دودھ کا دودھ
(DR ZAHOOR AHMED DANISH, NAKYAL KOTLE AK)
آپ خوب جانتے ہیں کہ ہم سب
اپنی زندگی کے سفر کا آغاز دودھ ہی سے کرتے ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کے لیے دودھ
ایک مکمل غذا ہے ۔ فطرت نے ماں کے دودھ میں وہ تمام بنیادی عناصر یکجا کر
دیے ہیں جو بچے کی نشو ونما کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔ گائے ، بھینس کا دودھ
ماں کے دودھ سے ذرا مختلف ہوتا ہے او رشیر خوارگی کے بعد بچپن سے لے کر
بڑھاپے تک بہتری غذا مہیا کرتا ہے، طویل مشاہدے اورتجربے کے بعد دنیا بھر
میں دوھ کی اہمیت اور قدر وقیمت کو تسلیم کیا گیا ہے ۔
لفظِ 'دودھ' کی جڑ سنسکرت زبان کا لفظ 'دُگدھ' ہے ، لیکن اسکی ہند-یورپی
جڑیں اور بھی گہری ہیں اور اس سے ملتے جلتے قرابت دار الفاظ کئی ہند-یوروپی
زبانوں میں ملتے ہیں۔ بطورِ مثال اوستائی زبان(ایک ہزاروں سال پرانی مشرقی
فارسی زبان) میں 'دغد' ، وخی میں 'دیغ' اور نئی فارسی میں 'دوغ' پائے جاتے
ہیں۔
دودھ عام طور پر ایک سفید مائع ہوتا ہے جو کہ ممالیہ کے تھنوں میں پیدا
ہوتا ہے، جیسے کہ گائے کا دودھ یا انسانی دودھ۔ یہ مائع ممالیہ غدودوں میں
پیدا ہوتا ہے جسے مادہ ممالیہ کے تھن کہا جاتا ہے۔ چونکہ نومولود ممالیہ
بچوں کے دانت پیدائش کے وقت موجود نہیں ہوتے اس لیے ان کودودھ کی ضرورت
ہوتی ہے اور یہ ضرورت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک کہ ان کے مکمل دانت
ٹھوس خوراک کھانے کے قابل نہیں ہو جاتے۔
یہ ایک سائنسی حقیقت ہے او راس میں کسی قسم کے اختلاف کی قطعاً گنجائش نہیں
کہ نشو ونما کے دوران بچوں کے لیے خوراک کے ساتھ ساتھ دودھ کی وافر سپلائی
بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس بات میں ذرہ بھر شک نہیں کہ بڑھاپے میں مضبوط بدن
کے لیے لازمی ہے کہ بچپن میں اچھی غذا استعمال کی جائے۔
تجربات سے دیکھا گیا ہے کہ دودھ سے حاصل ہونے والے لحمیات گوشت سے حاصل
ہونے والے لحمیات سے کہیں زیادہ اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اگر دودھ کے استعمال میں
نمایاں کمی کر دی جائے تو بہت جلد قومی سطح پر اس کے برے نتائج نمایاں ہونے
لگیں گے ۔ دودھ ہر ذی حس کو مرغوب ہے اور قدرت نے اسے زندگی پر ور اصولوں
سے نوازا ہے۔ اور تمام جانداروں کی فطرت کے عین مطابق ہے۔
دودھ ذہنی بیماریوں کے لیے بڑا سود مند ہے ۔ دوران خون کی بیماریوں میں بھی
استعمال ہو سکتا ہے ۔ بخار ، کھانسی، بدہضمی ، ٹی بی (تپ دق) اور اس طرح کی
دوسری بیماریوں میں اس کی شفا بخش تاثیر مسلم ہے۔
گوشت کے استعمال میں ہمارے ہاں ضرور اضافہ ہوا ہے ۔ لیکن دودھ کی پیداوار
او راس کے استعما ل میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ۔ حال ہی میں چند
صنعتی اداروں نے کاروباری پیمانے پر دودھ کی فراہمی کا کام شروع کیا ہے،
لیکن مہنگائی کی وجہ سے ان کی سپلائی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے ۔
دیہاتوں میں بیچارے اکثر لوگ اپنے بچوں کوپلانے کے بجائے دودھ بیچ کر اپنی
گزر بسر کرتے ہیں۔
حکومت اگر محکمہ زراعت کے توسط سے اس طرف توجہ دے تو شاید دودھ کی پیداوار
میں اضافہ ہو کر عام آدمی تک اس کی رسائی ہو سکے۔پرانے وقتوں کے لوگوں کی
