کچھ انہونیاں

اپنے مشہور و معروف سیاسی گھن چکر مولانا کا خدمت گار حیرت زدہ تھا۔اس نے مولانا کو دعا مانگتے ہوئے سن لیا تھا۔مولانا انتہائی خشوع وخضوع سے آنکھیں بند کئے سر جھکائے اپنی عرضی خالقِ کائنات کی خدمت میں پیش کر رہے تھے۔اے میرے مالک! جیسے تو نے عمران خان پر رحام کیا ہے میرے اوپر بھی رحام فرما۔مولانا اصلاََ پٹھان ہیں اور پٹھان بھائی جب بھی رحم کا لفظ استعمال کرتے ہیں اس کا تلفظ رحام ہی کرتے ہیں۔خدمت گذار خالص اردو سپیکنگ تھا۔اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ باہر آ کے اڑا دی کہ مولانا گڑ گڑاگڑا کے عمران کی طرح اپنے لئے اﷲ سے ایک رحام مانگ رہے تھے۔اب دلوں کے حال تو اﷲ جانتا ہے۔شاید مولانا عمران خان کی بین الاقوامی شہرت جیسا،اس کی فٹنس جیسا،اس کی ملکی سیاست میں قبولیت جیسا یا اس کے بنی گالہ کے تین سو کنال کے گھر جیسا کوئی رحم مانگ رہے ہوں لیکن تلفظ نے پہاڑ جیسی غلط فہمی پیدا کر دی۔مولانا نے اپنے تئیں رحم کہا جسے سننے والے نے رحام بنا دیا۔خدا لگتی یہ ہے کہ مولانا کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ واقعی عمران ہی کا طرح کا رحام مانگ رہے ہوں کہ آخر خربوزے کو دیکھ کے ہی تو خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ کریم مولانا پر رحم یا رحام جو بھی وہ چاہتے ہیں ارزاں فرمائے۔آمین

مولاناپاکستانی سیاست کے انتہائی ذہین اور کایاں آدمی ہیں۔نشستوں کی کمی ان کے لئے کبھی دردسر نہیں بنی۔وہ آٹھ ہوں یا اٹھارہ اقتدار کی غلام گردشوں نے ہمیشہ ہی مولانا کی قدم بوسی میں والہانہ پن دکھایا ہے۔کچھ دوست مولانا کے بارے لکھے لفطوں کے بارے میں بہت حساس ہیں اور وہ اسے مسلکی منافرت قرار دیتے ہیں۔واضح ہو کہ یہ چھیڑ چھاڑ صرف مولانا کے سیاسی روپ سے ہے مسلکی دستار سے نہیں۔اکثر وہ سیاسی طرہ ہی پہنتے ہیں لیکن جب کبھی مسلکی پگ زیب تن کر لیں تو صرف مسلک دیوبند ہی کی نہیں تمام مسالک کی قیادت بھی اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ابھی کل ہی تنظیمات مدارس پاکستان کے اجتماع میں انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ مدارس کے بارے میں اپنی پالیسی پہ نظرِ ثانی کرے۔کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ مدارس کے علماء اور طلباء دین کی ترویج چھوڑ کے جیل بھرو تحریک شروع کر دیں؟ان کے اس اعلان میں جماعت اسلامی،اہل تشیع اور تحریک ِ نفاذ فقہ جعفریہ،جمیعت علمائے اسلام کے دو دھڑے اور جمیعت علمائے پاکستان کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی ساری مسجدیں بھی ان کی ہم آواز تھیں۔مولانا ایجی ٹیشن نہیں کرتے۔" بامقصد" مذاکرات پہ یقین رکھتے ہیں لیکن دیوار سے لگا دئیے جائیں تو منہ نوچنے میں بھی قباعت محسوس نہیں کرتے۔مدارس کا معاملہ سنجیدہ ہے اس لئے مولانا کے اس بیان کو سیاسی سے زیادہ مسلکی اور مذہبی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مولانا کے لئے دعا گو ہوتے ہوئے ان کا ذکر فی الحال یہیں چھوڑتے اور بلاول بھٹو کا ذکر کرتے ہیں جن کے بارے میں علی مردان شاہ المعروف پیر پگارہ کے ایک نشانہ ستم ارباب غلام رحیم نے پیر صاحب کی ایک اکثر دہرائی جانے والی پیش گوئی کا ذکر ایک بار پھر تازہ کیا کہ عنقریب پیر صاحب کی یہ بلاول کے مسلم لیگ میں شمولیت والی پیش گوئی پوری ہونے والی ہے۔پیپلئے اس بیان پہ پلپلا رہے ہیں لیکن خدا لگتی یہ ہے کہ زرداری صاحب نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے بلاول کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کے بعد یہ عین ممکن ہے کہ بلاول دکھاوے ہی کو سہی کسی مسلم لیگ میں جا بیٹھیں۔ بلاول زرداری ہیں لیکن پہلے انہیں بپتسمہ دے کے بھٹو زرداری بنایا گیا۔لوگوں نے انہیں بھٹو زرداری کی بجائے بھزداری کہنا شروع کر دیا۔پھر زرداری صاحب نے کمالِ زمانی سے بلاول کے مقابل ایک سجاول لا کھڑا کیا۔انہیں پارٹی کا چئیرمین بنایا لیکن پارٹی اراکین کے کان میں بتا دیا بچے کی بات پہ توجہ نہیں دینی۔بلاول نے جب انکل نواز شریف اور اس سے بھی بڑھ کے انکل الطاف سے بے تکلف ہونے کی کوشش کی تو انہیں باہر پھنکوا دیا ۔مشہور کر دیا کہ وہ بیمار ہیں اور سفر سے ڈاکٹروں نے انہیں منع کیا ہے۔ بلاول نے اس بیان کا یوں برا منایا کہ سفر سے منع تو بیماری میں عورتوں کو کیا جاتا ہے۔مردوں کو بیماری میں توسواری کی خواہش ہر دم رہتی ہے۔غالب نے اسی لئے کہا تھا کہ
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ،،،،،ساغر ومینا میرے آگے

