16دسمبر 2014 سانحہ پشاور کے زخم
ابھی تازہ ہیں قوم نے 40 روز گزرجانے کے باوجود نہ تو اس سانحے کو بھلایا
ہے اور نہ کبھی بھلا سکے گی۔ 132 بچوں سمیت 142 افراد کی شہادت کے بعد جہاں
قوم دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوگئی تھی قوم بحیثیت مجموعی آج بھی اسی جذبے
کے ساتھ حکومت اور فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن پاکستانی عوام پر موجودہ دور
حکومت نہایت ہی آزمائشوں سے گزر رہا ہے۔ نواز شریف نے جب سے قیادت سنبھالی
ہے تب سے آج تلک عوام مصائب اور مشکلات کا شکار ہوئے چلے آرہے ہیں۔ بدقسمتی
سے نوازشریف کو جو قریبی ساتھی ملے ہیں وہ سبھی اپنے قائد کے بازو مضبوط
کرنے کے بجائے اس کی مشکلات میں اضافہ ہی کئے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر
القادری اور عمران خان کے دہرنوں نے حکومت کو جو سخت وقت دیا اس سے عوام کو
براہ راست کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوا۔ عوامی تحریک نے دہرنا ختم
کیا لیکن عمران خان اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے۔ یہ نوازشریف اور اس کے تمام
اراکین کابینہ کی نااہلی تھی کہ وہ دہرنے والوں کو مذاکرات کے ذریعے دہرنا
ختم کرنے پر آمادہ نہیں کرسکے۔ 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول کا
دلخراش سانحہ نہ ہوا ہوتا تو شائد عمران خان آج تک ڈی چوک پر بیٹھے رہتے۔
بہر حال میاں صاحب نے عوام کی توجہ دھرنے سے ہٹانے کے لیے پٹرول کی قیمتوں
میں کمی کا اعلان ازخود کیا، جبکہ عوام یہ بات اب اچھی طرح جان گئی ہے کہ
پٹرول کی قیمت کی کمی میں موجودہ حکومت کا کوئی کردار نہیں، پٹرول کی
قیمتیں تو عالمی سطح پر ہی اس قدر کم ہوگئی ہیں جس کی ماضی میں مثال نہیں
ملتی۔ دھرنے بھی ختم ہوگئے اس کے ساتھ ہی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن
آپریشن بھی شروع ہوگیا ، عوام اب تک حکومت کا ہر طرح سے ساتھ دے رہی ہے۔
لیکن ایک بار پھر یہ نواز شریف کے کچھ زیادہ ہمدرد ہیں جنہوں نے اسے ایک
بار پھر اک نئی آزمائش میں ڈال دیا، پہلے پنجاب میں توانائی کا بحران پیدا
کیا گیا اور اس کے بعد اب کراچی اس بحران کی لپیٹ میں ڈال دیا گیا۔ حکومت
وہ مرکز کی تھی یا پنجاب کی دونوں ہی پنجاب توانائی کے بحران پر قابو پانے
میں تاحال ناکام ہیں۔ ابھی وہ ناکامی جاری تھی کہ کراچی میں بھی پیر کے روز
سے وہ سب ہی کچھ ہوا جو گزشتہ کئی دنوں سے پنجاب کے مختلف شہروں میں جاری
تھا۔میڈیا پر پیر کی سہ پہر سی این جی ایسوسی ایشن کے عند اسمیع کے اس
اعلان کے بعد کہ پٹرول معمول سے کم مقدار میں فراہم کیا ، بس پھر کیا تھا،
جو جہاں اس نے وہیں سے قریبی پٹرول پمپ کا رخ کیا ، اپنے معمول کے مطابق
پٹرول بھروایا اس کے ساتھ اگلے روز کا بھی بھروایا اور ساتھ ہی بوتل میں
بھی ڈلواکر گھر کی جانب چلتا بنا۔ کچھ ہی دیر میں پٹرول پمپوں پر اس قدر رش
کا عالم ہوا کہ میڈیا کو اس جانب توجہ دینی پڑی ، ٹی وی پر جونہی شہر قائد
کے پٹرول پمپوں کی یہ صورتحال دکھائی گئی دفاتر ، کارخانوں، اور ہسپتالوں
تک سے اپنے معمول کے فرائض سر انجام دینے والے فرائض کو چھوڑ کر قریبی
