سرخ ریچھ نئے شکارکی تلاش میں

سامراج کارنگ سرخ،سفیدیاکوئی سابھی ہو،مسلمانوں کے درپے آزارہی رہاہے۔اس کے غیظ وغضب کاشکارزیادہ تر مسلمان ہی رہتے ہیں چاہے مسلمانوں کاتعلق کسی بھی خطے سے ہو۔بحراسودکے ساحل پرواقع جزیرہ نماکریمیااپنی خوبصورتی میں یکتائے روزگارسواحل میں شمار ہوتاہے۔ موجودہ یوکرائن کی حدودمیں شامل یہ ریاست تاریخی اعتبار سے ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب وثقافت کامرکزرہی ہے۔سابق سوویت یونین میں دوطرح کے تاتارمسلمان آبادہیں۔ان میں کریمیاکے تاتاراورقازان کے تاتارمسلمان دومختلف علاقوں میں آبادرہے ہیں۔کریمیاکے تاتاروں کوکریمیاسے نکال دیا گیا اور انہیں سابق سوویت یونین کی مختلف ریاستوں میں جبراًہجرت پرمجبورکیاگیا۔

تاریخی اعتبارسے کریمیاکے تاتاروں نے نہ صرف یوکرائن اورروس کے وسیع علاقے پرحکومت کی ہے بلکہ پولینڈکاایک بڑاعلاقہ بھی کریمیاکی سلطنت کاحصہ رہا ہے ۔ یہاں کے تاتاروں نے ماسکوپربھی کئی مرتبہ چڑھائی کی جس وجہ سے روسی بادشاہ ماسکوچھوڑکرفرارہوگیاتھا۔١٤٧٥ء میں کریمیا خلافت عثمانیہ میں شامل ہوگیا اور ماسکو کے بادشاہ کو کریمیا کے تاتاروں نے ہفتہ وارمسجدمیں آنے اورانتظامات دیکھنے کا پابندبنایا۔خلافت عثمانیہ کے کمزورہوتے ہی روسی حکمرانوں نے کریمیاکے مسلمانوں کوزیراثرلانے کی کوشش کی اور بالآخر ١٧٨٣ء میں کریمیا پرروسیوں نے قبضہ کرلیا۔اس دوران میں شدیدجھڑپیں ہوئیں اورکریمیاکے مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادترکی منتقل ہوگئی۔سوویت یونین کے کمزورپڑتے ہی کریمیاکے مسلمانوں نے واپس کریمیاکارخ کرناشروع کردیا۔ روسی آبادی نے بھرپورمخالفت کی اوربہت سے تاتاریوں کو واپس اپنے علاقوںمیںآنے سے روکے رکھاتاہم مسلمانوں نے اپنی جدوجہدجاری رکھی اورسویت یونین کے ٹوٹتے ہی تاتاری مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادکریمیاپہنچ گئی۔اب کریمیامیں ٧٠٪ سے زائدمسلمانوں کی آبادی ہے ۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد تین لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے۔موجودہ روسی قبضے نے مقامی تاتاری آبادی کومضطرب کررکھاہے،ان کی مساجدنذرِ آتش کی جارہی ہیں اورکہیں مساجد پر تالے ڈال دیئے گئے ہیں ۔اسکولوں کے دروازے بھی بندکردیئے گئے ہیں اورگھر گھر تلاشی لی جارہی ہے،خواتین اوربوڑھے مردوں سے انتہائی بدتمیزی کی جارہی ہے۔ مسلمان لیڈروں کوپکڑاجارہا ہے، مسلمانوں کی مذہبی سرگرمیوں اور مذہبی موادپرکڑی نظر رکھی جارہی ہے۔مسلمان نوجوانوں کواغواء کرنے کے بعدان کی لاشیں مختلف ویرانوں سے ملی ہیں۔ میڈیاپرخوفناک تسلط ہے اورہرداڑھی والا شک اورتشددکے دائرے میں ہے۔