نیٹ پہ موجود بلاول کی جو جھوٹی سچی ویڈیوز ہیں ان میں تووہ بیمار نہیں غالب کے پیرو کار دکھائی پڑتے ہیں۔باقی زرداری کی زرداری جانے-

ایک طوائف بوڑھی ہوئی تو صبح سویرے اٹھ کے دروازے کے سامنے پانی گرا دیا کرتی اور دروازے کی اوٹ میں بیٹھ جایا کرتی۔ لوگ پھسلتے گرتے اور ننگی ننگی گالیاں بکتے گذر جاتے۔وہ ان گالیوں سے حظ اٹھاکے عمر رفتہ کو آواز دیا کرتی ۔ہمارے ایک منصف اعلیٰ کو بھی ایسا ہی شوق چڑھا ہے۔ہتک عزت پہ حرجانے کا دعویٰ ۔ ہتک عزت تب ہوتی ہے جب عزت ہو۔عدالت میں آپ ثابت کرتے ہیں کہ آپ کی عزت ہے جب کہ فریق مخالف اس کے بر عکس ثابت کرتا ہے۔مقدمہ عدالت میں جائے گا۔کوئی کیس لے نہ لے بابر اعوان اور نعیم بخاری تو لیں گے ہی۔اس کے بعد ارسلان افتخار کی ملکیت اس بی ایم ڈبلیو کی تصاویر کورٹ میں پیش ہوں گی جو سی جے ہاؤس کے پورچ میں کھڑی ہوا کرتی تھی اور جس پہ گھر کی خواتین شاپنگ کیا کرتی تھیں۔بہت سے لوگ سابق سی جے کی قوتِ بصارت پہ شک کا اظہار کرتے رہتے ہیں کسی وکیل نے عدالت سے ان کی بصارت کے ٹیسٹ کی درخواست کر دی تو کیا بنے گا؟ سوال ہوگا کہ ارسلان افتخار اگر سی جے کا بیٹا نہ ہوتا تو شاید میونسپلٹی میں جاروب کش بھی بھرتی نہ ہو پاتا۔بی ایم ڈبلیو پھر اس کے پاس کہاں سے آئی؟ آئی تو سی جے کو نظر کیوں نہیں آئی؟اس بی ایم ڈبلیو میں کس کس نے سفر کیا؟ کمال ہے یہ شخص ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سربراہ رہا۔اسی کی عدالت میں وکیل مخالف فریق کے کپڑے تک اتارتے رہے اور آج یہ خود اسی گنے کی مشین میں سر دے رہا ہے تو یہ انہونی ہی ہوئی ناں۔کچھ لوگوں سے لیکن قدرت ان کے بد اعمال کا انتقام لیتی ہے اور آپ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔دیکھیے یہ انہونی کیا رنگ لاتی ہے۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 267056 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More