نسبت آج کے غذائی سائنس دان دودھ کی افادیت بطور غذا اور دوا زیادہ بہتر
جانتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ یہ ساری قدرو قیمت اس دودھ کی ہے جو صاف ہو،
تازہ ہو او راچھی خوراک کھانے والے صحت مند جانوروں سے حاصل کیا گیا ہو ۔
اچھے دودھ کے لیے جانور کا اچھا ہونا ضروری ہے ۔ آج کل ہمارے ہاں اس قسم کا
اچھا دودھ شاید ہی دست یاب ہو اور حفظان صحت کے اصولوں سے عاری ناقص اور
ملاوٹی دودھ جو دست یاب ہے ۔ فائدے کے بجائے الٹا مضر صحت ہے ۔ ابالنے اور
پاسچرائز کرنے سے دودھ کی اصلی ہیئت میں تھوڑی سی تبدیلی ضرور آجاتی ہے ۔
لیکن ہمارے ہاں یہ عمل وسیع تر مفاد میں ضروری ہے، البتہ پھلوں اور سبزیوں
سے دودھ میں اس طرح پیدا ہونے والی غذائی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ آج کل
درآمد کردہ خشک اور پاؤڈر دودھ بھی عام دستیاب ہے ۔ اسے پانی میں ملا کر
اچھے دودھ کے طور پر ہر قسم کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دودھ
میں چینی ملا کر نہیں پینا چاہیے۔ اس سے پیٹ میں گڑ گڑ ہوتی ہے ۔ البتہ اگر
زیادہ میٹھا کرنا ضروری ہے تو شہد ملا سکتے ہیں ۔ دودھ کو گھونٹ گھونٹ کرکے
پینا چاہئیے تاکہ منہ کے لعاب کے ساتھ اچھی طرح گھل مل کر پیٹ میں جائے ۔
اس طرح معدے میں دودھ کے سخت ڈھیلے نہیں بنتے، دودھ کی ایک او ربڑی خوبی یہ
ہے کہ یہ دوسرے خصوصاً نباتاتی غذاؤں کی بایولاجیکل خوبیوں اور افادیت میں
اضافہ کرتا ہے ۔ شاید اسی لیے جانے بغیر بعض علاقوں کے پرانے لوگ کھانا
کھاتے وقت ساتھ ساتھ دودھ بھی سرک سرک کر پیتے ہیں۔
بکری کا دودھ
ہمارے ملک میں د ودھ حاصل کرنے کا عام ذریعہ گائیں اور بھینسیں ہیں ۔
بکریاں بھی عام پائی جاتی ہیں، بکری کو غریب آدمی کی گائے کہا جاتا ہے ۔
لیکن ہمارے ہاں یہ جانور دودھ حاصل کرنے کے بجائے زیادہ تر گوشت کے لیے
استعمال ہوتا ہے ۔ بکری کادودھ غذا بخش ہے او ربڑی آسانی سے ہضم ہو جاتا
ہے، اس کے دودھ سے مکھن اور پنیر بھی تیار کیا جاسکتا ہے ۔ بکری کا دودھ
استعمال کرنے سے پہلے ضرور ابال لینا چاہیے ۔ بچے ہوئے دودھ سے بخار اور
دیگر چھوت وغیرہ کا خدشہ ہو سکتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں غریب طبقہ بہت
زیادہ ہے ۔ دودھ ان کی قوت خرید سے باہر ہے۔ بہتر یہی ہے کہ غریب لوگ اسے
بطور گائے رکھیں۔ اس کی قیمت کم چارے کا خرچہ کم اور دیکھ بھال آسان ہے۔
غذائی اور صحت بخش فوائد کے لحاظ سے بکری کا دودھ گائے کے دودھ کے
تقریباًبرابر ہے۔
آج کل پاکستان میں دودھ بڑا مہنگا ہو گیا ہے اور مزید مہنگا ہوتا جارہا ہے
۔ بکری کو غریب آدمی کی گائے کہا گیا ہے۔ ممکن ہو تو بکری رکھ کر اس کے
دودھ سے استفادہ کریں۔ گو بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں ۔
غذائیت
دودھ انسانی استعمال کی خوراک میں ایک اہم جز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں
معدنیات جیسے کیلشیم کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے جو کہ ہڈیوں اور دانتوں
کی مضبوطی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ دودھ جسم کو پروٹین کی بھی
مقدار فراہم کرتا ہے اور جسم کی حیاتیاتی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد
دیتا ہے۔ ایک تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دودھ کا ایک گلاس روزانہ
استعمال کرنے پر جسم کی %44 حیاتیاتی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں ۔ دودھ کی
بعض اقسام میں معدنیات جیسے کیلشیم کی مقدار خاطر خواہ نہیں ہوتی، لیکن پھر
بھی ان سے ملائی،پنیر، اور ملائی پنیر حاصل ہو سکتا ہے۔
اونٹنی کا دودھ
جہاں اونٹ صحراء زندگی بسر کرنے والوں کے لئے ایک نعمتِ غیر مترقّبہ ہے
وہیں اونٹنی کا دودھ بھی نعمت ِ بیش بہا سے کم نہیں۔
قیمتی فوائدکاحامل اونٹنی کا دود ھ جو بہترین غذا بھی ہے، دوا بھی ہے اور
ساتھ ہی شفا بھی ہے ۔بکری کے دودھ کی خاصیت الگ ،بھینس کے دودھ کی خاصیت
الگ گائے کے دودھ کے لئےدرا صل ہم شہری لوگ شہر کی ہما ہمی میں اپنے اسلاف
کی بہت سی باتوں کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں۔اس لئے نئی چیز کو قبول کرنے
میں ہمارا زہن کچھ وقت لے لیتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طبی اعتبار سے اونٹنی کا دودھ بےشمار فوائد کا حامل
ہے-قرآن پاک میں اللہ تعالٰی نے اونٹ کی ساخت پر غور کرنے کو اور اس سے
نصیحت حاصل کرنے کی تاکید ہے ۔
اونٹ ایک ایسا جانور ہے جو کہ صحرا کے سخت ترین موسم میں بھی کئی دن بغیر
کھائے پئے گزارنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے کوہان جو ٹھوس چربی سے بھرے
ہوئے ہوتے ہیں قحط اور خشک سالی کے موسم میں بھی اپنی اس چربی سے دودھ کی
پیداواری صلاحیت برقرار رکھتے ہیں اور یہ حیرت انگیز بات ہے شدید خشک سالی
کے دوران جب پانی کی کمی واقع ہوجاتی ہے تب اس کے دودھ میں ایسی حیرت انگیز
کیمیائی تبدیلیاں آتی ہیں جو وہاں بسنے والے افراد کی غذائی ضروریات کو
پورا کرنے کے کام آتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے۔یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ سائنسی کی ہر
تحقیق حتمی نہیں ہوتی بلکہ اس میں اصلاح کی گنجائش ہے ۔ہم چونکہ نعمت
رباّنی کو بین کررہے ہیں تو اس کے تحت جہاں جہاں سے ہمیں مفید معلومات
میسرآئی ہم آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں ۔
اونٹ صحرا کی شدید گرمی میں اپنے جسم میں پانی کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت
رکھتا ہے اور یہ پانی عمل تبخیر کے ذریعے کم سے کم اس کے جسم سے خارج ہوتا
ہے جب اونٹ کو پانی کی کمی کا سامنا ہو تو اس وقت بھی اس کے دودھ میں پانی
کی خاصی مقدار خارج ہوتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ دوسرے نمکیات جیسا کہ سوڈیم
کلورائیڈ کی مقدار دودھ میں 10 ملی ایکولنٹ فی لیٹرسے بڑھ کر 23 ملی
ایکولنٹ فی لیٹر تک پہنچ جاتی ہے ۔
یاد رہے کہ یہ نمک انسان کی جسمانی ضروریات کے لیے بہت ضروری ہے خاص طور پر
صحرا جہاں پر گرمی کی وجہ سے پسینے کا اخراج زیادہ ہو، پسینے کے ساتھ ساتھ
سوڈیم کلورائیڈ بھی ہمارے جسم سے خارج ہوتا ہے نمکیات کی یہ کمی ہمارے جسم
میں کئی بیماریوں کا موجب بن سکتی ہے تو اس صورتحال میں اونٹنی کا دودھ
استعمال کر کے سوڈیم کلورائیڈ کی کمی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔اونٹنی کے
دودھ میں وٹامن سی کی خاصی مقدار پائی جاتی ہے جبکہ یہ وٹامن گرمی اور خشک