یہ ہیں موجودہ کریمیاکے حالات جہاں مسلمانوں کیلئے ان کی اپنی ہی زمین تنگ اورجہنم بناکررکھ دی گئی ہے۔روس کے ساتھ ضم ہونے کے بعدکریمیامیںمسلمانوں پرعتاب کاسبب یہ ہے کہ کریمیا کی روس کی آغوش میں واپسی کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے۔اب مسلمان یوکرائن سے علیحدگی کی قیمت چکا رہاہے جویوکرائن کی آزادی کے بعدسے پھل پھول رہے تھے مگراب کریمیاپرروسی پرچم لہرانے کے بعددوبارہ عتاب کا شکارہیں۔روس کی خفیہ پولیس مساجدکی نگرانی کررہی ہے، مذہبی رہنماؤں سے باربارمتشددلہجے میں پوچھ گچھ جاری رہتی ہے،مساجد میں نمازیوں کی صفوں میں شدت پسندوں کو تلاش کیاجارہاہے،مسلمانوں کے جلسے اورجلوسوں پرمکمل پابندی عائدکردی گئی ہے۔دراصل کریمیامیں روسی نژادبرادری کے سواسب نے روس کے ساتھ ضم ہونے کی مخالفت کی تھی جن میں تاتارمسلمان بھی شامل تھے اس لئے آج ان کامیڈیابھی پابندی کاشکارہے۔انسانی حقوق کی زبردست اعلانیہ خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں مگرانسانی اوربنیادی حقوق کے ٹھیکیداربڑے اورچھوٹے ممالک اوران کی بغل بچہ سماجی تنظیمیں اوردیگرتمام این جی اوزمکمل خاموش ہیں۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں داعش کی سرگرمیوں سے لیکرامریکامیں نسل پرستی ایسے معاملات توگہری اور فوری توجہ کے مستحق قرارپارہے ہیں مگرکریمیاکے مسلمانوں پرظلم وستم پرکوئی نہیں بول رہاہے اورنہ ہی توجہ دے رہاہے۔

کریمیاکے مسلمانوں کاکہناہے کہ تلاشی کیلئے روسی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ اورپولیس دروازے توڑ کرمکانات کے اندر داخل ہوجاتی ہے۔مسلمان مردوں کوان کے بیوی بچوں کے سامنے ذلیل ورسواکیاجاتاہے۔ایک عربی نیوزچینل نے کریمیا کے متعددمسلمانوں سے بات کی مگربیشترلوگوں نے اپنی شناخت ظاہرکرنے سے انکارکردیاکیونکہ انہیںروسی حکومت کی جانب سے ہراساں کئے جانے کاخطرہ ہے۔ایک مسلم نوجوان نے کہاکہ روسی اس طرح خیرمقدم کرتے ہیں،دروازے توڑکراندرگھس آتے ہیں اورغیرانسانی طورپرگھر اوراس کے باسیوں کوپامال اورتاراج کرتے ہیں،تلاشی کی باقاعدہ اجازت ہوتی ہے نہ کوئی اختیار۔توجہ دلائی جاتی ہے کہ توبات سننے کیلئے تیارنہیں ہوتے۔روسی پولیس اسلحہ ، منشیات اورممنوعہ لٹریچرکی تلاش کے نام پرتوڑپھوڑکرتی ہے۔اس میں پولیس کے ساتھ کے جی بی کی جانشین این ایس بی کے ایجنٹ بھی شامل ہوتے ہیں۔

ماہ نومبرمیں ہیومن رائٹس واچ نے جورپورٹ جاری کی اس کے مطابق سینکڑوں مسلمان کریمیاچھوڑچکے ہیں،کوئی یوکرائن چلاگیاتوکسی نے ترکی میں جاکرپناہ حاصل کرنے کی کوشش کی ،یہاں تک کہ انقرہ حکومت نے کہاہے کہ کریمیاکے جوبھی پناہ گزیں آئیں گے انہیں قبول کیاجائے گاکیونکہ کریمیا کے تاتارلوگوں کاترکی کے ساتھ لسانی رشتہ ہے ۔ بہر حال اب تک ایسے تاتارمسلمانوں کی تعدادکاکوئی اندازہ نہیں ہے جو کریمیاسے جان بچاکربھاگے ہیں۔

