پولیٹشن سے پولی ٹینشن تک
سیاست دان کہتے ہیں کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے، عاشق مزاج لوگ کہتے ہیں کہ
محبت میں سب کچھ جائز ہے ، عسکریت پسند کہتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے، تاجر
یا بزنس میں کہتے ہیں کہ بزنس میں سب کچھ چلتا ہے۔
لیکن سیاست کا دور ہے ڈکٹیٹر کی نہ سہی ڈکٹیٹرز ذہن کے لوگوں کی حکومت ہے ، کل
کے سارے جمہوری آمر آج کی جہوریت ( اگر کوئی محسوس کرتا ہے تو ) کے چمپیئن بنے
بیٹھے ہیں اور بے چارے آمر ایک کونے میں بیٹھے ہیں یہ اور بات ہے کہ یہ کونا
آرمی ہاؤس کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے جب آمر صاحب کی اس بے بسی کا ذکر اپنے دوست
عابد خان سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کونے میں بیٹھے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اس
گھر میں موجود اس کھڑکی سے جہاں سے انہیں جہموریت کی ہلکی سی بو آرہی ہے، سے
اکثر جھانکتے ہوئے بھی نظر آئے ہیں۔۔۔۔۔۔
ہم نے اس انکشاف پر سوالیہ انداز میں عابد میاں کو دیکھا تو انہوں نے کہا کہ
ارے بھائی سمجھا کرو ان کو کسی نے آسرا دیا ہوا ہے کہ سر! ابھی بھی حالات آپ کے
حق میں ہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ بس آپ دیکھتے رہیں ۔ سو وہ بے چارے صرف دیکھ رہے ہیں۔۔
عابد کا کہنا ہے کہ ہمارے پولیٹشن دراصل پولی ٹینشن ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان سے ٹینشن کی
ہی توقع رکھی جاسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کا بس چلے تو یہ ریٹائرڈ سرکاری
ملازمین کی پینشن بھی دبا جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال بات ہورہی تھی کہ سیاست دانوں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کل ہمارے سیاست
دان زندوں سے زیادہ مردوں کی بھی فکر کرنے لگے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پچھلے دنوں ایک
پارٹی باقاعدہ اہم ترین ساست دانوں کے مرحوم رشتے داروں اور پارٹی کے ان لیڈروں
کی لسٹ تیار کرنے لگی جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اس بات پر متعلقین کو حیرت
بھی ہوئی اور پوچھا کہ اس کی کیا ضرورت پڑ گئی تو جواب ملا کہ فاتحہ اور تعزیت
کے لئے جانا ہے، دریافت کیا گیا کہ اتنے سالوں بعد؟ تو کہا کہ ارے سیاست میں
تعزیت کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے ۔
ہمت کر کے انہوں نے کہا کہ لیکن حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ آپ تو تازہ فاتحہ
پر یقین رکھنے والے ہیں اور ہمیشہ زندہ جاویداں افراد کی فہرست پر کام کیا جاتا
تھا۔
ہمارے ملک کے ساست دانوں کا کچھ عرصے پہلے تک عجیب حال تھا۔۔۔۔۔ اگر وہ اقتدار
میں نہیں ہوتے تو باہر یا اندر ہوا کرتے تھے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں اب اندر
والے باہر آرہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں البتہ اقتدار میں رہتے ہوئے باہر جانے کا سلسلہ
جس طرح زور پکڑ گیا ہے خصوصا دبئی اور لندن جانے کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دبئی میں تو
سیاسی سرگرمیوں پر پابندی بھی ہے۔۔۔۔۔۔ مگر ہمارے حکمران آج کل دبئی جا کر ہی
زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں اور وطن واپس آکر صرف گرم نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں حیرت ہے اس بات پر کہ ہمارے سیاست دانوں کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں
دبئی کے شیخ نہ جانے کیا سمجھتے ہیں؟ ہم نے یہ ہی سوال جب اپنے صحافی دوست
مسعود انور سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یار وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک کے
سیاست دان دبئی میں سیاسی نہیں بلکہ ذاتی باتیں کرنے آتے ہیں جیسے ماضی میں
مشرف صاحب نے پیپلزپارٹی کی شہید چیئرمین سے ذاتی ڈیل کی بات کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے چند روز قبل آصف زرداری اور نواز شریف نے اپنی اپنی باتیں کی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب پاکستانی کسی بھی لیڈر سے آپ کوئی بھی سوال کریں تو وہ جواب میں یہ ضرور کہے
گا کہ میری ذاتی رائے یا ذاتی خواہش تو یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس
بات کو ہم کیا کہیں کہ ذاتی خواہش کچھ اور سیاسی کچھ اور یہ ہی ہے ہماری سیاست
۔ تجارت سے ملتی جلتی۔۔۔۔۔۔۔ |