سی اُلجھن کو سلجھانے کی سعی کی گئی ہے ۔ان کا خیال ہے کہ جزا و سزا ،جنس اور جذبات،دیوانگی اور فرزانگی،تہذیب و ثقافت ،ادب و لسانیات،نفسیات و ادویات،سماجیات و فنون لطیفہ،زندان کے اثرات اور ملاقات و بشریات،غرض ہر اہم موضوع پر اُس نے بر ملا اظہار خیال کیا ہے لیکن کئی مقامات پر کسی ٹھوس استدلال اور معتبرحوالے کے بغیر وہ اپنی دُھن میں مگن پرورش لوح و قلم میں مصروف رہا ۔اس کی زبردست خواہش تھی کہ پسِ ساختیاتی فکر کو پروان چڑھانے کے لیے ہر وہ التزام کیا جائے جو اس مقصد کے لیے نا گزیر ہو۔جنس اور جذبات کو بھی اس نے نفسیات اور تاریخ کی کسوٹی پر پر کھنے کی سعی کی۔قدرتِ کاملہ کی طرف سے اختیارِ بشرپہ پہرے بٹھا دئیے جاتے ہیں۔شدید خواہشات جب اصولوں کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتی ہیں تو پاش پاش ہو جاتی ہیں اور سعی پیہم سے فطرت کے تقاضوں کوبدلنا بعید از قیاس ہے ۔ المیہ یہ ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنس کے بارے میں اس کی آزاد خیالی اور آزاد روی نے عجیب رنگ اختیار کر لیا۔یہاں تک کہ ایڈز کے مہلک وار نے اس تخلیق کار سے قلم چھین لیا اور اُس کی پُر اسرار زندگی کی متعدد باتیں نا گفتہ ہی رہ گئیں ۔کسی بھی مصنف کی تمام تحریروں کو مشل فوکو نے ادب تسلیم نہیں کیا اس کا سبب یہ ہے کہ بالعموم مصنف اپنے انتقال سے قبل ان خام تحریروں اور مخطوطات کی اصلاح نہیں کر سکا۔بعض تحریریں ایسی بھی ہوتی ہیں جنھیں خود مصنف قابل اشاعت نہیں سمجھتا ۔اس لیے ان تحریروں کو ادب کاحصہ قرار دینے میں اسے تامل رہا ۔ مشل فوکو نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے تمام احباب کو یہ تا کید کر دی تھی کہ اُ س کا کوئی مخطوطہ اس کی وفات کے بعد شائع نہ ہو ۔اس کی زندگی میں جو تحریریں اُس کی منظوری سے شائع ہوئیں وہی اس کا ادبی اثاثہ ہیں۔جو تحریریں اس کی زندگی میں منصہء شہود پر نہ آ سکیں اس کی موت کے بعد انھیں کسی صورت میں شائع نہیں ہو نا چاہیے۔اس کا استدلال یہ تھا کہ اس نے جو کچھ دیکھنا تھا وہ دیکھ لیا جب وہ عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ لے تو اس کی غیر مطبوعہ تحریروں کو بھی ہر صورت میں معدوم ہونا چاہیے۔ دنیا دائم آباد رہے گی مشل فوکو اب اس دنیا میں نہیں رہا لیکن اس کے بعد دشتِ جنوں کی پُر خار راہوں میں خارِ مغیلاں پر قدم رکھنے والا کوئی آبلہ پا دکھائی نہیں دیتا۔ تاریخ کے مسلسل عمل کو زندگی بھر زادِ راہ بنانے والا اپنے عہد کا با اثر ترین اور سب سے متنازعہ فلسفی اور مورخ اب خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔تاریخ اس کے مقام اور مرتبے کا تعین کیسے کرے گی اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
مشل فوکو ایک کثیر التصنیف ادیب تھا ۔اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
1.Discipline &Punish,2.The History of Sexuality,3.The Order of Things,4.Madness and Civilization,6.The Birth of Biopolitics,7.The Birth of Clinic,8.Power/Knowledge,9.Archeology of Knowledge,10.Security,Territory,Population,11.Writings on Art and Literature,12.The will to Knowledge

ماخذ
(1) بہ حوالہ مبارک علی ڈاکٹر :تاریخ اور فلسفہ تاریخ ،فکشن ہاؤس ،لاہور،اشاعت اول ،1993،صفحہ140۔
(2) ایضاً ،صفحہ127۔
(3)David Lodge:Modern Criticism and Theory,Pearson Education,Singapore,2004,Page.186-
Ghulam Shabbir
Mustafa Abad Jhang City
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680364 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.