تازہ ترین احوال شاہدہیںکہ اب کریمیامیںتاتارمسلمانوں کے ساتھ سرکاری زیادتیوں،مظالم اوراذیت رسانی نے ١٩٤٤ء کے دور کی یادتازہ کردی ہے جب دوسری جنگ عظیم کے دوران میں جرمن نازیوں کے ساتھ سازبازکرنے کاالزام عائدکیاگیا تھااور قریباًدولاکھ تاتارمسلمان مشرقی ایشیاکارخ کرنے پرمجبور ہو گئے تھے،ان میں سے ایک لاکھ افراد تو مشکلات اورخوراک کی قلت کی وجہ سے دنیاسے رخصت ہوگئے تھے جبکہ باقیوں نے دوبارہ ملک میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی،ان کو٢٠سال کی سزادی گئی تھی۔کئی دہائیوں تک تاتار مسلمانوں کوغدارکہاگیااور١٩٨٠ء کے بعدہی تاتارمسلمانوں کوکریمیا واپس آنے کی اجازت ملی تھی مگرتاتارمسلمانوں کومکانوں اورجائیدادواملاک کیلئے کوئی ہرجانہ یامعاوضہ ادانہیں کیا گیا ۔کریمیاکے مسلمان ہرسال ١٨مئی کواس المیے کی برسی مناتے تھے مگراس مرتبہ کریمیانے اس کی اجازت نہیں دی۔روسی پولیس کادعویٰ ہے کہ چھاپوں اورتلاشی کے دوران ممنوعہ موادملاہے جوتاتارمسلمانوں کے شدت پسندوں سے رابطہ ہونے کاثبوت ہیں مگرصلاح الدین تاتارکاکہناہے کہ اگرحزبِ التحریر کالٹریچریاکتابیں ملی بھی ہیں تواس تنظیم کے حامی ہیں جو خطے میں خلافت نافذکرناچاہتی ہے۔ایک صاف اور سچے انسان صلاح الدین کاکہناہے کہ وہ حزبِ التحریرکاحصہ نہیں مگریہ بھی حقیقت ہے کہ تنظیم کے ارکان نے ہی اسے نمازروزے کاپابندبنایاہے۔جب تک کریمیایوکرائن کاحصہ تھا تنظیم اوراس کے رضاکاروں کوکوئی مشکل نہیں تھی کیونکہ یوکرائن میں مذہبی آزادی کے سبب کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ تنظیم مشرقِ وسطیٰ کے تئیں مغربی پالیسیوں کے خلاف مظاہروں کااہتمام کرتی تھی اورتہواروں پرپروگرام منعقدکرتی تھی۔

حیرت کی بات تویہ ہے کہ روس نوازمسلمان اورادارے تاتار مسلمانوں کیلئے خلاف اس کاروائی کی حمائت کرتے ہیں۔ کریمیامیں ١٩٧٨ء سے قبل یہ خطہ منگول حکومت اوردورِ عثمانیہ کا حصہ تھااس کے بعدروس نے قبضہ کرلیاتھا۔روس نے حزبِ التحریرکوجہادکانشہ قراردیاتھااورروس کاالزام ہے کہ اس تنظیم نے متعددتاتارباشندوں کوہتھیاراٹھانے پرمجبورکر دیا ہے ۔ ان میں متعددتاتاراب شام میں بشارالاسد حکومت کے خلاف جنگ لڑرہے ہیںجنہیں اب بھی روس کی حمائت حاصل ہے۔شام میں کریمیاکے متعددنوجوانوں کی ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔

یوکرائن کے ایک پولیس افسرکی مظاہرے کے دوران میں ہلاکت کے معاملے میں ملوث ایک کریمیائی مسلمان کے مکان پرجب پولیس نے چھاپہ ماراتوپہاڑپربنے ہوئے خوبصورت مکان کامحاصرہ کرنے کے بعداس سے منشیات،ہتھیاروں اور قابل اعتراض یاممنوعہ موادکے بارے میں سوال وجواب کئے ۔اس وقت ٥٤سالہ صلاح الدین اپنی گائے کی دیکھ بھال میں مصروف تھا۔پولیس نے اس کی رہائش گاہ میں پانچ گھنٹے مذہبی کتابوں کامطالعہ کیا ،سی ڈیزکوچیک کیااورسینکروں اسلامی کتابوں کوممنوعہ قراردیکرضبط کرلیا، اس کے بعد تاریخ اورقانون کی کتابیں بھی ضبط کرلی گئیں۔صلاح الدین نے بتایاکہ پولیس بچوں کاقاعدہ بھی لے گئی۔٥٤سالہ مذہبی شخص صلاح الدین ہرروزصبح اپنی ایک درجن گائیں لیکرایک قدیم مسجدکے عقب میں جاتاتھاجہاں ہرجمعہ کی نمازکی بھی امامت بھی کراتاہے۔ترک زبان بولنے والے تاتارصدیوں سے کریمیا میں آبادہیںجنہوں نے کریمیا کے روس کے ساتھ ضم ہونے کی مخالفت کی تھی اورروسی پیش قدمی کوروکنے کیلئے گشتی دستے بنائے تھے۔تاتارباشندوں نے اپنے سمارٹ فون کاوائی فائی کی شکل میں استعمال کیاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ کریمیاکے دوبارہ روس کی آغوش میں جانے کے بعداب روسی حکومت نے تاتارمسلمانوں کے رہنماؤں کوجلاوطنی پرمجبورکرنے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ تاتار مسلمانوں کے میڈیاہاؤس بندکر دیئے گئے ہیں جبکہ تاتار مسلمانوں کے اجتماع اورمجالس پر پابندی عائدکردی گئی ہے۔بہرحال حالات بد سے بدترہونے کے باوجودکریمیاکے مسلمانوںکاخیال ہے کہ یہ سلسلہ طول پکڑے گااورمظالم کی انتہااب زیادہ دورنہیں۔تاتارمسلمانوں کاکہناہے کہ کریمیاکے یوکرائن سے الگ ہونے کے بعدسے حزب التحریر کے سات رضاکاروں کوروسی ایجنٹس نے اغواء کیا ہے اوراب شدیدخوف کا ماحول ہے۔

روس اس سے پہلے چیچنیامیں جہادکاسامناکرچکاہے جہاں بیس سال تک جہادنے اس کو یورپ کاسب سے نازک مسلح جہادبنا دیاتھا۔١٩٩٤ء کے بعدعلیحدگی پسندوں کے ساتھ چیچنیا میں دو بڑی جنگوں میں ہزاروںافرادمارے گئے۔اب داغستان اوردیگر علاقوں میں جہادیوں ،بدعنوان انتظامیہ اورقبائل گروپوں کے درمیان ٹکراؤ جاری ہے۔شدت پسندی کے خلاف دستِ آہن کے نام پراب کریمیائی مسلمانوں کوبدترین صورتحال کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔٢٠١٠ء میں روسی خفیہ ایجنسی نے چارچیچنائی بچوں کوجنگل میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور کہاتھاکہ شدت پسندی کے خلاف یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔اب کریمیاکے مسلمان رہنماؤں کاکہناہے کہ اگرروس نے چیچنیاکی طرزپر کاروائی شروع کی تو حالات مزیدخراب ہوسکتے ہیں اور کریمیامیں شدت پسندی کوہوامل سکتی ہے۔دوسری جانب روس کادعویٰ ہے کہ جہادی گروپ دراصل یوکرائن کی دین ہیں جو کریمیاکے تاتارمسلمانوں کیلئے مسئلہ ہیں اوردونوں سے نقصان اس کاہورہاہے۔روس میں یہ پروپیگنڈہ چل رہاتھا کہ شام میں جہادکرنے والے چارہزارتاتار مسلمان اب لوٹ آئے ہیں اور کریمیا کے باقاعدہ روس کے ساتھ انضمام سے قبل خون کی ندیاں بہادیں گے۔