سالی کے دنوں میں اونٹ کے دودھ میں اور زیادہ بڑھ جاتا ہے- وٹامن سی قوت
مدافعت کو بہتر کرنے میں استعمال ہوتا ہے شدید گرمی کے موسم میں وٹامن سی
دھوپ کی حدت اور لو لگنے سے بھی بچاتا ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں وٹامن سی 23
ملی گرام فی لیٹر ہوتا ہے ۔اونٹنی کے دودھ میں وٹامن، نمکیات، پروٹین اور
چکنائی کی ایک خاصی مقدار موجود ہوتی ہے-
عام طور پر چھوٹے بچوں میں دودھ سے ایک خاص قسم کی الرجی اور اسہال کی سی
شکایت پائی جاتی ہے- لیکن اونٹنی کے دودھ کے استعمال سے یہ الرجی بچوں میں
نا ہونے کے برابر ہوتی ہے اس لیے چھوٹی عمر کے بچوں میں اونٹنی کے دودھ کا
استعمال اس شکایت کے قابو پانے میں مفید ثابت ہوتا ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی اونٹنی کا دودھ قدرت کی جانب سے عطا کردہ کسی
انمول تحفے سے کم نہیں کیونکہ اس میں انسولین کی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے
جو گائے کے دودھ کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے انسولین ایک ہارمون ہے جو
ذیابیطس کے مریضوں میں کم مقدار میں بنتا ہے اور انہیں یہ ہارمون دوائیوں
کی شکل میں لینا پڑتا ہے۔ ذیا بیطس کے ان مریضوں میں اونٹنی کے دودھ کا
استعمال ایک شافی علاج کے طور پر اکسیر ہے ۔
زمانہ قدیم سے ہندوستان میں وید ک طریقہ علاج کے طور پر اونٹنی کا دودھ
یرقان ، اطحالِ تلی ، ٹی بی، دمہ اور بواسیر کے امراض کے علاج میں ادویاتی
طور پر استعمال ہوتا آرہا ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں پائے جانے والے میں ایسے
اجزاء میں بھی ہوتے ہیں جو یرقان کے مریضوں میں جگر کی حالت کو بہتر بنانے
کے لیے بہت مفید ہے ۔یرقان اور جگر کے کینسر کی حالت میں جگر کی فعالی حالت
بہت کمزور ہو جاتی ہے اس صورت میں اونٹنی کا دودھ جگر کی نشو ونما اور اس
کو کارآمد بنانے میں مفید سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اونٹنی کے دودھ میں کولیسٹرول کی بھی ایک مناسب مقدار پائی
جاتی ہے جو کہ دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے غذائی متبادل ہے۔ اگر
اونٹنی کا دودھ غذائی متبادل کے طور پر استعمال سے اس مہلک اور متعدی مرض س
بچا جا سکتا ہے ۔
اونٹنی کا دودھ ایک بہترین قبض کشا دوائی کے طور پر بھی استعمال بھی کیا
جاتا ہے، اونٹنی کا دودھ اگر تازہ اور گرم حالت میں استعمال کیا جائے تو یہ
اسہال کی سی کیفیت پیدا کرتا ہے۔
اونٹنی کا دودھ انسانی جسم میں موجود متعدد بیماریوں کیخلاف قوت مدافعت
پیدا کرتا ہے اور انسان کو متعدی اور مہلک امراض سے بچانے میں مفید سمجھا
جاتا ہے۔ اونٹنی کا دودھ اگر ایک بیمار آدمی کو پلایا جائے تو اس سے وہ نہ
صرف شفا یاب ہو گا بلکہ یہ دودھ اس کی ہڈیوں کی بڑھوتری میں بھی مددگار
ثابت ہوگا۔
ماہرین کے مطابق اونٹ کا مدافعتی نظام دوسرے جانوروں کی نسبت زیادہ مضبوط
واقع ہوا ہے اسی لیے اونٹنی کے دودھ کے استعمال سے انسان کے مدافعتی نظام
پر بھی نہایت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس میں بیماری کے مقابلے کی قوت
آتی ہے۔ کینسر کے مریضوں کے لئے یہ قوت نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے اور
علاج میں معاون بھی ثابت ہوتی ہے۔
اونٹنی کا دودھ اور مصنوعات