پٹرول پمپ پہنچے جہاں اس پر بے پناہ رش دیکھا تو آگے بڑھے اور دوسرا پمپ
دیکھا اس پر بھی یہی عالم دیکھ کر مزید آگے بڑھتے رہے، کچھ شہریوں کو
کامیابی ملی جبکہ اکثریت ناکام ہی رہی ۔ بعض پٹرول پمپوں کو قناتیں لگا کر
بند کر دیا گیا ، کچھ پر پٹرول ہی ختم ہوگیا،ایک پمپ پر تو بدنظمی پر قابو
پانے کیلئے وہاں موجود سیکورٹی گارڈ کو ہوائی فائرنگ تک کرنا پڑی۔ بہرکیف
پٹرول شہر قائد سے غائب ہوگیا۔ رات میں ٹریفک جام سے شہر قائد کے باسی
دوچار رہتے ہیں، پیر کے روز وہ دہری اذیت کا شکار رہے۔ کئی پٹرول پمپوں پر
باقاعدہ گونواز گو کے نعرے بھی لگائے گئے لیکن اگر نعروں سے پٹرول ملتا
یاپھر مطالبات پورے ہوتے تو شائد عمران خان کے مطالبات پورے ہوچکے ہوتے
لیکن یہاں تو معاملہ ہی مختلف ہے۔نعرہ جذبات کا اظہار ضرور ہے لیکن حکمران
اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ انہیں نعرے سنائی ہی نہیں دیتے ، ہاں وہ اس وقت
نعروں کو سنتے ہیں جب عوام میں نعروں کے ساتھ تشدد کا عنصر آجاتا ہے۔ عوام
اپنے غم اور غصے کا اظہار تشدد کے ذریعے کرتے ہیں ، اس کے نتیجے میں گو کہ
نقصان اپنا ہی ہوتا ہے لیکن اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے وہ
سب کچھ کیا جارہا ہوتا ہے وہ مقصد پورا ہوجاتا ہے۔پتہ نہیں کب ان حکمرانوں
کو ہوش آئے گا ، کب ا ن کا ضمیر جاگے گا؟ کب یہ مخص اک تحریر پر ہی فوری
نوٹس اور ایکشن لیں گے؟ کب وہ عوام کی مشکلوں کا ازالہ کرنے کے لیے سنجیدہ
ہوں گے؟ پتہ نہیں کب جاگیں گے؟ حالیہ پٹرول کا بحران خواہ اس کا ذمہ دار
کوئی بھی ہے ، اس کے براہ راست ذمہ دار وزیر اعظم ہی ہیں،کیا ہمارے
حکمرانوں میں اتنی جرات ہے کہ وہ اپنی نالائقی کو کھلے دل سے تسلیم کرتے
ہوئے مستعفی ہوجائیں؟ نہ ہی اتنا ظرف ان میں نہیں اور نہ ہی یہ حکمران اتنا
ظرف مغرب سے لے سکتے ہیں۔ مغرب سے تو یہ محض ہدایات لیتے ہیں، ان کے بینکوں
میں عوام سے چھینا اور لوٹا گیا پیسہ رکھتے ہیں،بھلا یہ ایسی باتیں مغرب سے
کیونکر سیکھیں گے۔ موجودہ صورتحال کو بحال کیا جائے ، ان عناصر کو کڑی سزا
دی جائے جو اس طرح کے مصنوعی بحران پیدا کرکے اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد
پر ترجیح دیتے ہیں۔ شہر کراچی جو کہ ملک کا معاشی حب کہلاتا ہے میں کہ جب
ایک جانب دہشت گردی کی ان دیکھی جنگ میں عوام فوج کے شانہ بشانہ ہے ، وہ
دہشت گردی اندرونی بھی ہے اور بیرونی بھی ، ایسے حالات میں کہ جب قوم سانحہ
پشاور کا چہلم منا رہی ہے ، ایسی صورتحال میں حکومت کو چاہیے کہ فوری طور
پر پٹرول گردی کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لاکھڑا کریں، جلد از جلد شہر قائد
سمیت پورے ملک میں جاری توانائی کے بحران پر قابو پائے ۔ جسے منی پاکستان
کہا جاتا ہے وہاں پٹرول گردی کی اس موجودہ لہر کو فوری طور پر ختم کرنے کے
لیے کم سے کم وقت لے۔ شہر قائد کے عوام کو اعتماد میں لے کر انہیں اس بات
کا یقین دلائے کہ پٹرول کچھ لوگوں کی غلطی کے سبب کم ضرور ہوا ہے ختم نہیں۔
یہ جو بھی صورتحال ہے بالکل عارضی ہے اور یہ جلد ختم ہوجائے گی۔ ضرورت اس
امر کی ہے کہ عوام کے مفاد میں فوری طور پر پٹرول کی خود ساختہ کمی کو دور
کرتے ہوئے حکومت عوامی مفاد میں کام کرے۔
|