امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری
انڈیا کے بعد پاکستان کا مختصر دورہ کرکے چلے گئے لیکن اس دوران ہونے والی
گفتگو اور طے پانے والے معاملات کے اثرات شاید طویل عرصہ تک محسوس کئے جاتے
رہیں گے ۔ امریکی وزیر خارجہ ایک ایسے وقت میں پاکستان میں آئے جب ملک میں
سیاسی و عسکری قیادت ملکر شدت پسندی اور دہشت گردی کیخلاف مشترکہ کوششوں
میں مصروف ہے اور ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے باعث پریشان
جبکہ افغانستان کے راستے طالبان حملوں سے ملک بھر میں سیکیورٹی مسائل میں
اضافہ کی وجہ سے مسلسل امن وامان کی فضاء کو برقرار رکھنے میں تمام تر
وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں ۔ امریکی وزیر نے کنٹرول لائین اور ورکنگ
پر ہونے والے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پیش کش کی ہے کہ پاک
بھارت تعلقات میں بہتری کیلئے امریکا تعاون کو تیار ہے جبکہ افغان سرحدی
علاقوں میں عسکریت پسندی کیخلاف کریک ڈاؤن میں تیزی لانے کیلئے پاکستان کے
ساتھ ملکر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں
امریکا کا کردار کم ضرور ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہوا البتہ تعلقات میں
صورتحال کی مناسبت سے تبدیلی آرہی ہے ۔ انہوں نے اپنے دورے میں پاکستان کی
سیاسی قیادت کے اتفاق رائے کو سراہتے ہوئے کہا کہ امریکا دہشت گردی کے
خاتمے کیلئے پاکستان کے ساتھ ہے اور فرانس کی طرح پاکستان کے عوام کے ساتھ
دہشت گردی اور انتہاپسندی کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ایک ہی صف میں کھڑے
ہیں اور ہر اس اقدام کیلئے تیار ہے جس سے دہشت گرد عناصر کا عرصہ حیات تنگ
ہو۔ انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کے
ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں شمالی وزیرستان آپریشن کیلئے پاکستانی فورسز
کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ دہشت گردوں کو دہشت گرد ہی سمجھنا
چاہئے ان میں اچھے برے کی تمیز لا حاصل ہے حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ خوش آئند
ہے کیونکہ امریکا حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کو دنیا بھر میں عمومی جبکہ
اپنے لئے خصوصی طور پر خطرہ محسوس کرتا ہے ۔ پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ
کیلئے جو کارروائیاں کررہا ہے اسے امریکا سراہتا ہے بلکہ دہشت گرد ی کیخلاف
پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا اور ساتھ ساتھ اسے وسعت بھی دے گا ۔ سانحہ
پشاور پر امریکی عوام کو بہت دکھ ہوا ۔ ہم پاکستان میں سیکیورٹی اقدامات
تیز کرنے کو تیار ہیں اور فاٹا میں تعمیر و ترقی سمیت آئی ڈی پیز کیلئے 25
کروڑ ڈالر امداد بھی دے گا ۔ پاکستان اور بھارت باہمی طور مسائل سفارتی سطح
پر حل کریں۔ بہتر تعلقات ہی دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں یعنی دونوں ممالک
کو خطے میں پائیدار امن کے قیام کیلئے مذاکرات ہی کے ذریعہ کوئی راستہ
نکالنا ہوگا ۔ اس موقع پر سرتاج عزیز نے باور کروایاکہ کشمیر کے بنیادی
مسئلہ کے حل کے بغیر بھارت کے ساتھ مذکراتی عمل بے معنی ہے کیونکہ اس نے ہر
بار خارجہ سطح پر مذکرات منسوخ کئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب
سے حالیہ بلا اشتعال اور اندھا دھند فائرنگ پاکستان کیلئے تشویش کا باعث ہے
جس پر جان کیری نے صرف اتنا کہہ کر اکتفاکیا کہ امریکا علاقائی امن اور
خوشحالی کیلئے پاک بھارت ایشوزکے حل پر اپنا کردار ادا کریگا ۔ دوسری جانب
بھارتی وزیر دفاع نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے سیز
فائر کی خلاف اور دہشت گردوں کی دراندزی کو بڑھاوا دینے کی غلطی تسلیم کرے
اس کے بعد ہی بات چیت شروع ہوگی ۔بھارتی میڈیا کے مطابق انہوں نے کہاہے کہ
پاکستان مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزی کررہا ہے اور دہشت گردوں کی دراندازی
کرانے کی کوشش سے کسی صورت باز نہیں آرہا۔ پاکستان جب تک اپنی غلطیوں کی
اصلاح نہیں کرتا بات چیت کاعمل شروع نہیں ہوسکتا ۔ انہوں نے دعویٰ کرڈالا
کہ بھارتی فوج کی سخت جوابی کارروائیوں کی وجہ سے بین الاقوامی دراندازی
میں کمی آئی ۔ جس وقت امریکی سیکرٹری پاکستان میں دہشتگردوں کی خلاف پاک
فوج کے اقدامات کو قابل ستائش قراردے رہے تھے اسی وقت اقوام متحدہ کے جنرل
سیکریٹری بان کی مون نئی دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ ششماسوراج کو کہہ رہے
تھے کہ افغانستان کی سیکیورٹی کے حوالے سے دنیا کی نظریں بھارت پر لگی ہوئی
ہیں گویا انہوں نے بھارت کو نجات دہندہ قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے
بھارتی قیادت کو ایک لحاظ سے احساس دلاتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے امریکی
فوج کے انخلاء کے بعد بھارت کو جنوبی ایشیا ء میں قائدانہ کردارا دا کرنا
ہوگا ۔ عام طور پر اقوام متحدہ یا یسے کسی بھی ادارے کا سربراہ جب کسی ملک
کا دورہ کرتا ہے تو سفارتی اعتبار سے اس قسم کی گفتگو نہیں کرتا یا ایسی
تقریر نہیں کی جاتی جس سے کچھ اور قسم کے مطالب یا مقاصد نکالے جائیں لیکن
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے سوچے سمجھے مقصد کے تحت یہ ساری باتیں کی
ہیں اس سے قبل کہ بان کی مون کے بتائے ہوئے بھارتی کردارکو افغانستان کے
حوالے سے دیکھا جائے تو شاید اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری ان قراردادوں کو
بھول گئے ہیں جو ان کے ادارے کے توسط سے کشمیر کے حوالے سے پاس کی گئیں
بھارت ان قرار دادوں پر عمل تو کجا انہیں دیکھنے تک کی ضرورت محسوس نہیں
کرتا بلکہ گزشتہ سال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ ہی میں
کھڑے ہوکر اسے اقوام متحدہ کی بجائے پاک بھارت معاملہ قرار دیتے ہوئے بڑی
ڈھٹائی سے کہہ دیاتھا کہ یہ ان کا اندورنی مسئلہ ہے اقوام متحدہ اس کا
تصفیہ کرنے کیلئے زحمت نہ کرے ۔ بھارت بجائے اس کے کہ بھارت سے اس پر
استفسار کرتے اور بھارت کو کشمیر سے متعلق قرارداوں کو یاد کراتے انہوں نے
افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنے کی پیش کش کردی ۔ بان کی مون کو اصولی
طور پر سوچنا چاہئے تھا کہ وہ ایک ایسے ملک میں جارہے ہیں سؤجس نے متعدد
بار قراردادوں پر عمل نہ کرکے ایک عالمی ادارے کی توہیں کی ہے اور اگر
انہوں بھارت آنے کا قصد کرہی لیا تھا تو اس پر عمل درآمد کا کہتے تاکہ
معلوم ہوتا کہ بان کی مون صرف اور صرف اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر کاربند