دراصل روس نے ہمیشہ یہی کیاہے کہ پہلے شدت پسندی کے بھیڑیے کی آمدکاشورمچایااورپھردست آہن استعمال کیا۔نسلی اقلیتوں کوملک بدرکیا۔کریمیاکے تاتارمسلمانوں کواب اسی مشکل کاسامناکرناپڑرہاہے جیساکہ سٹالن کے دورمیں کرناپڑا تھا۔جنوری میں کریمیاکے روس کے ساتھ ضم ہونے کے بعد بہت ممکن ہے کہ کریمیا جہاد کا نیامیدان بن جائے کیونکہ روس کی کوشش رہے گی کہ تاتارمسلمانوں کوکچل دیاجائے۔مذہبی آزادی کوختم کرکے انہیں سرکاری مسلمان بنایاجائے مگراس وقت کریمیائی مسلمانوں کے شام میں جہادکی خبروں کے سبب ایسانہیں لگتاہے کہ کریمیامیں روس کے دست آہن سے اسلامی تحریک یامسلمانوں کے کردارکوکچلاجاسکے گا،اتناضرورہے کہ چیچنیاکی طرزپرکریمیاکے مسلمانوں کوایک بڑی لڑائی لڑنا پڑے جس کیلئے وہ تیارہیں۔

کریمیاکے مسلمانوں کاایک بڑاالمیہ یہ ہے کہ ترکی نے ان سے منہ موڑلیاہے جبکہ ماضی میں ترکی نے ہمیشہ خودکوتاتار مسلمانوں کامحافظ قراردیاتھامگراب روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی رشتوں ترکی نے کریمیاکے تاتارباشندوںکی حالت پرخاموشی اختیارکررکھی ہے۔پچھلے دنوں ترکی کے وزیر خارجہ نے یہ اعلان کرکے تاتارباشندوں کے زخموں پرمرہم رکھنے کی کوشش کی تھی کہ ایک غیرسرکاری وفدبھیج کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کی جانچ پڑتال کروائے گا اس کے بعدتاتارباشندوں میں یہ امیدپیداہوئی کہ ترکی کوئی سخت اقدام کرے گا۔تاتار باشندے ابھی ١٩٤٤ء کا اسٹالن دورنہیں بھول سکے ہیں جب لاکھوں کریمیائی تاتارملک بدرکردیئے گئے تھے ۔کریمیائی تاتارکہہ رہے ہیں کہ ترکی کی اس پہل کے باوجودانہیں سخت مایوسی ہوئی ہے۔

کل تک جوترکی کریمیائی تاتارکے حق میں آوازبلندکرنے میں ایک پل ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتاتھااب روس کے ساتھ ایکسپورٹ اورامپورٹ کے سبب خاموش ہے کیونکہ ترکی اپنے تجارتی رشتے خراب کرنے کے حق میں نہیں۔ایک جانب مغرب نے کریمیاپرروس کے شکنجے کے خلاف پابندیوں کو سخت کیاہے توترکی نے مختلف میدانوں میں روس کے ساتھ بڑے تجارتی معاہدے کئے ہیں۔جب اگست میں روس نے مغربی اشیاء کے بائیکاٹ کااعلان کیاتھاتوترکی نے اس کوحسین موقع قراردیاتھا۔بہرحال کریمیائی تاتارکے اس بحران کوروسی تجزیہ کاربھی ایک اورغلطی مان رہے ہیں جیسے سابق سوویت یونین نے افغانستان میں کیاتھا،اب وہی روس کررہاہے جس کی قیمت ایک اورچیچنیاکی شکل میں ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390512 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.