اب آپ کی باری

امراء کی شاہ خرچیوں اور کالے کرتوت کا خمیازہ ہمیشہ ہی غریب عوام نے بھگتا ہے ۔ غیر ملکی دوروں میں نئے نئے مقامات کی سیر، کھانا پینا، میلے ٹھیلے سب کچھ امراء ہی کیلئے ہیں۔ غریب بے چارہ تو بس۔۔ آٹے کیلئے لائن میں لگا ہوا ہے ، روزگار کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے، خودکشیاں کررہا ہے ، بچوں کو قتل کررہا ہے ، یا پھر نفسیاتی مریض بن کر دوسرے کے بچوں کو قتل کر رہا ہے اور دہشت گرد کا خطاب حاصل کر رہا ہے۔ دوسری جانب لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ مہنگائی میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے اور کیوں ہورہا ہے کسی کو کچھ پروا نہیں بس اپنی جیب گرم رہنے کی فکر ہے۔ بے چارے غریب عوام احساس محرومی، بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کیلئے جہیز جمع کرنے، بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کی فکر اور بے روزگاروں کی بڑھتی ہوئی فہرست سے خود کو بچائے رکھنے میں لگا ہوا ہے۔

کچھ نہیں بدلا، آٹھ برس پہلے ایک صاحب نے فضاء میں طیارے کے کاک پٹ سے ہی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی تو عوام کو بتایا گیا کہ ملکی خزانے خالی ہیں اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ایسے میں بھلا ہو نائن الیون کا کہ افغانستان اور شمالی علاقوں میں اپنے ہی لوگوں کو مارنے کی سپاری قابضین حکومت کو مل گئی جس سے دس ارب ڈالرز کی رقم ملک میں آئی ۔اب ان کا کیا استعمال رہا یہ الگ بحث ہے لیکن نہ تو پاکستان میں عوام کی حالت بہتر ہوئی نہ شمالی علاقوں کے عوام خوشحال ہوئے ۔آج سے دو تین سال پہلے میرے چند دوست پاکستان ٹور سے واپس آئے تو سوات اور گردو نواح کی اس قدر تعریف کی کہ ، میں نے خود کو کوسا کہ آخر میں کیوں نہیں گیا لیکن اب ۔۔۔ وہاں کی حالت یہ ہے کہ سیکورٹی فورسز پر حملے ہورہے ہیں اور اپنے ہی اپنوں کی جانیں لے رہے ہیں۔ قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے۔

بلوچستان جو ساٹھ برس سے احساس محرومی میں مبتلا ہے وہاں اب محرومی کا احساس آب وتاب پر ہیں۔آئے دن اہم تنصیبات پر حملے ہو رہے ہیں، رہا سہا انفرااسٹرکچر بھی تباہ کیا جارہا ہے ، صوبے سے باہر کے لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بے گناہ مارے جارہے ہیں ۔ نئی حکومت نے کچھ اہم اقدامات کئے تو ہیں جس سے امکان ہے کہ صوبے کے عوام کا احساس محرومی ختم ہوسکے لیکن ساٹھ برس کا زخم ایک دو ماہ میں تو مندمل ہونے سے رہا۔ ہر جگہ افسر شاہی کے مزے لگے ہوئے ہیں، عیاشیاں ہورہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ قوم کی حالت آتش فشاں پہاڑ جیسی ہورہی ہے۔ جس کے آثار تو نظر آرہے ہیں لیکن ابھی بڑی تباہی نہیں آئی اور کبھی بھی لاوا بہہ نکلے گا جو شاید بہت کچھ اپنے ساتھ بہا لے جائے۔

پاکستان میں آمروں کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے کہ اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے دوسروں کی ٹانگیں کھینچیں۔ پھانسی پر لٹکایا گیا اور لوگوں کو راستے سے ہٹایا گیا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان سے لے کر آج تک یہی ہورہا ہے کہ عوامی نمائندے سازشوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا ظفر اللہ خان جمالی، کسی نہ کسی سازش کی بھینٹ چڑھے۔ لیکن باہر سے در آمد کئے گئے وزیراعظم نے ملکی خزانے کو برآمد کیا اور پھر خود آرام سے بچ نکلے۔ کئی کئی افراد پر مشتمل ان کی معاشی ٹیم کا اب کوئی فرد عوام کا سامنا کرنے کیلئے ہی تیار نہیں۔ ملک میں اہم عہدے ملنے سے پہلے بھی وہ عالمی مالیاتی اداروں کیلئے کام کر رہے تھے ۔ عام انتخابات کے بعد جب انہیں یہاں اپنا مستقبل تاریک نظر آیا تو اب وہ دوبارہ اپنی پرانی نوکریوں پر واپس چلے گئے ہیں یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی سیکریٹری کا ایک محکمے سے دوسرے میں تبادلہ کیا جاتا ہے اور نئی حکومت آکر انہیں کہیں اور بھیج دیتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ عوام اور اس کے منتخب نمائندوں نے ہی قربانیاں دی ہیں۔ جو لوگ ملک پر برسوں قابض رہے انہوںنے خود کو کیوں قربانی کیلئے پیش نہیں کیا۔ عوام کو کیوں گولیوں کا سامنا کرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ، خودکش حملوں میں خود کیوں نہ مارے گئے ، غریبوں کا ہی کیوں آخری سہارا چھینا گیا ۔ بلٹ پروف گاڑیوں میں گولی کی رفتار سے گزرنے والے کبھی ٹریفک جام میں کیوں نہیں پھنسے۔ کبھی کسی آمر کے گلے میں پھانسی کا پھندا کیوں نہیں لگا، کسی نے خودکشی کیوں نہیں کی اور محرومیوں کا بے انتہا احساس عوام کو ہی کیوں کرنا پڑا۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ جابر اور آمر حکمراں بھی ان سب حقائق کا سامنا کریں اور اپنے اقتدارکو طول دینے کیلئے مزید معصوموں کی جان سے نہ کھیلیں۔ عام انتخابات میں عوام نے بتادیا ہے کہ بس بہت ہوگیا ۔۔ اب آ پ کی باری ہے۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور غاصب ، آمر اور جابر کو نوشتہ دیوار پڑھنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد
Saif Ullah
About the Author: Saif Ullah Read More Articles by Saif Ullah: 4 Articles with 5606 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.