بھارت کے دورے پر ہیں لیکن ان کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کے
ایجنڈے پر عمل درآمد کروانے کیلئے تشریف لائے ہیں جس کی ان سے کسی طاقت نے
فرمائش کی ہے اور حسب دستو ر سابق اسے آگے لیکر چل پڑے ہیں ۔حیرت انگیز بات
یہ ہے کہ انہیں اس بات کا قطعی احساس نہیں کہ بھارتی جار حیت سے ایک جانب
کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے تو دوسری طرف غیر
انسانی و وحشیانہ قوانین کے تحت ان پر بھارت نے اپنا تسلط برقرار کر رکھا
ہے ۔ بان کی مون یہیں نہیں رکے بلکہ وہ جوش جذبات میں اس سے بھی آگے نکل کر
کہہ گئے کہ بھارت خطے سمیت دنیا بھر میں غربت ، مہاجرین ، دہشت گردی ،
موسمیاتی تبدیلیوں وغیرہ جیسے مسائل کے حل میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے
حالانکہ گزشتہ چند ماہ سے پاک بھارت کنٹرول لائین پر جس طرح کی شرانگیزی کا
مظاہرہ کررہاہے وہ عالمی دہشت گردی سے کسی صورت کم نہیں جبکہ یہاں غربت کی
یہ حالت ہے کہ دہلی کی سڑکوں کی فٹ پاتھوں پر تیسری نسل کھانے کو ترس رہی
ہے ۔طبقاتی نظام آج بی اس ملک میں رائج ہے ۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم
ہیں کہ ختم ہونے کا نا م نہیں لیتے ۔ بنگلہ دیش کے ساتھ کشمیر ، سیاچن اور
سرکریک کا مسئلہ ، چین کے ساتھ سرحدی تنازعات ، بھوٹان اور نیپال کے ساتھ
دیگر مسائل جبکہ سری لنکا بھی اس کے غاصبانہ اقدامات سے محفوظ نہیں۔ اگر
ایسے ملک کو اقوام متحدہ کوئی کردار دیتا ہے تو اسے سوچنا چاہئے کہ اس کا
انجام کیاہوگا کیونکہ وہ خطے میں ہر پڑوسی ملک کے ساتھ کسی نہ کسی مسئلے پر
پنجہ آزمائی کررہاہے ۔ اقوام متحدہ بنیادی طور پر کا کردار اقوام عالم میں
ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں دکھائی دے رہا اور وہ امریکااور ان بڑی طاقتوں
کے اشاروں پر چل رہا ہے جو ان کے مفادات میں ہے ۔ امریکہ کے صدر بارک ابامہ
کہتے ہیں کہ امریکا دنیا میں جہاں کہیں دہشت گردی کا خطرہ محسوس کریگا وہاں
یکطرفہ کارروائی کرنے میں دریغ نہیں کریگا ۔ کچھ امریکی افواج افغانستان
اور عراق میں رہیں گی ۔ گویا امریکا کو پاکستان میں قیام امن سے کوئی لگا ؤ
نہیں بلکہ وہ دنیا بھر میں جہاں بھی اسلامی ریاستیں بالخصوص نظریاتی
ریاستیں قائم ہیں ان پر کسی نہ کسی طرح سے اپنی اجارہ داری قائم رکھنا
چاہتا ہے ۔ وہ دہشت گردی کی آڑ میں دنیا کا امن تباہ کرچکا ہے اور ساتھ ہی
ساتھ جو ممالک اس سے متاثر ہورہے ہیں وہاں نہایت ہوشیاری اور چالبازی سے
امداد کی صورت میں مرہم رکھ رہا ہے ۔ امریکی سیکرٹری کا پاکستان کا اور بان
کی مون کا بھارت کا دورہ کسی صورت میں پاکستان کی جانب سے ان درخواستوں پر
عمل درآمد نہیں تھا جن میں پاکستان نے بھارتی جارحیت کا اظہار کیا تھا ۔
پاکستان کے حکمران ہر دور میں امریکا یا اقوام متحدہ سے ملک کی بہتری کیلئے
کچھ حاصل نہیں کرپائے البتہ پابندیوں کا اطلاق ہوتا رہا ہے جسے بسرچشم خم
قبول کرتے رہے ہیں ۔ موجودہ حالات میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت ہر اس
اقدام کی مخالفت کررہی ہے جس سے دنیا میں قیام امن کو خطرات لاحق ہیں اس کے
باوجود پاکستان کی نوجوان نسل کیلئے ترقی و خوشحالی ایک خواب بن گئی ہے جو
بہرکیف لمحہ فکریہ ہے ۔ |