اونٹنی کے دودھ سے بننے والی مصنوعات میں پنیر ، قلفی، گلاب جامن اور دوسرے
بہترین آئیٹم لذید ہونے کے ساتھ ساتھ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔
اونٹنی کے دودھ سے بننے والی پنیر خاصی لذید ہوتی ہے اور اس کی مانگ مشرق
وسطی اور یورپی ممالک میں کافی زیادہ ہے بعض ممالک میں بیکری سازی کی صنعت
میں اونٹنی کا دودھ مٹھائیاں بنانے کے لیے بہترین نعمل البدل قرار دیا جاتا
ہے- اونٹنی کا دودھ ہیلتھ سپلیمنٹ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ کھانے میں
موجود تمام غذائیت ہے اس میں۔
اونٹنی کے دودھ سے دور ہونے والی جن بیماریوں کے نام لئے ان کی فہرست بہت
طویل ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اونٹنی کا دودھ غذا ۔۔دوا ۔۔ اور شفاء ہے۔سننے
میں ملتاہے کہ یہ کینسر، ہیپا ٹائٹس، ڈائبٹیس، کولیسٹرول، پتھری، ٹی بی،
لقوہ، فالج، دمہ، ڈینگی، جلدی امراض، گردوں کا سکڑنا، دل کی شریانوں میں
چکناہٹ اور ہڈیوں کا بھربھرا پن سمیت تقریباً دو درجن بیماریوں کا قدرتی
علاج ہے۔
اونٹنی کا دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں سعودی عرب اور صومالیہ سرفہرست
ہیں، جبکہ کینیا، آسٹریلیا اور امریکہ میں بھی اونٹنی کے دودھ کی ڈیمانڈ
بڑھ رہی ہے۔
اونٹنی کے دودھ پرتحقیقات
انٹر نیٹ پر موجود دودھ کے متعلق معلومات کے حوالے سے جب پڑھنا شروع کیاتو
معلوما ہوا کہ ہالینڈ میں ماہرین تحقیقات کررہے ہیں کہ تاریخی طور پر فائدہ
مند سمجھا جانے والا اونٹنی کا دودھ کیا واقعی کئی بیماریوں سے لڑنے کی
تاثیر رکھتا ہے۔مصر میں جزیرہ نما سنائی کے بدو زمانہ قدیم سے یقین رکھتے
ہیں کہ اونٹنی کا دودھ تقریباً تمام اندرونی بیماریوں کا علاج ہے۔ ان کا
خیال ہے کہ اس دودھ میں جسم میں موجود بیکٹیریا ختم کرنے کی صلاحیت
ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق روس
اور قزاقستان میں اکثر ڈاکٹر اونٹنی کا دودھ کئی مریضوں کے علاج کے لیے
تجویز کرتے ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک ہند میں اونٹنی کا دودھ یرقان، ٹی بی، دمہ ، خون کی کمی
اور بواسیر کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اور ان علاقوں میں جہاں اونٹنی کا دودھ خوراک کا باقاعدہ طور پر حصہ ہے
وہاں لوگوں میں ذیابیطس کی شرح بہت کم پائی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت FAO کے مطابق اونٹ کے دودھ میں
وٹامن سی کی مقدار تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یہ فولاد، Unsaturated Fetty
Acids اور وٹامن بی سے بھی بھرپور ہوتا ہے۔ چوٹی کے غذائی ماہرین اس بات پر
متفق ہیں کہ اونٹنی کے دودھ کے غیر معمولی فوائد ہیں۔ بہت سے تاجروں کا
ماننا ہے کہ اونٹنی کا دودھ سونے جیسی قدر و قیمت کا حامل ہے۔
دیکھا آپ نے کہ دودھ اللہ عزوجل کی عطاکردہ کتنی بڑی نعت ہے ۔جس میں ہمارے
لیے بیش بہافوائد ہیں ۔ان نعمتوں کی ہمیں قدرکرنی چاہیے اور انھیں ضائع
کرنے سے بچناچاہیے۔نیز اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور اللہ عزوجل کی اس
عطاپر اس کا شکر اداکرنا چاہیے۔اللہ عزوجل ہمیں اپنا شاکر بندہ بننے کی
توفیق عطافرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.